Urwatul-Wusqaa - Ibrahim : 15
وَ اسْتَفْتَحُوْا وَ خَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍۙ
وَاسْتَفْتَحُوْا : اور انہوں نے فتح مانگی وَخَابَ : اور نامراد ہوا كُلُّ : ہر جَبَّارٍ : سرکش عَنِيْدٍ : ضدی
غرض کہ پیغمبروں نے فتح مندی طلب کی اور ہر سرکش ضدی نامراد ہوا
انبیاء کرام (علیہ السلام) نے فتح طلب کی اور سرکشوں کو نامراد کیا گیا 16 ؎ واستفتحوا کا فاعل کون ہے یعنی یہ فیصلہ کس نے چاہا ؟ اکثر کی رائے تو یہی ہے کہ یہ فیصلہ کا مطالبہ کرنے والے کافر تھے اسے استضروا یعنی الامم (معالم عن ابن عباس ؓ الضمیر للکفار (روح المعانی ‘ ابن زید) اور ضمیر بجائے کفار کے حضرات انبیاء (علیہ السلام) کی طرف بھی کی جاسکتی ہے۔ والضمیر الانبیاء علیھم السلام (بیضاوی) ہم نے ترجمہ میں انبیاء (علیہ السلام) کو مراد لیا ہے جو اس لئے تحریر کرنا پڑتا کہ قارئین سمجھ لیں کہ یہاں ضمائر کی وجہ سے مضمون میں رد و بدل ہو سکتا ہے وہاں گنجائش ہوتی ہے کہ بات اس طرح کی جائے جس طرح مضمون صاف اور واضح ہوجائے اور معانی میں نکھار اور وضاحت آئے کیونکہ اگر اس اختلاف کی ممانعت ہوتی یا جائز نہ ہوتا تو طریقہ بیان ایسا بھی ممکن تھا کہ یہ اختلاف پیدا ہی نہ ہوتا۔ اگر مضمون میں وسعت رکھی گئی ہو تو اس وسعت سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے جب کہ بات کی وضاحت ہوجائے اور مفہوم میں ابہام نہ رہے ۔ اگر یہ بات آپ نے سمجھ لی تو انشاء اللہ قرآن فہمی میں کام آئے گی۔
Top