Urwatul-Wusqaa - At-Tawba : 123
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِیْنَ یَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ وَ لْیَجِدُوْا فِیْكُمْ غِلْظَةً١ؕ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : وہ جو ایمان لائے (مومن) قَاتِلُوا : لڑو الَّذِيْنَ : وہ جو يَلُوْنَكُمْ : نزدیک تمہارے مِّنَ الْكُفَّارِ : کفار سے (کافر) وَلْيَجِدُوْا : اور چاہیے کہ وہ پائیں فِيْكُمْ : تمہارے اندر غِلْظَةً : سختی وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے ساتھ
اے مسلمانو ! ان کافروں سے جنگ کرو جو تمہارے آس پاس ہیں اور چاہیے کہ وہ تمہاری سختی محسوس کریں کہ بغیر اس کے جنگ جنگ نہیں) اور یاد رکھو اللہ ان کا ساتھی ہے جو متقی ہیں
مسلمانوں کو ہر وقت جہاد کے لئے تیار رہنے اور سامان جنگ سے غافل نہ رہنے کا حکم : 158: مسلمانوں کو خاص ہدایت دی جارہی ہے کہ تم اپنے ارگرد کے کفار سے جنگ کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہو اور ان کی طرف سے کبھی غافل نہ ہو اس لئے کہ بھی ان کا یصہ ٹھنڈا نہیں ہوا اور وہ کسی وقت بھی قسمت آزمائی کرسکتے ہیں اس لئے تم بھی اپنی جگہ پر مضبوط ، آمادہ جہاد ، مستعد اور کیل کانٹے سے پوری طرح لیس رہو۔ اس لئے دشمنوں کی ہمت ہی نہ پڑے کہ وہ تمہاری طرف نظر بد سے دیکھیں گویا موجودہ جنگی اصطلاح میں ملت اسلامیہ کو ایک مستقل لام بندی کی حالت میں رہنا چاہئے۔ غِلْظَةً 1ؕ کے معنی اس جگہ شدت اور مضبوطی کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ دشمن کا رعب و دبدبہ تم پر نہ پڑے بلکہ الٹا تمہارا رعب و دبدبہ ان پر رہے۔ ” کفار کے ان لوگوں سے لڑو جو تمہارے آس پاس ہیں۔ “ یہ حکم جہاد میں خاص ترتیب کامل رہا ہے اور اس کے مصالح بالکل ظاہر ہیں کیونکہ قریب کے کافروں و سے کسی وقت بھی غفلت نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس کے نتایج نہایت برے نکل سکتے ہیں۔ سیرت نبوی ﷺ کا مطالعہ کرنے والے اس بات کو سمجھتے ہیں نبی کریم ﷺ اور آپ ﷺ کے خلفائے راشدین نے بہ اختیار خود جتنے بھی جہاد کئے ان میں یہی ترتیب ملحوظ رکھی ہاں ! اس میں یہ بحث اپنی جگہ ایک اہمیت رکھتی ہے کہ اس ترتیب سے مراد ضرو ملک کے لحاظ سے ہے یا شدت کفر کے لحاظ سے کہ مشرکین کے ہوتے ہوئے اہل کتاب سے جہاد نہ کریں یا قریب کو چھوڑ کر بعید پر تاخت نہ کریں بجز اس کے کوئی مصلحت خاص اس کی مقتضی ہو۔ اس وقت چونکہ غزوہ تبوک ہوچکا تھا اور یہ بھی معلوم ہے کہ غزوہ تبوک میں کوئی لڑائی نہیں ہوئی تھی مسلمان بغیر لڑے واپس چلے آئے تھے اس لئے کہ مخالفین آمادہ پیکار نہ ہوئے تھے اندریں صورت اس آیت کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں کو بطور پیش گوئی مطلع کیا جا رہا ہے کہ گو تبوک میں رومیوں سے مقابلہ نہیں ہوا کیونکہ انہوں نے حملہ کا ارادہ ملتوی کردیا تھا لیکن وہ لوگ پھر تیاریاں کرنے والے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ مسلمان دفاع کے لئے پوری طرح تیار رہیں لیکن اس سورت میں الَّذِیْنَ یَلُوْنَكُمْ کا مطلب یہ ہوگا کہ جو دشمن تمہاری سرحد سے متصل ہیں یعنی شام کے رومی اور عرب کے عیسائی قبائل۔ چناچہ چند سالوں کے بعد ایسا ہی ہوا اور یرموک کا معرکہ پیش آیا اس طرح یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ آیت گویا جنگ یرموک کی پیش گوئی کر رہی ہے اور چونکہ رومیوں کا مقابلہ اسی عہد کی سب سے زیادہ طاقت ور اور متمدن شہنشاہیت کا مقابلہ تھا اس لئے فرمایا کہ اس قوت سے لڑو کہ وہ تمہاری سختی محسوس کریں۔ پھر مسلمانوں نے اس حکم کی جس طرح تعمیل کی اس کا اندازہ صرف اس بات سے کیا جاسکتا ہے ہرقل کی فوج بالاتفاق دو لاکھ سے زیادہ تھی اور مسلمان زیادہ سے زیادہ چوبیس ہزار تھے لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ ہمیشہ کے لئے رومی حکومت کا شام سے خاتمہ ہوگیا۔ آیت کا حکم عام ہے جس میں اتنی وسعت موجود ہے کہ یہ جو بیان ہوا ان میں سے کوئی یا کسی اور واقعہ کو بھی اس پر قیاس کیا جاسکتا ہے حکم اپنی جگہ قائم و پختہ ہے اور تا قیامت ہے موجودہ حالات یا آنے والے حالات کی بھی اس سے راہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ پھر جو بھی اور جس وقت بھی اس میں سستی و کوتاہی کریں گے وہ مستوجب سزا ہوں گے۔ ” اور یاد رکھو اللہ ان کا ساتھی ہے جو متقی ہیں۔ “ کے اس جگہ دو پہلو ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اہل ایمان کی حوصلہ افزائی ہو یعنی تم ان سے جنگ کرنے میں کوئی کمزوری و پست ہمتی نہ دکھاؤ اللہ کی معیت و نصرت اس کے متقی بندوں ہی کو حاصل ہوتی ہے اگر تم تقویٰ پر قائم رہے تو فتح و نصرت تمہاری ہی ہے تمہارے مخالف یقیناً ذلیل و خوار ہوں گے۔ دوسرا یہ کہ مسلمان متنبہ ہوں کہ کفار سے جنگ اور ان کے معاملے میں شدت اختیار کرنے کا جو حکم دیا جا رہا ہے تو اس میں بھی تم اللہ کی مقررہ کردہ حدود وقیود کی پوری پابندی کرنا کسی مرحلہ میں بھی حدود الٰہی سے تج اور نہ کرنا اللہ صرف اپنے متقی بندوں ہی کا ساتھی ہے۔ زیر نظر آیت کے احکامات پر ایک بار پھر نظر ڈال لو اور پھر ایسے احکامات پر غور کرو جو قرآن کریم میں جگہ جگہ موجود ہیں کہ مومن کی شان کیا ہے ؟ اور آج وہ کیا کر رہا ہے ؟ یہاں بھی بتایا گیا کہ مومن کی شان یہ ہے کہ وہ اپنے اسلامی بھائیوں کے ساتھ بڑا نرم خو اور حلما الطبع ہوتا ہے لیکن اسلام کے دشمنوں کے سامنے وہ بپھرا ہوا شری ہے جس کی گرج سے سینوں میں دل پانی پانی ہوجاتے ہیں اور اس بات کو دوسری جگہ اس طرح بیان فرمایا کہ اشداء علی الکفر رحماء بینھم ؟ ؟۔ جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم ٭ دریاؤں کے دل جس سے دل جائیں وہ طوفان لیکن افسوس کہ آج معاملہ بالکل اس کے برعکس نظر آتا ہے مسلمان آپس میں برسر پیکار نظر آتے ہیں اندرون ملک بھی اور بیرون ممالک بھی اور دوسری کے لئے یہود و نصاریٰ ہی کو اولیت دی جاتی ہے کیوں ؟ اس لئے کہ قرآن کریم میں اس سے سختی کے ساتھ منع فرمایا گیا ہے اور آج ہم قرآن کریم کو چھاپ کر مفت تقسیم کرنے اور خوب سے خوب تر بنانے میں مصروف ہیں اور اس پر عمل کرنے کی ہم کو فرصت نہیں۔
Top