Ahkam-ul-Quran - Al-Kahf : 62
فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتٰىهُ اٰتِنَا غَدَآءَنَا١٘ لَقَدْ لَقِیْنَا مِنْ سَفَرِنَا هٰذَا نَصَبًا
فَلَمَّا : پھر جب جَاوَزَا : وہ آگے چلے قَالَ : اس نے کہا لِفَتٰىهُ : اپنے شاگرد کو اٰتِنَا : ہمارے پاس لاؤ غَدَآءَنَا : ہمارا صبح کا کھانا لَقَدْ لَقِيْنَا : البتہ ہم نے پائی مِنْ : سے سَفَرِنَا : اپنا سفر هٰذَا : اس نَصَبًا : تکلیف
جب آگے چلے تو (موسی نے) اپنے شاگرد سے کہا کہ ہمارے لئے کھانا لاؤ اس سفر سے ہم کو بہت تکان ہوگئی ہے
قول باری ہے (لقد لقینا من سفرنا ھذا نصباً آج کے سفر تو ہم بری طرح تھک گئے ہیں) اگر انسان کو کسی عبادت کے سلسلے میں تکان یا تکلیف کا سامنا کرنا پڑے تو وہ اس کا اظہار اپنی زبان سے کرسکتا ہے ۔ درج بالا آیت اس کے جواز پر دلالت کر رہی ہے یہ کوئی ناپسندیدہ شکایت نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور حضرت خضر (علیہما السلام) کا یہ واقعہ ذکر کر کے یہ بیان کردیا ہے کہ اگر حکیم یعنی دان ا کے کسی اقدام میں ضرور کا کوئی پہلو نظر آئے تو اس پر اسے ٹوکنا اور اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرنا جائز نہیں ہے بشرطیکہ اس فعل میں جواز کا یہ پہلو بھی موجود ہو کہ اس کا یہ سارا فعل ایسی حکمت پر مبنی ہو جو کسی نہ کسی مصلحت اور بھلائی پر منتج ہوتی ہو۔ نیز یہ کہ اس قسم کا کوئی اقدام اگر کسی دانا کی طرف سے ہوتا ہے تو وہ سراسر ایک بیوقوف اور سفیہ کے اس جیسے اقدام کے برعکس ہوتا ہے۔ اس کی مثال وہ بچہ ہے جسے اگر پچھپنے لگائے جائیں یا کڑوی دوا پلائی جائیتو و ہ اس کے لئے تیار نہیں ہوتا بلکہ ناک بھوں چڑھاتا ہے جبکہ اسے اس دوا اور علاج کے ذریعے حاصل ہونے والے فائدے کا کوئی علم نہیں ہوتا بلکہ وہ اس فائدے اور حکمت کے حقیقی معنوں سے بھی بیخبر ہتا ہے۔ اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ایسا فعل وقوع پذیر ہوجائے جس میں ظاہری طور پر ضرر کا پہلو بھی موجود ہو یا اللہ تعالیٰ بندے کو اس قسم کے کسی عمل کا حکم دے دے تو اس پر ناک بھوں چڑھانا اور اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرنا جائز نہیں ہے جبکہ اس امر پر دلالت قائم ہوچکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل اور اس کا ہر حکم حکمت اور صواب پر مبنی ہوتا ہے۔ اس باب میں حضرت موسیٰ اور حضرت خضر (علیہما السلام) کا یہ واقعہ ایک بہت بڑی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اس میں ایک اور پہلو بھی ہے۔ وہ یہ ہے کہ حضرت خضر (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اعترضا کو تین مرتبہ سے زائد برداشت نہیں کیا۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ عالم سے فیض یاب ہونے والا شاگرد اگر دو یا تین مرتبہ اس کے حکم کی خلاف ورزی کرے تو اس کی یہ خلاف ورزی قابل برداشت ہوگی لیکن اس سے زائد کی صورت میں اس کے لئے اسے برداشت نہ کرنا جائز ہوگا۔
Top