Ashraf-ul-Hawashi - An-Noor : 42
وَ لَیَحْمِلُنَّ اَثْقَالَهُمْ وَ اَثْقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ١٘ وَ لَیُسْئَلُنَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ عَمَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ۠   ۧ
وَلَيَحْمِلُنَّ : اور وہ البتہ ضرور اٹھائیں گے اَثْقَالَهُمْ : اپنے بوجھ وَاَثْقَالًا : اور بہت سے بوجھ مَّعَ : ساتھ اَثْقَالِهِمْ : اپنے بوجھ وَلَيُسْئَلُنَّ : اور البتہ ان سے ضرور باز پرس ہوگی يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن عَمَّا : اس سے جو كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ : وہ جھوٹ گھڑتے تھے
اور یہ اپنے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ اور (لوگوں کے) بوجھ بھی اور جو بہتان یہ باندھتے رہے قیامت کے دن ان کی ان سے ضرور پرسش ہوگی
13 تا 20۔ اوپر مشرکین مکہ کی سرکشی کا ذکر فرما کر ان آیتوں میں اللہ نے پیغمبر ﷺ کو تسلی دینے کے لیے حضرت نوح (علیہ السلام) کے حال سے ان کو آگاہ فرمایا کہ وہ اپنی قوم میں اس قدر عرصہ دراز تک رہے اور پوشیدہ اور علانیہ دن رات ان کو سمجھاتے رہے جب بھی قوم کے لوگ نہ سمجھے اور اللہ کے رسول کو جھٹلاتے رہے اور اتنی مدت میں ان کی قوم میں سے بہت تھوڑے آدمی ایمان لائے جب اس قدر مدت دراز تک حضرت نوح (علیہ السلام) کی نصیحت اور ڈرانے نے کچھ فائدہ نہ دیا تو اے محمد ﷺ وسلم اپنی امت کے حال پر کچھ نہ پچھتاؤ اور نہ غم کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے گمراہ رکھتا ہے اسی کے دست قدرت میں سب کچھ ہے اس لیے جو لوگ علم الٰہی میں بد قرار پاچکے ہیں وہ کسی طرح راہ راست پر نہیں آویں گے۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں چالیس سال کی عمر میں حضرت نوح (علیہ السلام) رسول کر کے بھیجے گئے اور قوم کے لوگوں میں ساڑھے نو سو برس رہے اور طوفان کے بعد ساٹھ برس تک زندہ رہے سورة ہود میں گزر چکا ہے کہ قوم نوح ( علیہ السلام) نے حضرت نوح ( علیہ السلام) کی نصیحت اور عذاب کے وعدہ کو جھوٹا جان کر خود اپنی زبان سے عذاب کے نازل ہونے کی خواہش کی آخر طوفان کا عذاب آن کر سوا اسی 80 آدمیوں کے اور ساری قوم ہلاک ہوگئی۔ یہ طوفان نوح ( علیہ السلام) کا قصہ سورة ہود میں گزر چکا ہے قتادہ کا قول ہے کہ بہت دنوں تک وہ کشتی باقی رہی اور لوگوں نے اس کو دیکھا اسی کو فرمایا کہ یہ قصہ اور کشتی جہان کے لوگوں کے لیے اللہ کی قدرت کی ایک نشانی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اور انسان کی سب ضرورت کی چیزوں کو پیدا کیا اس لیے اکیلے اللہ کی تعظیم انسان پر واجب ہے برخلاف اس کے جو لوگ اللہ کی تعظیم میں دوسروں کی شریک کرتے ہیں ان سے بڑھ کر دنیا میں کوئی ناانصاف نہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں مشرکوں کو جگہ جگہ ظالم فرمایا ہے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری ؓ کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ ظالموں کو جب تک چاہتا ہے مہلت دیتا ہے پھر جب انکو پکڑتا ہے تو بالکل بر باد کردیتا ہے اس حدیث کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مہلت کے زمانہ میں یہ لوگ عذاب کی جلدی کرتے رہے مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ان پر عذاب نازل نہیں کیا پھر جب پکڑ کا وقت آگیا تو سوا اسی 80 آدمیوں کے اور ساری قوم ہلاک ہوگئی۔ اب آگے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور خلیل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر فرمایا کہ انہوں نے اپنی قوم کو خدا کی عبادت کی طرف بلایا اور اس سے ڈرنے کو کہا اور کہا کہ جب تم یہ کام کرو گے تو دنیا اور آخرت کی بہتری تم کو حاصل ہوگی اور سوا اللہ کے جن بتوں کو اے کافرو تم پوجتے ہو وہ تمہارے نفع نقصان کے مالک نہیں ہیں تم نے ہی ان کے نام گھڑ لیے ہیں اور ان کو معبود ٹھہرا لیا ہے وہ تمہاری طرح مخلوق ہیں وتخلقون افکا کر تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ خود تم بت تراشتے ہو لیا ہے اور ان کو اپنا معبود ٹھہراتے ہو جن لوگوں کے نام یہ مورتیں ہیں ان کو تمہارے اس کام کی بالکل خبر نہیں اس لیے قیامت کے دن وہ تم سے بیزار ہوجائیں گے اور جن کو تم سوائے للہ کے پوجتے ہو وہ مالک تمہارے رزق کے نہیں کیونکہ ایک سال اگر قحط پڑجاوے تو تم کو ان بتوں سے کچھ مدد نہیں مل سکتی اس لیے تم اللہ کی ہی خالص عبادت کرو اور اس سے کشائش رزق کی التجا کرو اور اسی کا شکر ادا کرو اور اس کی طرف پھیرے جاؤ گے تم قیامت کے روز اور وہ ہر ایک کو اس کے عمل کے موافق جزاو سزادے گا اور اگر تم ان باتوں کو جھٹلاؤ گے تو تو مثلا نوح (علیہ السلام) کے قصہ سے یہ بات تم کو معلوم ہوچکی ہے کہ جن لوگوں نے پہلے پیغمبروں کو جھٹلایا ہے ان پر عذاب نازل ہوا ہے ہر رسول اسی بات کا ذمہ دار ہے کہ خدا کا حکم امت کے لوگوں کو پہنچا دیوے اور پھر اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے گمراہ رکھتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے تم بھی نیکوں میں ہونے کی حرص کرو پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے لوگوں کو جو حشر کے منکر تھے یوں سمجھایا کہ اللہ تعالیٰ نے پہلی دفعہ تم کو پیدا کیا جس سے تم ہوگئے سننے والے دیکھنے والے پھر جس خدا نے پہلی بار تم کو بنایا وہ دوسری بار تمہیں بنا سکتا ہے کیوں کہ دوسری بار کا پیدا کرنا اس پر آسان ہے پھر فرمایا سیر کرو زمین میں اور خدا تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں کو دیکھ کر عبرت پکڑو کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اب پہاڑوں درختوں بوٹیوں اور کھیتیوں کو پیدا کیا ہے اسی طرح جس چیز کا دوبارہ پیدا کرنا اس کا منظور ہوگا وہ پیدا کر دیوے گا اس کا قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں ہے اور یہ دوبارہ پیدا کرنا جزا وسزا کے لیے ہوگا تاکہ پہلی دفعہ کا پیدا کرنا ٹھکانے سے لگے اس سزا کے وقت تم آسمان و زمین میں کہیں بھگ نہ سکو گے اس لیے تم اللہ کو اپنا خالص معبود ٹھہراؤ کس لیے کہ اس شرک کے مؤاخذہ میں پکڑے گئے تو تم اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے کہ وہ تم کو گرفتار نہ کرسکے غرضیکہ خدا کو کوئی عاجز نہیں کرسکتا اور اس کے سوا تمہارا کوئی دست اور مددگار نہیں پھر فرمایا جو لوگ اللہ کی آیتوں اور اس کی قدرت کی نشانیوں اور آخرت کو نہیں مانتے وہ خدا کی رحمت سے ناامید ہیں اور دنیا اور آخرت میں ان لوگوں کے واسطے سخت عذاب ہے قتادہ کے قول کے موافق حافظ ابو جعفرابن جریرنے اپنی تفسیر 1 ؎ میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے قصہ کے مابین میں وان تکذبوا سے عذاب الیم تک کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کو نصیحت کی ہے جس کا ذکر ان آیتوں میں ہے اوپر فما کان جواب قومہ سے ابراہیم (علیہ السلام) کے قصہ کا سلسلہ ملایا ہے شاہ صاحب نے اپنے فائدہ میں اس قول کو لیا ہے معتبر سند سے مسند امام احمد اور ابوداؤد کے حوالہ 2 ؎ سے براء بن ؓ عازب کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ نافرمان لوگون کی موت کے وقت اللہ کے فرشتے ایسے لوگوں کو اللہ کے غصہ اور عذاب سے خبردار کردیتے ہیں جس سے ایسے لوگوں کی روحین رحمت الٰہی سے مایوس ہو کر جگہ جگہ جسم میں چھپتی ہیں اور پھر آخر نہایت سختی سے اللہ کے فرشتے ان لوگوں کی روحوں کی جسم سے نکال لیتے ہیں اور پھر ایسے لوگ دفن کے بعد طرح طرح کے عذاب قبر میں گرفتار ہوجاتے ہیں معتبر سند سے مسند امام احمد میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت 3 ؎ ہے (کہ قبر میں دفن کرنے کے بعد عذاب قبر کی سختی کے علاوہ یہ سختی بھی ہوتی ہے کہ ایسے لوگوں کا دوزخ کا ٹھکانہ انہیں دکھا کر اللہ کی فرشتے ان سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ اس ٹھکانے میں جانے کے لیے تم کو حشر کے دن دوبارہ زندہ کیا جاوے گا براء ابن عازب کے اوپر کی حدیث میں یہ بھی ذکر ہے کہ دوزخ کے ٹھکانے کے عذاب کو دیکھ کر ایسے لوگ عذاب قبر کو غنیمت جانتے ہیں اور یہ دعا کرتے رہتے ہیں کہ قیامت قائم نہ ہو معتبر سند سے عبداللہ بن عمر ؓ نے ترمذی کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ موت کے فرشتوں کے نظر آجانے کے بعد کسی کی توبہ قبول نہیں ہوسکتی حاصل کلام یہ ہے کہ وان تکذبوا سے عذاب الیم تک کی آیتیں خواہ مشرکین مکہ کی شان میں ہوں یا ان کی اور پہلی امتوں کے منکرین حشر سب کی شان میں ہوں ان حدیثوں کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایسے لوگ اس طرح کی بےکسی کے وقت میں اللہ کی رحمت سے ناامید ہو کر غذاب میں گرفتار ہونے سے خبر دار ہوتے ہیں کہ آئندہ کے لیے ان کو توبہ اور استغفار کا موقع بھی نہیں رہتا اور جس عذاب دوزخ کے یہ لوگ دنیا میں منکر تھے مرتے کے ساتھ ہی جب ان کا دوزخ کا ٹھکانہ انہیں دکھا دیا جاتا ہے تو اس کا ایسا خوف ان پر چھا جاتا ہے کہ اس کے مقابلہ میں طرح طرح کے عذاب قبر کو یہ لوگ غنیمت جاننے لگتے ہیں اور قیامت کے دن اس عذاب دوزخ میں گرفتار ہوجانے کو یقینی جان کر عذاب قبر کی تکلیف میں بھی قیامت کے قائم نہ ہونے کی دعا مانگتے رہتے ہیں۔ (1 ؎ تفسیر ابن جریر ص 140 ج ‘ 2 نیز دیکھئے تفسیر ابن کثیر ص 408 ج 3۔ ) (2 ؎ مشکوٰۃ باب اثبات عذاب القبر۔ ) 3 ؎ الترغیب والترہیب ص 364 ج 3 درمیان عذاب قبر۔ )
Top