Tafheem-ul-Quran - Al-Ankaboot : 13
وَ لَیَحْمِلُنَّ اَثْقَالَهُمْ وَ اَثْقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ١٘ وَ لَیُسْئَلُنَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ عَمَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ۠   ۧ
وَلَيَحْمِلُنَّ : اور وہ البتہ ضرور اٹھائیں گے اَثْقَالَهُمْ : اپنے بوجھ وَاَثْقَالًا : اور بہت سے بوجھ مَّعَ : ساتھ اَثْقَالِهِمْ : اپنے بوجھ وَلَيُسْئَلُنَّ : اور البتہ ان سے ضرور باز پرس ہوگی يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن عَمَّا : اس سے جو كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ : وہ جھوٹ گھڑتے تھے
ہاں ضرور وہ اپنے بوجھ بھی اُٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ دوسرے بہت سے بوجھ بھی۔19 اور قیامت کے روز یقیناً ان سے اِن افترا پردازیوں کی باز پرس ہوگی جو وہ کرتے رہے ہیں۔20
سورة العنکبوت 19 یعنی وہ خدا کے ہاں اگرچہ دوسروں کا بوجھ تو نہ اٹھائیں گے لیکن دوہرا بوجھ اٹھانے سے بچیں گے بھی نہیں، ایک بوجھ ان پر خود گمراہ ہونے کا لدے گا اور دوسرا بوجھ دوسروں کو گمراہ کرنے کا بھی ان پر لادا جائے گا۔ اس بات کو یوں سمجھیے کہ ایک شخص خود بھی چوری کرتا ہے اور کسی دوسرے شخص سے بھی کہتا ہے کہ وہ اس کے ساتھ چوری کے کام میں حصہ لے۔ اب اگر وہ دوسرا شخص اس کے کہنے سے چوری کرے گا تو کوئی عدالت اسے اس بنا پر نہ چھوڑ دے گا کہ اس نے دوسرے کے کہنے سے جرم کیا ہے۔ چوری کی سزا تو بہرحال اسے ملے گی اور کسی اصول انصاف کی رو سے بھی یہ درست نہ ہوگا کہ اسے چھوڑ کر اس کے بدلے کی سزا اس پہلے چور کو دے دی جائے جس نے اسے بہکا کر چوری کے راستے پر ڈالا تھا۔ لیکن وہ پہلا چور اپنے جرم کے ساتھ اس جرم کی سزا بھی پائے گا کہ اس نے خود چوری کی سو کی، ایک دوسرے شخص کو بھی اپنے ساتھ چور بنا ڈالا۔ قرآن مجید میں ایک دوسرے مقام پر اس قاعدے کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے لِيَحْمِلُوْٓا اَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ ۙ وَمِنْ اَوْزَارِ الَّذِيْنَ يُضِلُّوْنَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ (النحل آیت 25) تاکہ وہ قیامت کے روز اپنے بوجھ بھی پورے پورے اٹھائیں اور ان لوگوں کے بوجھوں کا بھی ایک حصہ اٹھائیں جن کو وہ علم کے بغیر گمراہ کرتے ہیں "۔ اور اسی قاعدے کو نبی ﷺ نے اس حدیث میں بیان فرمایا ہے کہ من دعا الی ھدی کان لہ من الاجر مثل اجور من تبعہ لا ینقص ذلک من اجورھم شیئا و من دعا الی ضلالۃ کان علیہ من الاثم مثل اثام من تبعہ لا ینقص ذلک من اثامھم شیئا۔ (مسلم) " جس شخص نے راہ راست کی طرف دعوت دی اس کو ان سب لوگوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا جنہوں نے اس کی دعوت پر راہ راست اختیار کی بغیر اس کے کہ ان کے اجروں میں کوئی کمی ہو، اور جس شخص نے گمراہی کی طرف دعوت دی اس پر ان سب لوگوں کے گناہوں کے برابر گناہ ہوگا جنہوں نے اس کی پیروی کی بغیر اس کے کہ ان کے گناہوں میں کوئی کمی ہو "۔ سورة العنکبوت 20 " افترا پردازیوں " سے مراد وہ جھوٹی باتیں ہیں جو کفار کے اس قول میں چھپی ہوئی تھیں کہ " تم ہمارے طریقے کی پیروی کرو اور تمہاری خطاؤں کو ہم اپنے اوپر لے لیں گی "۔ دراصل وہ لوگ دو مفروضات کی بنیاد پر یہ بات کہتے تھے۔ ایک یہ کہ جس مذہب شرک کی وہ پیروی کر رہے ہیں وہ برحق ہے اور محمد ﷺ کا مذہب توحید غلط ہے، اس لیے اس سے کفر کرنے میں کوئی خطا نہیں ہے، دوسرا مفروضہ یہ تھا کہ کوئی حشر نہیں ہونا ہے اور یہ حیات اخروی کا تخیل، جس کی وجہ سے ایک مسلمان کفر کرتے ہوئے ڈرتا ہے، بالکل بےاصل ہے۔ یہ مفروضات اپنے دل میں رکھنے کے بعد وہ ایک مسلمان سے کہتے تھے کہ اچھا اگر تمہارے نزدیک کفر کرنا ایک خطا ہی ہے، اور کوئی حشر بھی ہونا ہے جس میں اس خطا پر تم سے باز پرس ہوگی، تو چلو تمہاری اس خطا کو ہم اپنے سر لیتے ہیں، تم ہماری ذمہ داری پر دین محمد کو چھوڑ کر دین آبائی میں واپس آجاؤ۔ اس معاملہ میں پھر مزید دو جھوٹی باتیں شامل تھیں۔ ایک ان کا یہ خیال کہ جو شخص کسی کے کہنے پر جرم کی ذمہ داری سے بری ہوسکتا ہے اور اس کی پوری ذمہ داری وہ شخص اٹھاتا سکتا ہے جس کے کہنے پر اس نے جرم کیا ہے۔ دوسرا ان کا یہ جھوٹا وعدہ کہ قیامت کے روز وہ ان لوگوں کی ذمہ داری واقعی اٹھالیں گے جو ان کے کہنے پر ایمان سے کفر کی طرف پلٹ گئے ہوں۔ کیونکہ جب قیامت فی الواقع قائم ہوجائے گی اور ان کی امیدوں کے خلاف جہنم ان کی آنکھوں کے سامنے ہوگی اس وقت وہ ہرگز اس کے لیے تیار نہ ہوں گے کہ اپنے کفر کا خمیازہ بھگتنے کے ساتھ ان لوگوں کا بوجھ بھی پورا کا پورا اپنے اوپر لے لیں جنہیں وہ دنیا میں بہکا کر گمراہ کرتے تھے۔
Top