Taiseer-ul-Quran - Al-Ankaboot : 13
وَ لَیَحْمِلُنَّ اَثْقَالَهُمْ وَ اَثْقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ١٘ وَ لَیُسْئَلُنَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ عَمَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ۠   ۧ
وَلَيَحْمِلُنَّ : اور وہ البتہ ضرور اٹھائیں گے اَثْقَالَهُمْ : اپنے بوجھ وَاَثْقَالًا : اور بہت سے بوجھ مَّعَ : ساتھ اَثْقَالِهِمْ : اپنے بوجھ وَلَيُسْئَلُنَّ : اور البتہ ان سے ضرور باز پرس ہوگی يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن عَمَّا : اس سے جو كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ : وہ جھوٹ گھڑتے تھے
یہ اپنے (گناہوں کے) بوجھ تو اٹھائیں گے ہی اور ساتھ ہی دوسروں کے بوجھ 22 بھی اٹھائیں گے (جنہیں انہوں نے گمراہ کیا ہوگا) اور جو کچھ یہ افترا کرتے رہے قیامت کے دن 23 اس سے متعلق ان سے ضرور باز پرس ہوگی۔
22 البتہ یوں ہوسکتا ہے کہ اگر ان لوگوں کے بہکانے سے کوئی شخص گمراہ ہوگیا تو گمراہ ہونے والے کو اپنی گمراہی کا عذاب دیا جائے گا۔ اور گمراہ کرنے والے کو دوہرا عذاب اس شکل میں ہوتا کہ ایک تو اسے اپنی گمراہی کی سزا بھگتنا ہوگی اور دوسرے اس گمراہ ہونے والے شخص کا حصہ رسدی عذاب اسے بھی دیا جائے گا جسے اس نے گمراہ کردیا تھا۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث اس مضمون کو پوری طرح واضح کر رہی ہے : منذر بن جریر اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ جاری کیا اس کے لئے اس کے اپنے عمل کا بھی ثواب ہے اور جو لوگ اس کے بعد اس طریقہ پر عمل کریں ان کا بھی ثواب ہے اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی نہ ہوگی۔ اور جس نے اسلام میں کوئی بری طرح ڈالی اس پر اس کے اپنے عمل کا بھی بار ہے اور ان لوگوں کا بھی جو اس کے بعد اس برے طریقہ پر عمل کریں۔ لیکن عمل کرنے والوں کے بوجھ میں کچھ کمی نہ ہوگی (مسلم۔ کتاب الزکوٰ ۃ۔ باب الحث علی الصدقہ۔۔ ) 23 مشرکوں کا یہ قول اللہ پر اقتراء اس لحاظ سے ہے کہ انہوں نے دراصل اللہ کے بتلائے ہوئے عقیدہ آخرت، باز پرس اور گناہوں کی سزا ان سب باتوں کا مذاق ارایا تھا۔ جس سے اللہ کی آیات کی بھی تکذیب ہوتی تھی اور اس کے رسول کی بھی۔ یعنی ان مشرکوں کے اپنے شرکیہ کارناموں کے علاوہ یہ اللہ پر افتراء کا جرم مزید اضافہ ہے اور اس جرم کی ان سے باز پرس بھی ہوگی اور عذاب بھی ہوگا۔
Top