Anwar-ul-Bayan - Al-Kahf : 2
قَیِّمًا لِّیُنْذِرَ بَاْسًا شَدِیْدًا مِّنْ لَّدُنْهُ وَ یُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ اَجْرًا حَسَنًاۙ
قَيِّمًا : ٹھیک سیدھی لِّيُنْذِرَ : تاکہ ڈر سنائے بَاْسًا : عذاب شَدِيْدًا : سخت مِّنْ لَّدُنْهُ : اس کی طرف سے وَيُبَشِّرَ : اور خوشخبری دے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں الَّذِيْنَ : وہ جو يَعْمَلُوْنَ : عمل کرتے ہیں الصّٰلِحٰتِ : اچھے اَنَّ لَهُمْ : کہ ان کے لیے اَجْرًا حَسَنًا : اچھا اجر
اس کتاب کو استقامت والا بنایا تاکہ وہ اللہ کی طرف سے سخت عذاب سے ڈرائے اور مومنین کو بشارت دے جو نیک عمل کرتے ہیں کہ ان کے لیے اچھا اجر ہے
پھر فرمایا (قَیِّمًا لِّیُنْذِرَ بَاْسًا شَدِیْدًا مِّنْ لَّدُنْہُ ) تاکہ وہ قرآن کافروں کو ایک سخت عذب سے ڈرائے جو اللہ کی طرف سے ہوگا۔ (وَ یُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ اَجْرًا حَسَنًا) (اور تاکہ ایمان والوں کو بشارت دے جو نیک عمل کرتے ہیں کہ انہیں اچھا اجر ملے گا۔ ) (مَّاکِثِیْنَ فِیْہِ اَبَدًا) (یہ لوگ اس میں ہمیشہ رہیں گے) اجرا حسنا سے جنت مراد ہے جس میں ہمیشہ رہنا ہوگا۔ (وَّ یُنْذِرَ الَّذِیْنَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا) (اور تاکہ ان لوگوں کو ڈرائے جنہوں نے کہا کہ اللہ نے اپنے لیے اولاد بنالی ہے) پہلے تمام کافروں کو ڈرانے کا تذکرہ فرمایا پھر مستقل طور پر ان لوگوں کے ڈرانے کا ذکر فرمایا جو اللہ کے لیے اولاد تجویز کرتے تھے، اہل عرب کہتے تھے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں اور یہود حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا بتاتے تھے اور نصاریٰ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا بتاتے ہیں، یہ بہت بڑا شرک ہے ان لوگوں کی تردید کرتے ہوئے فرمایا (مَا لَھُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ وَّ لَا لِاٰبَآءِھِمْ ) (ان لوگوں کو اس کے بارے میں کچھ علم نہیں اور نہ ان کے آباء و اجداد کو کوئی علم ہے) جو کچھ کہتے ہیں علم کی بنیاد پر نہیں اٹکل پچو باتیں کرتے ہیں باپ دادوں سے سنتے چلے آ رہے ہیں۔ انہیں اصل حقیقت کا پتہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد ہونا محال ہے۔ (کَبُرَتْ کَلِمَۃً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاھِھِمْ ) (یہ بڑا بول ہے جو ان کے منہ سے نکل رہا ہے) یعنی انہوں نے اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد تجویز کرکے بےجا جسارت کی ہے ان کا یہ بات کہنا افتراء کے اعتبار سے اور کلمہ کفر ہونے کے اعتبار سے بڑا کلمہ ہے اور بہت ہی بڑا جرم ہے کسی بھی درجہ میں زبان سے نکالنے کے لائق ہی نہیں ہے۔ (اِنْ یَّقُوْلُوْنَ اِلَّا کَذِبًا) (یہ لوگ بس جھوٹ ہی بولتے ہیں) سورة مریم میں فرمایا (وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا لَقَدْ جِءْتُمْ شَیْءًا اِدًّا تَکَاد السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَ تَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَ تَخِرُّ الْجِبَالُ ھَدًّا اَنْ دَعَوْا للرَّحْمٰنِ وَلَدًا وَ مَا یَنْبَغِیْ للرَّحْمٰنِ اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًا) (اور انہوں نے کہا کہ رحمن نے اولاد اختیار کرلی ہے بلاشبہ تم نے بہت سخت حرکت کی ہے کچھ بعید نہیں کہ اس کی وجہ سے آسمان پھٹ پڑیں اور زمین کے ٹکڑے اڑ جائیں اور پہاڑ ٹوٹ کر گرپڑیں اس وجہ سے کہ ان لوگوں نے رحمن کے لیے اولاد تجویز کی، اور رحمن کی شان کے لیے لائق نہیں ہے کہ وہ اولاد اختیار کرے۔ )
Top