Tafseer-e-Baghwi - Maryam : 2
قَیِّمًا لِّیُنْذِرَ بَاْسًا شَدِیْدًا مِّنْ لَّدُنْهُ وَ یُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ اَجْرًا حَسَنًاۙ
قَيِّمًا : ٹھیک سیدھی لِّيُنْذِرَ : تاکہ ڈر سنائے بَاْسًا : عذاب شَدِيْدًا : سخت مِّنْ لَّدُنْهُ : اس کی طرف سے وَيُبَشِّرَ : اور خوشخبری دے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں الَّذِيْنَ : وہ جو يَعْمَلُوْنَ : عمل کرتے ہیں الصّٰلِحٰتِ : اچھے اَنَّ لَهُمْ : کہ ان کے لیے اَجْرًا حَسَنًا : اچھا اجر
(بلکہ) سیدھی (اور سلیس اتاری) تاکہ (لوگوں کو) عذاب سخت سے جو اسکی طرف سے (آنے والا) ہے ڈرائے اور مومنوں کو جو نیک عمل کرتے ہیں خوشخبری سنائے کہ ان کے لیے (ان کے کاموں کا) نیک بدلہ (یعنی بہشت) ہے
تفسیر 2۔” فیما “ اس آیت میں تقدیم و تاخیر ہے اس کا معنی یہ ہے کہ میں نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی جس میں کوئی کجی نہیں ۔ ابن عباس ؓ نے اس کا ترجمہ کیا ہے، عدل سے فراء کا بیان ہے کہ یہ کتاب ما قبل تمام کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے۔ قتادہ فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی تقدیم و تاخیر نہیں بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ نے جو کچھ اپنے بندے پر نازل فرمایا اس میں کوئی کجی نہیں لیکن اللہ نے اس کتاب کو راہ ہدایت بنایا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” ولم یعجل لہ عوجاً “ اس میں اختلاف نہیں ہے۔ دوسری جگہ ارشاد فرمایا ” ولو کان من عند غیر اللہ لو جدو ا فیہ اختلافا ً کثیرا ً “ بعض نے کہا کہ اس کو مخلوق نہیں بنایا ۔ ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ اس آیت کا مطلب ہے ” قرآنا عربیا غیر ذی عوج “ وہ مخلوق نہیں ۔ ” لینذرباسا شدیدا ً “ تا کہ وہ سخت عذاب سے ڈرائے ۔” من لدنہ “ اس کی طرف سے ” ویبشر المومنین الذین یعملون الصالحات ان لھم اجرا ً حسنا ً “ اس سے مرادجنت ہے۔
Top