Asrar-ut-Tanzil - An-Nisaa : 172
لَنْ یَّسْتَنْكِفَ الْمَسِیْحُ اَنْ یَّكُوْنَ عَبْدًا لِّلّٰهِ وَ لَا الْمَلٰٓئِكَةُ الْمُقَرَّبُوْنَ١ؕ وَ مَنْ یَّسْتَنْكِفْ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَ یَسْتَكْبِرْ فَسَیَحْشُرُهُمْ اِلَیْهِ جَمِیْعًا
لَنْ يَّسْتَنْكِفَ : ہرگز عار نہیں الْمَسِيْحُ : مسیح اَنْ : کہ يَّكُوْنَ : ہو عَبْدًا : بندہ لِّلّٰهِ : اللہ کا وَلَا : اور نہ الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتے الْمُقَرَّبُوْنَ : مقرب (جمع) وَمَنْ : اور جو يَّسْتَنْكِفْ : عار کرے عَنْ : سے عِبَادَتِهٖ : اس کی عبادت وَيَسْتَكْبِرْ : اور تکبر کرے فَسَيَحْشُرُهُمْ : تو عنقریب انہیں جمع کرے گا اِلَيْهِ : اپنے پاس جَمِيْعًا : سب
اور مسیح (علیہ السلام) اللہ کا بندہ ہونے سے ہرگز کوئی عار نہیں رکھتے اور نہ مقرب فرشتے اور جو شخص اس کی بندگی سے عار کرے اور تکبر کرے تو وہ (اللہ) عنقریب ان سب کو اپنے پاس جمع کریں گے
رکوع نمبر 24 ۔ آیات 9172 تا 177: اسرار و معارف : خود حضرت مسیح (علیہ السلام) کو تو اللہ کا بندہ بننے پہ فخر ہے زمینی زندگی تو خود اس پہ گواہ ہے اپنی آسمانی زندگی میں بھی انہیں بندگی پہ کوئی عار نہیں اور نہ مقرب فرشتوں کو بلکہ سب کو اللہ کا بندہ بننے ، اس کا حکم ماننے اور اس کے ارشادات کی تعمیل سے اس کی رضا حاصل کرنے کی فکر ہے اور اس کی غلامی ہی سب کے لیے باعث عزت و وقار ہے اور یہ جن لوگوں کو تم گمراہ پاتے ہو اور انہیں اللہ کریم کے آگے جھکتے ہوئے بھی شرم آتی ہے اور اپنی کمزوری کا احساس ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ اظہار تکبر کرتے ہیں کام میں بھی کلام میں بھی اکڑفوں کا اظہار کرتے ہیں۔ ان سب کو بھی اللہ ہی کے حضور جمع ہونا ہے ان کی اکڑفوں بھی نکل جائے گی۔ وہاں بات اطاعت اور غلامی پہ ہوگی جن کے عقائد درست ہوئے اور جنہوں نے عملی زندگی میں اطاعت کرنے کی کوشش کی انہیں نہ صرف بدلہ دیا جائے گا بلکہ ذات کریم کی طرف سے نوازا جائے گا۔ اور وہ اپنی شان اپنی پسند کے مطابق اضافہ کریں گے۔ عطا و بخشش میں انعام میں کتنا کرتے ہیں یہ صرف ان کی مرضی ۔ مگر جنہیں آج عبادت کرنے میں عار محسوس ہوتی ہے اور تکبر کرتے ہیں اکڑتے پھرتے ہیں ، انہیں بہت دردناک عذاب دیا جائے گا ایسا عذاب کہ جو ان کی امیدیں بھی منقطع کردے گا اور کسی کو بھی اپنی حمایت کرنے والا یا کسی طرح کی مدد کرنے والا نہ پائیں گے۔ اے اولاد آدم ! حق یہ ہے کہ تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے بہت بڑی دلیل آچکی۔ انسانی مزاج ہے کہ کسی بہت بڑے حادثے کے منتظر رہتے ہیں جس کے وقوع پر لوگ اکٹھے ہوجاتے ہیں پھر ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور بڑا اچھا سلوک کرتے ہیں مثلاً باپ زندہ ہے دو بھائی ناراض ہوں گے وہ کوشش کرتا رہے پرواہ نہیں کریں گے مگر اس کی موت سب کو یکجا کردے گی۔ شہر میں بیمار بھوکے سب طرح کے مستحق ہوں گے۔ مگر کوئی نہیں پوچھے گا چھت گر جائے گی۔ آگ لگ جائے گی کوئی حادثہ ہوگا تو سب لپکیں گے ایسے ہی آپ ﷺ کی پیدائش اور بعثت کو اس دور کے علماء ، کاہن ، نجومی بہت بڑا حادثہ سمجھتے تھے بلکہ ہرقل جو مشہور ستارہ شناس بھی تھا چیخ اٹھا کہ آج بہت بڑا حادثہ ہوگیا ہے کہ وہ نبی جسے آخری زمانے میں مبعوث ہونا تھا پیدا ہوگیا ہے۔ برہان در اصل ایسی دلیل کو کہا جاتا ہے جو تشفی کردے اور جس کے بعد مزید کسی بحث کی ضرورت باقی نہ رہے۔ سو یہاں ساری انسانیت کو دعوت نظارہ دی جاتی ہے کہ ایسا بچپن ، ایسا لڑکپن ، ایسی جوانی ، ایسا حسن ، ایسی سنجیدگی ، ایسا روشن چہرہ۔ ایسی خوبصورت آواز ، ایسے علوم اور اتنی مہارت ، ایسی پاکیزگی اور اتنا تقدس ! ارے جاؤ ! ساری انسانیت میں تلاش کرو بھلا کوئی دوسرا اس کی نظیر ہے ؟ ہرگز نہیں ! جب ایسا صادق و امین اللہ کی توحید پہ گواہ ہے اس کی پسندیدہ باتوں کا حکم کرتا ہے اور اس کی ناپسند سے خبردار کرتا ہے تو پھر اس کے بعد تمہیں کون سے بڑے حادثے کا انتظار ہے۔ بھئی جو ہونا تھا ہوچکا اور پھر اللہ کی طرف سے تم پر بڑی واضح روشنی نازل فرمائی گئی یعنی اللہ کریم کا ذاتی کلام بعض حضرات یہاں نور بشر کی بحث کو لانا چاہتے ہیں ، جس کا یہ مقام نہیں ویسے اگر کوئی چاہے تو فقیر نے ایک کتابچہ اس عنوان کا لکھا ہے وہ دیکھ لے۔ یہاں ذات نبوت حق کی بہت بڑی دلیل کے طور پر پیش فرمائی جا رہی ہے اور قرآن حکیم یہ نور یہ روشنی بھی تو آپ ﷺ کی وساطت سے ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ یہی تفسیر فرمایا کرتے تھے بہرحال جو لوگ اللہ پر ایمان لائے اور اس دلیل ، اس نور ، یا سیدھی بات یہ ہے کہ اللہ کے اس حبیب سے چمٹ گئے آپ ﷺ کی غلامی اختیار کرلی انہیں اپنی رحمت اور مہربانی سے اپنے جلو میں اپنی پناہ میں لے لے گا۔ اور انہیں ہدایت نصیب فرما دے گا۔ اور آخر سورة میں پھر ایک مسئلہ جائیداد و وراثت کا ارشاد فرمادیا کہ آپ ﷺ سے کلالہ کے بارے سوال کیا جاتا ہے۔ اللہ کریم اس کا جواب عطاء فرماتے ہیں دیکھئے نزول قرآن کی حکمتیں کہ کتنے صحابہ کو یہ شرف نصیب ہوا کہ انہوں نے سوال کیا جواب اللہ کریم کی طرف سے آیا پھر یہ واقعہ شان نزول ، حفاظت کا بھی اور معانی کے معین کرنے کا بھی ذریعہ بن گیا۔ سو وحی والہی شروع ہونے سے لے کر آپ ﷺ کے وصال مبارک تک لوگوں کو یہ شرف نصیب رہا کہ سوال آپ ﷺ سے کرتے اور جواب اللہ سے پاتے۔ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے فاروق اعظم ؓ سے فرمایا۔ ام ایمن کے ہاں چلیں کہ آپ ﷺ کبھی کبھار تشریف لے جاتے تھے۔ یہ آپ ﷺ کی غلام تھی اور بہت بوڑھی ہوچکی تھیں جب یہ حضرات وہاں پہنچے تو اس قدردرد سے روئیں کہ انہیں بھی رلا دیا۔ سیدنا ابوبکر ؓ نے فرمایا ام ایمن ! تم اس قدر کیوں روتی ہو کیا حضور ﷺ اتنے دور چلے گئے ؟ فرمانے لگیں۔ نہیں یہ بات نہیں ! روتی اس لیے ہوں کہ سلسلہ وحی ختم ہوگیا ، اب کبھی کسی کی بات کا جواب اللہ کی طرف سے نہیں آئے گا۔ اور یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ یہود و نصاری اعتراض کرتے تھے عقائد میں بھی فرائض میں بھی جبکہ صحابہ معمولی سی بات بھی آپ کی بارگاہ سے پوچھا کرتے۔ تو یہاں کلالہ کا یعنی ایسا آدمی جس کی اولاد نہ ہو ، نہ ماں باپ ، مر جائے تو اس کی وراثت کا کیا ہوگا ؟ فرمایا اگر اس کی بہن ہو تو آدھے کی مالک ہوگی اس کے واجبات ادا کرکے جو بچ جائے اور اگر کوئی غصہ یعنی دور نزدیک کا رشتہ دار ہوگا تو اپنی حیثیت کے مطابق پائے گا ورنہ پھر اسی کو مل جائے گا۔ اور اگر بہن کلالہ مر جاوے اور بھائی باقی بچے تو سارے ترکہ کا وارث ہوگا اور اگر مرنیوالا مردہو اور بہنیں دو یا زیادہ ہوں تو وہ سب دو تہائی کی مالک ہوں گی اور اگر اسی رشتہ کے کئی بہن بھائی ہوں تو مرد کو خاتون کے مقابلہ میں دوگنا ملے گا۔ یہ سب باتیں تمہیں گمراہی سے بچانے کے لیے اور راہ ہدایت پہ چلانے کے لیے خود ذات باری نے ارشاد فرمائی ہیں اور وہ ہر شے کا علم رکھتے ہیں کسی سے پوچھ سن کر فیصلہ کرنے کے محتاج نہیں۔ اس لئے جو بات اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم سے طے ہوجائے اسے قبول کرنا ہی سب سے بہترین طریقہ اور راستہ ہے اللہ کریم توفیق قوبلیت کے ساتھ عمل کی قوت بھی نصیب فرمائے ! آمین۔ تمت سورة النساء ۔ وللہ الحمد اولہ و آخرہ۔
Top