Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - An-Nisaa : 172
لَنْ یَّسْتَنْكِفَ الْمَسِیْحُ اَنْ یَّكُوْنَ عَبْدًا لِّلّٰهِ وَ لَا الْمَلٰٓئِكَةُ الْمُقَرَّبُوْنَ١ؕ وَ مَنْ یَّسْتَنْكِفْ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَ یَسْتَكْبِرْ فَسَیَحْشُرُهُمْ اِلَیْهِ جَمِیْعًا
لَنْ يَّسْتَنْكِفَ
: ہرگز عار نہیں
الْمَسِيْحُ
: مسیح
اَنْ
: کہ
يَّكُوْنَ
: ہو
عَبْدًا
: بندہ
لِّلّٰهِ
: اللہ کا
وَلَا
: اور نہ
الْمَلٰٓئِكَةُ
: فرشتے
الْمُقَرَّبُوْنَ
: مقرب (جمع)
وَمَنْ
: اور جو
يَّسْتَنْكِفْ
: عار کرے
عَنْ
: سے
عِبَادَتِهٖ
: اس کی عبادت
وَيَسْتَكْبِرْ
: اور تکبر کرے
فَسَيَحْشُرُهُمْ
: تو عنقریب انہیں جمع کرے گا
اِلَيْهِ
: اپنے پاس
جَمِيْعًا
: سب
مسیح نے کبھی اس بات کو عار نہیں سمجھا کہ وہ اللہ کا بندہ ہو اور نہ مقرب ترین فرشتے اس کو اپنے لئے عار سمجھتے ہیں ، اگر کوئی اللہ کی بندگی کو اپنے لئے عار سمجھتا ہے اور تکبر کرتا ہے تو ایک وقت آئے گا جب اللہ سب کو گھیر کر اپنے سامنے حاضر کرے گا ۔
(آیت) ” نمبر 172 تا 173۔ قرآن کریم نے عقیدہ توحید لوگوں کے ذہنوں میں بٹھانے کی بڑی کوشش کی ہے ۔ ایسی وحدانیت جس کے اندر شرک کا کوئی شائبہ نہ ہو اور نہ اس کے اندر اللہ تعالیٰ کیلئے کسی قسم کا تشبہ لازم آتا ہو ۔ قرآن کریم نے یہ کہا ہے کہ اللہ جیسا کوئی بھی نہیں ہے اور نہ کوئی چیز اس جیسی ہے ۔ نہ اللہ کی ماہیت میں اس کا کوئی شریک ہے ۔ نہ صفت میں اس کے ساتھ کوئی شریک ہے ۔ نہ خاصیت میں اس کے ساتھ کوئی شریک ہے ۔ اور قرآن کریم نے خالق اللہ اور مخلوقات کے درمیان ایک ہی رابطہ جائز رکھا ہے ۔ اور وہی حقیقت ہے کہ اللہ کے سوا تمام اشیاء (جس میں زندہ مخلوق بھی ہے) اس کے بندے اور تابع فرمان ہیں ۔ جو شخص بھی قرآن کا مطالعہ کرے گا وہ دیکھے گا کہ قرآن کریم نے اس حقیقت کو ذہن نشین کرانے کیلئے بہت ہی زور دیا ہے۔ اس حقیقت کے ہر پہلو کو زیر بحث لایا گیا ہے ۔ اس طرح کہ انسان کے دماغ میں کوئی شیڈ ‘ کوئی شک اور کوئی پیچیدگی نہ رہے ۔ پھر قرآن نے مزدی یہ دعوی بھی کیا ہے کہ یہ وہ حقیقت ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے تمام رسولوں کو مبعوث فرمایا ہے اس لئے قرآن کریم نے ہر رسول کی سیرت کے واقعات بیان کرتے وقت اور ہر رسول کی دعوت کا خلاصہ پیش کرتے وقت یہ کہا ہے کہ تمام رسولوں کی دعوت عقیدہ توحید کی طرف رہی ہے ۔ نوح (علیہ السلام) کی رسالت کا یہی عقیدہ رہا ہے اور نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کی رسالت کا محور بھی عقیدہ توحید رہا ہے ہر رسول کی دعوت میں یہ فقرہ بنیادی رہا ہے ۔ (یاقوم اعبدوا اللہ مالکم من الہ غیرہ) ” اے قوم ! اللہ کی بندگی کرو ‘ تمہارے لئے اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں ہے ۔ “ لہذا یہ بات نہایت ہی تعجب انگیز تھی کہ ان سماوی ادیان کے پیروکاروں میں سے کوئی شخص یا قوم عقیدہ توحید کے اندر تحریف کرے ‘ حالانکہ ان ادیان میں عقیدہ توحید مرکزی نکتہ رہا ہے اور ان ادیان نے اسے نہایت ہی قطعی اور فیصلہ کن انداز میں پیش کیا ہے ۔ لہذا یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ کسی دین سماوی کے پیروکار اللہ کے لئے کسی کو بیٹے یا بیٹیاں قرار دیں ۔ یا یہ کہ ذات باری اقانیم کی صورت میں کسی مخلوق کے اندر امتزاج اختیار کرے ۔ ظاہر ہے کہ ایسے عقائد صرف باہر کے بت پرستوں ہی سے اخذ کئے جاسکتے ہیں۔ اسلام میں تو الوہیت اور عبودیت باہم متقابل ہیں یہی اسلام کی اساس ہے ۔ اللہ اور بندے کے درمیان حاکم و محکوم اور معبود اور عابد کے سوا کوئی اور تعلق نہیں ہوسکتا تھا ۔ محکوم اور عابد مخلوق ہوگی اور حاکم اور معبود اللہ ہوگا ۔ جب تک لوگ اس سیدھے نظریے اور عقیدے کو قبول نہ کریں گے نہ ان کی زندگی درست ہو سکتی ہے اور نہ ہی ان کے تصورات درست ہو سکتے ہیں ورنہ ان کے خیالات میں خواہ مخواہ کوئی شیڈ کوئی ملاوٹ اور کوئی شبہ موجود رہے گا ۔ ہاں یہ درست ہے کہ لوگوں کی زندگی اس وقت تک درست نہیں ہوسکتی اور نہ ان کی سوچ میں ٹھہراؤ پیدا ہو سکتا ہے جب تک انہیں اپنے اور اپنے رب کے درمیان اس رابطے کا یقین نہ ہوجائے کہ رب ان کا حاکم ہے اور وہ اس کے محکوم ہیں۔ رب خالق ہے اور وہ مخلوق ہیں ۔ رب ان کا مالک ہے اور وہ اس کے مملوک ہیں ۔ یہ سب بندے اور مخلوقات اپنی اس حیثیت میں ایک جیسے ہیں ۔ ان میں سے کوئی بھی اللہ کا بیٹا نہیں ہے ۔ کسی کے ساتھ اللہ کا امتزاج نہیں ہے اس لئے اللہ کے ساتھ کسی کی کوئی قرابت نہیں ہے ۔ الا یہ کہ کسی کے پاس ایمان اور عمل کی کوئی پونجی ہو اور وہ اس پونجی کو اللہ کے سامنے قلبی رجحان کے ساتھ پیش کرے اور یہ تقرب وہ ہے جو اللہ کے ساتھ اس کی مخلوق میں ہر شخص حاصل کرسکتا ہے ۔ رہی یہ بات کہ کوئی اللہ کا بیٹا ہے یا یہ کہ کسی کے ساتھ اللہ نے امتزاج اختیار کرلیا ہے تو یہ کسی بشر کو بھی حاصل نہیں ہے ۔ جب تک لوگوں کے دلوں کی گہرائیوں میں یہ حقیقت نہیں بیٹھ جاتی کہ وہ سب کے سب ایک ہی رب کے بندے اور غلام ہیں ‘ اس وقت تک ان کی زندگی درست ہو سکتی ہے ‘ نہ ان کے باہمی رابطے قائم ہو سکتے ہیں اور نہ وہ فرائض حیات کو اچھی طرح سرانجام دے سکتے ہیں ۔ اس تصور کا نتیجہ یہ ہے کہ احکم الحاکمین کے ساتھ سب کا موقف برابر فاصلے پر ہوگا اور اس کے ساتھ قرب حاصل کرنا سب کیلئے کھلا ہوگا ۔ یوں تمام بنی نوع انسان کے درمیان مرتبہ کے اعتبار سے مکمل مساوات ہوگی ۔ اس طرح کہ مالک الملک کے ساتھ ان کا فاصلہ برابر ہوگا اور یہاں پر وہ کھوٹا اور غلط دعوی بالکل باطل ہوجائے گا کہ یہاں اللہ اور بندے کے درمیان کوئی واسطہ بھی ہو سکتا ہے ۔ اس تصور کے مطابق کسی فرد یا کسی نسب یا کسی طبقہ حاکمہ کی جانب سے اپنے لئے حاصل کردہ وہ تمام حقوق بےاصل ہوجاتے ہیں کہ وہ دوسرے لوگوں سے رب کے ساتھ تعلق کے حوالے سے کسی طرح ممتاز ہیں۔ اس تصور کے سوا عوام الناس کے اندر حقیقی مساوات قائم نہیں ہوسکتی نہ انسانوں کا کوئی نظام حیات یا انکی کوئی سوسائٹی اصول مساوات پر قائم ہوسکتی ہے ۔ اس لئے عقیدہ توحید اس نقطہ نظر سے محض ایک ایسا مسئلہ ہی نہیں رہتا کہ وہ ویک وجدانی تصور ہے جو کسی شخص کے قبل میں مضبوطی سے بیٹھ جائے اور بس ‘ بلکہ عقیدہ توحید ایک نظام زندگی ‘ معاشرتی رابطہ اور بنی نوع انسان کی مختلف نسلوں اور اقوام کے درمیان روابط یعنی سوشیالوجی اور بین الاقوامی مسئلہ بھی بن جاتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے اسلام نے انسان کو عقیدہ توحید دیکر اسے ایک جدید زندگی اور نشاۃ ثانیہ عطا کی ہے ۔ اس کی رو سے انسان تمام انسانوں کی غلامی سے آزاد ہو کر صرف ایک رب ذوالجلال کا غلام بن جاتا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ اسلام کی تاریخ میں کوئی ایسا کنیسہ قائم نہیں ہوا جو لوگوں کو اپنا محکوم اس تصور حیات کی اساس پر بنائے کہ وہ ابن اللہ کا نمائدہ ہے ۔ یا وہ اس اقنوم کا نمائندہ ہے جو لوگوں کو اپنا محکوم اس تصور حیات کی اساس پر بنائے کہ وہ ابن اللہ کا نمائندہ ہے ۔ یا وہ اس اقنوم کا نمائندہ ہے جو اللہ کے اقانیم کیلئے متمم ہے ۔ اس وجہ سے اسلامی تاریخ میں مسلمانوں پر تھیاکریسی کا نظام کبھی قائم نہیں ہوا جس میں کوئی بادشاہ اپنے لئے ظل اللہ فی الارض کا لقب اختیار کرے اس طرح کہ اسے حکومت کا حق من جانب اللہ ہے یا یہ کہ وہ از جانب اللہ قانون سازی کرسکتا ہے اس لئے کہ وہ اللہ کا قرابت دار ہے یا اللہ نے اپنے اختیارات اسے تفویض کردیئے ہیں ۔ کنیسہ اور پوپ نے اپنے لئے یہ حق محفوظ کئے رکھا ۔ اسی طرح پیٹر کے پیرو بھی اپنے لئے اس حق کا دعوی کرتے تھے ۔ یہ حق یورپ میں ابنیت اور امتزاج اقانیم کے نظریات کے تحت لوگ اپنے لئے مخصوص کرتے رہے ۔ جب صلیبیوں نے مسلمانوں کے خلاف جنگیں شروع کیں اور مسلمانوں سے لڑتے رہے ۔ تو وہ صلیبی جنگوں میں شکست کے ساتھ ساتھ اسلام کے نظریہ توحید سے بھی شکست کھا گئے ، ان جنگوں کے نتیجے میں یورپ کے اندر تحریک اصلاح مذہب شروع ہوگئی اور مارٹن لوتھر ‘ کالون اور زنجلی کی تحریکات شروع ہوئیں ۔ جنہوں نے کنیسہ کے باطل تصورات کی دھجیاں بکھیر دیں ۔ یہ سب مصلحین اسلام کے سیدھے سادھے تصور حیات سے متاثر ہوئے ۔ انہوں نے انسان کے تقدس کے نظریے یا اس تصور کی نفی کی کہ اللہ نے اپنے اختیارات کسی کو تفویض کئے ہیں اس لئے کہ انہوں نے دیکھا کہ اسلام میں ایک الہ ہے اور مقابلے میں تمام لوگ بندے ہیں اور ان کے درمیان کوئی واسطہ نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں قرآن کریم میں الوہیت مسیح کے نظریہ کی فیصلہ کن انداز میں تردید کردی گئی ۔ اسی طرح روح القدس کی خدائی کی بھی تردید کردی کہ وہ اقانیم ثلاثہ میں سے ایک ہیں ۔ غرض کسی شکل میں بھی کسی کیلئے نظریہ الوہیت کی تردید کردی گئی چاہئے کوئی یہ نظریہ کسی کیلئے بھی اختیار کرے ۔ قرآن کریم فیصلہ کن انداز میں یہ اعلان کرتا ہے کہ عیسیٰ ابن مریم اللہ کے بندے ہیں اور انہوں نے کبھی بھی اللہ کا بندہ ہونے کو اپنے لئے عار نہیں سمجھا اسی طرح ملائکہ مقربین بھی اللہ کے بندے ہیں اور انہوں نے بھی اپنے لئے اپنی اس حیثیت کو کبھی عار نہیں سمجھا تمام مخلوقات اس کی بندگی میں ہے اور عنقریب انکو اللہ کے سامنے اجتماعی طور پر اٹھایا جائے گا ۔ جو لوگ اللہ کی بندگی کو اپنے لئے عار اور توہین سمجھتے ہیں وہ عذاب الیم کا انتظار کریں اور جو لوگ اپنے آپ کو اللہ کا بندہ و غلام سمجھتے ہیں وہ انعام واکرام کے امیدوار ہوں۔ (آیت) ” لن یستنکف المسیح ان یکون عبداللہ ولا الملئکۃ المقربون ومن یستنکف عن عبادتہ ویستکبر فسیحشرھم الیہ جمیعا (172) فاما الذین امنوا وعملوا الصلحت فیوفیھم اجورھم ویزیدھم من فضلہ واما الذین استنکفوا واستکبروا فیعذبھم عذابا الیما ، ولا یجدون لھم من دون اللہ ولیا ولا نصیرا (173) (4 : 172۔ 173) ” ” مسیح نے کبھی اس بات کو عار نہیں سمجھا کہ وہ اللہ کا بندہ ہو اور نہ مقرب ترین فرشتے اس کو اپنے لئے عار سمجھتے ہیں ، اگر کوئی اللہ کی بندگی کو اپنے لئے عار سمجھتا ہے اور تکبر کرتا ہے تو ایک وقت آئے گا جب اللہ سب کو گھیر کر اپنے سامنے حاضر کرے گا ۔ اس وقت وہ لوگ جنہوں نے ایمان لا کر نیک طرز عمل اختیار کیا ہے اپنے اجر پورے پورے پائیں گے اور اللہ اپنے فضل سے ان کو مزید اجر عطا فرمائے گا ۔ اور جن لوگوں نے بندگی کو عار سمجھا اور تکبر کیا ہے ان کو اللہ دردناک سزا دے گا اور اللہ کے سوا جن جن کی سرپرستی ومددگاری پر وہ بھروسہ رکھتے ہیں ‘ ان میں سے کسی کو بھی وہ وہاں نہ پائیں گے ۔ “ حضرت مسیح ابن مریم اپنے آپ کو اللہ کی بندگی کے مقام سے بلند نہیں سمجھتے ۔ اس لئے کہ وہ اللہ کے نبی اور رسول ہیں ۔ وہ تمام لوگوں سے زیادہ مقام الوہیت اور مقام عبودیت سے واقف ہیں ۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ الوہیت اور عبودیت الگ الگ حقائق ہیں اور ان کے درمیان امتزاج ممکن نہیں ہے ۔ وہ سب سے زیادہ جانتے تھے کہ وہ اللہ کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہیں اور اللہ کی درمیان امتزاج ممکن نہیں ہے ۔ وہ سب سے زیادہ جانتے تھے کہ وہ اللہ کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہیں ‘ اور اللہ کی مخلوق اللہ جیسی نہیں ہو سکتی ۔ نہ وہ اللہ کا جزو ہو سکتی ہے اور وہ سب سے زیادہ اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ بندگی کے فرائض صرف اللہ کے سامنے بجا لائے جانے چاہئیں ۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے اللہ کی بندگی بجا لانا ایک حقیقت ہے اور اس کی اس قدر تاکید کی گئی ہے کہ اس میں کسی قسم کی کمی بیشی نہیں ہو سکتی اس لئے کہ اللہ کی بندگی کا انکار صرف کافر کرسکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور انشاء کو نہیں مانتے اور یہ کہ بندگی وہ مرتبہ ہے اور وہ اعزاز ہے جو اللہ اپنے رسولوں کو اس وقت دیتے ہیں جب وہ اعلی اور افضل مراتب پر فائز ہوتے ہیں ۔ یہی حال ملائکہ مقربین کا ہے جن میں روح القدس شامل ہیں ۔ ان کا حال بھی یہی ہے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور تمام دوسرے رسل کا ہے کہ وہ اللہ کے بندے ہیں ۔ لہذا اب حضرت مسیح کے ان پیروکاروں کو کیا کہا جاسکتا ہے کہ وہ حضرت مسیح کے حوالے سے اس بات کی نفی کرتے ہیں جس کے وہ خود مقرر ہیں ۔ (آیت) ” ومن یستنکف عن عبادتہ ویستکبر فسیحشرھم الیہ جمیعا (4 : 172) (اگر کوئی اللہ کی بندگی کو اپنے لئے عار سمجھتا ہے اور تکبر کرتا ہے تو ایک وقت آئے گا جب اللہ سب کو گھیر کر اپنے سامنے حاضر کرے گا) اس لئے اگر وہ خدا کی بندگی کو اپنے لئے عار سمجھتے ہیں اور اللہ کے مقابلے میں بڑائی کرتے ہیں تو ان فعل انہیں اللہ کے سامنے لا کھڑا ہونے سے ہر گز نہ بچاسکے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ تمام لوگوں پر حاکم مطلق ہے اور اللہ کی حاکمیت کے مقابلے میں مقرب بندے اور تمام لوگ ایک ہی جیسے ہیں۔ جن لوگوں نے حق کو پہچان لیا اور انہوں نے اللہ کی عبودیت کا اقرار کرلیا اور انہوں نے نیک کام کئے ‘ اس لئے کہ نیک کام کرنا اللہ کی عبودیت کے اقرار کا لازمی ثمرہ ہے تو اللہ تعالیٰ انہیں ان کے صلہ پورا پورا دے گا اور اس صلے سے مزید ان پر اپنا فضل بھی کرے گا ۔ (آیت) ” واما الذین استنکفوا واستکبروا فیعذبھم عذابا الیما ، ولا یجدون لھم من دون اللہ ولیا ولا نصیرا (4 :۔ 173) ”(اور جن لوگوں نے بندگی کو عار سمجھا اور تکبر کیا ہے ان کو اللہ دردناک سزا دے گا اور اللہ کے سوا جن جن کی سرپرستی ومددگاری پر وہ بھروسہ رکھتے ہیں ‘ ان میں سے کسی کو بھی وہ وہاں نہ پائیں گے) اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات کی جانب سے بندگی کا اقرار اور اس کی بندگی و عبادت کا مطالبہ اس لئے نہیں کرتے کہ اللہ کو ان کے اقرار غلامی یا بندگی کی کوئی خاص ضرورت ہے ۔ وہ تو غنی بادشاہ ہے یا یہ کہ اگر یہ لوگ بندگی کریں گے تو اس کی حکومت اور سلطنت میں کوئی اضافہ ہوجائے گا یا یہ کہ اگر وہ ایسا نہ کریں گے تو اس کی مملکت میں کوئی کمی ہوجائے گی ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ یہ ہے کہ لوگ اللہ کی ربوبیت اور حاکمیت کا مفہوم سمجھ لیں ۔ وہ اپنے تصورات و عقائد کی تصحیح کرلیں اور وہ اپنے جذبات اور اپنے شعور کے اندر اصلاح کرلیں جس کے نتیجے میں ان کی زندگی اور زندگی کے طور طریقوں کی اصلاح از خود ہوجائے گی ۔ اس لئے کہ کوئی نظام زندگی اس وقت تک پرسکون اور پرامن نہیں ہو سکتا اور کوئی تصور اور عقیدہ اس وقت تک مستحکم اور مستقر نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنی بنیاد میں مستحکم نہ ہو ۔ زندگی کا کوئی تصور اور کوئی نظام اللہ کی حاکمیت اور اللہ کی بندگی کے بغیر مستحکم نہیں ہو سکتا اور نہ اس کے بغیر زندگی میں اچھے آثار نمودار کرسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ یہ حقیقت اپنے تمام پہلوؤں کے ساتھ جس کا بیان اوپر کردیا گیا ہے لوگوں کے ذہن نشین ہوجائے اور اس پر ان کی زندگی کا تفصیلی نقشہ مرتب ہوجائے تاکہ وہ انسانوں کی بندگی سے نکل کر صرف اللہ کی بندگی میں داخل ہوجائیں ۔ انہیں معلوم ہوجائے کہ اس پوری کائنات اور اس کرہ ارض پر اصل حاکم کون ہے ۔ وہ اس کے سوا کسی کے آئے نہ جھکیں ۔ وہ اسی کے نظام زندگی اور اسی کے منہاج کے پیرو ہوجائیں ۔ وہ اسی کی شریعت کی اطاعت کریں۔ صرف ان حکمرانوں کی اطاعت کریں جو اللہ تعالیٰ کا نظام زندگی نافذ کرنے والے ہوں ۔ اللہ کا ارادہ صرف یہ ہے کہ وہ یہ جان لیں کہ بندے سب کے سب اللہ کے بندے ہیں۔ اللہ یہ چاہتا ہے کہ اللہ کے بندے دوسرے لوگوں کے مقابلے میں سراٹھا کے چلیں اور اگر وہ سر جھکاتے ہیں تو صرف اللہ کے سامنے سرجھکائیں ۔ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ لوگ جبار ‘ قہار اور اللہ کے باغی حکمرانوں کے مقابلے میں اپنی عزت نفس کا شعور حاصل کریں ۔ جب لوگ اللہ کے سامنے رکوع و سجود کریں تو ان کا فرض ہے کہ وہ صرف اللہ کو یاد کریں اور اللہ کے سوا کسی کو یاد نہ کریں ۔ اللہ تعالیٰ کی منشاء یہ ہے کہ یہ لوگ اچھی طرح سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ کا قرب رشتہ داری اور نسب کی وجہ سے حاصل نہیں ہوتا ۔ یہ قرب صرف تقوی اور عمل صالح کی وجہ سے نصیب ہوتا ہے ۔ اس زمین کی تعمیر اور نیک کام اللہ کی قرابت اور نزدیکی کا باعث ہیں۔ اللہ یہ چاہتا ہے کہ لوگوں کو حقیقت ربوبیت اور حاکمیت کا ادراک ہو اور وہ اپنے مقام بندگی کو اچھی طرح پہچان لیں ۔ وہ اللہ کی حاکمیت کیلئے غیرت اور حمیت رکھتے ہوں اور جو شخص بھی اللہ کے حق حاکمیت میں شریک ہونا چاہتا ہے وہ اس کیلئے سد راہ بن جائیں اور تمام حقوق حاکمیت صرف اللہ کے ساتھ خاص کردیں ۔ اس طرح ان کی زندگی کی اصلاح ہوجائے گی ۔ وہ ترقی کریں گے ۔ اور اساس بندگی پر مکرم ہوں گے ۔ اس عظیم حقیقت کا ادراک ‘ تمام انسانوں کی جانب سے صرف اللہ کی طرف دیکھنا ‘ تمام لوگوں کے قلوب کا اللہ کے ساتھ مربوط ہوجانا ۔ تمام لوگوں کے اعمال کا خدا خوفی پر مبنی ہوجانا ‘ تمام لوگوں کے نظام زندگی کا سب کو چھوڑ چھاڑ کر اللہ کے اذن اور حکم پر مبنی ہوجانا وغیرہ یہ سب امور ہیں جو اس دنیا میں بھلائی آزادی ‘ عدل اور استقامت کا عظیم سرمایہ ہیں ۔ جس سے انسانیت کے سرمایہ میں اس دنیاوی زندگی میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور آخرت میں بھی اضافہ ہوتا ہے ۔ غرض یہ ایک ایسا سروسامان ہے جس سے اس دنیا میں حریت ‘ شرافت ‘ عدل اور استقامت کا دور دورہ ہوگا اور ایسے نیکو کار لوگوں کا انجام آخرت میں کیا ہوگا ‘ ان پر اللہ کا کرم ہوگا ان پر اس کا فضل خاص ہوگا ۔ اور وہ اللہ کے فیض خاص سے فیض یاب ہوں گے ۔ ہمارا فرض ہے کہ درج بالا نکات کی روشنی اسلام اور ایمان کے تقاضوں پر غور کریں ‘ اور یہ فیصلہ کریں کہ ایسا ایمان تمام رسولوں کی رسالتوں کی اساس رہا ہے ۔ بعد کے ادوار میں ایمان کی اس اصلی صورت میں تحریف اور تبدیلی ہوگئی ۔ ایمان کے اس حقیقی نقطہ نظر سے معلوم ہوگا کہ ایمان کے اس حقیقی نقطہ نظر سے معلوم ہوگا کہ ایمان لانے کی وجہ سے بشریت کو ایک نیا جنم نصیب ہوگا اور اس صورت میں ایمان مقام شرافت اور اعلان حریت ہوگا ۔ اس کے نتیجے میں عدل و انصاف کا قیام ہوگا اور انسان انسان کی بندگی اور غلامی سے نکل آئے گا ۔ جو لوگ اللہ کی بندگی کو اپنے آپ سے فرو تر سمجھتے ہیں اور پھر وہ اس کرہ ارض پر دوسری لا تعداد اور نہ ختم ہونے والی بندگیوں میں پھنس جاتے ہیں ‘ آخر کار وہ اپنی نفسانی خواہشات کے بندے بن جاتے ہیں ۔ پھر وہ ادہام اور خرافات کے غلام بن جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ اپنے جیسے انسانوں کے غلام بن جاتے ہیں اور پھر ان کی پیشانیاں ان انسانوں کے سامنے جھکتی ہیں پھر ان کی زندگی میں ان کے نظم ونسق میں ‘ ان کے قانون میں ‘ اور ان کے حسن وقبح کے پیمانوں پر بھی انہی جیسے انسان حاکم ہوجاتے ہیں حالانکہ حقیقت نفس الامری میں وہ دونوں برابر اور ایک جیسے انسان ہوتے ہیں لیکن اس طرح غیر اللہ کی اطاعت کرکے انہوں نے غیر اللہ کو اپنا الہ تسلیم کرلیا ۔ یہ تو ان کی پوزیشن ہوگی ہیں اس دنیا میں کہ وہ اپنے جیسے لوگوں کے غلام ہوگئے اور آخر میں انکی پوزیشن یہ ہوگی ۔ (آیت) ” فیعذبھم عذابا الیما ، ولا یجدون لھم من دون اللہ ولیا ولا نصیرا (173) (4 : 173) ”(ان کو اللہ دردناک سزا دے گا اور اللہ کے سوا جن جن کی سرپرستی ومددگاری پر وہ بھروسہ رکھتے ہیں ‘ ان میں سے کسی کو بھی وہ وہاں نہ پائیں گے) اسلامی نظریہ حیات میں یہ ایک اہم مسئلہ ہے جسے قرآن نے اس آیت میں پیش کیا ہے ۔ اس کے ذریعے اس وقت اہل کتاب یعنی یہود ونصاری کی تردید کی گئی ہے اور اب قیامت تک یہ ہمارے لئے سنگ میل ہے ۔ سابقہ سبق میں یہودیوں پر تنقید کرکے بتایا گیا تھا کہ لوگو ! حضرت محمد ﷺ کی رسالت پر اللہ گواہ ہیں جس کی شہادت قطعی برہان ہے ۔ اسی طرح یہاں نصاری کی تردید کرکے پھر تمام لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے کہ یہ رسالت اللہ کی جانب سے برہان ہے ۔ اور یہ ایک نئی روشنی ہے جس سے جہالت کی تاریکیاں چھٹ جائیں گی اور تمام شبہات دور ہوجائیں گے ۔ جس شخص نے اس سے ہدایت حاصل کی اور اسے پختگی سے پکڑا تو اس پر اللہ کی رحمت ہوگی اور اللہ کا فضل اس کے شامل حال ہوگا اور اس روشنی اور ہدایت میں وہ صراط مستقیم پائے گا ۔
Top