Tafseer-e-Madani - An-Nisaa : 172
لَنْ یَّسْتَنْكِفَ الْمَسِیْحُ اَنْ یَّكُوْنَ عَبْدًا لِّلّٰهِ وَ لَا الْمَلٰٓئِكَةُ الْمُقَرَّبُوْنَ١ؕ وَ مَنْ یَّسْتَنْكِفْ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَ یَسْتَكْبِرْ فَسَیَحْشُرُهُمْ اِلَیْهِ جَمِیْعًا
لَنْ يَّسْتَنْكِفَ : ہرگز عار نہیں الْمَسِيْحُ : مسیح اَنْ : کہ يَّكُوْنَ : ہو عَبْدًا : بندہ لِّلّٰهِ : اللہ کا وَلَا : اور نہ الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتے الْمُقَرَّبُوْنَ : مقرب (جمع) وَمَنْ : اور جو يَّسْتَنْكِفْ : عار کرے عَنْ : سے عِبَادَتِهٖ : اس کی عبادت وَيَسْتَكْبِرْ : اور تکبر کرے فَسَيَحْشُرُهُمْ : تو عنقریب انہیں جمع کرے گا اِلَيْهِ : اپنے پاس جَمِيْعًا : سب
ہرگز عار نہیں ہوسکتی مسیح کو اس بات سے کہ وہ اللہ کا بندہ ہو، اور نہ ہی مقرب فرشتوں کو، اور (ایسا ان سے کسی طرح ممکن ہوسکتا ہے جب کہ قانون اور ضابطہ یہ ہے کہ) جس نے بھی عار کی اللہ کی عبادت (وبندگی) سے، اور وہ مبتلا ہوا اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں، تو اللہ ضرور ان سب کو اپنے پاس لائے گا اکٹھا کر کے،
452 حضرت مسیح کو اللہ کا بندہ ہونے سے عار نہیں تھی : اور جب وہ تھے ہی اللہ کے بندے اور اس کے رسول تو پھر ان کو اس سے کوئی عار کس طرح ہوسکتی تھی ؟ روایات کے مطابق نصاریٰ کے ایک وفد نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ آپ ہمارے ساتھی یعنی حضرت عیسیٰ کو عیب کیوں لگاتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا وہ کیسے ؟ کہا کہ آپ ان کو " عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُوْلُہٗ "، " اللہ کا بندہ اور اس کا رسول " کہتے ہیں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ نہ تو کوئی عیب ہے، اور نہ حضرت عیسیٰ کو اس سے کوئی عار ہوسکتی ہے، تو اس پر یہ آیات کریمہ نازل ہوئیں (اسباب النزول للواحدی وغیرہ) سو یہ وہی بیماری ہے جس میں آج ہمارے بہت سے اہل بدعت وغیرہ مبتلا ہیں کہ یہ بھی اللہ کے رسول کو بندہ اور بشر کہنا آپ ﷺ کی توہین سمجھتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہمارے پنجاب وغیرہ کے بعض علاقوں میں { اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ } جیسی آیات کریمہ کی تلاوت اور نماز میں ان کو پڑھنا بھی توہین سمجھا جاتا ہے، اور اس پر قتل و خونریزی تک کی نوبت بھی آئی ہے۔ تو دیکھا آپ نے کہ ایسے لوگ کس طرح { تَشَابَہَتْ قُلُوْبُہُمْ } کا مصداق بن رہے ہیں ؟ ۔ والعیاذ باللہ ۔ حالانکہ اسلام کی مقدس تعلیمات میں " عَبْدُہ وَرَسُوْلُہ " کے اقرار کو ایمان کے ثبوت و وجود میں اساسی اور بنیادی حیثیت حاصل ہے۔
Top