Tafseer-e-Baghwi - An-Noor : 29
لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ مَسْكُوْنَةٍ فِیْهَا مَتَاعٌ لَّكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَ مَا تَكْتُمُوْنَ
لَيْسَ : نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَنْ : اگر تَدْخُلُوْا : تم داخل ہو بُيُوْتًا : ان گھروں میں غَيْرَ مَسْكُوْنَةٍ : جہاں کسی کی سکونت نہیں فِيْهَا : جن میں مَتَاعٌ : کوئی چیز لَّكُمْ : تمہاری وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے مَا تُبْدُوْنَ : جو تم ظاہر کرتے ہو وَمَا : اور جو تَكْتُمُوْنَ : تم چھپاتے ہو
(ہاں) اگر تم کسی ایسے گھر میں جاؤ جس میں کوئی بستا نہ ہو (اور) اس میں تمہارا اسباب (رکھا) ہو تم پر کچھ گناہ نہیں اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو پوشیدہ کرتے ہو خدا کو سب معلوم ہے
29۔ لیس علیکم جناح ، ،، ، بغیر اجازت کے داخل ہونے کا حکم جن گھروں میں دیا گیا ہے وہ اس آیت میں مذکور ہیں، فیھا متاع لکم جس میں تمہارے نفع کی چیز ہے۔ غیرمسکونۃ سے کون سے گھرمراد ہیں۔ ان گھروں سے کون سے گھر مراد ہیں۔ اس بارے میں آئمہ کے مختلف اقوال ہیں ۔ قتادہ کا قول ہے کہ ان سے مراد وہ دکانیں کوٹھریاں اور مکانات ہیں جو قافلے والوں کے لیے بنادیے جاتے تھے۔ قافلے آتے جاتے وقت وہاں ٹھہرتے تھے اور اپناسامان رکھتے تھے ان مکانوں میں بغیر اجازت طلبی کے داخلے کو جائز کردیا گیا۔ اس صورت میں متاع یہ ہوگی کہ وہاں لوگ اترتے ہیں اور سامان رکھتے ہیں اور سردی گرمی سے بچتے ہیں۔ ابن زید نے کہا کہ ان سے مراد وہ تجارتی کوٹھیاں اور دکانیں ہیں جو بازاروں میں ہوتی ہیں جہاں خریدوفروخت کے لیے لوگ داخل ہوتے ہیں اور یہی منفعت ہے۔ ابراہیم نخعی (رح) کا قول ہے کہ بازار کی دکانوں میں داخل ہونے کی اجازت لیتی ضروری نہیں، ابن سیرین جب بازار کی کسی دکان پر جاتے تو فرماتے السلام علیکم میں داخل ہوجاؤں پھر داخل ہوتے۔ عطاء نے کہا اس سے مراد ویران کھنڈر ہیں اور متاع سے مراد ہے بول وبراز کے لیے جانا، بعض نے کہا کہ وہ تمام مکانات مراد ہیں جہاں کوئی باشندہ نہ ہو کیونکہ اجازت طلبی کا حکم صرف اسی لیے دیا گیا ہے کہ کسی ننگے کھلے پر نظر نہ پڑجائے۔ جن مکانوں کے اندر کوئی رہتا نہ ہو ان کے اندر داخل ہونے میں کسی برہنگی پر نظر پڑنے کا کوئی اندیشہ نہیں اس لیے اجازت طلب کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ واللہ یعلم ماتبدون وماکنتم تکتمون، ،۔
Top