Bayan-ul-Quran - Al-A'raaf : 148
وَ اتَّخَذَ قَوْمُ مُوْسٰى مِنْۢ بَعْدِهٖ مِنْ حُلِیِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌ١ؕ اَلَمْ یَرَوْا اَنَّهٗ لَا یُكَلِّمُهُمْ وَ لَا یَهْدِیْهِمْ سَبِیْلًا١ۘ اِتَّخَذُوْهُ وَ كَانُوْا ظٰلِمِیْنَ
وَاتَّخَذَ : اور بنایا قَوْمُ : قوم مُوْسٰي : موسیٰ مِنْۢ بَعْدِهٖ : اس کے بعد مِنْ : سے حُلِيِّهِمْ : اپنے زیور عِجْلًا : ایک بچھڑا جَسَدًا : ایک دھڑ لَّهٗ : اسی کی خُوَارٌ : گائے کی آواز اَلَمْ يَرَوْا : کیا نہ دیکھا انہوں نے اَنَّهٗ : کہ وہ لَا يُكَلِّمُهُمْ : نہیں کلام کرتا ان سے وَلَا يَهْدِيْهِمْ : اور نہیں دکھاتا انہیں سَبِيْلًا : راستہ اِتَّخَذُوْهُ : انہوں نے بنالیا وَ : اور كَانُوْا ظٰلِمِيْنَ : وہ ظالم تھے
اور بنا لیا موسیٰ ؑ کی قوم نے آپ ؑ کے بعد اپنے زیورات سے بچھڑے کا سا ایک جسم جس سے گائے کی سی آواز آتی تھی کیا انہوں نے غور نہ کیا کہ نہ وہ ان سے کوئی بات کرسکتا ہے اور نہ انہیں راستہ بتاسکتا ہے ! اسی کو وہ (معبود) بنا بیٹھے اور وہ تھے بہت ظالم !
آیت 148 وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوْسٰی مِنْم بَعْدِہٖ مِنْ حُلِیِّہِمْ عِجْلاً جَسَدًا لَّہٗ خُوَارٌ ط۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر چلے گئے تو آپ علیہ السلام کی قوم کے ایک فرد نے یہ فتنہ اٹھایا ‘ جس کا نام سامری تھا۔ اس نے سونے کا ایک مجسمہ بنانے کا منصوبہ بنایا اور اس غرض سے اس نے سب لوگوں سے زیورات اکٹھے کرلیے۔ روایات کے مطابق یہ زیورات زیادہ تر مصر کے مقامی لوگوں قبطیوں کے تھے جو انہوں نے بنی اسرائیل کے لوگوں کے پاس امانتاً رکھوائے ہوئے تھے۔ فرعونیوں کے ہاتھوں اپنی تمام تر ذلت و خواری کے باوجود معاشرے میں بنی اسرائیل کی اخلاقی ساکھ ابھی تک کسی نہ کسی سطح پر اس وجہ سے موجود تھی کہ یہ لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ بہت سے مقامی لوگ اپنی قیمتی چیزیں ان کے ہاں بطور امانت رکھ دیا کرتے تھے۔ جب یہ لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ مصر سے نکلے تو اس وقت بھی ان کے بہت سے لوگوں کے پاس قبطیوں کے بہت سے زیورات امانتوں کے طور پر موجود تھے۔ چناچہ وہ زیورات ان کے مالکوں کو واپس کرنے کی بجائے اپنے ساتھ لے آئے تھے۔ سامری نے ایک منصوبے کے تحت سارے قافلے سے وہ زیورات اکٹھے کیے۔ باقاعدہ ایک بھٹی بناکر ان زیورات کو گلایا اور بچھڑے کی شکل اور جسامت کا ایک مجسمہ تیار کردیا۔ اس نے ایک ماہر کاریگر کی طرح اس مجسمے کو بنایا ‘ سنوارا اور اس میں کچھ سوراخ اس طرح سے رکھے کہ جب ان میں سے ہوا گزرتی تھی تو گائے کے ڈکارنے جیسی آواز سنائی دیتی۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد سامری نے اعلان کردیا کہ یہ بچھڑا تم لوگوں کا خدا ہے اور موسیٰ علیہ السلام کو دراصل مغالطہ ہوگیا ہے جو خدا سے ملنے کوہ طور پر چلے گئے ہیں۔ اس میں ایک اور نکتہ قابل توجہ ہے ‘ وہ یہ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام محبت اور جذبہ اشتیاق میں وقت مقررہ سے پہلے ہی کوہ طور پر چلے گئے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب طلبی بھی ہوئی تھی ‘ جس کے بارے میں ہمیں کچھ اشارہ سورة طٰہٰ میں ملتا ہے : وَمَآ اَعْجَلَکَ عَنْ قَوْمِکَ یٰمُوْسٰی۔ اے موسیٰ ! تم اپنی قوم کو چھوڑ کر قبل از وقت کیوں آگئے ہو ؟ اس پر آپ علیہ السلام نے جواب دیا : وَعَجِلْتُ اِلَیْکَ رَبِّ لِتَرْضٰی۔ کہ پروردگار ! میں تو تیری محبت اور تجھ سے گفتگو کرنے کے شوق میں اس لیے جلدی آیا تھا کہ تو اس سے خوش ہوگا۔ گویا آپ علیہ السلام تو فرط اشتیاق میں شاباش کی توقع رکھتے تھے۔ لیکن یہاں ڈانٹ پڑگئی : قَالَ فَاِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَکَ مِنْم بَعْدِکَ وَاَضَلَّہُمُ السَّامِرِیُّ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : تو آپ علیہ السلام کی اس عجلت کی وجہ سے آپ علیہ السلام کے بعد ہم نے آپ علیہ السلام کی قوم کو فتنے میں ڈال دیا ہے اور سامری نے انہیں گمراہ کردیا ہے۔ گویا خیر اور بھلائی کے معاملے میں بھی جلد بازی نہیں کرنی چاہیے اور ہر کام قاعدے ‘ کلیے کے مطابق ہی کرنا چاہیے۔ اسی لیے مثل مشہور ہے : سہج پکے سو میٹھا ہو ! اَلَمْ یَرَوْا اَنَّہٗ لاَ یُکَلِّمُہُمْ وَلاَ یَہْدِیْہِمْ سَبِیْلاً 7 اگرچہ اس مجسمے سے گائے کی سی آواز نکلتی تھی لیکن انہوں نے یہ نہ سوچا کہ وہ کوئی بامعنی بات کرنے کے قابل نہیں ہے اور نہ ہی کسی انداز میں وہ ان کی راہنمائی کرسکتا ہے۔ مگر اس کے باوجود : اِتَّخَذُوْہُ وَکَانُوْا ظٰلِمِیْنَ بنی اسرائیل نے اسی بچھڑے کو اپنا معبود مان کر اس کی پرستش شروع کردی اور اس طرح شرک جیسے ظلم عظیم کے مرتکب ہوئے۔ ظالم سے یہ بھی مراد ہے کہ وہ اپنے اوپر بڑے ظلم ڈھانے والے تھے۔
Top