Fi-Zilal-al-Quran - Al-A'raaf : 148
وَ اتَّخَذَ قَوْمُ مُوْسٰى مِنْۢ بَعْدِهٖ مِنْ حُلِیِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌ١ؕ اَلَمْ یَرَوْا اَنَّهٗ لَا یُكَلِّمُهُمْ وَ لَا یَهْدِیْهِمْ سَبِیْلًا١ۘ اِتَّخَذُوْهُ وَ كَانُوْا ظٰلِمِیْنَ
وَاتَّخَذَ : اور بنایا قَوْمُ : قوم مُوْسٰي : موسیٰ مِنْۢ بَعْدِهٖ : اس کے بعد مِنْ : سے حُلِيِّهِمْ : اپنے زیور عِجْلًا : ایک بچھڑا جَسَدًا : ایک دھڑ لَّهٗ : اسی کی خُوَارٌ : گائے کی آواز اَلَمْ يَرَوْا : کیا نہ دیکھا انہوں نے اَنَّهٗ : کہ وہ لَا يُكَلِّمُهُمْ : نہیں کلام کرتا ان سے وَلَا يَهْدِيْهِمْ : اور نہیں دکھاتا انہیں سَبِيْلًا : راستہ اِتَّخَذُوْهُ : انہوں نے بنالیا وَ : اور كَانُوْا ظٰلِمِيْنَ : وہ ظالم تھے
موسیٰ کے پیچھے اس کی قوم کے لوگوں نے اپنے زیوروں سے ایک بچھڑے کا پتلا بنایا جس میں بیل کی سی آواز نکلتی تھی۔ کیا انہیں نظر نہ آتا تھا کہ وہ نہ ان سے بولتا ہے نہ کسی معاملہ میں ان کی رہنمائی کرتا ہے ؟ مگر پھر بھی انہوں نے اسے معبود بنا لیا اور وہ سخت ظالم تھے
جس دوران حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دربار میں تھے ، یہ ایک منفرد ملاقات تھی اور ہماری محدود آنکھوں کے لیے ظاہر ہے کہ اس منظر کا احاطہ کرنا ممکن ہی نہیں نہ ہماری روح اس منظر کو دیکھ سکتی ہے اور ہماری فکر اور قوت مدرکہ اس کے بارے میں حیران ہے۔ حضرت موسیٰ کی عدم موجودگی میں ان کی قوم نے گمراہی اختیار کرلی۔ وہ دوبارہ مصری بیماریوں میں مبتلا ہوگئے اور بت پرستی کے گڑھے میں گر گئے۔ انہوں نے ایک بولتے ہوئے بچھڑے کے بت کو اپنا الہ بنا لیا اور اس کی عبادت شروع کردی۔ ان حالات میں اب اس قصے کے نویں منظر سے ہم آگے بڑھتے ہیں اور ہمارے سامنے اس کا دسواں منظر آتا ہے۔ نواں منظر بلند عالم بالا میں ہے ، جس کے مناظر میں خوشی اور روشنی کا ماحول ہے ، محبتوں اور بہار کے مکالمات ہمارے سامنے تھے ، لیکن اچانک ایسا منظر نظر آتا ہے کہ لوگ سربلندیوں سے پستیوں میں گرتے ہیں ، وہ صحت مندی کے بعد وہ دوبارہ بیمار بیمار نظر آتے ہیں۔ واضح سوچ کے بجائے خرافات کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ ۔۔۔۔ وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوْسٰي مِنْۢ بَعْدِهٖ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌ۔ موسیٰ کے پیچھے اس کی قوم کے لوگوں نے اپنے زیوروں سے ایک بچھڑے کا پتلا بنایا جس میں بیل کی سی آواز نکلتی تھی یہ ہے بنی اسرائیل کا مزاج ، وہ قدم قدم پر بےراوہ روی اختیار کرتے ہیں۔ وہ ظاہری اور معنوی کسی بھی اعتبار سے بلندی کی طرف نہیں جاتے بلکہ ان کی فطرت میں پستی کی طرف گرنا ہی لکھا ہے۔ جونہی ہدایت و راہنمائی کا سلسلہ منقطع ہوتا ہے وہ غلط راہوں پر چل پڑتے ہیں۔ انہوں نے بحر قلزم کو معجزانہ طور پر پار کرتے ہی دیکھا کہ ایک قوم بت پرستی میں مشغول ہے تو انہوں نے پیغمبر سے مطالبہ کردیا کہ ہمارے لیے بھی ایسا ہی الہ بنا دیا جائے۔ اس پر حضرت موسیٰ نے انہیں روکا اور ان کے اس خیال کو سختی سے رد کردیا۔ جب حضرت موسیٰ طور پر گئے اور انہوں نے دیکھا کہ ایک سنہری بچھڑا آواز نکال رہا ہے اور اس میں زندگی کے آثار بھی نہیں محض ایک جسد ہے ، یہ سامری کی مصنوعات میں سے ایک عجیب صنعت تھی۔ یہ شخص سامرہ کا رہنے والا تھا ، اس کے بارے میں سورت طلہ میں تفصیلات درج ہیں۔ اس نے اس بچھڑے کو اس طرح ڈیزائن کیا کہ اس سے بیلوں جیسی آواز نکل رہی تھی۔ جب انہوں نے اسے دیکھا تو ہر طرف سے امنڈ آئے اور جب سامری نے ازروئے شیطنت یہ کہا کہ یہ تمہارے موسیٰ اور تمہارا الہ ہے تو یہ اس پر ٹوٹ پڑے۔ اس نے کہا کہ موسیٰ جس الہ کی ملاقات کے لیے گئے ہیں وہ تو یہ رہا۔ موسیٰ نے مقام اور وقت کے تعین میں غلطی کی ہے۔ انہوں نے خصوصاً اس لیے بھی یقین کرلیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک ماہ سے زیادہ عرصہ گزار لیا۔ جب حضرت موسیٰ تیس دنوں کے بعد بھی نہ لوٹے تو سامری نے کہا کہ موسیٰ (علیہ السلام) غلطی کر گئے ہیں الہ تو یہ رہا۔ حالانکہ حضرت موسیٰ نے ان کو ایک ایسے رب کی عبادت کی تعلیم دی تھی جو نظر نہیں آتا تھا ، جو رب العالمین تھا۔ انہوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ یہ جسد تو ان میں سے ایک شخص سامری کی صنعت ہے۔ بنی اسرائیل اپنے کردار کا جو نقشہ پیش کر رہے تھے وہ انسانیت کی ایک نہایت ہی بھونڈی تصویر تھی ، قرآن کریم اس تصویر پر تعجب کا اظہار کرکے مشرکین مکہ کو یہ تصور دیتا ہے کہ تم دیکھتے نہیں ہو کہ جن بتوں کی تم پوجا کرتے ہو ان کی حالت کیا ہے ؟ اَلَمْ يَرَوْا اَنَّهٗ لَا يُكَلِّمُهُمْ وَلَا يَهْدِيْهِمْ سَبِيْلًا ۘ اِتَّخَذُوْهُ وَكَانُوْا ظٰلِمِيْنَ ۔ کیا انہیں نظر نہ آتا تھا کہ وہ نہ ان سے بولتا ہے نہ کسی معاملہ میں ان کی رہنمائی کرتا ہے ؟ مگر پھر بھی انہوں نے اسے معبود بنا لیا اور وہ سخت ظالم تھے۔ اس سے بڑا ظالم کون ہے جو ایک ایسے جسد کی عبادت کرتا ہے جسے خود اس نے بنایا ہو ، حالانکہ خود انسانوں کو اور ان کی مصنوعات کو اللہ بناتا ہے ، حقیقی خالق اللہ ہے۔ ان میں حضرت ہارون موجود تھے ، وہ اس بھونڈی گمراہی سے ان کو نہ روک سکے۔ ان میں بعض عقلاء اور مومنین بھی موجود تھے ، لیکن وہ بھی بتے عقل عوام کے اس ریلے کے ٓگے بند نہ باندھ سکے۔ خصوصاً جبکہ وہ سونے کا بنا ہوا تھا۔
Top