Fi-Zilal-al-Quran - An-Noor : 27
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا وَ تُسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَهْلِهَا١ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : تم نہ داخل ہو لَا تَدْخُلُوْا : تم نہ داخل ہو بُيُوْتًا : گھر (جمع) غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ : اپنے گھروں کے سوا حَتّٰى : یہانتک کہ تَسْتَاْنِسُوْا : تم اجازت لے لو وَتُسَلِّمُوْا : اور تم سلام کرلو عَلٰٓي : پر۔ کو اَهْلِهَا : ان کے رہنے والے ذٰلِكُمْ : یہ خَيْرٌ : بہتر ہے لَّكُمْ : تمہارے لیے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَذَكَّرُوْنَ : تم نصیحت پکڑو
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ گھر والوں کی رضانہ لے لو اور گھر والوں پر سلام نہ بھیج لو ‘ یہ طریقہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ توقع ہے کہ تم اس کا خیال رکھو گے
درس نمبر 153 ایک نظر میں جیسا کہ ہم نے اس سے قبل کہا ہے کہ اسلام ایک پاکیزہ معاشرہ تشکیل دینے میں صرف سخت سزائوں پر ہی اکتفا نہیں کرتا بلکہ اسلام سب سے پہلے جرائم کے لیے انسدادی اور امتناعی تدابیر اختیار کرتا ہے۔ نیز اسلام انسان کی فطری خواہشات کو نہ دباتا ہے اور نہ ان کی بیح کئی کرتا ہے بلکہ وہ انسان کی فطری خواہشات کے لیے بھی ایک نہایت ہی پاکیزہ اور نارمل ماحول فراہم کرنا ہے جس میں کوئی جعلی اکساہٹ نہ ہو۔ اس سلسلے میں اسلام کے نظام تربیت کا بنیادی اصول سدباب کا ذریعہ ہے۔ اسلام بدراہ ہونے کے دروازے ہی بند کردیتا ہے اور ان اسباب کو ختم کرتا ہے جو انسان کو بدراہ کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں یا فتنے کے اسباب فراہم کرتے ہیں یا جن کی وجہ سے انسان کے جذبات میں اشتعال پیدا ہوتا ہے۔ دوسری طرف اسلام لوگوں کو فطری تشفی کے اسباب بھی فراہم کرتا ہے ‘ قانون کے دائرے کے اندر اندر۔ اسلام فیملی اور گھروں کی چار دیواری کا بےحد احترام کرتا ہے۔ چناچہ پہلا اصول یہ طے کیا جاتا ہے کہ کسی کے گھر کے اندر اہل خانہ کی اجازت کے بغیر کوئی داخل نہ ہو۔ یہ محض اس لیے کہ آنے والے کی آنکھیں کوئی ایسا منظر نہ دیکھ لیں جس کو اہل خانہ خفیہ رکھنا چاہتے ہیں۔ اب اگر کوئی شخص اچانک داخل ہوتا ہے اور اہل خانہ غافل ہیں تو وہ اس منظر کو پسند نہ کریں گے۔ نیز اسلام یہ حکم بھی دیتا ہے کہ تمام مرد اور عورتیں نظریں نیچی رکھیں اور زیب وزینت کے ساتھ عورتیں باہر نہ نکلیں۔ اس کے ساتھ اسلام فقراء اور مساکین کو شادی کرنے کے مواقع فراہم کرتا ہے کیونکہ فحاشی کے خلاف بہترین ہتھیار یہ ہے کہ تمام لوگوں کو شادی کے محفوظ قلعے کے اندر داخل کردیا جائے۔ نیز یہ بھی حکم دیا جاتا ہے کہ لونڈیوں کو بھی بد کرداری پر مجبور نہ کرو کیونکہ لونڈیوں کے ذریعہ فحاشی کو بڑی آسانی کے ساتھ پھیلایا جاسکتا ہے۔ درس نمبر 153 تشریح آیات 27۔۔۔۔ تا۔۔۔۔۔۔ 34 (یآیھا الذین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تکتمون) (27 : 29) ” گھروں کو اللہ نے انسانوں کے لیے جائے سکون بنایا ‘ لوگ کام کاج کرکے ان کی طرف لوٹتے ہیں۔ ان کی روح کو وہاں سکون ملتا ہے اور ان کے نفوس کو وہاں آرام ملتا ہے۔ یہاں وہ اپنے خفیہ اور پوشیدہ امور کے بارے میں مطمئن ہوتے ہیں ‘ ان کی عزت یہاں محفوظ ہوتی ہے اور یہاں وہ آرام کر کے اپنے اعصاب کو تسکین پہنچاتے ہیں۔ ایک گھر میں اس قسم کا آرام اور سکون تب ہی مل سکتا ہے جب کوئی غیر شخص چار دیواری کی حرمت پر ہاتھ نہ ڈالے اور اہل خانہ نہایت امن و سکون سے رہیں ‘ الا یہ کہ باہر کوئی شخص ان کی اجازت سے گھر کے اندر داخل ہو۔ اور اس وقت داخل ہو جس وقت وہ چاہیں اور ایسے حالات میں داخل ہو جن میں اہل خانہ اجازت دیں۔ اب اگر کسی کو کسی کے گھر میں داخل کی اجازت دے دی جائے اور اس کی نظریں کسی ایسے منظر کو دیکھ لیں جو دونوں کے لیے فتنہ ہو اور اچانک داخلہ اس شخص کے لیے اس فتنہ کا باعث بن جائے تو اس طرح معاشرے میں فحاشی پھیلنے کا امکان پیدا ہوجاتا ہے۔ بع ضاوقات ایسی نظروں کا تکرار پھر ابتلاء بن جاتا ہے۔ اگر چہ پہلی نظر میں ملاقات بعض اوقات بلاقصد و ارادہ ہوتی ہے لیکن بعد میں فتنہ بن جاتی ہے۔ جب فریقین ایک قدم اور آگے بڑھتے ہیں تو اس کے نتیجے میں فساد اور فحاشی اور بےراہ روی پیدا ہوجاتی ہے۔ جاہلیت کے دور میں دوسرے کے گھر لوگ اچانک داخل ہوجاتے تھے۔ پہلے الٓنیوالا آجاتا اور پھر کہتا میں آگیا ہوں ۔ بعض اوقات یوں ہوتا کہ صاحب خانہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ ایسی حالت میں ہوتا کہ ایسے حالات میں باہر سے داخل ہونا معیوب ہوتا لیکن وہ پروانہ کرتے۔ بعض اوقات یوں ہوتا کہ گھر میں عورت ننگی ہے یا اس کے ستر کے مقامات ننگے ہیں۔ یا مرد اس طرح ہے۔ اس سے صاحب خانہ کو اذیت پہنچتی اور دوسرے کے گھر کا امن و سکون تباہ ہوجاتا۔ جبکہ بعض اوقات ایسا بےہنگم واقعہ فتنے کا بعث بن جاتا ہے آنکھ ایسا منظر دیکھ لیتی جس سے فتنہ اٹھ کھڑا ہوتا۔ ان تمام امور کو مدنظر رکھتے ہوئے قرآن کریم نے مسلمانوں کو ان آداب کا پابند کردیا کہ کسی کے گھر کے اندر بغیر اجازت کے داخل ہونا ممنوع ہے۔ مناسب ہے کہ باہر سے سلام کیا جائے تاکہ ان کو پتہ چل جائے کہ فلاں صاحب آنا چاہتے ہیں۔ نیز اس انداز سے ایک قسم کی مانوسیت بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ (یآیھا الذین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علیٰ اھلھا) (24 : 27) ” اے لوگوجو ایمان لائے ہو ‘ اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ گھو والوں کی رضا نہ لے لو اور گھر والوں پر سلام نہ بھیج لو “۔ یہاں اذن و اجازت کے لفظ کی تعبیر لفظ ” انس “ سے کی گئی ہے۔ اس انداز تعبیر سے اجازت کے مہذب ترین طریقے کی طرف اشارہ ہے۔ نیز اس طرف اشارہ ہے کہ آنے والے کو نہایت ہی مہذب انداز میں آنا چاہیے۔ لوگوں کے ساتھ وہنہایت انس و محبت سی اور مہذب طریقے سے بات کرے تاکہ وہ اس کے استقبال کے لیے تیار ہوں۔ یہ ایک نہایت ہی لطیف اور دقیق اخلاقی اصول ہے لوگوں کی سہولت کے لیے اور ان کے گھروں میں ان کی عزت و وقار کو بحال کرنے کے لیے اور اس لیے کہ رات دن اہل خانہ آنے جانے والوں سے تنگ ہی نہ ہوجائیں کہ ایک آرہا ہے اور دوسرا جارہا ہے اور وہ بھی بلااجازت۔ اجازت کے نتیجے میں اب صورت حالات یہ ہوگی کہ یا تو اس میں کوئی گھر میں ہوگا اور اجازت دے دے گا تو یہ شخص گھر کے اندر چلا جائے گا اور اگر کوئی نہیں ہوگا تو پھر اس شخص کے لیے اندر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ (فان لم۔۔۔۔۔۔۔۔ لکم) (24 : 28) ” اگر وہاں کسی کو نہ پائو تو داخل نہ ہو جب تک کہ تم کو اجازت نہ دی جائے “ اگر اندر اہل خانہ سے کوئی موجود ہو تو صرف اجازت طلب کرنے ہی سے داخلے کی اجازت نہیں ہوجاتی جب تک کوئی صریح اجازت نہ دے۔ اگر اندر والے اجازت نہ دیں تو بغیر کسی جھجک کے واپس ہوجانا چاہیے۔ اور انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ (وان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لکم) (24 : 28) ” اگر تم سے کہا جائے کہ واپس ہو جائو تو واپس ہو جائو۔ یہ تمہارے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے “۔ یعنی واپس ہو جائو بغیر کسی تلخی کے ۔ بغیر اس تاثر کے کہ اہل خانہ نے تمہارے ساتھ کوئی زیادتی کی ہے ‘ یا تم سے کوئی نفرت کی ہے کیونکہ اہل خانہ کے اپنے اسرار اور اعذار ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ حق ان کو دینا ضروری ہے کہ اس وقت وہ مہمان کا استقبال کرسکتے ہیں یا نہیں۔ واللہ بما تعملون علیم (24 : 28) ” اور جو کچھ تم کرتے ہو ‘ اللہ خو جانتا ہے “۔ اللہ تو دلوں کے خفیہ بھیدوں کو جاننے والا ہے ‘ یا یہ کہ دلوں میں جو جذبات و خیالات ہیں ان سے بھی وہ باخبر ہے۔ رہے وہ مقامات جو مقامات عامہ ہیں مثلاً ہوٹل ‘ سرائے اور ضافت کے گھر ہاسٹل وغیرہ جو پرائیویٹ رہائش گاہوں سے علیحدہ ہوں تو ان میں بغیر اجازت کی داخل ہونا جائز ہے جب اجازت کا کوئی سبب موجود نہ ہو۔ (لیس علیکم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لکم) (24 : 29) ” البتہ تمہارے لیے اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ایسے گھروں میں داخل ہو جائو جو کسی کے رہنے کی جگہ نہ ہوں اور جن میں تمہارے فائدے کی کوئی چیزہو “۔ واللہ یعلم ما تبدون وما تکتمون (24 : 29) ” تم جو کچھ ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ چھپاتے ہو ‘ سب کی اللہ کو خبر ہے “ ۔ اصل بات یہ ہے کہ اللہ تمہارے ظاہرو باطن کو جانتا ہے اور وہ تمہارے انگران ہے۔ تمہارے دلی خیالات سے وہ باخبر ہے کہ تمہارے دلی ارادے کیا ہیں۔ لہذا اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں تمہارے لیے ایک نہایت ہی مہذب انداز زندگی تجویز کرتا ہے۔ اس کا وہ نگراں بھی ہے اس کا مطالبہ یہ ہے کہ تم قلبی اطاعت کرو۔ واقعہ یہ ہے کہ قرآن کریم ایک مکمل نظام حیات ہے اس لیے وہ انسانی زندگی کے ایک نہایت ہی جزئی مسئلے کو اس قدر تفصیل سے لیتا ہے۔ کیونکہ اس نظام کا موضوع انسانی زندگی کا طرز عمل ہے خواہ وہ جزنی ہو یا تفصیلی۔ اس طرح اسلام نظام کے اصول و فروع کے درمیان ا کی توازن قائم کردیا جاتا ہے۔ امسیدذن کا قانون گھروں کو امن و سکون کی جگہ بنانے کی ایک تدبیر ہے۔ یہ تدبیر کرنا مقصود ہے کہ کسی گھر کے باشندے کو اچانک کسی ناپسند یدہ صورت حال سے دو چار ہوھنا نہ پڑے کیونکہ جب اچانک کوئی در آئے تو معلوم نہیں ہوتا کہ اندر کے لوگ کس حال میں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کسی کا سرکھلا ہو یا کسی ستر کھلاہو ” عورات “ کے لفظ سے وسیع تر مفہوم مراد ہے۔ اس سے صرف بدنی برہنگی ہی مراد نہیں ہے۔ اس سے کھانے پینے کے انتظامات ‘ لباس ‘ سازوسامان ‘ نشست و برخاست کے مقامات و اثاث الیت بھی مراد ہے جس کے بارے میں اہل بیت یہ نہیں چاہتے کہ جگہ اور حالات کی تیاری کے بغیر کوئی اندر آجائے اور اندر کی کیفیت کو وہ کم تر نفسیاتی حالات میں پائے۔ مثلاً کم لوگ اس بات کو پسند کریں گے کہ کوئی اندر آئے اور اندر کوئی رورہا ہو یا کوئی اندر آئے اور گھر والا غصے میں ہو۔ یا وہ کسی ایسے درد اور دکھ میں مبتلاہو جسے وہ عوام سے خفیہ رکھنا چاہتاہو۔ یہ سب عورات ہیں۔ اس ایک ” ادب “ کے ذریعے قرآن مجید بیشمار فوائد کو سمیٹ لیتا ہے۔ بعض کو ہم جانتے ہیں اور بعض کو جانتے بھی نہیں ہیں۔ پھر اہم بات یہ کہ اچانک نظر بازی سے بھی انسان بچ سکتا ہے جس کے نتیجے میں ناجائز خواہشات کے ابھرنے کے مواقع ہوتے ہیں اور بعد میں پھر یہ تعلقات برے تعلقات کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ غرض نظروں کے بہکنے اور دلوں کی اچانک کشش کو قابو میں رکھنے کے لیے ادب قرآنی نہایت ہی مفید اور اہم ذریعہ اصلاح ہے۔ اس کی حقیقت اور اہمیت صرف وہ لوگ جانتے ہیں جن کے اندر سب سے پہلے یہ ادب اترا اور اس کا آغاز رسول اللہ ﷺ نے اپنے عمل سے کیا۔ امام ابو دائود اور نسانی نے ابو عمر اوزاعی کی حدیث نقل کی ہے۔ وہ قیس ابن سعد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہماری رہائش گاہ پر تشریف لائے اور باہر سے کہا ” السلام علیکم “ تو سعد نے نرمی سے وعلیکم السلام کہا۔ قیس کہتے ہیں : میں نے سعد سے کہا کیا تم رسول اللہ ﷺ کو اجازت دینا نہیں چاہتے ہو۔ تو اس نے کہا چھوڑو ہم پر زیادہ سے زیادہ سلام کہہ دیں۔ رسول اللہ ﷺ نے دوسری بار کہا ” السلام علیکم ورحمتہ اللہ “ تو سعد نے پھر چپکے سے کہا وعلیکم السلام۔ اس کے بعد پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” السلام علیکم ورحمتہ اللہ “ اور پھر آپ لوٹ گئے۔ سعد گھر سے نکلے اور آواز دی حضور ﷺ میں سن رہا تھا اور سلام کا جواب بھی آہستگی سے دے رہا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ آپ کثرت سے ہم پر سلام کہہ دیں ۔ کہتے ہیں حضور اکرم ﷺ آپ کے ساتھ لوٹ آئے۔ سعد نے حکم دیا کہ حضور اکرم ﷺ کے لیے غسل کا پانی تیار کرو۔ آپ ﷺ نے غسل کیا۔ اس کے بعد سعد نے اون کا ایک پھولدار کپڑا حضور ﷺ کو پیش کیا۔ یہ زعفران یا درس گھاس سے رنگا ہوا تھا۔ حضور ﷺ نے اسے اوڑھا۔ پھر حضور ﷺ نے ہاتھ اٹھائے اور یہ دعا کی۔ الھم اجعل صلاتک ورحمتک علی آل سعد ابن عبادۃ۔۔ ” اے اللہ ‘ اپنا کرم اور رحمت ڈال دے آل سعد ابن عبادہ پر “۔ ابو دائود نے عبد اللہ ابن بشر کی حدیث نقل کی ہے۔ کہتے ہیں جب رسول اللہ ﷺ کسی قوم کے دروازے پر آتے تو دروازے کے سامنے منہ کر کے نہ کھڑے ہوتے یا اس کے دائیں طرف یا بائیں طرف کھڑے ہوتے اور فرماتے السلام علیکم۔۔۔ السلام علیکم۔ ان دنوں گھروں میں پردے نہ ہوتے تھے۔ ابو دائود نے حضرت ہذیل سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی آیا (عثمان کہتے ہیں سعد تھا) تو وہ نبی ﷺ کے دروازے پر کھڑا ہوگیا اور داخلہ کی اجازت چاہنے لگا۔ تو وہ دروازے کے سامنے منہ کر کے کھڑا ہوگیا۔ (عثمان نے کہا دروازے کے سامنے) ۔ اس پر نبی ﷺ نے اسے طریقہ بتایا اور کہا اس طرح کھڑے ہو جائو۔ کیونکہ اجازت طلب کرنے کا حکم اس لیے دیا گیا ہے کہ تم اندر کچھ دیکھ نہ سکو۔ صحیحین میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا اگر تمہارے گھر کے اندر کوئی شخص بغیر اجازت کے اندر آجائے اور تم ان پر ایک پتھر پھینکتے ہو اور اس سے اس کی آنکھ پھوٹ جاتی ہے تو تم پر کوئی جرم عائد نہ ہوگا۔ ابودائود نے حضرت ربعی سے روایت نقل کی ہے کہ بنی عامر کے ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے اندر آنے کی اجازت چاہی۔ جبکہ حضور ﷺ اپنے گھر میں تھے۔ تو اس نے کہا کیا میں ” گھس جائوں “ تو حضور ﷺ نے اپنے خادم سے کہا نکلو اور اس شخص کو اندر آنے کی اجازت طلب کرنے کا طریقہ سکھائو۔ اس سے کہو کہ تم یوں کہو ” السلام علیکم “ ۔ کیا میں داخل ہو جائوں۔ حضور ﷺ کی اس بات کو اس شخص نے سن لیا تو کہا ” السلام علیکم “ کیا میں داخل ہو جائوں “۔ تو اس کو نبی ﷺ نے اجازت دے دی اور وہ اندر آیا۔ ہیشم نے کہا ہے کہ مغیرہ نے کہا اور مغیرہ نے کہا مجاہد نے کہا ‘ عمر ایک ضرورت سے آئے اور اسے گرمی نے تنگ کر رکھا تھا وہ قریش کی ایک عورت کے خیموں کے سامنے آئے اور کہا ” السلام علیکم “ کیا میں اندر آجائوں “۔ تو اس نے کہا ” سلامتی کے ساتھ داخل ہو جائو “ ۔ حضرت عمر ؓ نے پھر اجازت چاہی۔ اس نے بھی پھر یہی جواب دیا حالانکہ وہ اس کے قدموں کے پاس کھڑا تھا۔ پھر حضرت عمر ؓ نے کہا تم اس طرح کہو ” ” ادخل “ داخل ہو جائو۔ اس پر اس عورت نے کہا ” داخل ہو جائو “ تو بعد وہ اندر آئے۔ عطا ابن ابی رباح نے حضرت ابن عباس سے نقل کیا ہے۔ کہتے ہیں میں نے کہا کیا میں اپنی یتیم بہنوں سے بھی اجازت طلب کروں جو میرے ہی گھر میں میری نگرانی میں ہیں۔ تو آپ نے فرمایا ‘ ہاں۔ میں نے پھر اس پر یہ سوال کیا تا کہ مجھے سا میں رخصت دے دی جائے۔ اس پر اس نے کہا تم اس بات کو پسند کرتے ہو کہ اسے ننگی حالت میں دیکھو۔ تو میں نے کہا ‘ نہیں۔ تو اس نے کہا پھر اجازت طلب کرو۔ تو میں نے پھر اس سے بحث کی تو انہوں نے کہا کہ کیا تم اللہ کے حکم کی اطاعت چاہتے ہو یا نہیں۔ میں نے کہا ہاں۔ ” تو پھر اجازت چاہو “ انہوں نے کہا۔ اور حدیث صحیح میں آتا ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کوئی اپنے گھر بھی رات کے وقت اچانک نہ جائے۔ بعض روایات میں آتا ہے۔ لیلا یتخونھم اور ایک دوسری حدیث میں آتا ہے کہ حضور اکرم ﷺ دن کے وقت مدینہ پہنچ گئے تو مدینہ کے سامنے آپ نے اونٹوں کو بٹھا دیا۔ آپ نے فرمایا انتظار کرو عشاء تک یعنی دن کے آخری حصے تک تاکہ ایسی عورت جس کے بال بکھیرے ہوں وہ بال سنوار لے۔ اور ایسی عورت جس کے بال صاف نہ ہوں وہ صاف کرلے۔ اسلام نے نہایت ہی مہذب طریقے مسلمانوں کو سکھائے اور رسول اللہ ﷺ کے صحابہ پر ان سے تجربہ کرایا۔ یہ آداب بلند ان کو دیئے جو نہایت ہی روشن اور نور ربی سے منور تھے۔ آج ہم بھی مسلمان ہیں لیکن ایسے معاملات کے بارے میں ہمارا احساس غلیظ ہے۔ ہم اجڈ ہوگئے ہیں۔ ایک شخص اپنے بھائی کے گھر جاتا ہے اور تیر کی طرح اندر گھس جاتا ہے اور رات اور دن کے کسی بھی وقت اس کا جی چاہے گھس جاتا ہے۔ وہ بار بار گھنیٹاں بجاتا ہے۔ اور تب چھوڑتا ہے کہ کوئی بادل نخواستہ اٹھے اور اس کے لیے دروازے کھولے۔ بعض اوقات گھر میں ٹیلیفون بھی ہوتا ہے۔ یہ بڑی سہولت سے آنے کی اجازت طلب کرسکتا ہے ‘ وقت مقرر کرسکتا ہے۔ لیکن ہم نے اسلام کے نظام استیذان کو ترک کردیا ہے اور وقت بےقوت ہم دوسرے کے ہاں وارد ہوجاتے ہیں اور اب تو ہم نے بغیر ملاقات چلے جانے کو معیوب سمجھ لیا ہے۔ اگر چہ اہل بیت نہ چاہتے ہوں۔ ہمارا رویہ یہ ہوتا ہے کہ جب ہم آگئے تو ہمیں گھس جانا ہی ہے۔ بغیر کسی باک اور انتظار کے۔ ہم مسلمان ہیں لیکن ہم اس وقت اپنے بھائیوں کو ڈسٹرب کردیتے ہیں جب وہ کھانا کھانے بیٹھے ہوتے ہیں۔ اب اگر وہ بھائی کھانا پیش نہیں کرتا تو ہم خفا ہوجاتے ہیں۔ ہم رات دیر تک ملنے چلے جاتے ہیں۔ اگر وہ اپنے ہاں رات گزار نے کی دعوت نہیں پیش کرتا تو ہم خفا ہوجاتے ہیں اور ہم اس معاملے میں کسی کا کوئی عذر سننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ یہ محض اس لیے ہوتا ہے کہ ہم اسلامی آداب کے رنگ میں رنگے ہوئے نہیں ہیں۔ ہم اپنی خواہشات کو اس ضابطے کے تابع کرنا نہیں چاہتے جو رسول اللہ ﷺ لائے ہیں۔ اور ہم دراصل ایک غلط جاہلی رواج کے غلام بن گئے ہیں جس پر اللہ کی جانب سے کوئی دلیل نہیں ہے۔ پھر زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ ہم ان لوگوں کو دیکھتے ہیں جنہوں نے اسلام قبول نہیں کیا۔ وہ بعض ایسے آداب پر عمل پیرا ہیں جو ہمارے دین جیسے ہیں۔ اور وہ ایسے ہی آداب ہیں جو ہمارے دین نے ہمیں سکھائے ہیں۔ ہم ان غیر مسلموں کو دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ انہوں نے ہمارے دین کے آداب اپنا رکھے ہیں اور ہمیں اپنے دین کا پتہ نہیں ہے۔ الٹے ہم ان سے متاثر ہوجاتے ہیں اور ان کو نادر آداب سمجھتے ہیں۔ اس مقام پر پہنچ کر بھی ہم اپنے دین کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اور مطمئن ہیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ گھروں میں داخل ہونے کی اجازت کے آداب کے بعد جس کے ذریعے امتناعی اور احتیاطی تدابیر اختیار کی گئی ہیں کہ کوئی نظر کے فتنے میں نہ پڑجائے اور اس کے برے نتائج برآمد ہوں۔ اب اہل ایمان کو عمومی تلقین کی جاتی ہے کہ وہ اپنی نظروں کی حفاظت کریں کیونکہ نظر بازی ہی انسان کو گمراہی اور بےراہ روی تک لے جاتی ہے۔ (قل للمئو منین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بما یصنعون وقل۔۔۔۔۔۔ تفلحون ) (30 : 31) ” اے نبی ﷺ مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ‘ یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے ‘ جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر رہتا ہے ۔ اور اے نبی ﷺ ‘ مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں ‘ اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں ‘ اور اپنا بنائو سنگھار نہ دکھائیں۔ بجز اس کے جو خود ظاہر ہوجائے ‘ اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں۔ وہ اپنا بنائو سنگھار ظاہر کریں مگر ان لوگوں کے سامنے : شوہر ‘ باپ ‘ شوہروں کے باپ ‘ اپنے بیٹے ‘ شوہروں کے بیٹے ‘ بھائی ‘ بھائیوں کے بیٹے ‘ بہنوں کے بیٹے ‘ اپنے میل جول کی عورتیں ‘ اپنے لونڈی غلام ‘ وہ زیر دست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں ‘ اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں۔ وہ اپنے پائوں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپارکھی ہو ‘ اس کا لوگوں کو علم ہوجائے۔ اے مومنو ‘ تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو ‘ توقع ہے کہ فلاح پائو گے “۔ ان آیات کا نصب العین یہ ہے کہ ایک نہایت ہی پاک و صاف سوسائٹی قائم کی جائے جس کی حالت یہ نہ ہو کہ ہر جگہ اور ہر وقت شہوت ہی کا ہیجان ہو اور ہر وقت گوشت و پوست کی لذت اندوزی کے سامان ہوں ‘ کیونکہ ایسے اقدامات جن سے ہر وقت جنسی ہیجان پیدا کیا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں اس قدر جنسی پیاس پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ پھر کبھی بجھتی نہیں۔ ایک نظر بد یا فتنہ انگیز ادا یا زیب وزینت کی نمائش اور عریانی جسم کی نمائش دوسروں کے جذبات میں آگ لگا سکتی ہے اور انسان کی خوابیدہ حیوانیت کو نہ صرف جگا دیا جاتا ہے بلکہ دوسرے کے اندر بےچینی پیدا کردی جاتی ہے۔ دوسرے فریق کو پھر اپنے اوپر قابو نہیں رہتا۔ یا تو پھر انسان بےقید شہوت رانی کا شکار ہوتا ہے اور یا پھر اس کے اعصاب اور نفسیات کے اندر ہیجانی امراض پیدا ہوجاتی ہیں اور اس طرح ایک انسان عذاب میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اسلام جو پاک اور صاف ستھری سوسائٹی تعمیر کرنا چاہتا ہے اس کے قیام کے لیے وہ پہلی تدبیر یہ اختیار کرتا ہے کہ جذبات کو ہیجان سے بچایا جائے۔ وہ فریقین کے اندر پائے جانے والے فطری میلان کو اپنی جگہ باقی رکھتا ہے اور اپنے فطری انداز کے مطابق اس فطری جذبہ کو محفوظ اور تعمیری انداز دیتا ہے۔ انسانیت پر ایک دور ایسا بھی آیا کہ نظریہ اباحیت پھیل گیا۔ حنین کے درمیان آزادانہ گفتگو ‘ آزادانہ اختلاط ‘ گپ شپ کو عام کردیا گیا ‘ یہاں تک کہ بچوں کو جنسی تعلیم دی جانے لگی اور خفیہ ترین باتوں سے پردہ اٹھا دیا گیا۔ یہ باتیں اور اقدامات اسی نظریہ کے تحت کیے گئے کہ یہ امور جنسی میلان اور جنسی جذبات کو دبانے کے نقصانات سے بچاتے ہیں اور لوگوں کو یہ مواقع ملتے ہیں کہ وہ آزادانہ طور پر جو چاہیں جنسی معاہدے کریں۔ یہ اجازت ان نظریات نے اس لیے دی کہ لوگ جنسی میدان میں تشدد اور دوسری غلط کاریاں نہ کریں۔ یہ جنسی آزادی اس وقت رائج ہوئی جب انسان کے بارے میں خالص مادی نظریات رائچ ہوئے اور انسان کو محض حیوان قرار دیا گیا۔ خصوصاً فرائیڈ کے جنجسی خیالات کی ترویج کے بعد۔ لیکن میں نے خود ان نظریات کو ایک ایسے ملک میں دیکھا جس میں مکمل اباحیت تھی اور جس میں مذہبی ‘ اخلاقی اور انسانی قیود میں سے کوئی قید نہ تھی لیکن میں نے مشاہدہ کیا کہ یہ تمام نظریات محض مفروضے ہیں اور ایسے ممالک کے حالات ان کی پوری پوری تکذیب کرتے ہیں۔ ایے ممالک کا ہم نے ملاحظہ کیا ہے جن میں جسمانی ملاپ ‘ عریانی اور جنسی بےراہ روی پر کوئی قید و بند نہیں ہے۔ وہاں اس کی تمام ممکن شکلیں جائز ہیں لیکن ان ممالک میں جنسی تعلقات نہ مہذب ہو سکے ‘ نہ ان کے اندر کوئی باقاعدگی پیدا ہوئی بلکہ جنسی پیاس جنون کی حد تک بڑھ گئی اور اس قدر بڑھی کہ تسکین کا نام و نشان ختم ہوگیا۔ ان ممالک میں جنسی اور نفسیاتی بیماریوں کا طوفان لڈ آیا اور ایسے مسائل دیکھنے میں آئے جو جنسی محرومی سے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ مسائل ان معاشرو وں میں بکثرت پائے جاتے ہیں جن میں جنسی انار کی پر کوئی قید نہیں ہے۔ یہ مسائل محض اس لیے پیدا ہوئے کہ ایسے ممالک میں کوئی جنسی قید اور ضابطہ نہ تھا۔ جنسی دو ستیاں بغیر کسی رکاوٹ کے آزاد تھیں اور جنسی تعلقات اور ملاپ مویشیوں کی طرح راستوں میں دیکھا جاتا تھا۔ جنسی حرکات اور نظربازیاں تو بالکل معمولی چیز تھیں۔ ان ممالک کے تفصیلی واقعات اور تفصیلی حرکات پر بحث کا یہاں موقع نہیں ہے۔ تفصیلات کے لیے دیکھئے محمد قطب کی کتاب (الانسان بین المادیہ والاسلام) باب مسائل جنس۔ مزید تفصیلات میری زیر طبع کتاب (امریکا التی رابت) میں دیکھئے۔ مرد اور عورت کے اندر ایک دوسرے کے لیے کشش ایک فطری امر ہے اور یہ انسان کے اندر تخلیقی طور پر ودیعت کی گئی ہے کیونکہ اس کرئہ ارض پر زندگی کے تسلسل کا دار و مدار اسی پر ہے۔ انسان نے اس زمین پر منصب خلافت ارضی کی ذمہ داریوں کو وپرا کرنا ہے۔ اس ذمہ داری کا بڑا اور اہم حصہ یہاں زندگی کے تسلسل کو قائم رکھنا ہے۔ اس لیے یہ کشش ایک دائمی کشش ہے۔ بعض اوقات یہ کشش سو جاتی ہے۔ پھر جاگ اٹھتی ہے۔ جو نہی یہ جاگتی ہے تو یہ فرد تب ہوتی ہے جب جنبن کے درمیان ملاپ ہو کر تسکین ہوجائے۔ اگر یہ جسمانی تسکین نہ ہو تو اس کا اثر انسانی اعصاب پر پڑتا ہے اور ایسے حالات میں انسان پر شدید گھٹن محسوس کرتا ہے۔ پھر انسان کو ایک نظر بھی اکساتی ہے ‘ ایک حرکت بھی اکساتی ہے۔ ایک معمولی سی ہنسی بھی ابھارتی ہے۔ محض گپ شپ کے نتیجے میں انسان بےقابو ہوجاتا ہے اور ایک خوبصورت آواز بھی تڑپا دیتی ہے لہٰذا محفوظ طریقہ یہ ہے کہ سوسائٹی کے اندر انسان کو ایسے مواقع سے محفوظ رکھا جائے تاکہ اس کا جنسی ملان طبعی حدود کے اندر رہے اور جائز اور قدرتی ذرائع سے اس کی تسکین کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ اسلام یہی منہاج اختیار کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلام انسان کی قوتوں کو دوسری تعمیری سمتوں کی طرف بھی موڑ دیتا ہے۔ زندگی کے دوسرے کام ایسے ہوتے ہیں جو جسم و جان اور خون اور پوست کے اس ملاپ سے زیادہ اہم ہوتے ہیں ‘ لہٰذا انسان کے سامنے صرف شہوانی تسکین ہی واحد مقصد نہیں رہتا۔ زیر تفسیر آیات میں اسلام کی ایسی ہی پالیسیوں کو جاری کیا گیا ہے یعنی ایسے مواقع کم کیے جائیں جن میں ہیجان پیدا ہوتا ہو۔ لوگوں کو اعلیٰ مقاصد میں مصروف کیا جائے اور پھر فریقین کے لیے جائز تسکین کے مواقع پیدا کیے جائیں۔
Top