Maarif-ul-Quran - An-Noor : 27
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا وَ تُسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَهْلِهَا١ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : تم نہ داخل ہو لَا تَدْخُلُوْا : تم نہ داخل ہو بُيُوْتًا : گھر (جمع) غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ : اپنے گھروں کے سوا حَتّٰى : یہانتک کہ تَسْتَاْنِسُوْا : تم اجازت لے لو وَتُسَلِّمُوْا : اور تم سلام کرلو عَلٰٓي : پر۔ کو اَهْلِهَا : ان کے رہنے والے ذٰلِكُمْ : یہ خَيْرٌ : بہتر ہے لَّكُمْ : تمہارے لیے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَذَكَّرُوْنَ : تم نصیحت پکڑو
اے ایمان والو ! مت جایا کرو کسی گھر میں اپنے گھر کے سوائے جب تک بول چال نہ کرلو، اور سلام کرلو ان گھر والوں پر یہ بہتر ہے تمہارے حق میں تاکہ تم یاد رکھو،
خلاصہ تفسیر
حکم پنجم استیذان اور آداب ملاقات باہمی کسی کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اجازت حاصل کرنا
سورة نور کے شروع ہی سے فواحش اور بےحیائی کی روک تھام کے لئے ان سے متعلقہ جرائم کی سزاؤں کا ذکر اور بےدلیل کسی پر تہمت لگانے کی مذمت کا بیان تھا آگے انہی فواحش کے انسداد اور عفت و عصمت کے تحفظ کے لئے ایسے احکام دیئے گئے ہیں جن سے ایسے حالات ہی پیدا نہ ہوں جہاں سے بےحیائی کو راستہ ملے انہی احکام میں سے استیذان کے مسائل و احکام ہیں کہ کسی شخص کے مکان میں بغیر اس کی اجازت کے داخل ہونا یا اندر جھانکنا ممنوع کردیا گیا جس میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ غیر محرم عورتوں پر نظر نہ پڑے۔ آیات مذکورہ میں مختلف قسم کے مکانات کے مختلف احکام بیان کئے گئے ہیں۔
مکانات کی چار قسمیں ہیں۔ ایک خاص اپنے رہنے کا مکان، جس میں کسی دوسرے کے آنے کا احتمال نہیں۔ دوسرے وہ مکان جس میں کوئی اور بھی رہتا ہو خواہ وہ اپنے محارم ہی کیوں نہ ہوں یا کسی اور کے اس میں آجانے کا احتمال ہو۔ تیسری قسم وہ مکان جس میں کسی کا بالفعل رہنا یا نہ رہنا دونوں کا احتمال ہو۔ چوتھی قسم وہ مکان جو کسی خاص شخص کی رہائش کے لئے مخصوص نہ ہو جیسے مسجد مدرسہ، خانقاہ وغیرہ عام لوگوں کے انتفاع اور آمد و رفت کی جگہیں۔ ان میں قسم اول کا حکم تو ظاہر تھا کہ اس میں جانے کے لئے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں اس لئے اس کا ذکر ان آیات میں صراحتہ نہیں کیا گیا باقی تین قسموں کے مکانات کے احکام اگلی آیتوں میں بیان فرماتے ہیں کہ اے ایمان والو تم اپنے (خاص رہنے کے) گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں (جن میں دوسرے لوگ رہتے ہوں خواہ وہ ان کی ملک ہو یا کسی سے عاریتہ رہنے کو لے لئے ہوں یا کرایہ پر لئے ہوں) داخل مت ہو جب تک اجازت حاصل نہ کرلو (اور اجازت لینے سے پہلے) ان کے رہنے والوں کو سلام نہ کرلو (یعنی اول باہر سے سلام کر کے پھر ان سے پوچھو کہ کیا ہمیں اندر آنے کی اجازت ہے اور بغیر اجازت لئے ویسے ہی مت گھس جاؤ۔ اور اگرچہ بعض لوگ اجازت لینے کو اپنی شان کے خلاف سمجھیں لیکن واقع میں) یہ ہی تمہارے لئے بہتر ہے (کہ اجازت لینے کو اپنی شان کے خلاف سمجھیں لیکن واقع میں) یہ ہی تمہارے لئے بہتر ہے (کہ اجازت لے کر جاؤ اور یہ بات تم کو اس لئے بتائی) تاکہ تم خیال رکھو (اور اس پر عمل کرو کہ اس میں بڑی حکمتیں ہیں۔ یہ حکم ہوا مکانات کی قسم دوم کا) پھر اگر ان گھروں میں تم کو کوئی آدمی معلوم نہ ہو (خواہ واقع میں وہاں کوئی ہو یا نہ ہو) تو (بھی) ان گھروں میں نہ جاؤ جب تک تم کو اجازت نہ دی جائے (کیونکہ اول تو یہ احتمال ہے کہ اس پر کوئی آدمی موجود ہو اگرچہ تمہیں معلوم نہیں اور واقع میں کوئی موجود نہ ہو تو دوسرے کے خالی مکان میں بھی بلا اجازت گھس جانا، دوسرے کی ملک میں اس کی اجازت کے بغیر تصرف کرنا ہے جو ناجائز ہے۔ یہ حکم ہوا قسم سوم کا) اور اگر (اجازت طلب کرے کے وقت) تم سے یہ کہہ دیا جاوے کہ (اس وقت) لوٹ جاؤ تو تم لوٹ آیا کرو یہی بات تمہارے لئے بہتر ہے (اس بات سے کہ وہیں جم جاؤ کہ کبھی تو باہر نکلیں گے کیونکہ اس میں اپنی ذلت اور دوسرے پر بلا وجہ دباؤ ڈال کر تکلیف پہنچانا ہے اور کسی مسلمان کو ایذاء دینا حرام ہے) اور اللہ تعالیٰ کو تمہارے سب اعمال کی خبر ہی (اگر خلاف حکم کرو گے سزا پاؤ گے اور یہی حکم اس صورت کا ہے کہ گھر والوں نے اگرچہ لوٹ جانے کو کہا نہیں مگر کوئی بولا بھی نہیں۔ ایسی حالت میں تین مرتبہ استیذان اس احتیاط پر کرلیا جاوے کہ شاید سنا نہ ہو۔ تین مرتبہ تک جب کوئی جواب نہ آوے تو لوٹ آنا چاہئے جیسا کہ حدیث میں اس کی تصریح موجود ہے) اور تم کو ایسے مکانات میں (بغیر خاص اجازت کے) چلے جانے میں گناہ نہ ہوگا جن میں (گھر کے طور پر) کوئی نہ رہتا ہو (اور) ان میں تمہاری برت ہو (یعنی ان مکانات کے برتنے اور استعمال کرنے کا تمہیں حق ہو، یہ حکم ہے قسم چہارم کا جو رفاہ عام کے مکانات ہیں اور جن سے عام لوگوں کے منافع متعلق ہیں۔ تو وہاں جانے کے عادة عام اجازت ہوتی ہے) اور تم جو کچھ علانیہ کرتے ہو یا پوشیدہ کرتے ہو اللہ تعالیٰ سب جانتا ہے۔ (اس لئے ہر حال میں تقوی اور خوف خدا لازم ہے۔)

معارف و مسائل
قرآنی آداب معاشرت کا ایک اہم باب کسی کی ملاقات کو جاؤ تو پہلے اجازت لو بغیر اجازت کسی کے گھر میں داخل نہ ہو
افسوس ہے کہ شریعت اسلام نے جس قدر اس معاملے کا اہتمام فرمایا کہ قرآن حکیم میں اس کے مفصل احکام نازل ہوئے اور رسول اللہ ﷺ نے اپنے قول و عمل سے اس کی بڑی تاکید فرمائی، اتنا ہی آج کل مسلمان اس سے غافل ہوگئے۔ لکھے پڑھے نیک لوگ بھی نہ اس کو کوئی گناہ سمجھتے ہیں نہ اس پر عمل کرنے کی فکر کرتے ہیں۔ دنیا کی دوسری مہذب قوموں نے اس کو اختیار کر کے اپنے معاشرہ کو درست کرلیا مگر مسلمان ہی اس میں سب سے پیچھے نظر آتے ہیں۔ اسلامی احکام میں سب سے پہلے سستی اسی حکم میں شروع ہوئی بہرحال استیذان قرآن کریم کا وہ واجب التعمیل حکم ہے کہ اس میں ذرا سی سستی اور تبدیلی کو بھی حضرت ابن عباس انکار آیت قرآن کے شدید الفاظ سے تعبیر فرما رہے ہیں اور اب تو لوگوں نے واقعی ان احکام کو ایسا نظر انداز کردیا ہے کہ گویا ان کے نزدیک یہ قرآن کے احکام ہی نہیں۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون
استیذان کی حکمتیں اور مصالح مہمہ
حق تعالیٰ جل شانہ نے ہر انسان کو جو اس کے رہنے کی جگہ عطا فرمائی خواہ مالکانہ ہو یا کرایہ غیرہ پر بہرحال اس کا گھر اس کا مسکن ہے اور مسکن کی اصل غرض سکون و راحت ہے قرآن عزیز نے جہاں اپنی اس نعمت گرانمایہ کا ذکر فرمایا ہے اس میں بھی اس طرف اشارہ ہے فرمایا جَعَلَ لَكُمْ مِّنْۢ بُيُوْتِكُمْ سَكَنًا، یعنی اللہ نے تمہارے گھروں سے تمہارے لئے سکون و راحت کا سامان دیا اور یہ سکون و راحت جبھی باقی رہ سکتا ہے کہ انسان دوسرے کسی شخص کی مداخلت کے بغیر اپنے گھر میں اپنی ضرورت کے مطابق آزادی سے کام اور آرام کرسکے۔ اس کی آزادی میں خلل ڈالنا گھر کی اصل مصلحت کو فوت کرنا ہے جو بڑی ایذاء و تکلیف ہے۔ اسلام نے کسی کو بھی ناحق تکلیف پہنچانا حرام قرار دیا ہے۔ استیذان کے احکام میں ایک بڑی مصلحت لوگوں کی آزادی میں خلل ڈالنے اور ان کی ایذا رسانی سے بچنا ہے جو ہر شریف انسان کا عقلی فریضہ بھی ہے۔ دوسری مصلحت خود اس شخص کی ہے جو کسی ملاقات کے لئے اس کے پاس گیا ہے کہ جب وہ اجازت لے کر شائستہ انسان کی طرح ملے گا تو مخاطب بھی اس کی بات قدر و منزلت سے سنے گا اور اگر اس کی کوئی حاجت ہے تو اس کے پورا کرنے کا داعیہ اس کے دل میں پیدا ہوگا۔ بخلاف اس کے کہ وحشیانہ طرز سے کسی شخص پر بغیر اس کی اجازت کے مسلط ہوگیا تو مخاطب اس کو ایک بلائے ناگہانی سمجھ کر دفع الوقتی سے کام لے گا خیر خواہی کا داعیہ اگر ہوا بھی تو مضحمل ہوجائے گا اور اس کو ایذاء مسلم کا گناہ الگ ہوگا۔
تیسری مصلحت فواحش اور بےحیائی کا انسداد ہے کہ بلا اجازت کسی کے مکان میں داخل ہوجانے سے یہ بھی احتمال ہے کہ غیر محرم عورتوں پر نظر پڑے اور شیطان دل میں کوئی مرض پیدا کر دے اور اسی مصلحت سے احکام استیذان کو قرآن کریم میں حد زنا، حد قذف وغیرہ احکام کے متصل لایا گیا ہے۔
چوتھی مصلحت یہ ہے کہ انسان بعض اوقات اپنے گھر کی تنہائی میں کوئی ایسا کام کر رہا ہوتا ہے جس پر دوسروں کو اطلاع کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔ اگر کوئی شخص بغیر اجازت کے گھر میں آجائے تو وہ جس چیز کو دوسروں سے پوشیدہ رکھنا چاہتا تھا اس پر مطلع ہوجائے گا۔ کسی کے پوشیدہ راز کو زبردستی معلوم کرنے کی فکر بھی گناہ اور دوسروں کے لئے موجب ایذا ہے۔ استیذان کے کچھ مسائل تو خود آیات مذکورہ میں آگئے ہیں پہلے ان کی تفصیل و تشریح دیکھئے باقی متفرق مسائل بعد میں لکھے جاویں گے۔
مسئلہان آیات میں يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا سے خطاب کیا گیا جو مردوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ مگر عورتیں بھی اس حکم میں داخل ہیں جیسا کہ عام احکام قرآنیہ اسی طرح مردوں کو مخاطب کر کے آتے ہیں عورتیں بھی اس میں شامل ہوتی ہیں بجز مخصوص مسائل کے جن کی خصوصیت مردوں کے ساتھ بیان کردی جاتی ہے۔ چناچہ نساء صحابہ کا بھی یہی معمول تھا کہ کسی کے گھر جاویں تو پہلے ان سے استیذان کریں۔ حضرت ام ایاس فرماتی ہیں کہ ہم چار عورتیں اکثر حضرت صدیقہ عائشہ کے پاس جایا کرتی تھیں اور گھر میں جانے سے پہلے ان سے استیذان کرتی تھیں جب وہ اجازت دیتی تو اندر جاتی تھیں (ابن کثیر بحوالہ ابن ابی حاتم)
مسئلہ۔ اسی آیت کے عموم سے معلوم ہوا کہ کسی دوسرے شخص کے گھر میں جانے سے پہلے استیذان کا حکم عام ہے مرد عورت محرم غیر محرم سب کو شامل ہے۔ عورت کسی عورت کے پاس جائے یا مرد مرد کے پاس، سب کو استیذان کرنا واجب ہے اسی طرح ایک شخص اگر اپنی ماں اور بہن یا دوسری محرم عورتوں کے پاس جائے تو بھی استیذان کرنا چاہئے۔ امام مالک نے موطاء میں مرسلاً عطاء بن یسار سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ کیا میں اپنی والدہ کے پاس جاتے وقت بھی استیذان کروں آپ نے فرمایا ہاں استیذان کرو۔ اس شخص نے کہا یا رسول اللہ ! میں تو اپنی والدہ ہی کے ساتھ گھر میں رہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا پھر بھی اجازت لئے بغیر گھر میں نہ جاؤ اس نے پھر عرض کیا یا رسول اللہ میں تو ہر وقت ان کی خدمت میں رہتا ہوں آپ نے فرمایا پھر بھی اجازت لئے بغیر گھر میں نہ جاؤ کیا تمہیں یہ بات پسند ہے کہ اپنی والدہ کو ننگی دیکھو اس نے کہا کہ نہیں۔ فرمایا اسی لئے استیذان کرنا چاہئے کیونکہ یہ احتمال ہے کہ وہ گھر میں کسی ضرورت سے ستر کھولے ہوئے ہوں۔ (مظہری)
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ آیت قرآن میں غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ آیا ہی اس میں بُيُوْتِكُمْ سے مراد وہ بیوت اور گھر ہیں جن میں انسان تنہا خود ہی رہتا ہو۔ والدین، بہن بھائی وغیرہ اس میں نہ ہوں۔
مسئلہ۔ جس گھر میں صرف اپنی بیوی رہتی ہو اس میں داخل ہونے کے لئے اگرچہ استیذان واجب نہیں مگر مستحب اور طریق سنت یہ ہے کہ وہاں بھی اچانک بغیر کسی اطلاع کے اندر نہ جائے بلکہ داخل ہونے سے پہلے اپنے پاؤں کی آہٹ سے یا کھنکار سے کسی طرح پہلے باخبر کر دے پھر داخل ہو۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کی زوجہ محترمہ فرماتی ہیں کہ عبداللہ جب کبھی باہر سے گھر میں آتے تھے تو دروازہ میں کھنکار کر پہلے اپنے آنے سے باخبر کردیتے تھے تاکہ وہ ہمیں کسی ایسی حالت میں نہ دیکھیں جو ان کو پسند نہ ہو (ابن کثیر بحوالہ ابن جریر وقال اسنادہ صحیح) اور اس صورت میں استیذان کا واجب نہ ہونا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن جریج نے حضرت عطاء سے دریافت کیا کہ کیا ایک شخص کو اپنی بیوی کے پاس جانے کے وقت بھی استیذان ضروری ہے انہوں نے فرمایا کہ نہیں۔ ابن کثیر نے اس روایت کو نقل کر کے فرمایا ہے کہ اس سے مراد یہی ہے کہ واجب نہیں لیکن مستحب اور اولی وہاں بھی ہے۔
استیذان کا مسنون طریقہ۔ آیت میں جو طریقہ بتلایا گیا ہے وہ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰٓي اَهْلِهَا یعنی کسی کے گھر میں اس وقت تک داخل نہ ہو جب تک دو کام نہ کرلو، اول استیناس، اس کے لفظی معنی طلب انس کے ہیں۔ مراد اس سے جمہور مفسرین کے نزدیک استیذان یعنی اجازت حاصل کرنا ہے استیذان کو بلفظ استیناس ذکر کرنے میں اشارہ اس طرف ہے کہ داخل ہونے سے پہلے اجازت حاصل کرنے میں مخاطب مانوس ہوتا ہے اس کو وحشت نہیں ہوتی۔ دوسرا کام یہ ہے کہ گھر والوں کو سلام کرو۔ اس کا مفہوم بعض حضرات مفسرین نے تو یہ لیا کہ پہلے اجازت حاصل کرو اور جب گھر میں جاؤ تو سلام کرو۔ قرطبی نے اسی کو اختیار کیا ہے کہ اس مفہوم کے اعتبار سے آیت میں کوئی تقدیم تاخیر نہیں پہلے استیذان کیا جائے جب اجازت مل جائے اور گھر میں جائیں تو سلام کریں اور اسی کو حضرت ابو ایوب انصاری کی حدیث کا مقتضی قرار دیا ہے اور ماوردی نے اس میں یہ تفصیل کی ہے کہ اگر اجازت لینے سے پہلے گھر کے کسی آدمی پر نظر پڑجائے تو پہلے سلام کرے پھر اجازت طلب کرے ورنہ پہلے اجازت لے اور جب گھر میں جائے تو سلام کرے مگر عام روایات حدیث سے جو طریقہ مسنون معلوم ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ پہلے باہر سے سلام کرے السلام علیکم اس کے بعد اپنا نام لے کر کہے کہ فلاں شخص ملنا چاہتا ہے۔
امام بخاری نے الادب المفرد میں حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جو شخص سلام سے پہلے استیذان کرے اس کو اجازت نہ دو (کیونکہ اس نے مسنون طریقہ کو چھوڑ دیا) (روح المعانی) اور ابوداؤد کی حدیث میں ہے کہ بنی عامر کے ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے اسی طرح استیذان کیا کہ باہر سے کہا أ الج کیا میں گھس جاؤں۔ آپ نے اپنے خادم سے فرمایا کہ یہ شخص استیذان کا طریقہ نہیں جانتا باہر جا کر اس کو طریقہ سکھلاؤ کہ یوں کہے السلام علیکم أ ادخل یعنی کیا میں داخل ہوسکتا ہوں۔ ابھی یہ خادم باہر نہیں گیا تھا کہ اس نے خود حضور کے کلمات سن لئے اور اس طرح کہا السلام علیکم أ ادخل۔ تو آپ نے اندر آنے کی اجازت دے دی (ابن کثیر) اور بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت جابر سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لا تاذنوا لمن لم بیدا بالسلام یعنی جو شخص پہلے سلام نہ کرے اس کو اندر آنے کی اجازت نہ دو (مظہری) اس واقعہ میں رسول اللہ ﷺ نے دو اصلاحیں فرمائیں۔ ایک یہ کہ پہلے سلام کرنا چاہئے۔ دوسرے یہ کہ اس نے ادخل کے بجائے الج کا لفظ استعمال کیا تھا۔ یہ نامناسب تھا کیونکہ الج ولوج سے مشتق ہے جس کے معنے کسی تنگ جگہ میں گھسنے کے ہیں یہ تہذیب الفاظ کے خلاف تھا۔ بہرحال ان روایات سے یہ معلوم ہوا کہ آیت قرآن میں جو سلام کرنے کا ارشاد ہے یہ سلام استیذان ہے جو اجازت حاصل کرنے کے لئے باہر سے کیا جاتا ہے تاکہ اندر جو شخص ہے وہ متوجہ ہوجائے اور جو الفاظ اجازت طلب کرنے کے لئے کہے گا وہ سن لے۔ گھر میں داخل ہونے کے وقت حسب معمول دوبارہ سلام کرے۔
مسئلہ۔ پہلے سلام اور پھر داخل ہونے کی اجازت لینے کا جو بیان اوپر احادیث سے ثابت ہوا اس میں بہتر یہ ہے کہ اجازت لینے والا خود اپنا نام لے کر اجازت طلب کرے جیسا کہ حضرت فاروق اعظم کا عمل تھا کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کے دروازہ پر آ کر یہ الفاظ کہے۔ السلام علی رسول اللہ السلام علیکم ایدخل عمر یعنی سلام کے بعد کہا کہ کیا عمر داخل ہوسکتا ہے (رواہ قاسم بن اصبغ و ابن عبدالبر فی التمہید عن ابن عباس عن عمر۔ ابن کثیر) اور صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری حضرت عمر کے پاس گئے تو استیذان کے لئے یہ الفاظ فرمائے۔ السلام علیکم ھذا ابو موسیٰ السلام علیکم ھذا الاشعری (قرطبی) اس میں بھی پہلے اپنا نام ابو موسیٰ بتلایا پھر مزید وضاحت کے لئے اشعری کا ذکر کیا اور یہ اس لئے کہ جب تک آدمی اجازت لینے والے کو پہچانے نہیں تو جواب دینے میں تشویش ہوگی۔ اس تشویش سے بھی مخاطب کو بچانا چاہئے۔
مسئلہ۔ اور اس معاملہ میں سب سے برا وہ طریقہ ہے جو بعض لوگ کرتے ہیں کہ باہر سے اندر داخل ہونے کی اجازت مانگی اپنا نام ظاہر نہیں کیا۔ اندر سے مخاطب نے پوچھا کون صاحب ہیں۔ تو جواب میں یہ کہہ دیا کہ میں ہوں، کیونکہ یہ مخاطب کی بات کا جواب نہیں، جس نے اول آواز سے نہیں پہچانا وہ میں کے لفظ سے کیا پہچانے گا۔
خطیب بغدادی نے اپنے جامع میں علی بن عاصم واسطی سے نقل کیا ہے کہ وہ بصرہ گئے تو حضرت مغیرہ بن شعبہ کی ملاقات کو حاضر ہوئے۔ دروازہ پر دستک دی۔ حضرت مغیرہ نے اندر سے پوچھا کون ہے تو جواب دیا انا (یعنی میں ہوں) تو حضرت مغیرہ نے فرمایا کہ میرے دوستوں میں تو کوئی بھی ایسا نہیں جس کا نام انا ہو پھر باہر تشریف لائے اور ان کو حدیث سنائی کہ ایک روز حضرت جابر بن عبداللہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اجازت لینے کے لئے دروازہ پر دستک دی۔ آنحضرت ﷺ نے اندر سے پوچھا کون صاحب ہیں ؟ تو جابر نے یہی لفظ کہہ دیا انا یعنی میں ہوں آپ نے بطور زجرو تنبیہ کے فرمایا انا انا یعنی انا انا کہنے سے کیا حاصل ہے اس سے کوئی پہچانا نہیں جاتا۔
مسئلہ۔ اس سے بھی زیادہ برا یہ طریقہ ہے جو آج کل بہت سے لکھے پڑھے لوگ بھی استعمال کرتے ہیں کہ دروازہ پر دستک دی جب اندر سے پوچھا گیا کہ کون صاحب ہیں تو خاموش کھڑے ہیں کوئی جواب ہی نہیں دیتے۔ یہ مخاطب کو تشویش میں ڈالنے اور ایذا پہنچانے کا بدترین طریقہ ہے جس سے استیذان کی مصلحت ہی فوت ہوجاتی ہے۔
مسئلہ۔ روایات مذکورہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ استیذان کا یہ طریقہ بھی جائز ہے کہ دروازہ پر دستک دے دیجائے بشرطیکہ ساتھ ہی اپنا نام بھی ظاہر کر کے بتلا دیا جائے کہ فلاں شخص ملنا چاہتا ہے۔
مسئلہ۔ لیکن اگر دستک ہو تو اتنی زور سے نہ دے کہ جس سے سننے والا گھبرا اٹھے بلکہ متوسط انداز سے دے جس سے اندر تک آواز تو چلی جائے لیکن کوئی سختی ظاہر نہ ہو۔ جو لوگ رسول اللہ ﷺ کے درازہ پر دستک دیتے تھے تو ان کی عادت یہ تھی کہ ناخنوں سے دروازہ پر دستک دیتے تاکہ حضور ﷺ کو تکلیف نہ ہو (رواہ الخطیب فی جامعہ۔ قرطبی) جو شخص استیذان کے مقصد کو سمجھ لے کہ اصل اس سے اتیناس ہے یعنی مخاطب کو مانوس کر کے اجازت حاصل کرنا وہ خود بخود ان سب چیزوں کی رعایت کو ضروری سمجھے گا جن چیزوں سے مخاطب کو تکلیف ہو اس سے بچے گا۔ اپنا نام ظاہر کرے اور دستک دے تو متوسط انداز سے دے یہ سب چیزیں اس میں شامل ہیں۔
تنبیہ ضرورویآج کل اکثر لوگوں کو تو استیذان کی طرف کوئی توجہ ہی باقی نہیں رہی جو صریح ترک واجب کا گناہ ہے اور جو لوگ استیذان کرنا چاہیں اور مسنون طریقہ کے مطابق باہر سے پہلے سلام کریں پھر اپنا نام بتلا کر اجازت لیں۔ ان کے لئے اس زمانے میں بعض دشواریاں یوں بھی پیش آتی ہیں کہ عموماً مخاطب جس سے اجازت لیتا ہے وہ دروازہ سے دور ہے۔ وہاں تک سلام کی آواز اور اجازت لینے کے الفاظ پہنچنا مشکل ہیں اس لئے یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اصل واجب یہ بات ہے کہ بغیر اجازت کے گھر میں داخل نہ ہو۔ اجازت لینے کے طریقے ہر زمانے اور ہر ملک میں مختلف ہو سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک طریقہ درواز پر دستک دینے کا تو خود روایات حدیث سے ثابت ہے اسی طرح جو لوگ اپنے دروازوں پر گھنٹی لگا لیتے ہیں اس گھنٹی کا بجا دینا بھی واجب استیذان کی ادائیگی کے لئے کافی ہے۔ بشرطیکہ گھنٹی کے بعد اپنا نام بھی ایسی آواز سے ظاہر کر دے جس کو مخاطب سن لے۔ اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ جو کسی جگہ رائج ہو اس کا استعمال کرلینا بھی جائز ہے آج کل جو شناختی کارڈ کا رواج یورپ سے چلا ہے یہ رسم اگرچہ اہل یورپ نے جاری کی مگر مقصد استیذان اس میں بہت اچھی طرح پورا ہوجاتا ہے کہ اجازت دینے والے کو اجازت چاہنے والے کا پورا نام و پتہ اپنی جگہ بیٹھے ہوئے بغیر کسی تکلیف کے معلوم ہوجاتا ہے اس لئے اس کو اختیار کرلینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
Top