Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - An-Noor : 27
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا وَ تُسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَهْلِهَا١ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا
: اے
الَّذِيْنَ
: جو لوگ
اٰمَنُوْا
: تم نہ داخل ہو
لَا تَدْخُلُوْا
: تم نہ داخل ہو
بُيُوْتًا
: گھر (جمع)
غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ
: اپنے گھروں کے سوا
حَتّٰى
: یہانتک کہ
تَسْتَاْنِسُوْا
: تم اجازت لے لو
وَتُسَلِّمُوْا
: اور تم سلام کرلو
عَلٰٓي
: پر۔ کو
اَهْلِهَا
: ان کے رہنے والے
ذٰلِكُمْ
: یہ
خَيْرٌ
: بہتر ہے
لَّكُمْ
: تمہارے لیے
لَعَلَّكُمْ
: تاکہ تم
تَذَكَّرُوْنَ
: تم نصیحت پکڑو
اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہوا کرو جب تک تعارف نہ پیدا کرلو، اور گھر والوں کو سلام نہ کرلو، یہ طریقہ تمہارے لیے بہتر ہے تاکہ تم اس کی حکمتوں میں غور و فکر کرو
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَبُیُوْتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوْا وَتُسْلِّمُوْا عَلٰٓی اَھْلِھَا ط ذٰلِکُمْ خَیْرٌلَّـکُمْ لَعَلَّـکُمْ تَذَکَّرُوْنَ ۔ فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فِیْھَآ اَحَدًا فَلاَ تَدْخُلُوْھَا حَتّٰی یُؤْذَنَ لَـکُمْ ج وَاِنْ قِیْلَ لَـکُمُ ارجِعُوْا فَارْجِعُوْا ھُوَاَزْکٰی لَـکُمْ ط وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ۔ (النور : 27، 28) (اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہوا کرو جب تک تعارف نہ پیدا کرلو، اور گھر والوں کو سلام نہ کرلو، یہ طریقہ تمہارے لیے بہتر ہے تاکہ تم اس کی حکمتوں میں غور و فکر کرو۔ پس اگر تم ان گھروں میں کسی کو نہ پائو تو ان میں اس وقت تک داخل نہ ہو جب تک تمہیں اجازت نہ دی جائے اور اگر تم سے کہا جائے کہ لوٹ جاؤ تو واپس چلے جاؤ، یہی طریقہ تمہارے لیے پاکیزہ ہے اور اللہ جو کچھ تم کرتے ہو اس سے اچھی طرح باخبر ہے۔ ) تمہید سابقہ آیات کریمہ میں وہ اصول و ضوابط بیان کیے گئے ہیں جن کا مقصد یہ ہے کہ اگر مسلمان معاشرہ میں اخلاقی برائیاں پیدا ہوجائیں تو ان کی سزا کیا ہے اور ان کے روکنے کے لیے کیا تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں۔ پیش نظر آیات کریمہ میں یہ بتانا مقصود ہے کہ زنا جیسی انتہائی برائی کا ارتکاب کسی بھی معاشرے میں اچانک نہیں ہوا کرتا جب تک کہ محرکاتِ زناکو کام کرنے کا موقع نہ دیا جائے اور مقدماتِ زنا معاشرے میں قابل قبول حیثیت اختیار نہ کرجائیں۔ اسلام کے پیش نظر صرف یہ بات نہیں ہے کہ لوگ بداخلاقی کا ارتکاب کرتے رہیں اور اسلامی قانون انھیں سخت سے سخت تر سزائیں دیتا رہے بلکہ اسلام یہ چاہتا ہے کہ مسلمان معاشرے میں برائی کا تصور قابل نفرت حیثیت اختیار کرجائے، لوگ اس سے اس طرح بچنے لگیں جیسے کوئی شخص آگ میں جلنے سے بچتا ہے۔ اس مقصد کو بروئے کار لانے کے لیے اسلام نے کچھ ایسے احکام دیئے ہیں جس سے بداخلاقی کا صدور اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوجاتا ہے اور اگر معاشرے کے افراد اپنے طور پر ان ہدایات پر عمل کرتے رہیں تو پھر وہ محرکات اور اسباب عام طور پر پیدا نہیں ہوتے جس کے نتیجے میں زنا جیسا بدترین جرم وجود میں آتا ہے۔ علاوہ ازیں حُسنِ معاشرت چونکہ تمدن کی بنیاد ہے اور اس میں خرابی پیدا ہونے سے باہم اخوت کے رشتے مجروح ہوتے اور شرم و حیاء کے جذبات زوال پذیر ہوتے ہیں۔ چناچہ اس سلسلے میں پروردگار نے قرآن کریم میں جو احکام دیئے ہیں اس میں اگر ایک طرف ان سوتوں کو بند کرنے کی کوشش کی گئی ہے جہاں سے مقدماتِ زنا کے وجود میں آنے کے اسباب پیدا ہوتے ہیں تو دوسری طرف ایک صالح تمدن کی مضبوط بنیاد کے طور پر گھروں میں آنے جانے کے آداب سکھائے گئے ہیں اور انسان کی پرائیویسی کو نہ صرف محفوظ کیا گیا ہے بلکہ اسے احترام بھی دیا گیا ہے اور یہ تصور دیا گیا ہے کہ انسانوں کے گھر درندوں کے بھٹ نہیں بلکہ انسانوں کے لیے آرام گاہیں اور پناہ گاہیں ہیں اور اس کی پرائیویسی کی حفاظت کا ایسا حصار ہیں جس میں انسان نہ صرف آرام کرتا ہے بلکہ اس کی شخصیت بھی تعمیر ہوتی ہے۔ چناچہ اس سلسلے میں سب سے پہلے گھروں میں داخل ہونے کا طریقہ سکھایا گیا جسے طریق استیذان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ گھروں میں داخل ہونے کے لیے استیذان کی ہدایت وہ گھر جو انسان کے آرام اور عافیت کی جگہ ہے استیذان کے ذریعے اسے دوسروں کی دستبرد اور بےوقت کی دخل اندازی سے محفوظ کردیا گیا۔ اس سے انسان کو یہ موقع دیا گیا کہ وہ گھر میں پرسکون زندگی گزار سکے اور جو کام بھی کرنا چاہے کوئی اس کی آزادی میں خلل انداز نہ ہو۔ چناچہ اس سلسلہ میں اسلام نے یہ بنیادی حکم دیا کہ کسی شخص کی دیوار کے اوپر سے جھانکنایا اسے کوئی ناحق تکلیف پہنچانا قطعی طور پر حرام ہے۔ اس استیذان کے ذریعے اس شخص کی عزت و احترام میں بھی اضافہ کیا گیا ہے جو کسی سے ملنے جاتا ہے تو نہایت شائستہ انداز میں اجازت لے کر گھر میں داخل ہوتا ہے تو اہل خانہ اسے شائستہ اور معزز مہمان سمجھ کر عزت بھی کرتے ہیں اور بجائے بلائے ناگہانی سمجھنے کے اسے نعمت خیال کرتے ہیں۔ اسی استیذان سے فواحش اور بےحیائی کا انسداد بھی کیا گیا۔ جو شخص بلا اجازت کسی کے مکان میں داخل ہوگا یقینا اس کی نظر کسی نہ کسی غیرمحرم پر بھی پڑے گی۔ ہوسکتا ہے کہ یہ نظر شیطان کے تیروں میں سے کوئی تیر ثابت ہو اور کسی کے ایمان کو غارت کردے۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان گھر میں کوئی ایسا کام کررہا ہے جس کے لیے اسے تنہائی کی ضرورت ہے یا وہ یہ نہیں چاہتا کہ میرا یہ کام کسی اور کے علم میں آئے یا وہ بیمار ہے اور آرام کرنا چاہتا ہے۔ بلا اجازت آنے والا اس کی ایسی تمام ضرورتوں کو پامال کرکے اس کے لیے اذیت کا باعث بنتا ہے۔ اور جس بات کو وہ چھپانا چاہتا ہے اس سے مطلع ہو کر ایک مستقل گناہ کو اپنے سر لے لیتا ہے۔ مختصر یہ کہ اب جو احکام شروع کیے جارہے ہیں اس سے جہاں ہر طرح کی اخلاقی برائی کو روکنا مقصود ہے وہیں صالح تمدن کی تعمیر بھی پیش نظر ہے، اور انسانی گھروں کو ان کا حقیقی مقام و مرتبہ دے کر انسان کو راحت و آرام مہیا کرنا بھی مقصود ہے۔ آیت میں عموم کا مفہوم آیتِ کریمہ میں خطاب اگرچہ یٰٓاََیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سے کیا گیا ہے جو مردوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، لیکن قرآن کریم کے اسلوب کے مطابق یہ مردوں کے لیے مخصوص نہیں بلکہ عورتیں بھی بالتبع اس میں شامل ہوتی ہیں۔ چناچہ اس حکم میں عورتیں بھی شامل ہیں۔ حضرت ام ایاس فرماتی ہیں کہ ہم چار عورتیں اکثر حضرت عائشہ صدیقہ ( رض) کے پاس جایا کرتی تھیں اور گھر میں جانے سے پہلے ان سے اجازت طلب کرتی تھیں۔ اگر وہ اجازت دیتیں تو ہم اندر داخل ہوتی تھیں ورنہ نہیں۔ آیت کے عموم سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی دوسرے شخص کے گھر میں جانے سے پہلے استیذان کا حکم عام ہے۔ مرد، عورت، محرم اور غیرمحرم سب کو شامل ہے۔ عورت کسی عورت کے پاس جائے یا مرد، مرد کے پاس، سب کے لیے اجازت طلب کرنا واجب ہے۔ سب سے زیادہ احترام کا رشتہ ماں کے ساتھ ہے۔ حضور ﷺ نے اس کے لیے بھی استیذان کا حکم دیا۔ امام مالک نے مؤطا میں مرسلاً عطا بن یسار سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کیا میں اپنی والدہ کے پاس جاتے وقت بھی استیذان کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا، ہاں۔ اس نے کہا یارسول اللہ ﷺ میں تو اپنی والدہ کے ساتھ رہتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا پھر بھی اجازت لیے بغیر گھر میں نہ جاؤ۔ انھوں نے مزید سوال کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا کیا تمہیں یہ بات پسند ہے کہ تم اپنی والدہ کو برہنہ حالت میں دیکھو۔ اس نے کہا، نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا اسی لیے استیذان ضروری ہے۔ ممکن ہے وہ گھر میں کسی ضرورت سے ستر کھول چکی ہوں۔ گھر میں صرف اگر اپنی بیوی ہو تو گھر میں داخل ہوتے وقت اگرچہ اس سے استیذان واجب نہیں مگر سنت یہ ہے کہ گھر میں بھی اچانک بغیر کسی اطلاع کے نہ جائے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود ( رض) کی اہلیہ محترمہ فرماتی ہیں کہ عبداللہ جب کبھی باہر سے گھر میں آتے تھے تو داخل ہونے سے پہلے اپنے پائوں کی آہٹ سے یا کھنکار سے کسی طرح سے پہلے باخبر کردیتے، پھر گھر میں داخل ہوتے۔ پیشِ نظر آیت کریمہ میں فرمایا گیا کہ جب تم اپنے کسی مسلمان بھائی کے گھر میں جانا چاہو تو مسلمانوں میں اگرچہ دینی اخوت کا رشتہ ہے، لیکن یہ اخوت وہ نہیں جس سے رشتہ حرمت پیدا ہوتا ہے۔ اس اخوت کا مطلب تو یہ ہے کہ مسلمانوں کے اجتماعی مفادات ایک ہیں اور ہر مسلمان ان مفادات کا نگہبان ہے، لیکن جہاں تک اخلاقی پابندیوں کا تعلق ہے وہ ان پر اسی طرح عائد ہوں گی جیسے بیگانوں پر ہوتی ہیں۔ اس لیے کسی مسلمان کا گھر بھی اخلاقی پابندیوں کے حوالے سے اپنے گھر کا غیر ہے، یعنی وہ دوسرا گھر ہے جس میں اگر آپ کو جانے کی ضرورت پیش آئے تو سب سے پہلی بات یہ ہے کہ تَسْتَاْنِسُوْا یہ انس سے ہے، اس کا معنی یہ ہے کہ تم داخل ہونے سے پہلے ان میں انس معلوم کرو، یا یہ مطلب ہے انھیں مانوس کرو۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ انھیں سلام کرو۔ اولاً تو سلام ہی بیگانگی کے بہت سے پردے اٹھا دیتا ہے۔ ثانیاً جس کو سلام کہا جائے گا وہ یقینا یہ معلوم کرنے کی کوشش کرے گا کہ جو آدمی مجھے سلام کہہ رہا ہے وہ بھروسے کا آدمی ہے یا نہیں۔ استیذان کا طریقہ جاہلیت میں اہل عرب کا طریقہ یہ تھا کہ وہ وقت کے مطابق آج کے اہل مغرب کی طرح سلام کہتے تھے اور بےتکلف ایک دوسرے کے گھر میں گھس جاتے تھے۔ صبح کا وقت ہوتا تو صباح الخیر کہتے اور شام کا وقت ہوتا تو مساء الخیر کہتے۔ اور اس بات کی بالکل پرواہ نہیں کرتے تھے کہ اہل خانہ کس حال میں ہوں گے، ہماری نظر کس پر اور کس حال میں پڑے گی۔ اسلام نے سب سے پہلے اس بات پر پابندی لگائی کہ گھر میں داخل ہونے سے پہلے اجازت طلب کرو۔ اور اجازت کا طریقہ یہ رکھا کہ دروازے کے ایک طرف کھڑے ہو کر اجازت طلب کی جائے تاکہ اہل خانہ میں سے جب کوئی باہر آئے تو دروازہ کھلتے ہی اندر نظر نہ پڑے۔ کیونکہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے کہ اذا دخل البصر فلا اذن ” جب نگاہ داخل ہوگئی تو پھر خود داخل ہونے کے لیے اجازت مانگنے کا کیا موقع رہا۔ “ اور اجازت کا طریقہ بھی متعین فرما دیا، کہ اجازت طلب کرنے والا السلام علیکم کہے۔ اور ساتھ ہی کہے، أَاَدْخُل ” کیا میں داخل ہوجاؤں ؟ “ اگر جان پہچان ایسی ہو کہ آواز ہی سے اہل خانہ پہچان لیتے ہوں تو پھر تو اجازت لینے کا یہ طریقہ کافی ہے۔ لیکن اگر جان پہچان اس طرح کی نہ ہو تو پھر وہ طریقہ اختیار کرنا چاہیے جو حضرت عمرفاروق ( رض) کا تھا۔ آپ ( رض) جب آنحضرت ﷺ کے درِاقدس پر حاضر ہوتے تو اجازت طلبی کے لیے کہتے، السلام علیک یارسول اللہ أَیَدْخُلُ عُمَرُ ” یارسول اللہ آپ پر سلام ہو، کیا عمر ( رض) حاضر ہوسکتا ہے ؟ “ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اجازت طلب کرنے والے کو اپنا نام بتانا چاہیے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص آنحضرت ﷺ کے دروازے پر آیا اور کہا أَاَدْخُل ” کیا میں داخل ہوجاؤں۔ “ آنحضرت ﷺ نے خادم سے فرمایا، کہ جاؤ اسے اذن مانگنے کا طریقہ سکھائو۔ اسے یوں کہنا چاہیے السلام علیکم أَاَدْخُل۔ اگر صاحب خانہ اذن طلب کرنے والے سے پوچھے کہ تم کون ہو ؟ تو اسے اپنا نام بتانا چاہیے۔ صرف یہ کہنا کہ میں ہوں، درست نہیں، حضور ﷺ نے اس کو ناپسند فرمایا۔ اور اگر صاحب خانہ نام کو تعارف کے لیے کافی نہ سمجھے تو پھر تعارف میں وہ کچھ بتانا ضروری ہے جو صاحب خانہ کے اطمینان کے لیے کافی ہو۔ حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اجازت طلبی کے لیے دروازہ کھٹکھٹانا بھی کافی ہے۔ آج کے دور میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ گھر اگر بڑا ہو اور سلام کی آواز اہل خانہ تک نہ پہنچ سکتی ہو تو بہتر ہے کہ دروازے پر دستک دی جائے اور یا گھنٹی بجا کر اذن طلب کیا جائے۔ لیکن اس اذن کو سلام کے قائم مقام نہ سمجھا جائے، سلام کی اپنی ایک اہمیت اور افادیت ہے، اس لیے ایسی صورت میں اذن ملنے کے بعد جب اندر جانے کا موقع ملے تو وہاں سلام کہا جائے تاکہ نہ جانے والا ثواب سے محروم رہے اور نہ اہل خانہ برکت سے محروم رہیں۔ البتہ دروازے پر دستک دینے کا بھی ایک ادب ہے۔ صحابہ ( رض) آنحضرت ﷺ کے دروازے پر عام طور پر ناخنوں سے دستک دیتے تھے تاکہ آپ ﷺ کے آرام میں خلل نہ پڑے۔ خاص طور پر اس طرح دستک دینا کہ اہل خانہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھیں، یہ آداب کے خلاف ہے۔ زیادہ سے زیادہ تین بار اذن طلب کرنا چاہیے۔ اگر تیسری بار جواب نہ آئے تو واپس چلا آئے، کیونکہ اس سے زیادہ اذن طلب کرنا صاحب خانہ کو اذیت دینا اور پریشان کرنا ہے۔ ہوسکتا ہے وہ اس وقت ایسے کام میں مشغول ہو جسے وہ منقطع نہ کرسکتا ہو۔ آنحضرت ﷺ کا بھی یہی طریقہ تھا۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ حضرت سعد بن عبادہ ( رض) کے یہاں گئے اور سلام کہہ کردو دفعہ اجازت طلب کی، مگر اندر سے جواب نہ آیا۔ تیسری مرتبہ جواب نہ ملنے پر آپ ﷺ واپس ہوگئے۔ حضرت سعد اندر سے دوڑ کر آئے اور عرض کیا یارسول اللہ ﷺ میں آپ ﷺ کی آواز سن رہا تھا، مگر میرا جی چاہتا تھا کہ آپ ﷺ کی زبان مبارک سے میری لیے جتنی بار بھی سلام اور رحمت کی دعا نکل جائے اچھا ہے، اس لیے میں بہت آہستہ آہستہ جواب دیتا رہا۔ یہ تین مرتبہ پکارنا، پے در پے نہ ہونا چاہیے، بلکہ ذرا ٹھہر ٹھہر کر پکارنا چاہیے تاکہ صاحب خانہ کو اپنی مصروفیت سے فراغت کا موقع مل جائے۔ البتہ اگر یہ معلوم ہو کہ صاحب خانہ اس وقت آرام کرتے ہیں اور تھوڑی دیر میں نماز کا وقت ہونے والا ہے، وہ اٹھ کر باہر آئیں گے تو صحابہ کرام ( رض) کا یہ طرز عمل بھی رہا ہے کہ وہ باہر انتظار میں بیٹھ جاتے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس ( رض) احادیث کی طلب میں انصار صحابہ کے دروازوں پر انتظار میں بیٹھے رہتے۔ جب صاحب خانہ باہر نکلتے تو ان سے اپنی ضرورت کہتے۔ وہ ہرچند تأسف کا اظہار کرتے، آپ نے ہمیں پہلے اطلاع دی ہوتی، لیکن حضرت ابن عباس ( رض) کہتے کہ علم سیکھنے کے لیے ہمیں یہی طریقہ سکھایا گیا ہے۔ اجازت یا تو خود صاحب خانہ کی معتبر ہے یا پھر کسی ایسے شخص کی جس کے متعلق آدمی یہ سمجھنے میں حق بجانب ہو کہ وہ صاحب خانہ کی طرف سے اجازت دے رہا ہے۔ مثلاً گھر کا خادم یا کوئی اور ذمہ دار قسم کا فرد۔ کوئی چھوٹا سا بچہ اگر کہہ دے کہ آجاؤ، تو اس پر اعتماد کرکے داخل نہ ہوجانا چاہیے۔ پرائیویسی کا لحاظ آنحضرت ﷺ نے صاحب خانہ کے تخلیے اور پرائیویسی کا اس قدر لحاظ فرمایا ہے کہ اسے صرف گھروں میں داخل ہونے تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے ایک عام حق قرار دے دیا، جس کی رو سے دوسرے کے گھروں میں جھانکنا، باہر سے نگاہ ڈالنا، حتیٰ کے دوسرے کا خط اس کی اجازت کے بغیر پڑھنا بھی ممنوع ٹھہرایا۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے من نظر فی کتاب اخیہ بغیراذنہ فانما ینظرفی النار ” جس نے اپنے بھائی کی اجازت کے بغیر اس کے خط میں نظر دوڑائی، وہ گویا آگ میں جھانکتا ہے۔ “ صحیحین میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص تیرے گھر میں جھانکے اور تو ایک کنکری مار کر اس کی آنکھ پھوڑ دے، تو تجھے کوئی گناہ نہیں۔ اجازت نہ ملنے پر واپسی کی ہدایت دوسری آیت کریمہ میں فرمایا گیا کہ اگر اجازت طلبی پر اہل خانہ اجازت نہ دیں یا گھر میں کوئی شخص ایسا موجود نہ ہو جو جواب دے سکے تو اجازت طلب کرنے والے کو یہ حق نہیں کہ وہ بلا اجازت گھر میں گھس جائے اور اگر اندر سے یہ کہا جائے کہ اس وقت میں نہیں مل سکتا، واپس چلے جایئے تو اس پر برا نہ ماننا چاہیے بلکہ کبیدہ خاطر بھی نہیں ہونا چاہیے، ممکن ہے کہ صاحب خانہ اس وقت کسی تحقیقی کام میں مشغول ہوں۔ اس وقت اپنے کام کو چھوڑ دینے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ساری دماغی کاوش غارت ہوجائے گی، تو اس پر ناراض ہونے کی بجائے صاحب خانہ کی مجبوری کا لحاظ کرنا ضروری ہے۔ یہ صحیح ہے کہ بعض دفعہ اس طرح کا جواب آدمی کی طبیعت پر شاق گزرتا ہے، لیکن اخلاقی نقطہ نگاہ سے یہی طریقہ پاکیزہ ہے اور اسی سے ایک مومن کے احساسات کی تربیت بھی ہوتی ہے۔ ہم لوگ چونکہ ایسی تربیت سے گزارے نہیں گئے، تو عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ بعض دفعہ اچھے اچھے لوگ ایسے کسی واقعہ کو قطع تعلق کا ذریعہ بنا لیتے ہیں، اور اگر کوئی طالب علم اپنے امتحان کی تیاری میں مصروف ہے تو وہ بعض دفعہ ہمارے ردعمل سے ڈر کر اپنا پی پر خراب کرلیتا ہے، لیکن آنے والے سے ملنا اور اس کے پاس بیٹھنا اپنی مجبوری سمجھتا ہے۔ اس طرح بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کوئی وکیل کیس کی تیاری میں مصروف ہے، کوئی عالم دین کسی علمی گتھی کو سلجھانے میں لگا ہوا ہے، کوئی ڈاکٹر کسی پیچیدہ مرض کے حل کے لیے اپنے وسائل فراہم کررہا ہے، کہ ایسے میں کوئی ملنے والا آجاتا ہے، اگر وہ ملنے سے انکار کرتا ہے تو تعلقات بگڑتے ہیں اور اپنی مصروفیات چھوڑتا ہے تو علمی نقصان ہوتا ہے، اگر اسلام کی دی ہوئی اخلاقی تعلیمات پر توجہ دی ہوتی اور ہمارے مزاج اس کے مطابق بن چکے ہوتے تو یہ باتیں ہمارے معمول کا حصہ بن چکی ہوتیں۔ اس لیے فرمایا گیا ہے کہ تمہیں بیشک یہ باتیں ناگوار گزریں لیکن تمہاری معاشرتی اور سماجی زندگی کے لیے یہی بہتر ہے۔ لیکن ان تمام باتوں کی بہتری کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ہم اپنے ہر عمل سے پہلے اللہ تعالیٰ کے علیم وخبیر ہونے کا کس حد تک یقین رکھتے ہیں۔ کیونکہ اگر یہ دولت میسر نہ ہو تو پھر مجرد احکام و ہدایات سے ان رخنوں کا بند کرنا ممکن نہیں ہے جہاں سے شیطانی اثرات داخل ہوسکتے ہوں۔
Top