Ruh-ul-Quran - An-Noor : 27
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا وَ تُسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَهْلِهَا١ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : تم نہ داخل ہو لَا تَدْخُلُوْا : تم نہ داخل ہو بُيُوْتًا : گھر (جمع) غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ : اپنے گھروں کے سوا حَتّٰى : یہانتک کہ تَسْتَاْنِسُوْا : تم اجازت لے لو وَتُسَلِّمُوْا : اور تم سلام کرلو عَلٰٓي : پر۔ کو اَهْلِهَا : ان کے رہنے والے ذٰلِكُمْ : یہ خَيْرٌ : بہتر ہے لَّكُمْ : تمہارے لیے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَذَكَّرُوْنَ : تم نصیحت پکڑو
اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہوا کرو جب تک تعارف نہ پیدا کرلو، اور گھر والوں کو سلام نہ کرلو، یہ طریقہ تمہارے لیے بہتر ہے تاکہ تم اس کی حکمتوں میں غور و فکر کرو
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَبُیُوْتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوْا وَتُسْلِّمُوْا عَلٰٓی اَھْلِھَا ط ذٰلِکُمْ خَیْرٌلَّـکُمْ لَعَلَّـکُمْ تَذَکَّرُوْنَ ۔ فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فِیْھَآ اَحَدًا فَلاَ تَدْخُلُوْھَا حَتّٰی یُؤْذَنَ لَـکُمْ ج وَاِنْ قِیْلَ لَـکُمُ ارجِعُوْا فَارْجِعُوْا ھُوَاَزْکٰی لَـکُمْ ط وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ۔ (النور : 27، 28) (اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہوا کرو جب تک تعارف نہ پیدا کرلو، اور گھر والوں کو سلام نہ کرلو، یہ طریقہ تمہارے لیے بہتر ہے تاکہ تم اس کی حکمتوں میں غور و فکر کرو۔ پس اگر تم ان گھروں میں کسی کو نہ پائو تو ان میں اس وقت تک داخل نہ ہو جب تک تمہیں اجازت نہ دی جائے اور اگر تم سے کہا جائے کہ لوٹ جاؤ تو واپس چلے جاؤ، یہی طریقہ تمہارے لیے پاکیزہ ہے اور اللہ جو کچھ تم کرتے ہو اس سے اچھی طرح باخبر ہے۔ ) تمہید سابقہ آیات کریمہ میں وہ اصول و ضوابط بیان کیے گئے ہیں جن کا مقصد یہ ہے کہ اگر مسلمان معاشرہ میں اخلاقی برائیاں پیدا ہوجائیں تو ان کی سزا کیا ہے اور ان کے روکنے کے لیے کیا تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں۔ پیش نظر آیات کریمہ میں یہ بتانا مقصود ہے کہ زنا جیسی انتہائی برائی کا ارتکاب کسی بھی معاشرے میں اچانک نہیں ہوا کرتا جب تک کہ محرکاتِ زناکو کام کرنے کا موقع نہ دیا جائے اور مقدماتِ زنا معاشرے میں قابل قبول حیثیت اختیار نہ کرجائیں۔ اسلام کے پیش نظر صرف یہ بات نہیں ہے کہ لوگ بداخلاقی کا ارتکاب کرتے رہیں اور اسلامی قانون انھیں سخت سے سخت تر سزائیں دیتا رہے بلکہ اسلام یہ چاہتا ہے کہ مسلمان معاشرے میں برائی کا تصور قابل نفرت حیثیت اختیار کرجائے، لوگ اس سے اس طرح بچنے لگیں جیسے کوئی شخص آگ میں جلنے سے بچتا ہے۔ اس مقصد کو بروئے کار لانے کے لیے اسلام نے کچھ ایسے احکام دیئے ہیں جس سے بداخلاقی کا صدور اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوجاتا ہے اور اگر معاشرے کے افراد اپنے طور پر ان ہدایات پر عمل کرتے رہیں تو پھر وہ محرکات اور اسباب عام طور پر پیدا نہیں ہوتے جس کے نتیجے میں زنا جیسا بدترین جرم وجود میں آتا ہے۔ علاوہ ازیں حُسنِ معاشرت چونکہ تمدن کی بنیاد ہے اور اس میں خرابی پیدا ہونے سے باہم اخوت کے رشتے مجروح ہوتے اور شرم و حیاء کے جذبات زوال پذیر ہوتے ہیں۔ چناچہ اس سلسلے میں پروردگار نے قرآن کریم میں جو احکام دیئے ہیں اس میں اگر ایک طرف ان سوتوں کو بند کرنے کی کوشش کی گئی ہے جہاں سے مقدماتِ زنا کے وجود میں آنے کے اسباب پیدا ہوتے ہیں تو دوسری طرف ایک صالح تمدن کی مضبوط بنیاد کے طور پر گھروں میں آنے جانے کے آداب سکھائے گئے ہیں اور انسان کی پرائیویسی کو نہ صرف محفوظ کیا گیا ہے بلکہ اسے احترام بھی دیا گیا ہے اور یہ تصور دیا گیا ہے کہ انسانوں کے گھر درندوں کے بھٹ نہیں بلکہ انسانوں کے لیے آرام گاہیں اور پناہ گاہیں ہیں اور اس کی پرائیویسی کی حفاظت کا ایسا حصار ہیں جس میں انسان نہ صرف آرام کرتا ہے بلکہ اس کی شخصیت بھی تعمیر ہوتی ہے۔ چناچہ اس سلسلے میں سب سے پہلے گھروں میں داخل ہونے کا طریقہ سکھایا گیا جسے طریق استیذان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ گھروں میں داخل ہونے کے لیے استیذان کی ہدایت وہ گھر جو انسان کے آرام اور عافیت کی جگہ ہے استیذان کے ذریعے اسے دوسروں کی دستبرد اور بےوقت کی دخل اندازی سے محفوظ کردیا گیا۔ اس سے انسان کو یہ موقع دیا گیا کہ وہ گھر میں پرسکون زندگی گزار سکے اور جو کام بھی کرنا چاہے کوئی اس کی آزادی میں خلل انداز نہ ہو۔ چناچہ اس سلسلہ میں اسلام نے یہ بنیادی حکم دیا کہ کسی شخص کی دیوار کے اوپر سے جھانکنایا اسے کوئی ناحق تکلیف پہنچانا قطعی طور پر حرام ہے۔ اس استیذان کے ذریعے اس شخص کی عزت و احترام میں بھی اضافہ کیا گیا ہے جو کسی سے ملنے جاتا ہے تو نہایت شائستہ انداز میں اجازت لے کر گھر میں داخل ہوتا ہے تو اہل خانہ اسے شائستہ اور معزز مہمان سمجھ کر عزت بھی کرتے ہیں اور بجائے بلائے ناگہانی سمجھنے کے اسے نعمت خیال کرتے ہیں۔ اسی استیذان سے فواحش اور بےحیائی کا انسداد بھی کیا گیا۔ جو شخص بلا اجازت کسی کے مکان میں داخل ہوگا یقینا اس کی نظر کسی نہ کسی غیرمحرم پر بھی پڑے گی۔ ہوسکتا ہے کہ یہ نظر شیطان کے تیروں میں سے کوئی تیر ثابت ہو اور کسی کے ایمان کو غارت کردے۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان گھر میں کوئی ایسا کام کررہا ہے جس کے لیے اسے تنہائی کی ضرورت ہے یا وہ یہ نہیں چاہتا کہ میرا یہ کام کسی اور کے علم میں آئے یا وہ بیمار ہے اور آرام کرنا چاہتا ہے۔ بلا اجازت آنے والا اس کی ایسی تمام ضرورتوں کو پامال کرکے اس کے لیے اذیت کا باعث بنتا ہے۔ اور جس بات کو وہ چھپانا چاہتا ہے اس سے مطلع ہو کر ایک مستقل گناہ کو اپنے سر لے لیتا ہے۔ مختصر یہ کہ اب جو احکام شروع کیے جارہے ہیں اس سے جہاں ہر طرح کی اخلاقی برائی کو روکنا مقصود ہے وہیں صالح تمدن کی تعمیر بھی پیش نظر ہے، اور انسانی گھروں کو ان کا حقیقی مقام و مرتبہ دے کر انسان کو راحت و آرام مہیا کرنا بھی مقصود ہے۔ آیت میں عموم کا مفہوم آیتِ کریمہ میں خطاب اگرچہ یٰٓاََیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سے کیا گیا ہے جو مردوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، لیکن قرآن کریم کے اسلوب کے مطابق یہ مردوں کے لیے مخصوص نہیں بلکہ عورتیں بھی بالتبع اس میں شامل ہوتی ہیں۔ چناچہ اس حکم میں عورتیں بھی شامل ہیں۔ حضرت ام ایاس فرماتی ہیں کہ ہم چار عورتیں اکثر حضرت عائشہ صدیقہ ( رض) کے پاس جایا کرتی تھیں اور گھر میں جانے سے پہلے ان سے اجازت طلب کرتی تھیں۔ اگر وہ اجازت دیتیں تو ہم اندر داخل ہوتی تھیں ورنہ نہیں۔ آیت کے عموم سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی دوسرے شخص کے گھر میں جانے سے پہلے استیذان کا حکم عام ہے۔ مرد، عورت، محرم اور غیرمحرم سب کو شامل ہے۔ عورت کسی عورت کے پاس جائے یا مرد، مرد کے پاس، سب کے لیے اجازت طلب کرنا واجب ہے۔ سب سے زیادہ احترام کا رشتہ ماں کے ساتھ ہے۔ حضور ﷺ نے اس کے لیے بھی استیذان کا حکم دیا۔ امام مالک نے مؤطا میں مرسلاً عطا بن یسار سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کیا میں اپنی والدہ کے پاس جاتے وقت بھی استیذان کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا، ہاں۔ اس نے کہا یارسول اللہ ﷺ میں تو اپنی والدہ کے ساتھ رہتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا پھر بھی اجازت لیے بغیر گھر میں نہ جاؤ۔ انھوں نے مزید سوال کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا کیا تمہیں یہ بات پسند ہے کہ تم اپنی والدہ کو برہنہ حالت میں دیکھو۔ اس نے کہا، نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا اسی لیے استیذان ضروری ہے۔ ممکن ہے وہ گھر میں کسی ضرورت سے ستر کھول چکی ہوں۔ گھر میں صرف اگر اپنی بیوی ہو تو گھر میں داخل ہوتے وقت اگرچہ اس سے استیذان واجب نہیں مگر سنت یہ ہے کہ گھر میں بھی اچانک بغیر کسی اطلاع کے نہ جائے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود ( رض) کی اہلیہ محترمہ فرماتی ہیں کہ عبداللہ جب کبھی باہر سے گھر میں آتے تھے تو داخل ہونے سے پہلے اپنے پائوں کی آہٹ سے یا کھنکار سے کسی طرح سے پہلے باخبر کردیتے، پھر گھر میں داخل ہوتے۔ پیشِ نظر آیت کریمہ میں فرمایا گیا کہ جب تم اپنے کسی مسلمان بھائی کے گھر میں جانا چاہو تو مسلمانوں میں اگرچہ دینی اخوت کا رشتہ ہے، لیکن یہ اخوت وہ نہیں جس سے رشتہ حرمت پیدا ہوتا ہے۔ اس اخوت کا مطلب تو یہ ہے کہ مسلمانوں کے اجتماعی مفادات ایک ہیں اور ہر مسلمان ان مفادات کا نگہبان ہے، لیکن جہاں تک اخلاقی پابندیوں کا تعلق ہے وہ ان پر اسی طرح عائد ہوں گی جیسے بیگانوں پر ہوتی ہیں۔ اس لیے کسی مسلمان کا گھر بھی اخلاقی پابندیوں کے حوالے سے اپنے گھر کا غیر ہے، یعنی وہ دوسرا گھر ہے جس میں اگر آپ کو جانے کی ضرورت پیش آئے تو سب سے پہلی بات یہ ہے کہ تَسْتَاْنِسُوْا یہ انس سے ہے، اس کا معنی یہ ہے کہ تم داخل ہونے سے پہلے ان میں انس معلوم کرو، یا یہ مطلب ہے انھیں مانوس کرو۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ انھیں سلام کرو۔ اولاً تو سلام ہی بیگانگی کے بہت سے پردے اٹھا دیتا ہے۔ ثانیاً جس کو سلام کہا جائے گا وہ یقینا یہ معلوم کرنے کی کوشش کرے گا کہ جو آدمی مجھے سلام کہہ رہا ہے وہ بھروسے کا آدمی ہے یا نہیں۔ استیذان کا طریقہ جاہلیت میں اہل عرب کا طریقہ یہ تھا کہ وہ وقت کے مطابق آج کے اہل مغرب کی طرح سلام کہتے تھے اور بےتکلف ایک دوسرے کے گھر میں گھس جاتے تھے۔ صبح کا وقت ہوتا تو صباح الخیر کہتے اور شام کا وقت ہوتا تو مساء الخیر کہتے۔ اور اس بات کی بالکل پرواہ نہیں کرتے تھے کہ اہل خانہ کس حال میں ہوں گے، ہماری نظر کس پر اور کس حال میں پڑے گی۔ اسلام نے سب سے پہلے اس بات پر پابندی لگائی کہ گھر میں داخل ہونے سے پہلے اجازت طلب کرو۔ اور اجازت کا طریقہ یہ رکھا کہ دروازے کے ایک طرف کھڑے ہو کر اجازت طلب کی جائے تاکہ اہل خانہ میں سے جب کوئی باہر آئے تو دروازہ کھلتے ہی اندر نظر نہ پڑے۔ کیونکہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے کہ اذا دخل البصر فلا اذن ” جب نگاہ داخل ہوگئی تو پھر خود داخل ہونے کے لیے اجازت مانگنے کا کیا موقع رہا۔ “ اور اجازت کا طریقہ بھی متعین فرما دیا، کہ اجازت طلب کرنے والا السلام علیکم کہے۔ اور ساتھ ہی کہے، أَاَدْخُل ” کیا میں داخل ہوجاؤں ؟ “ اگر جان پہچان ایسی ہو کہ آواز ہی سے اہل خانہ پہچان لیتے ہوں تو پھر تو اجازت لینے کا یہ طریقہ کافی ہے۔ لیکن اگر جان پہچان اس طرح کی نہ ہو تو پھر وہ طریقہ اختیار کرنا چاہیے جو حضرت عمرفاروق ( رض) کا تھا۔ آپ ( رض) جب آنحضرت ﷺ کے درِاقدس پر حاضر ہوتے تو اجازت طلبی کے لیے کہتے، السلام علیک یارسول اللہ أَیَدْخُلُ عُمَرُ ” یارسول اللہ آپ پر سلام ہو، کیا عمر ( رض) حاضر ہوسکتا ہے ؟ “ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اجازت طلب کرنے والے کو اپنا نام بتانا چاہیے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص آنحضرت ﷺ کے دروازے پر آیا اور کہا أَاَدْخُل ” کیا میں داخل ہوجاؤں۔ “ آنحضرت ﷺ نے خادم سے فرمایا، کہ جاؤ اسے اذن مانگنے کا طریقہ سکھائو۔ اسے یوں کہنا چاہیے السلام علیکم أَاَدْخُل۔ اگر صاحب خانہ اذن طلب کرنے والے سے پوچھے کہ تم کون ہو ؟ تو اسے اپنا نام بتانا چاہیے۔ صرف یہ کہنا کہ میں ہوں، درست نہیں، حضور ﷺ نے اس کو ناپسند فرمایا۔ اور اگر صاحب خانہ نام کو تعارف کے لیے کافی نہ سمجھے تو پھر تعارف میں وہ کچھ بتانا ضروری ہے جو صاحب خانہ کے اطمینان کے لیے کافی ہو۔ حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اجازت طلبی کے لیے دروازہ کھٹکھٹانا بھی کافی ہے۔ آج کے دور میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ گھر اگر بڑا ہو اور سلام کی آواز اہل خانہ تک نہ پہنچ سکتی ہو تو بہتر ہے کہ دروازے پر دستک دی جائے اور یا گھنٹی بجا کر اذن طلب کیا جائے۔ لیکن اس اذن کو سلام کے قائم مقام نہ سمجھا جائے، سلام کی اپنی ایک اہمیت اور افادیت ہے، اس لیے ایسی صورت میں اذن ملنے کے بعد جب اندر جانے کا موقع ملے تو وہاں سلام کہا جائے تاکہ نہ جانے والا ثواب سے محروم رہے اور نہ اہل خانہ برکت سے محروم رہیں۔ البتہ دروازے پر دستک دینے کا بھی ایک ادب ہے۔ صحابہ ( رض) آنحضرت ﷺ کے دروازے پر عام طور پر ناخنوں سے دستک دیتے تھے تاکہ آپ ﷺ کے آرام میں خلل نہ پڑے۔ خاص طور پر اس طرح دستک دینا کہ اہل خانہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھیں، یہ آداب کے خلاف ہے۔ زیادہ سے زیادہ تین بار اذن طلب کرنا چاہیے۔ اگر تیسری بار جواب نہ آئے تو واپس چلا آئے، کیونکہ اس سے زیادہ اذن طلب کرنا صاحب خانہ کو اذیت دینا اور پریشان کرنا ہے۔ ہوسکتا ہے وہ اس وقت ایسے کام میں مشغول ہو جسے وہ منقطع نہ کرسکتا ہو۔ آنحضرت ﷺ کا بھی یہی طریقہ تھا۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ حضرت سعد بن عبادہ ( رض) کے یہاں گئے اور سلام کہہ کردو دفعہ اجازت طلب کی، مگر اندر سے جواب نہ آیا۔ تیسری مرتبہ جواب نہ ملنے پر آپ ﷺ واپس ہوگئے۔ حضرت سعد اندر سے دوڑ کر آئے اور عرض کیا یارسول اللہ ﷺ میں آپ ﷺ کی آواز سن رہا تھا، مگر میرا جی چاہتا تھا کہ آپ ﷺ کی زبان مبارک سے میری لیے جتنی بار بھی سلام اور رحمت کی دعا نکل جائے اچھا ہے، اس لیے میں بہت آہستہ آہستہ جواب دیتا رہا۔ یہ تین مرتبہ پکارنا، پے در پے نہ ہونا چاہیے، بلکہ ذرا ٹھہر ٹھہر کر پکارنا چاہیے تاکہ صاحب خانہ کو اپنی مصروفیت سے فراغت کا موقع مل جائے۔ البتہ اگر یہ معلوم ہو کہ صاحب خانہ اس وقت آرام کرتے ہیں اور تھوڑی دیر میں نماز کا وقت ہونے والا ہے، وہ اٹھ کر باہر آئیں گے تو صحابہ کرام ( رض) کا یہ طرز عمل بھی رہا ہے کہ وہ باہر انتظار میں بیٹھ جاتے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس ( رض) احادیث کی طلب میں انصار صحابہ کے دروازوں پر انتظار میں بیٹھے رہتے۔ جب صاحب خانہ باہر نکلتے تو ان سے اپنی ضرورت کہتے۔ وہ ہرچند تأسف کا اظہار کرتے، آپ نے ہمیں پہلے اطلاع دی ہوتی، لیکن حضرت ابن عباس ( رض) کہتے کہ علم سیکھنے کے لیے ہمیں یہی طریقہ سکھایا گیا ہے۔ اجازت یا تو خود صاحب خانہ کی معتبر ہے یا پھر کسی ایسے شخص کی جس کے متعلق آدمی یہ سمجھنے میں حق بجانب ہو کہ وہ صاحب خانہ کی طرف سے اجازت دے رہا ہے۔ مثلاً گھر کا خادم یا کوئی اور ذمہ دار قسم کا فرد۔ کوئی چھوٹا سا بچہ اگر کہہ دے کہ آجاؤ، تو اس پر اعتماد کرکے داخل نہ ہوجانا چاہیے۔ پرائیویسی کا لحاظ آنحضرت ﷺ نے صاحب خانہ کے تخلیے اور پرائیویسی کا اس قدر لحاظ فرمایا ہے کہ اسے صرف گھروں میں داخل ہونے تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے ایک عام حق قرار دے دیا، جس کی رو سے دوسرے کے گھروں میں جھانکنا، باہر سے نگاہ ڈالنا، حتیٰ کے دوسرے کا خط اس کی اجازت کے بغیر پڑھنا بھی ممنوع ٹھہرایا۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے من نظر فی کتاب اخیہ بغیراذنہ فانما ینظرفی النار ” جس نے اپنے بھائی کی اجازت کے بغیر اس کے خط میں نظر دوڑائی، وہ گویا آگ میں جھانکتا ہے۔ “ صحیحین میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص تیرے گھر میں جھانکے اور تو ایک کنکری مار کر اس کی آنکھ پھوڑ دے، تو تجھے کوئی گناہ نہیں۔ اجازت نہ ملنے پر واپسی کی ہدایت دوسری آیت کریمہ میں فرمایا گیا کہ اگر اجازت طلبی پر اہل خانہ اجازت نہ دیں یا گھر میں کوئی شخص ایسا موجود نہ ہو جو جواب دے سکے تو اجازت طلب کرنے والے کو یہ حق نہیں کہ وہ بلا اجازت گھر میں گھس جائے اور اگر اندر سے یہ کہا جائے کہ اس وقت میں نہیں مل سکتا، واپس چلے جایئے تو اس پر برا نہ ماننا چاہیے بلکہ کبیدہ خاطر بھی نہیں ہونا چاہیے، ممکن ہے کہ صاحب خانہ اس وقت کسی تحقیقی کام میں مشغول ہوں۔ اس وقت اپنے کام کو چھوڑ دینے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ساری دماغی کاوش غارت ہوجائے گی، تو اس پر ناراض ہونے کی بجائے صاحب خانہ کی مجبوری کا لحاظ کرنا ضروری ہے۔ یہ صحیح ہے کہ بعض دفعہ اس طرح کا جواب آدمی کی طبیعت پر شاق گزرتا ہے، لیکن اخلاقی نقطہ نگاہ سے یہی طریقہ پاکیزہ ہے اور اسی سے ایک مومن کے احساسات کی تربیت بھی ہوتی ہے۔ ہم لوگ چونکہ ایسی تربیت سے گزارے نہیں گئے، تو عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ بعض دفعہ اچھے اچھے لوگ ایسے کسی واقعہ کو قطع تعلق کا ذریعہ بنا لیتے ہیں، اور اگر کوئی طالب علم اپنے امتحان کی تیاری میں مصروف ہے تو وہ بعض دفعہ ہمارے ردعمل سے ڈر کر اپنا پی پر خراب کرلیتا ہے، لیکن آنے والے سے ملنا اور اس کے پاس بیٹھنا اپنی مجبوری سمجھتا ہے۔ اس طرح بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کوئی وکیل کیس کی تیاری میں مصروف ہے، کوئی عالم دین کسی علمی گتھی کو سلجھانے میں لگا ہوا ہے، کوئی ڈاکٹر کسی پیچیدہ مرض کے حل کے لیے اپنے وسائل فراہم کررہا ہے، کہ ایسے میں کوئی ملنے والا آجاتا ہے، اگر وہ ملنے سے انکار کرتا ہے تو تعلقات بگڑتے ہیں اور اپنی مصروفیات چھوڑتا ہے تو علمی نقصان ہوتا ہے، اگر اسلام کی دی ہوئی اخلاقی تعلیمات پر توجہ دی ہوتی اور ہمارے مزاج اس کے مطابق بن چکے ہوتے تو یہ باتیں ہمارے معمول کا حصہ بن چکی ہوتیں۔ اس لیے فرمایا گیا ہے کہ تمہیں بیشک یہ باتیں ناگوار گزریں لیکن تمہاری معاشرتی اور سماجی زندگی کے لیے یہی بہتر ہے۔ لیکن ان تمام باتوں کی بہتری کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ہم اپنے ہر عمل سے پہلے اللہ تعالیٰ کے علیم وخبیر ہونے کا کس حد تک یقین رکھتے ہیں۔ کیونکہ اگر یہ دولت میسر نہ ہو تو پھر مجرد احکام و ہدایات سے ان رخنوں کا بند کرنا ممکن نہیں ہے جہاں سے شیطانی اثرات داخل ہوسکتے ہوں۔
Top