Tafheem-ul-Quran - An-Noor : 27
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا وَ تُسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَهْلِهَا١ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : تم نہ داخل ہو لَا تَدْخُلُوْا : تم نہ داخل ہو بُيُوْتًا : گھر (جمع) غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ : اپنے گھروں کے سوا حَتّٰى : یہانتک کہ تَسْتَاْنِسُوْا : تم اجازت لے لو وَتُسَلِّمُوْا : اور تم سلام کرلو عَلٰٓي : پر۔ کو اَهْلِهَا : ان کے رہنے والے ذٰلِكُمْ : یہ خَيْرٌ : بہتر ہے لَّكُمْ : تمہارے لیے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَذَكَّرُوْنَ : تم نصیحت پکڑو
23 اے لوگوجو ایمان لائے ہو، اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھر میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ  گھر والوں کی رضا نہ لے لو 24 اور گھر والوں پر سلام نہ بھیج لو، یہ طریقہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ توقع ہے کہ تم اس کا خیال رکھو گے۔ 25
سورة النُّوْر 23 سورے کے آغاز میں جو احکام دیے گئے تھے وہ اس لیے تھے کہ معاشرے میں برائی رو نما ہوجائے تو اس کا تدارک کیسے کیا جائے۔ اب وہ احکام دیے جارہے ہیں جن کو مقصد یہ ہے کہ معاشرے میں سرے سے برائیوں کی پیدائش ہی کو روک دیا جائے اور تمدن کے طور طریقوں کی اصلاح کر کے ان اسباب کا سد باب کردیا جائے جن سے اس طرح کی خرابیاں رونما ہوتی ہیں۔ ان احکام کا مطالعہ کرنے سے پہلے دو باتیں اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہییں اول یہ کہ واقعہ افک پر تبصرہ کرنے کے معاً بعد یہ احکام بیان کرنا صاف طور پر اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تشخیص میں زوجہ رسول جیسی بلند شخصیت پر ایک صریح بہتان کا اس طرح معاشرے کے اندر نفوذ کر جانا دراصل ایک شہوانی ماحول کی موجودگی کا نتیجہ تھا، اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس شہوانی ماحول کو بدل دینے کی کوئی صورت اس کے سوا نہ تھی کہ لوگوں کا ایک دوسرے کے گھروں میں بےتکلف آنا جانا بند کیا جائے، اجنبی عورتوں اور مردوں کو ایک دوسرے کی دید سے اور آزادانہ میل جول سے روکا جائے، عورتوں کو ایک قریبی حلقے کے سوا غیر محرم رشتہ داروں اور اجنبیوں کے سامنے زینت کے ساتھ آنے سے منع کردیا جائے، قحبہ گری کے پیشے کا قطعی انسداد کیا جائے، مردوں اور عورتوں کو زیادہ دیر تک مجرد نہ رہنے دیا جائے، اور لونڈی غلاموں تک کے تجرد کا مداوا کیا جائے۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھیے کہ عورتوں کی بےپر دگی، اور معاشرے میں بکثرت لوگوں کا مجرد رہنا، اللہ تعالیٰ کے علم میں وہ بنیادی اسباب ہیں جن سے اجتماعی ماحول میں ایک غیر محسوس شہوانیت ہر وقت ساری و جاری رہتی ہے اور اسی شہوانیت کی بدولت لوگوں کی آنکھیں، ان کے کان، ان کی زبانیں، ان کے دل، سب کے سب کسی واقعی یا خیالی فتنے (Scandal) میں پڑنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ اس خرابی کی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ کی حکمت میں ان احکام سے زیادہ صحیح و مناسب اور مؤثر کوئی دوسری تدبیر نہ تھی، ورنہ وہ ان کے سوا کچھ دوسرے احکام دیتا۔ دوسری بات جو اس موقع پر سمجھ لینی چاہیے وہ یہ ہے کہ شریعت الٰہی کسی برائی کو محض حرام کردینے، یا اسے جرم قرار دے کر اس کی سزا مقرر کردینے پر اکتفا نہیں کرتی، بلکہ وہ ان اسباب کا بھی خاتمہ کردینے کی فکر کرتی ہے جو کسی شخص کو اس برائی میں مبتلا ہونے پر اکساتے ہوں، یا اس کے لیے مواقع بہم پہنچاتے ہوں، یا اس پر مجبور کردیتے ہوں۔ نیز شریعت جرم کے ساتھ اسباب جرم، محرکات جرم اور رسائل و ذرائع جرم پر بھی پابندیاں لگاتی ہے، تاکہ آدمی کو اصل جرم کی عین سرحد پر پہنچنے سے پہلے کافی فاصلے ہی پر روک دیا جائے۔ وہ اسے پسند نہیں کرتی کہ لوگ ہر وقت جرم کی سرحدوں پر ٹہلتے رہیں اور روز پکڑے جائیں اور سزائیں پایا کریں۔ وہ صرف محتسب (Prosecutor) ہی نہیں ہے بلکہ ہمدرد، مصلح اور مددگار بھی ہے، اس لیے وہ تمام تعلیمی، اخلاقی اور معاشرتی تدابیر اس غرض کے لیے استعمال کرتی ہے کہ لوگوں کو برائیوں سے بچنے میں مدد دی جائے۔ سورة النُّوْر 24 اصل میں لفظ حتّیٰ تستانسوا استعمال ہوا ہے، جس کو عموماً لوگوں نے حتی تستاذنوا کے معنی میں لے لیا ہے، لیکن درحقیقت دونوں لفظوں میں ایک لطیف فرق ہے جس کو نظر انداز نہ کرنا چاہیے۔ اگر حتّیٰ تستاذنوا فرمایا جاتا تو آیت کے معنی یہ ہوتے کہ " لوگوں کے گھروں میں نہ داخل ہو جب تک کہ اجازت نہ لے لو " اس طرز تعبیر کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ نے حتی تستانسوا کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ استیناس کا مادہ انس ہے جو اردو زبان میں بھی اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے جس میں عربی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس مادے سے استیناس کا لفظ جب بولیں گے تو اس کے معنی ہوں گے انس معلوم کرنا، یا اپنے سے مانوس کرنا۔ پس آیت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ " لوگوں کے گھروں میں نہ داخل ہو جب تک کہ ان کو مانوس نہ کرلو یا ان کا انس معلوم نہ کرلو "، یعنی یہ معلوم نہ کرلو کہ تمہارا آنا صاحب خانہ کو ناگوار تو نہیں ہے، وہ پسند کرتا ہے کہ تم اس کے گھر میں داخل ہو۔ اسی لیے ہم نے اس کا ترجمہ " اجازت لینے " کے بجائے " رضا لینے " کے الفاظ سے کیا ہے کیونکہ یہ مفہوم اصل سے قریب تر ہے۔ سورة النُّوْر 25 جاہلیت میں اہل عرب کا طریقہ یہ تھا کہ وہ حُیِّیتم صَبَاحاً ، حُیِّیتم مَسَاءً (صبح بخیر، شام بخیر) کہتے ہوئے بےتکلف ایک دوسرے کے گھر میں گھس جاتے تھے اور بسا اوقات گھر والوں پر اور ان کی عورتوں پر نادیدنی حالت میں نگاہیں پڑجاتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی اصلاح کے لیے یہ اصول مقرر کیا کہ ہر شخص کو اپنے رہنے کی جگہ میں تخلیے کا حق حاصل ہے اور کسی دوسرے شخص کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اس کے تخلیے میں اس کی مرضی اور اجازت کے بغیر خلل انداز ہو۔ اس حکم کے نازل ہونے پر نبی ﷺ نے معاشرے میں جو آداب اور قواعد جاری فرمائے انہیں ہم ذیل میں نمبروار بیان کرتے ہیں 1 حضور ﷺ نے تخلیے کے اس حق کو صرف گھروں میں داخل ہونے کے سوال تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے ایک عام حق قرار دیا جس کی رو سے دوسرے کے گھر میں جھانکنا، باہر سے نگاہ ڈالنا، حتی کہ دوسرے کا خط اس کی اجازت کے بغیر پڑھنا بھی ممنوع ہے۔ حضرت ثوبان (نبی ﷺ کے آزاد کردہ غلام) کی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا اذا دخل البصر فلا اذن، " جب نگاہ داخل ہوگئی تو پھر خود داخل ہونے کے لیے اجازت مانگنے کا کیا موقع رہا " (ابو داؤد)۔ حضرت ہزیل بن شرحبیل کہتے ہیں ایک شخص نبی ﷺ کے ہاں حاضر ہوا اور عین دروازے پر کھڑا ہو کر اجازت مانگنے لگا۔ حضور ﷺ نے اسے فرمایا ھٰکذا عنک، فانما الا ستیذان من النظر "، پرے ہٹ کر کھڑے ہو، اجازت مانگنے کا حکم تو اسی لیے ہے کہ نگاہ نہ پڑے " (ابو داؤد)۔ حضور ﷺ کا اپنا قاعدہ یہ تھا کہ جب کسی کے ہاں تشریف لے جاتے تو دروازے کے عین سامنے کھڑے نہ ہوتے، کیونکہ اس زمانے میں گھروں کے دروازوں پر پردے نہ لٹکائے جاتے تھے۔ آپ دروازے کے دائیں یا بائیں کھڑے ہو کر اجازت طلب فرمایا کرتے تھے (ابو داؤد)۔ حضرت انس خادم رسول اللہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے آنحضرت ﷺ کے حجرے میں باہر سے جھانکا۔ حضور ﷺ اس وقت ایک تیر ہاتھ میں لیے ہوئے تھے۔ آپ اس کی طرف اس طرح بڑھے جیسے کہ اس کے پیٹ میں بھونک دیں گے (ابو داؤد)۔ حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا من نظر فی کتاب اخیہ بغیر اذنہ فانما ینظر فی النار، " جس نے اپنے بھائی کی اجازت کے بغیر اس کے خط میں نظر دوڑائی وہ گویا آگ میں جھانکتا ہے " (ابو داؤد)۔ صحیحین میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا لو ان امرأ اطلع علیک بغیر اذن فخذفتہ بحصارۃ ففقأت علیہ ما کان علیک من جناح، " اگر کوئی شخص تیرے گھر میں جھانکے اور تو ایک کنکری مار کر اس کی آنکھ پھوڑ دے تو کچھ گناہ نہیں "۔ اسی مضمون کی ایک اور حدیث میں ہے من اطلع دار قومٍ بغیر اذنھم ففقؤا عینہ فقد ھدرت عینہ، " جس نے کسی کے گھر میں جھانکا اور گھر والوں نے اس کی آنکھ پھوڑ دی تو ان پر کچھ مؤاخذہ نہیں "۔ امام شافعی ؒ نے اس ارشاد کو بالکل لفظی معنوں میں لیا ہے اور وہ جھانکنے والے کی آنکھ پھوڑ دینے کو جائز رکھتے ہیں۔ لیکن حنفیہ اس کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ یہ حکم محض نگاہ ڈالنے کی صورت میں نہیں ہے بلکہ اس صورت میں ہے جبکہ کوئی شخص گھر میں بلا اجازت گھس آئے اور گھر والوں کے روکنے پر وہ باز نہ آئے اور گھر والے اس کی مزاحمت کریں۔ اس کشمکش اور مزاحمت میں اس کی آنکھ پھوٹ جائے یا کوئی اور عضو ٹوٹ جائے تو گھر والوں پر کوئی مواخذہ نہ ہوگا (احکام القرآن جصاص۔ ج 3۔ ص 3852 فقہاء نے نگاہ ہی کے حکم میں سماعت کو بھی شامل کیا ہے۔ مثلاً اندھا آدمی اگر بلا اجازت آئے تو اس کی نگاہ نہ پڑے گی، مگر اس کے کان تو گھر والوں کی باتیں بلا اجازت سنیں گے۔ یہ چیز بھی نظر ہی کی طرح تخلیہ کے حق میں بےجا مداخلت ہے۔ 3 اجازت لینے کا حکم صرف دوسروں کے گھر جانے کی صورت ہی میں نہیں ہے بلکہ خود اپنی ماں بہنوں کے پاس جانے کی صورت میں بھی ہے۔ ایک شخص نے نبی ﷺ سے پوچھا کیا میں اپنی ماں کے پاس جاتے وقت بھی اجازت طلب کروں ؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ اس نے کہا میرے سوا ان کی خدمت کرنے والا اور کوئی نہیں ہے، کیا ہر بار جب میں اس کے پاس جاؤں تو اجازت مانگوں ؟ فرمایا اتحب ان تراھا عریانۃ، " کیا تو پسند کرتا ہے کہ اپنی ماں کو برہنہ دیکھے ؟ " (ابن جریر عن عطاء بن یسار مرسلاً)۔ بلکہ ابن مسعود تو کہتے ہیں کہ اپنے گھر میں اپنی بیوی کے پاس جاتے ہوئے بھی آدمی کو کم از کم کھنکار دینا چاہیے۔ ان کی بیوی زینب کی روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود جب کبھی گھر میں آنے لگتے تو پہلے کوئی ایسی آواز کردیتے تھے جس سے معلوم ہوجائے کہ وہ آ رہے ہیں۔ وہ اسے پسند نہ کرتے تھے کہ اچانک گھر میں آن کھڑے ہوں (ابن جریر)۔ 4 اجازت طلب کرنے کے حکم سے صرف یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ کسی کے گھر پر اچانک کوئی مصیبت آجائے، مثلاً آگ لگ جائے یا چور گھس آئے۔ ایسے مواقع پر مدد کے لیے بلا اجازت جاسکتے ہیں۔ 5 اول اول جب استیذان کا قاعدہ مقرر کیا گیا تو لوگ اس کے آداب سے واقف نہ تھے۔ ایک دفعہ ایک شخص نبی ﷺ کے ہاں آیا اور دروازے پر سے پکار کر کہنے لگا أ ألج (کیا میں گھر میں گھس آؤں ؟) نبی ﷺ نے اپنی لونڈی روضہ سے فرمایا یہ شخص اجازت مانگنے کا طریقہ نہیں جانتا۔ ذرا اٹھ کر اسے بتا کہ یوں کہنا چاہیے السلام علیکم أ أدخل (ابن جریر۔ ابو داؤد)۔ جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں اپنے مرحوم والد کے قرضوں کے سلسلے میں آنحضرت ﷺ کے ہاں گیا اور دروازہ کھٹ کھٹایا۔ آپ نے پوچھا کون ہے ؟ میں نے عرض کیا " میں ہوں "۔ آپ نے دو تین مرتبہ فرمایا " میں ہوں ؟ میں ہوں ؟ " یعنی اس میں ہوں سے کوئی کیا سمجھے کہ تم کون ہو (ابو داؤد)۔ ایک صاحب کَلَدَہ بن حنبل ایک کام سے نبی ﷺ کے ہاں گئے اور سلام کے بغیر یونہی جا بیٹھے۔ آپ نے فرمایا باہر جاؤ، اور السلام علیکم کہہ کر اندر آؤ (ابو داؤد)۔ استیذان کا صحیح طریقہ یہ تھا کہ آدمی اپنا نام بتا کر اجازت طلب کرے۔ حضرت عمر ؓ کے متعلق روایت ہے کہ وہ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو عرض کرتے " السلام علیہ یا رسول اللہ، ایدخل عمر (ابو داؤد)۔ اجازت لینے کے لیے حضور نے زیادہ سے زیادہ تین مرتبہ پکارنے کی حد مقرر کردی اور فرمایا اگر تیسری مرتبہ پکارنے پر بھی جواب نہ آئے تو واپس ہوجاؤ (بخاری، مسلم، ابو داؤد)۔ یہی حضور ﷺ کا اپنا طریقہ بھی تھا۔ ایک مرتبہ آپ حضرت سعد بن عبادہ کے ہاں گئے اور اسلام علیہ و رحمۃ اللہ کہہ کردو دفعہ اجازت طلب کی، مگر اندر سے جواب نہ آیا۔ تیسری مرتبہ جواب نہ ملنے پر آپ واپس ہوگئے۔ حضرت سعد اندر سے دوڑ کر آئے اور عرض کیا، یا رسول اللہ میں آپ کی آواز سن رہا تھا، مگر میرا جی چاہتا تھا کہ آپ کی زبان مبارک سے میرے لیے جتنی بار بھی سلام و رحمت کی دعا نکل جائے اچھا ہے، اس لیے میں بہت آہستہ آہستہ جواب دیتا رہا (ابو داؤد۔ احمد)۔ یہ تین مرتبہ پکارنا پے در پے نہ ہونا چاہیے، بلکہ ذرا ٹھہر ٹھہر کر پکارنا چاہیے تاکہ صاحب خانہ کو اگر کوئی مشغولیت جواب دینے میں مانع ہو تو اسے فارغ ہونے کا موقع مل جائے۔ 6 اجازت یا تو خود صاحب خانہ کی معتبر ہے یا پھر کسی ایسے شخص کی جس کے متعلق آدمی یہ سمجھنے میں حق بجانب ہو کہ صاحب خانہ کی طرف سے اجازت دے رہا ہے، مثلاً گھر کا خادم یا کوئی اور ذمہ دار قسم کا فرد۔ کوئی چھوٹا سا بچہ کہہ دے کہ آجاؤ تو اس پر اعتماد کر کے داخل نہ ہوجانا چاہیے۔ 7 اجازت طلب کرنے میں بےجا اصرار کرنا، یا اجازت نہ ملنے کی صورت میں دروازے پر جم کر کھڑے ہوجانا جائز نہیں ہے۔ اگر تین دفعہ استیذان کے بعد صاحب خانہ کی طرف سے اجازت نہ ملے، یا وہ ملنے سے انکار کر دے تو واپس چلے جانا چاہیے۔
Top