Fi-Zilal-al-Quran - An-Noor : 52
وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَخْشَ اللّٰهَ وَ یَتَّقْهِ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْفَآئِزُوْنَ
وَمَنْ : اور جو يُّطِعِ اللّٰهَ : اطاعت کرے اللہ کی وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول وَيَخْشَ : اور ڈرے اللّٰهَ : اللہ وَيَتَّقْهِ : اور پرہیزگاری کرے فَاُولٰٓئِكَ : پس وہ هُمُ : وہی الْفَآئِزُوْنَ : کامیاب ہونے والے
اور کامیاب وہی ہیں جو اللہ اور رسول ﷺ کی فرماں برداری کریں اور اللہ سے ڈریں اور اس کی نافرمانی سے بچیں۔ یہی لوگ کامیاب ہیں
(ومن یطع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الفآئزون) (52) آیت سابقہ میں موضوع سخن یہ تھا کہ اہل ایمان اللہ اور رسول ﷺ کے فیصلوں میں مطیع فرمان ہوتے ہیں۔ اب یہاں کہا جاتا ہے کہ اہل ایمان کا شیوہ یہ ہوتا ہے کہ وہ قانونی فیصلوں کے علاوہ بھی اللہ کے احکام ونواہی کی پابندی کرتے ہیں اور یہ اطاعت وہ قانونی گرفت کے خوف سے نہیں کرتے بلکہ اللہ کی گرفت کے خوف سے وہ یہ اطاعت کرتے ہیں۔ تقویٰ خشیت سے ذرا عام لفظ ہے کیونکہ خشیت اور خوف سے ڈر ! آگے بڑھ کر تقویٰ میں چھوٹے اور بڑے معاملات میں احتیاط کا شعور انسان کے اندر پیدا ہوجاتا ہے جبکہ خشیت میں خوف اور ڈر کا پہلو ہوتا ہے۔ جو شخص اللہ اور رسول اللہ ﷺ سے ڈرتا ہے اور اطاعت کرتا ہے تو وہی کامیات ہوتا ہے۔ یہ شخص دنیا اور آخرت میں نجات پالیتا ہے۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے اور اللہ اپنے وعدے کی مخالفت نہیں کرتا۔ اور ایسے لوگ یقیناً کامیابی کے زیل بھی قرار پاتے ہیں اور ایسے لوگوں کی زندگی کے اندر ایسے اسباب ہوتے ہیں جو ان کی کامیابی کا سبب بنتے ہیں کیونکہ جو شخص اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کرتا ہے وہ دراصل اللہ کے طے کردہ سیدھے منہاج پر چل رہا ہوتا ہے۔ یہ منہاج اس لیے کامیاب ہوتا ہے کہ یہ خود اللہ نے علم و حکمت کی بنیاد طے کیا ہوتا ہے۔ اس منہاج کا مزاج اور اس کی فطرت کے اندر یہ کامیابی مضمر ہوتی ہے۔ دنیا کی کامیابی بھی اور آخرت کی بھی۔ پھر اس نظام میں اللہ کا خوف اور تقویٰ وہ چوکیدار ہوتے ہیں جو اس نظام پر انسانوں کو چلاتے ہیں اور یہ نظام درست رہتا ہے۔ یہ جس جاوئہ مستقیم پر چل رہے ہوتے ہیں اس پر ہر جگہ دھوکہ دینے والی چیزیں ان کے لیے دامن گیر ہوتی رہتی ہیں لیکن یہ لوگ اپنی راہ سے انحراف نہیں کرتے۔ یہ آداب کہ انسان اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ‘ خدا خوفی تقویٰ اور خشیت کے ساتھ کرے نہایت ہی بلند آداب زندگی ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے انسانوں کے دل نور ربانی سے روشن ہیں۔ یہ دل اللہ سے ملے ہوئے ہیں اور ان کے شعور میں خوف خدا بسا ہوا ہے اور ان آداب سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دل نہایت ہی معزز اور سربلند ہیں۔ کیونکہ کوئی شریف آدمی یہ پسند نہیں کرتا کہ وہ اپنے جیسے انسانوں کے سامنے ذلیل و خوار ہو اس لیے ایک مومن کا ضمیر اس سے ابا کرتا ہے۔ حقیقی اطاعت تو ہے ہی وہی جس میں اطاعت کرنے والا اس نظر سے اطاعت کرے کہ وہ ذات کبریا کی اطاعت کررہا ہے کیونکہ ایک سچا مومن صرف اللہ کے سامنے اپنے سر کو جھکا سکتا ہے۔ اہل ایمان کے ان اچھے آداب اور اہل نفاق کے ان برے آداب کے درمیان اس تقابل کے بعد کہ مومنین وہ ہوتے ہیں جو صرف اللہ کے سامنے جھکتے ہیں اور منافقین وہ ہوتے ہیں جو دعوائے ایمان تو کرتے ہیں لیکن مومن نہیں ہوتے ‘ اب منافقین کے بارے میں بقیہ بات مکمل کی جاتی ہے۔
Top