Ruh-ul-Quran - An-Noor : 52
وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَخْشَ اللّٰهَ وَ یَتَّقْهِ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْفَآئِزُوْنَ
وَمَنْ : اور جو يُّطِعِ اللّٰهَ : اطاعت کرے اللہ کی وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول وَيَخْشَ : اور ڈرے اللّٰهَ : اللہ وَيَتَّقْهِ : اور پرہیزگاری کرے فَاُولٰٓئِكَ : پس وہ هُمُ : وہی الْفَآئِزُوْنَ : کامیاب ہونے والے
اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گے اور جو اس سے ڈریں گے اور اس کی حدود کی پاسداری کریں گے وہی لوگ ہیں جو فائزالمرام ہوں گے۔
وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَـہٗ وَیَخْشَ اللّٰہَ وَیَتَّـقْہِ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْفَـآئِزُوْنَ ۔ (النور : 52) (اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گے اور جو اس سے ڈریں گے اور اس کی حدود کی پاسداری کریں گے وہی لوگ ہیں جو فائزالمرام ہوں گے۔ ) مسلمانوں کی کامیابی کی تین شرائط، اطاعت، خشیت، تقویٰ مسلمانوں کی کامیابی کا پہلا زینہ سمع و اطاعت کا بےپناہ جذبہ ہے۔ جس سے اس بات کا فیصلہ ہوجاتا ہے کہ مسلمانوں کی زندگی میں حکمرانی کس نظریئے کی ہے اور وہ کون ذات ہے جسے وہ اپنا حاکم حقیقی اور رہنمائے حق سمجھتے ہیں۔ لیکن فوزوفلاح کے حصول کے لیے یہ جذبہ اور یہ دعویٰ اور یہ اقدام کافی نہیں۔ اس سے راستے اور منزل کا تعین ضرور ہوجاتا ہے لیکن منزل تک پہنچنے کے لیے سفر پر روانگی اور آداب سفر کا لحاظ بھی ضروری ہے۔ اس لیے پیش نظر آیت کریمہ میں ارشاد فرمایا گیا کہ جو لوگ اللہ اور رسول کے احکام کی سمع و اطاعت کا عزم بالجزم کرلیتے ہیں اب ان کی کامیابی کے لیے شرط اول یہ ہے کہ وہ ہر معاملے میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں اور اطاعت بھی ایسی جس میں نہ توقف ہو نہ تأمل۔ تحفظِ ذہنی کا خلجان ہو اور نہ نفع و ضرر کے پیمانوں کا خیال۔ صحابہ کرام ( رض) نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ہر حکم کی زندگی بھر اسی طرح اطاعت کی کہ آپ ﷺ کے دہن مبارک سے حکم کے الفاظ بعد میں الگ ہوتے تھے، صحابہ کرام ( رض) میں عمل کے لیے پہلے سے حرکت پیدا ہوجاتی تھی۔ اور اس کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کریم نے سورة الانفال میں واضح فرمایا کہ مسلمانو ! اللہ اور اللہ کے رسول تمہیں جس بات کا حکم دیتے ہیں اسی میں تمہاری زندگی کا راز مضمر ہے۔ اس کی تعمیل میں کبھی تساہل سے کام نہ لینا۔ کیونکہ بعض دفعہ اللہ بندے اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے، ممکن ہے یہ تساہل تمہاری محرومی کا باعث بن جائے۔ حضرت ابی ابن کعب ( رض) کو آنحضرت ﷺ نے آواز دی۔ انھوں نے آمد میں کچھ تاخیر کی۔ آپ ﷺ نے وجہ پوچھی تو عرض کی، کہ میں نماز میں مصروف تھا۔ آپ ﷺ نے متذکرہ بالا حکم کا حوالہ دے کر ارشاد فرمایا : کہ نماز کی حالت میں بھی میرا حکم پہنچے تو نماز توڑ کر عمل کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کے احکام اور، ضوابطِ حیات مسلمانوں کے لیے اجتماعی زندگی میں ریاستی قوانین کا درجہ رکھتے ہیں اور ریاست کے قانون پر عملدرآمد کے لیے ہم جانتے ہیں کہ صرف اعضاء وجوارح سے تعمیل ضروری ہوتی ہے۔ نیت اور قلبی احساس کا اس میں کوئی دخل نہیں ہوتا۔ کوئی شخص اگر کسی شعبے میں بھی ظاہری طور پر ملکی قوانین کو نہیں توڑتا لیکن دماغی طور پر اسے قبول نہیں کرتا، دل سے تنفر کا اظہار کرتا ہے اور زبان سے ایسے قوانین پر لعنت بھیجتا ہے، لیکن عملدرآمد میں کوئی کمی نہیں ہونے دیتا تو اس پر کبھی قانون شکنی کا الزام نہیں لگتا۔ لیکن اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی تعمیل میں صرف ظاہری اطاعت کافی نہیں بلکہ دل و دماغ کی آمادگی بھی ضروری ہے۔ اور یہ احساس بھی ہر وقت دامن گیر رہنا لازمی ہے کہ میں اسلامی احکام پر عمل کرتے ہوئے کہیں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے خوف اور اس کی رضا کی امید سے بیگانہ تو نہیں ہوجاتا۔ ایک مومن حد درجہ احکام کی اطاعت کرتے ہوئے بھی اطاعت پر اعتماد کرکے نہیں بیٹھ جاتا بلکہ وہ برابر اللہ تعالیٰ سے قبولیت کی دعا کرتا رہتا ہے۔ اور دل میں اس بات سے فکرمند رہتا ہے کہ کہیں میرے قلبی احساسات میں کوئی ایسی ویسی کمزوری نہ آجائے کہ میرے اعمال قبول نہ کیے جائیں۔ اس لیے پیش نظر آیت کریمہ میں دوسری بات یہ فرمائی کہ مومن صرف اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہی نہیں کرتا بلکہ وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا بھی رہتا ہے۔ اس کے اعضاء وجوارح جس طرح اطاعت میں متحرک رہتے ہیں اسی طرح اس کا دل اللہ تعالیٰ کے خوف سے لرزاں اور ترساں بھی رہتا ہے۔ اس طرح سے مومن کا پورا سراپا اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور خشیت کی گرفت میں رہتا ہے۔ اقبال نے بہت صحیح کہا : تری دنیا جہاں ِ مرغ و ماہی مری دنیا فغانِ صبح گاہی تری دنیا میں، میں محکوم و مجبور مری دنیا میں تیری بادشاہی اس آیت کریمہ میں تیسری بات یہ فرمائی گئی ہے کہ وہ جس طرح اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہتے ہیں، اس طرح حدودالٰہی کی پاسداری بھی کرتے ہیں۔ اس کا ایک مطلب تو یہ لیا جاسکتا ہے کہ خشیت کا تعلق باطن سے ہے اور تقویٰ کا تعلق ظاہر سے ہے۔ لیکن یہ بات مسلم ہے کہ تقویٰ ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جس میں ظاہر اور باطن دونوں شریک ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ بھی ممکن ہے کہ یہ کہا جائے کہ خشیت سے مراد یہ احساس ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں کسی ایسی کمزوری کا شکار تو نہیں ہورہا جس سے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی لازم آتی ہو، یعنی خشوع خضوع میں کمی واقع ہوتی ہو۔ اللہ تعالیٰ سے خوف اور امید کا رشتہ کمزور ہوتا ہو۔ اور تقویٰ سے شاید یہاں یہ مراد ہو کہ میں حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی بجاآوری اور ادائیگی میں کسی کمزوری کا ارتکاب تو نہیں کررہا۔ کیونکہ جس طرح مومن کے لیے اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی ضروری ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی بھی واجب ہے۔ جو لوگ ظاہر و باطن میں اپنے آپ کو ان ہدایات کا پابند بنا لیتے ہیں اور ان کی زندگی اس کی تصویر بن جاتی ہے یہی لوگ ہیں جو دنیا اور آخرت میں کامیاب و کامران ہوں گے۔ اس آیت کے فہم و ادراک کے ضمن میں ایک واقعہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ اس لیے میں اسے بیان کررہا ہوں۔ ایک روز حضرت فاروق اعظم ( رض) مسجد نبوی میں کھڑے تھے تو روم کے دہقانوں میں سے ایک دہقان حاضر ہوا اور حضرت فاروق اعظم ( رض) کے سامنے کلمہ شہادت پڑھا۔ آپ ( رض) نے پوچھا کیا بات ہے۔ اس نے عرض کی میں مشرف بہ اسلام ہوگیا ہوں۔ آپ ( رض) نے کہا تم نے اپنا آبائی مذہب چھوڑ کر دین اسلام کو کیوں قبول کیا۔ اس نے کہا، میں نے تورات، انجیل، زبور اور دیگر کتب انبیاء کا مطالعہ کیا۔ میں نے ایک مسلمان قیدی کو ایک ایسی آیت پڑھتے ہوئے سنا جس میں وہ تمام چیزیں جمع کردی گئی ہیں جو سابقہ آسمانی کتابوں میں موجود ہیں۔ مجھے یقین ہوگیا کہ یہ کتاب منزّل من اللہ ہے۔ اس لیے میں مسلمان ہوگیا ہوں۔ آپ ( رض) نے دریافت فرمایا وہ کون سی آیت ہے، اس نے یہی آیت پڑھی۔ اور اس کا مطلب بیان کرتے ہوئے کہا۔ ومن یطع اللہ (فی الفرائض) ورسولہ (فی السنن) ویخش اللہ (فیما مضیٰ من عمرہ) ویتقہ (فیما بقی من عمرہ فاولئک ھم الفائزون الفائز من نجا من النار وادخل الجنۃ) ” جو شخص فرائض میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے اور سنتوں میں اس کے رسول کی پیروی کرتا ہے اور گزری ہوئی زندگی میں جو غلطیاں اس سے ہوئیں اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اور آنے والی زندگی میں تقویٰ اختیار کرتا ہے، یہی لوگ کامیاب ہیں اور کامیاب وہ شخص ہے جسے آتش جہنم سے نجات مل گئی اور جنت میں داخل کردیا گیا۔ “
Top