Urwatul-Wusqaa - An-Noor : 52
وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَخْشَ اللّٰهَ وَ یَتَّقْهِ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْفَآئِزُوْنَ
وَمَنْ : اور جو يُّطِعِ اللّٰهَ : اطاعت کرے اللہ کی وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول وَيَخْشَ : اور ڈرے اللّٰهَ : اللہ وَيَتَّقْهِ : اور پرہیزگاری کرے فَاُولٰٓئِكَ : پس وہ هُمُ : وہی الْفَآئِزُوْنَ : کامیاب ہونے والے
اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے اور اللہ سے ڈرتارہتا ہے اور اس (کی نافرمانی) سے بچتا ہے یہی لوگ (حقیقت میں) کامیاب ہونے والے ہیں
رسول اللہ ﷺ کی ذمہ داری کی مزید وضاحت : 86۔ اے پیغمبر اسلام ! ﷺ آپ ﷺ ان سے صاف صاف کہہ دیجئے کہ ایمان صرف یہ ہے کہ بلا چون وچرا رسول کے تمام فرامین کی اطاعت کرو اور اگر روگردانی کرو گے تو تم خود اس کے ذمہ دار ہو اس لئے کہ رسول نے تو اپنا فرض تبلیغ و رسالت ادا کردیا اس کا کام صرف اسی قدر تھا کہ اللہ رب العزت کا پیغام تم کو سنا دے اور تمہارے شکوک و شبہات کو دور کردے ۔ زیر نظر آیت میں رسول کی اطاعت کا جو حکم دیا گیا ہے کیونکہ ” علیہ ماحمل “ کے الفاظ خود بول بول کر کہہ رہے ہیں کہ اس سے مراد محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات ہے جو کسی بات کی مکلف کی گئی ہے اور ظاہر ہے کہ مکلف انسان ہی ہو سکتا ہے نہ کہ انسان کا پیغام اس لئے اس انسان سے مراد محمد رسول اللہ ﷺ ہیں نہ کہ آپ ﷺ کی صرف رسالت جیسا کہ بعض اہل عقل و دانش اور خصوصا اہل قرآن کہلانے والے لوگ کہتے ہیں ۔ ان سے کہا جا رہا ہے کہ اللہ کے رسول محمد رسول اللہ ﷺ نے اللہ کا دین تم کو واضح طور پر پہنچا دیا اور اس کے مطابق عمل کر کے بھی تم کو دکھا دیا اس طرح اس نے گویا اپنا یہ فرض بہ احسن و خوبی ادا کردیا اور اب یہ ذمہ داری اس پر نہیں ہے کہ تم میں سے ہر ایک کو پکڑ پکڑ کر ایمان وہدایت کے راستہ پر چلا بھی دے ، یاد رکھو کہ اب ایمان وہدایت کی راہ اختیار کرنے کی ذمہ داری خود تمہارے اوپر ہے اور عند اللہ تم ہی کو جواب دہی کرنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی بات تم نے کیوں نہیں مانی ہاں ! یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ” اگر تم رسول کی اطاعت کرو گے تو یقینا ہدایت پاؤ گے “ کیونکہ ہدایت کی راہ صرف اور صرف رسول کی پیروی میں ہے اور یہی فوز و فلاح کی راہ ہے اس راہ سے ہٹ کر جو شخص ہدایت کی تلاش کرے گا وہ گمراہی کے سوا کچھ حاصل نہیں کرسکتا ۔
Top