Maarif-ul-Quran - Yaseen : 60
اَلَمْ اَعْهَدْ اِلَیْكُمْ یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّیْطٰنَ١ۚ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌۙ
اَلَمْ اَعْهَدْ : کیا میں نے حکم نہیں بھیجا تھا اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ : اے اولاد آدم اَنْ : کہ لَّا تَعْبُدُوا : پرستش نہ کرنا الشَّيْطٰنَ ۚ : شیطان اِنَّهٗ : بیشک وہ لَكُمْ : تمہارا عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ : دشمن کھلا
میں نے نہ کہہ رکھا تھا تم کو اے آدم کی اولاد کہ نہ پوجیو شیطان کو وہ کھلا دشمن ہے تمہارا
(آیت) الم اعھد الکم بینی آدم ان لا تعبدوالشیطن، یعنی تمام بنی آدم کو (بلکہ جناب کو بھی) مخاطب کر کے قیامت میں کہا جائے گا کہ کیا میں نے دنیا میں تم کو یہ ہدایت نہ کی تھی کہ تم شیطان کی عبادت نہ کرنا۔ یہاں سوال یہ ہوتا ہے کہ کفار عموماً شیطان کی تو عبادت نہ کرتے بتوں کو یا دوسری چیزوں کو پوجتے تھے، اس لئے ان پر عبادت شیطان کا الزام کیسے عائد ہوا ؟ جواب یہ ہے کہ کسی کی اطاعت مطلقہ کرنا کہ ہر کام ہر حال میں اس کا کہنا مانے اسی کا نام عبادت ہے چونکہ ان لوگوں نے ہمیشہ شیطانی تعلیم ہی کی پیروی کی، اس لئے ان کو عابد شیطان کہا گیا۔ جیسا کہ حدیث میں اس شخص کو جو مال یا بیوی کی محبت میں آ کر ہر وہ کام کرنے لگے جس سے مال بڑھے یا بیوی راضی ہو اگرچہ خدا تعالیٰ اس سے ناراض ہو ایسے شخص کو حدیث میں عبدالدرہم اور عبدالزوجہ کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
بعض صوفیائے کرام کے کلمات میں جو اپنے نفس کے لئے بت پرستی کے الفاظ آئے ہیں، اس سے مراد نفس کی خواہشات کا اتباع کرنا ہے، کفر و شرک مراد نہیں۔ جیسا کہ بعض نے فرمایا
سودہ گشت از سجدہ راہ بتاں پیشانیم
چند برخود تہمت دین مسلمانی نہم
Top