Tafseer-e-Madani - Yunus : 100
وَ مَا كَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تُؤْمِنَ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ وَ یَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِیْنَ لَا یَعْقِلُوْنَ
وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے لِنَفْسٍ : کسی شخص کے لیے اَنْ : کہ تُؤْمِنَ : ایمان لائے اِلَّا : مگر (بغیر) بِاِذْنِ اللّٰهِ : اذنِ الٰہی سے وَيَجْعَلُ : اور وہ ڈالتا ہے الرِّجْسَ : گندگی عَلَي : پر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يَعْقِلُوْنَ : عقل نہیں رکھتے
اور کسی شخص کے بس میں نہیں کہ وہ ایمان لے آئے مگر ان کے اذن سے، اور اللہ ڈال دیتا ہے گندگی (کفر و شرک اور الحادو بےدینی کی) ان لوگوں پر جو عقل سے کام نہیں لیتے3
170 ۔ گمراہ لوگوں کی گمراہی کی ذمہ داری خود انہی پر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ گندگی ڈال دیتا ہے ان لوگوں پر جو عقل سے کام نہیں لیتے اور وہ صحیح طور پر سوچ و بچار نہیں کرتے جس سے وہ نور حق و ہدایت سے اور بھی دور اور محروم ہوتے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ اندھے اور اوندھے ہو کر رہ جاتے ہیں۔ سو گمراہوں کی گمراہی کی ذمہ داری خود انہی پر ہوتی ہے۔ سو اس سے غور و فکر کی عظمت و اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔ پس جو لوگ اپنی عقل سے صحیح کام نہیں لیتے وہ بڑے خسارے میں ہیں کہ وہ اللہ پاک کے قائم فرمودہ دلائل وبراہین میں غور و فکر نہیں کرتے تاکہ نور حق و ہدایت سے بہرہ ور و سرشار ہوسکیں۔ انہوں نے اس کے برعکس نور عقل کو مادہ اور معدہ کی خدمت اور بطن و فرج کی ملذات کی تکمیل میں لگا کر اس کی اصل اہمیت و افادیت کو ختم کردیا اور یہ اندھے بہرے بن گئے۔ اور اس طرح یہ لوگ ایک بڑے ہی سنگین اور ہولناک خسارے میں مبتلا ہوگئے جس کی پھر تلافی وتدارک بھی ممکن نہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ بہرکیف اس ارشاد سے ایمان لانے والوں اور نہ لانے والوں کے بارے میں قدرت کی طرف سے مقرر سنت الہی کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ جو بھی ایمان لاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کے اذن ہی سے لاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس اذن و توفیق سے سرفرازی انہی کو نصیب ہوتی ہے جو عقل و فکر سے صحیح طور پر کام لیتے ہیں۔ اور جو لوگ عقل و فکر سے کام نہیں لیتے ان پر ان کے اعمال کی نحوست و نجاست مسلط ہوجاتی ہے جس سے وہ اندھے ہو کر رہ جاتے ہیں اور حیوانوں کی طرح اپنی خواہشات نفس کے پیچھے ہی بھٹکتے رہتے ہیں اور ایسے لوگ حق و ہدایت کے نور سے محروم رہتے ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top