Mualim-ul-Irfan - An-Noor : 27
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا وَ تُسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَهْلِهَا١ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : تم نہ داخل ہو لَا تَدْخُلُوْا : تم نہ داخل ہو بُيُوْتًا : گھر (جمع) غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ : اپنے گھروں کے سوا حَتّٰى : یہانتک کہ تَسْتَاْنِسُوْا : تم اجازت لے لو وَتُسَلِّمُوْا : اور تم سلام کرلو عَلٰٓي : پر۔ کو اَهْلِهَا : ان کے رہنے والے ذٰلِكُمْ : یہ خَيْرٌ : بہتر ہے لَّكُمْ : تمہارے لیے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَذَكَّرُوْنَ : تم نصیحت پکڑو
اے ایمان والو ! نہ داخل ہو اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں جب تک کہ تم اجازت نہ طلب کرلو اور جب تک کہ تم سلام نہ کرلو ان گھر والوں پر۔ یہ بات تمہارے لئے بہتر ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو
ربط آیات : سورۃ ہذا کے ابتدائی حصہ میں اللہ تعالیٰ نے برائی ، بدکاری اور فحاشی کے انسداد کے لئے حدود کا ذکر فرمایا۔ زنا اور قذف کی حدود بیان کیں اور لعان کا مسئلہ سمجھایا پھر اللہ نے واقعہ افک کا ذکر کیا جس میں منافقین نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ پر اتہام لگایا تھا۔ اللہ نے آپ کی بریت کو واضح فرمایا اور اس ضمن میں بہت سی دیگر باتیں بھی سمجھائیں۔ منافقین کی مذمت اور مومنین کو تنبیہ فرمائی۔ ساتھ ساتھ ام المومنین ؓ کی فضیلت کا ذکر بھی ہوا۔ قانون انسداد بےحیائی کا یہ پہلا حصہ تھا۔ آب آمدہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اس قانون کا دوسرا حصہ بیان فرمایا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اسلامی معاشرے سے عریانی ، فحاشی اور بےحیائی کا مکمل طور پر خاتمہ کردیا جائے۔ ان جرائم کی ترغیب عام طور پر عورتوں کے بےپردگی سے ہوتی ہے چناچہ اللہ تعالیٰ نے آج کی آیات میں کسی کے گھر میں داخلے کے وقت پردے کو ملحوظ رکھنے سے متعلق بعض قوانین بیان فرمائے ہیں۔ ان قوانین کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے ۔ کہ مخلوق کے تخلیق شدہ قوانین سے دنیا کی عدالتیں عام طور پر لوگوں سے بھری رہتی ہیں جب کہ اسلامی قوانین کا بنیادی مقصد معاشرے سے مخاصمت اور شرف و فساد کو بیخ کنی ہوتا ہے۔ جب کوئی جھگڑا ہی پیدا نہیں ہوگا تو نہ کوئی عدالتوں میں جائے گا اور نہ وہاں ہجوم ہوگا۔ گھروں میں داخلے کے آداب : آیات زیر درس میں اللہ تعالیٰ نے ایک مسلمان کے دوسرے کے گھر میں جانے کے آداب بیان فرمائے ہیں۔ اس میل ملاقات کے سلسلے میں چار قسم کے حالات پیش آسکتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے لئے اللہ کے قوانین جاری فرمائے ہیں اور کسی بھی گھر میں داخلے کے لئے اجازت حاصل کرنے کا مسئلہ بیان فرمایا ہے۔ (1) پہلی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے ہی گھر میں داخل ہوتا ہے جاں اس کی منکوحہ بیوی موجود ہے تو اس کے لئے داخلے سے قبل اجازت حاصل کرنا ضروری نہیں۔ البتہ پھر بھی مستحب بات یہ ہے کہ داخلے کے وقت خاوند کوئی ایسی حرکت کردے جس سے بیوی کو اطلاع ہوجائے کہ اس کا خاوند گھر میں داخل ہورہا ہے ۔ اس ضمن میں دروازہ کھٹکھٹایا جاسکتا ہے یا آج کل کے حالات میں دروازے پر لگی ہوئی گھنٹی بجائی جاسکتی ہے۔ یا کم از کم خاوند زبان سے کوئی لفظ ادا کردے یا کھانس لے جس سے بیوی کو اطلاع ہوجائے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی بیوی کا بیان ہے کہ ان کے خاوند بھی گھر میں آتے تو داخلے کے وقت کھنکھارتے جس سے مجھے ان کی آمد کی اطلاع مل جاتی۔ (2) گھر میں داخلے کی دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی شخص ایسے گھر میں داخل ہوتا ہے۔ جہاں اس کی بیوی کے علاوہ دوسرے لوگ بھی ہوں۔ ان میں والدہ بہن اور بیٹی بھی ہوسکتی ہے۔ اگرچہ یہ سب محرم ہیں مگر آنے والے شخص کے لئے ضروری ہے کہ وہ اجازت لے کر گھر میں داخل ہو۔ ایک صحابی نے حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کو حضور ! میں ایسے گھر میں رہتا ہوں جہاں صرف میری والدہ رہائش رکھتی ہے تو کیا مجھے بوقت داخلہ اجازت لینے کی ضرورت ہے ؟ آپ نے فرمایا ، ہاں۔ اس شخص نے پھر عرض کیا کہ حضور ! میں اور میری والدہ صرف دو افراد خانہ ہیں اور میں ان کی خدمت کرتا ہوں۔ گھر میں کوئی دوسرا فرد تو ہے نہیں تو ایسی حالت میں بھی اجازت کی ضرورت ہے حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا (قرطبی ص 219 ج 12 وطبری ص 111 ج 18 و احکام القرآن للبصاص ص 313 ج 3 وکشاف ص 227 ج 3 (فیاض) اتحب ان تراھاعریانۃ کیا تو اپنی والدہ کو عریانی کی حالت میں دیکھنا چاہتا ہے ؟ عرض کیا ، نہیں۔ فرمایا ، پھر ضروری ہے کہ بلا اطلاع نہ داخل ہو کیونکہ بعض اوقات انسان بےپردگی کی حالت میں ہوتا ہے۔ لہٰذا داخلے سے قبل اطلاع دینا ضروری ہے خواہ گھر میں والدہ ، بہن یا بیٹی ہی ہو۔ (3) تیسری صورت یہ ہے کہ کوئی شخص ایسے مقام میں داخل ہونا چاہتا ہو جہاں رہائش اور عدم رہائش دونوں کا امکان ہے ، تو ایسے مقام پر بھی بلا اجازت داخل ہونے کی گنجائش نہیں ہے۔ (4) چوتھی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص کسی ایسی جگہ میں داخل ہونا چاہتا ہے ، جس میں کسی خاص فرد یا خاندان کی رہائش نہیں بلکہ وہ مفاد عامہ کی جگہ (Public places) ہے۔ مثال کے طور پر کوئی مسجد ہے ، مدرسہ ہے ، ریلوے سٹیشن یا ائیرپورٹ ہے ، کوئی ہوٹل یا سرائے ہے ، ڈاکخانہ یا تار گھر ، عدالت ، سکول ، کالج ، ہسپتال ، سرکاری دفاتر وغیرہ ہیں تو وہاں کوئی بھی شخص بلا اجازت داخل ہوسکتا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے حضور ﷺ کے سامنے عرض کیا کہ ہم شام وغیرہ میں تجارت کے لئے جاتے ہیں۔ جہاں ہمیں کسی سرائے یا مسافر خانہ میں قیام کرنا ہوتا ہے ، تو کیا وہاں بھی اجازت لے کر داخل ہوں ؟ آپ نے فرمایا ، ایسی جگہوں میں تم بلا اجازت جاسکتے ہو۔ بعض مخصوص مقامات و حالات : یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ مفاد عامہ کے ادارے اگرچہ عام لوگوں کے لئے کھلے ہوتے ہیں اور لوگ وہاں بلا روک ٹوک آجاسکتے ہیں مگر وہاں بھی بعض مخصوص حصے ہوتے ہیں جہاں ہر شخص کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ایسے مقامات کی نشاندہی بھی کی جاتی ہے کہ داخلہ ممنوع ہے یا یہ شارع عام نہیں ہے ، یا ممنوعہ علاقہ یا اپنی شناخت کرائیے وغیرہ۔ اس قسم کے بورڈ عام اداروں ، دفتروں ، ریلوے سٹیشن اور ائیر پورٹ پر بھی نظر آتے ہیں۔ تو ایسے مقامات پر بلا اجازت جانا شرعاً بھی ممنوع ہوگا مثال کے طور پر ریلوے پلیٹ پر جانے کے لئے پلیٹ فارم ٹکٹ ضروری ہے یا کسی عجائب گھر یا پارک میں داخلے کے لئے ٹکٹ حاصل کرنا ضروری ہے تو وہاں مطلوبہ لوازمات پورے کیے بغیر داخلے کی اجازت نہیں ہے بعض اوقات کوئی شخص تخلیہ کی حالت میں ہوتا ہے اور وہ کسی دوسرے شخص کی مداخلت پسند نہیں کرتا۔ تو ایسی صورت میں اگرچہ قریبی رشتہ دارہی کیوں نہ ہو اس کی نجی حالت (Privacy) مداخلت کی اجازت نہیں ہے۔ اسی لئے اللہ نے سلام کرنے اور اجازت حاصل کرنے کی پابندی لگادی ہے۔ فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ کسی نابینا آدمی کو بھی بلا اجازت کسی کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ اگرچہ وہ کسی کی برہنگی کر دیکھ تو نہیں سکتا مگر گفتگو تو سن سکتا ہے۔ اور کسی کی پرائیویٹ بات کو بلا اجازت سننا بھی روا نہیں کہ اس سے بھی شروفساد کا دروازہ کھلتا ہے۔ ایسے ہی مواقع پر بڑے بڑے سکینڈل پیدا ہوتے ہیں ، لہٰذا شریعت نے اس کی بھی اجازت نہیں دی۔ جس طرح مردوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ دوسرے کے گھر میں داخلے کے لئے اجازت حاصل کریں ، اسی طرح عورت کے لئے بھی اجازت نامہ ضروری ہے ۔ عورت بھی کسی دوسری عورت کے پاس بلا اجازت داخل نہ ہو ایک خاتون ام عیاص کا بیان ہے کہ ہم چار عورتیں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی ملاقات کے لئے جاتیں تو ان سے اجازت حاصل کرکے ان کے گھر میں داخل ہوتیں۔ طریقہ استیذان : اب رہ گئی یہ بات کو داخلے کے لئے اجازت طلب کرنے کا طریقہ کیا ہے ، تو حدیث شریف (ابن کثیر ص 280 ج 3 وقرطبی ص 215 ج 12 (فیاض) میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ دروازے پر پہنچ کر السلام علیکم کہو اور پھر کہو ادخل کیا میں اندر آسکتا ہو ؟ یادروازے پر دستک دے کر کہو کہ فلاں آدمی آنا چاہتا ہے۔ کیا اجازت ہے ؟ دستک دیتے وقت دروازے کی دراڑوں میں سے جھانکنا بھی جائز نہیں کہ یہ مکروہ تحریمی ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ ایسی حالت میں اگر گھر کے اندر سے کوئی شخص جھانکنے والے کی آنکھ پھوڑ دے تو ہم اس کا قصاص نہیں لیں گے کیونکہ اس نے خود ایک غلط کام کیا ہے۔ اجازت طلب کرتے وقت دروازے کے سامنے کھڑا ہونے کی بھی اجازت نہیں۔ ایسا نہ ہو کہ یکدم دروازہ کھلنے پر اندر نگاہ جاپڑے اور صاحب خانہ کی بےپردگی ہو۔ ایک شخص آیا ، اس نے اندر آنے کی اجازت بایں الفاظ طلب کی ا الج کیا میں اندر گھس آوں ؟ حضور ﷺ نے اپنے خادم (ابن کثیر ص 280 ج 3 (فیاض) سے فرمایا کہ اس شخص کو اجازت طلب کرنے کے آداب سکھائو کہ ا الج جیسے سخت لفظ کی بجائے ادخل لفظ استعمال کرے۔ اسی طرح ایک صحابی نے اپنے خادم کو کوئی تحفہ دے کر حضور ﷺ کی خدمت میں بھیجا۔ اس شخص نے نہ سلام کیا اور نہ اجازت طلب کی۔ بلکہ سیدھا اندر آگیا۔ آپ نے فرمایا ، واپس جائو۔ دروازے سے باہر کھڑے ہو کر السلام علیکم اور ادخل کہو۔ وہ شخص باہر گیا۔ اجازت طلب کی تو آپ نے اندر آنے کی اجازت دی۔ یہ بھی استیذان کے آداب میں داخل ہے کہ اجازت زیادہ سے زیادہ تین دفعہ طلب کی جائے۔ اگر تینوں مرتبہ کوئی جواب نہ آئے تو ملاقاتی کو واپس چلا جانا چاہیے۔ یہ بھی آداب میں شامل ہے کہ اجازت طلبی پر اگر صاحب خانہ پوچھے کہ کون ہے ؟ تو ملاقاتی یہ نہ کہے انا (میں ہوں) بلکہ اپنا نام بتائے تاکہ صاحب خانہ کو علم ہوسکے۔ ایک موقع پر حضرت جابر ؓ نے ایسا ہی کیا تو آپ سخت ناراض ہوئے۔ فرمایا انا کیا ہوتا ہے۔ کہو انا جابر کہہ میں جابر ہوں یا میں فلاں ہوں اور فلاں کام سے آیا ہوں۔ یہ بھی اداب ملاقت میں سے ہے کہ اگر کسی بڑے آدمی ، عالم یا بزرگ کی ملاقات کے لئے آیا ہے تو باہر دروازے پر رک کر انتظار کرے جب صاحب خانہ خود باہر آئے تو ملاقات کرے۔ مطلب یہ ہے کہ اپنی آمد کی اطلاع بھی نہ دے اور باہر انتظار کرتا رہے۔ اس قسم کے ادب کی خود قرآن نے حضور ﷺ کے لئے تعلیم دی ہے۔ بعض لوگ حضور ﷺ کے دردولت پر حاضر ہو کر باہر سے ہی آواز دیتے تھے یا محمد اخرج الینا۔ اے محمد ! باہر تشریف لائیے۔ اللہ کو یہ طریقہ بھی پسند نہ آیا اور سورة الحجرات میں فرمایا ولوانھم……………لھم (آیت 5) اگر وہ لوگ صبر کرتے حتیٰ کہ حضور خود باہر تشریف لے آتے تو یہ ان کے آوازیں دینے سے بہتر ہوتا۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ بڑی ہستی کے مالک تھے ۔ کسی انصاری کے گھر میں جاتے تو باہر منتظر رہتے کہ خود ہی نکلیں گے تو بات کرلیں گے۔ حالانکہ آپ کوئی حدیث معلوم کرنے کے لئے جاتے تھے۔ انصاری باہر آکر کہتا کہ آپ تو بڑے مرتبے کے مالک ہیں اور حضور ﷺ کے چچا زادہ ہیں۔ آپ دستک دے دیا کریں تو میں فوراً حاضر ہوجائوں۔ فرماتے ، ہمیں رسول اللہ ﷺ نے یہی تعلیم دی ہے کہ صاحب خانہ کے لئے باہر منتظر رہنا ہی بہتر ہے تاکہ وہ اپنی سہولت کے مطابق باہر آئے تو بات ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ اور آپ کے رسول مقبول نے دوسرے گھروں میں جانے کے یہ آداب سکھائے ہیں۔ خلاصہ احکام بزبان قرآن : ارشاد ہوتا ہے یایھا الذین امنوا لا تدخلوا بیوتا غیر بیوتکم حتی تستانسو وتسلموا علی اھلھا ، اے ایمان والو ! نہ داخل ہو اپنے گھروں کے علاوہ دوسرے گھروں میں یہاں تک کہ پہلے اجازت طلب کرلو اور اہل خانہ کو سلام کرلو۔ داخلے کا صحیح طریقہ یہی ہے کہ پہلے السلام علیکم کہو اور پھر اندر آنے کی اجازت طلب کرو۔ فرمایا ذلکم خیرلکم ، یہ تمہارے لئے بہتر ہے لعلکم تذکرون تاکہ تم نصیحت حاصل کرو فان لم تجدوا فیھا احدا اور اگر تم اس گھر میں کسی کو نہ پائو فلا تدخلوھا حتی یوذن لکم تو اس میں مت داخل ہو۔ یہاں تک کہ تمہیں اجازت دی جائے بعض اوقات صاحب خانہ کسی کام میں مصروت ہوتا ہے یا وہ فوری طور پر ملاقات نہیں کرنا چاہتا تو ایسی حالت میں وان قیل لکم ارجعوا اگر تم سے کہا جائے کہ واپس چلے جائو فارجعوا ھواز کی لکم تو واپس لوٹ جائو کہ یہی بات تمہارے لئے زیادہ پاکیزہ ہے۔ عدم ملاقات پر ناراض نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ صاحب خانہ کو کوئی مجبوری ہو۔ واللہ بما تعملون علیم اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔ آگے فرمایا لیس علیکم جناح ان تدخلوا بیوتا غیر مسکونۃ فیھا متاع لکم تم پر کوئی حرج نہیں کہ تم غیررہائش مقام میں داخل ہو جس میں تمہارا کچھ مفاد ہے۔ اس میں مفاد عامہ کے ادارے (Public places) آتے ہیں جن کی تفصیل میں نے عرض کردی ہے ، ایسی جگہوں پر بلا اجازت داخل ہوسکتے ہو۔ فرمایا واللہ یعلم ماتبدون وما تکتمون اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ چھپاتے ہو۔ اللہ تعالیٰ تمہاری نیت اور ارادے سے بھی واقف ہے۔ اس نے گھروں میں داخلے کے قوانین بیان کردیے ہیں۔ اگر ان کی پابندی کرو گے تو فتنہ و فساد پیدا نہیں ہوگا ، فحاشی اور عریانی کی نوبت نہیں آئے گی اور معاشرے میں امن وامان قائم ہوگا۔
Top