Al-Qurtubi - An-Noor : 27
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا وَ تُسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَهْلِهَا١ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : تم نہ داخل ہو لَا تَدْخُلُوْا : تم نہ داخل ہو بُيُوْتًا : گھر (جمع) غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ : اپنے گھروں کے سوا حَتّٰى : یہانتک کہ تَسْتَاْنِسُوْا : تم اجازت لے لو وَتُسَلِّمُوْا : اور تم سلام کرلو عَلٰٓي : پر۔ کو اَهْلِهَا : ان کے رہنے والے ذٰلِكُمْ : یہ خَيْرٌ : بہتر ہے لَّكُمْ : تمہارے لیے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَذَكَّرُوْنَ : تم نصیحت پکڑو
مومنو ! اپنے گھروں کے سوا دوسرے (لوگوں کے) گھروں میں گھر والوں سے اجازت لئے اور ان کو سلام کئے بغیر داخل نہ ہوا کرو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے (اور ہم یہ نصیحت اس لئے کرتے ہیں کہ) شاید تم یاد رکھو
آیت نمبر 27 ۔ مسئلہ نمبر 1 ۔ اللہ کا ارشاد ہے ہے : یایھا الذین امنو لاتدخلوا بیوتا۔ ابن آدم جس کو اللہ نے کرامت وفضیلت سے نوازا اسے منازل کے ساتھ خاص فرمایا اور انہیں گھروں میں اوجھل کردیا اور علیحدگی میں انہیں لطف اندوز ہونے کا مالک بنایا اور مخلوق پر پابندی لگادی کہ باہر سے انہیں جھانکیں یا مالکوں کی اجازت کے بغیر ان گھروں میں داخل ہوں انہیں پردے کے آداب سکھائے تاکہ کوئی کسی پوشیدہ چیز پر مطلع نہ ہو۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جس نے کسی قوم کے گھروں میں ان کی اجازت کے بغیر جھانکا تو ان کیلئے حلال ہے کہ وہ اس کی آنکھ پھوڑ دیں۔ نبی کریم ﷺ ظاہر میں ایک کلام فرماتے تھے جب کہ مراد میں کوئی دوسری چیز ہوتی تھی جیسا کہ حدیث میں ہے عباس بن مرداس نے جب آپ کی مداح کی تو آپ نے حضرت بلال کو فرمایا : ا ٹھو اور اس کی زبان کاٹ دو اس سے مراد یہ تھا کہ اس کو کوئی چیز دے دو ، حقیقتہ اس کی زبان کاٹنا مراد نہیں تھا۔ بعض علماء نے فرمایا : اس پر کوئی ضمان اور قصاص نہیں ہے حضرت انس کی حدیث کیوجہ سے۔ انشاء اللہ یہ صحیح ہیجیسا کہ آگے آئے گا۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ آیت کا شان نزول وہ ہے جو طبرانی وغیرہ نے عدی بن ثابت سے روایت کیا کہ ایک انصاری عورت نے عرض کی : یارسول اللہ ﷺ میں گھر میں کبھی ایسی حالت میں ہوتی ہوں کہ میں نہیں چاہتی کہ مجھے اس حالت میں کوئی دیکھے نہ والد اور نہ بیٹا۔ پھر کبھی باپ آجاتا ہے وہ مجھ پر داخل ہوتا ہے اور کبھی کوئی اور میرے اہل خانہ سے میرے پاس آجاتا ہے جبکہ میں اس حالت میں ہوتی ہوں تو پھر میں کیا کروں۔ تو یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔ حضرت ابوبکر نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ بتائیے وہ سرائیں اور رہائش گاہیں جو شام کے راستہ پر ہیں ان میں کوئی رہنے والا نہیں ہوتا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : لیس علیکم جناح ان تدخلو بیوتا غیر مسکونۃ۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ اللہ نے کسی غیر کے گھر میں دخول کی حرمت کی ایک غایت بیان کی ہے اور وہ استیناس ہے اسور اس سے مراد اجازت طلب کرنا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : تستانسوا کا معنی ہے کوئی عمل کرو اس کے لئے جو گھر میں ہے تاکہ آپ کی آمد محسوس ہوجائے۔ مجاہد نے کہا ؛ کھانسنے اور عمل کرے جو ممکن ہوا اور اتنی مقدار ٹھہر جائے کہ جس سے اس کی آمد معلوم ہوجائے پیر اس کے بعد داخل ہو۔ میں کہتا ہوں سنن ابن ماجہ میں ہے ہمیں ابوبکر بن ابی شیبہ نے بتایا انہوں نے کہا ہمیں عبد الرحیم بن سلیمان نے بتایا انہوں نے واصل بن سائب سے روایت کیا انہوں نے ابو سورة سے روایت کیا ہے انہوں نے ابو ایوب انصاری سے روایت کیا فرمایا : ہم نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ یہ سلام یہ استیناس کیا ہے : فرمایا : آدمی تسبیح، تکبیر، تحمید کے ساتھ بولے یا کھانسے اور گھر والوں کو آگاہ کرے۔ مسئلہ نمبر 4 ۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے بعض لوگوں نے کہا ؛ سعید بن جبیر سے مروی ہے حتیٰ تستانسوا کاتب کی طرف وہم یا خطا ہے۔ یہ حتیٰ تساذنوا ہے۔ کیونکہ تمام مصاحف اسلام میں حتی تستانسوا ثابت وموجود ہے۔ حضرت عثمان کے زمانہ میں اسی پر اجماع صحیح ہے اس کے خلاف جائز نہیں۔ اللہ کا ارشاد ہے۔ انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ کلام میں تقدیم وتاخیر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حتی تسلموا علی اھلھا وتستانسوا ؛ یہ قول ابو حاتم نے حکایت کیا ہے۔ حضرت ابن عطیہ نے کہا : حضرت ابن عباس ؓ وغیرہ سے اس قول کی جو چیز نفی کرتی ہے وہ یہ ہے کہ تستانسوا معنی میں ثابت ہے کلام عرب میں اس کی وجہ واضح ہے۔ حضرت عمر اس وقت کمرے کے دروازے پر کھڑے تھے۔ یہ حدیث مشہور ہے یہ تقاضا کرتا ہے کہ حضرت عمر نے حضرت محمد ﷺ سے انس طلب کیا پھر حضرت ابن عباس ؓ ایسی صورت میں اصحاب الرسول کو کیسے غلط کہہ سکتے ہیں ؟ میں کہتا ہوں : ہم نے حضرت ابوا یوب کی حدیث سے ذکر کیا ہے کہ استئن اس سلام سے پہلے ہوتا ہے۔ آیت اپنے باب پر ہے اس میں کوئی تقدیم وتاخیر نہیں ہے جب داخل ہو تو سلام کرے۔ مسئلہ نمبر 5 ۔ تین مرتبہ اجازت طلب کرنا سنت ہے تین مرتبہ سے زیادہ اجازت طلب نہ کرے (یعنی گھنٹی چوتھی مرتبہ نہ دے اور دروازہ چوتھی مرتبہ نہ کھٹکھٹائے) ۔ ابن وہب نے کہا : امام مالک نے فرمایا اجازت طلب کرنا تین مرتبہ ہے۔ میں پسند نہیں کرتا کہ وہ اس سے زیادہ مرتبہ اجازت طلب کرے مگر وہ سمجھے کہ ابھی تک انہیں سنائی نہیں دیا۔ میں زیادہ مرتبہ اجازت طلب کرنے میں کوئی حرج نہیں دیکھتا جب اسے یقین ہو کہ سنائی نہیں دیا۔ استیذان کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی کہے : السلام علیکم : کیا میں داخل ہوسکتا ہوں اگر اسے اجازت دی جائے تو داخل ہوجائے اگر اسے واپس جانے کا حکم ہو تو واپس چلا جالئے اگر سکوت کیا گیا ہو تو تین مرتبہ اجازت طلب کرے پھر جتین مرتبہ اجازت طلب کرنے کے بعد واپس چلا جائے۔ ہم نے کہا : اجازت طلب کرنا تین بار ہے اس پر زیادتی نہیں کی جائے گی۔ یہ مشہور حدیث ہے جس کو الصحیح نے نقل کیا ہے اور یہ نص صریح ہے کیونکہ اس میں ہے حضرت عمر ؓ نے کہا : ہمارے پاس آنے سے تجھے کیا مانع تھا ؟ حضرت ابو موسیٰ اشعری نے کہا : میں آیا میں نے تمہارے دروازے پر تین مرتبہ سلام کیا مجھ پر جواب نہ آیا تو میں واپس چلا گیا کیونکہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی تین مرتبہ اجازت طلب کرے پھر اسے اجازت نہ دی جائے تو وہ واپس چلا جائے۔ رہا وہ جو ہم نے استیذان کی صورت ذخر کی ہے اسے ابو دائود نے ربعی سے روایت کیا جب کہ آپ ﷺ گھر میں تشریف فرما تھے اس نے پوچھا : میں داخل ہوجائوں ؟ نبی کریم ﷺ نے اپنے خادم کو فرمایا : تم اس کی طرف جائو اور اسے اجازت طلب کرنا سکھائو۔ تو خادم نے اسے کہا : تم کہو : السلام علیکم : کیا میں داخل ہوسکتا ہوں ؟ اس شخص نے یہ سنا تو کہا : السلام علیکم کیا میں داخل ہوسکتا ہوں ؟ پھر نبی کریم ﷺ نے اسے اجازت دی تو وہ داخل ہوگیا۔ حضرت ابن عمر ؓ کو ایک دن گرمی نے اذیت دی تو وہ ایک قریشی عورت کے خیمہ پر آئے اور کہا : السلام علیکم : کیا میں داخل ہوسکتا ہوں ؟ اس عورت نے کہا : سلامتی کے ساتھ داخل ہوجائو۔ پھر آپ نے سوال لوٹایا تو اس نے یہی جواب دیا پھر حضرت ابن عمر ؓ رک گئے جب اس نے سلامتی کے ساتھ داخل ہوجا کہا تھا کیونکہ لفظ میں احتمال تھا کہ اس کی مراد یہ ہو کہ تم سلام کے ساتھ داخل ہو شخصیت کے ساتھ داخل نہ ہو۔ مسئلہ نمبر 6 ۔ ہمارے علماء نے فرمایا : اجازت طلب کرنا تین مرتبہ کے ساتھ خاص کیا گیا ہے کیونکہ کلام میں سے غالب یہ ہے جب تین مرتبہ تکرار کیا جائے تو سنا اور سمجھا جاتا ہے اسی وجہ سے نبی کریم ﷺ جب کسی کلمہ سے کلام فرماتے تو اسے تین مرتبہ دہراتے تاکہ اسے سمجھا جائے۔ جب آپ کسی قوم پر سلام کرتے تو تین مرتبہ سلام کرتے۔ بعض اوقات اصرار اذیت دیتا ہے حتیٰ کہ جس کام میں مشغول ہوتا ہے وہ منقطع ہوجاتا ہے جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت ابو ایوب کو فرمایا جب آپ ﷺ نے اجازت طلب کی تو وہجلدی سے باہر آگئے تو آپ ﷺ نے فرمایا : شاہد ہم نے تجھ پر جلدی کی ہے۔ نبی پاک ﷺ حضرت معاز کے گھر تشریف لائے اور کہا : السلام علیکم ورحمتہ اللہ انہوں نے کہا : حضرت سعد نے آہستہ سے جواب دیا۔ قیس نے کہا میں نے کہا : کیا آپ ﷺ کو اجازت نہیں د یتے ؟ انہوں نے کہا : چھوڑو تاکہ آپ کثرت سے ہم پر سلام فرمائیں۔ اس حدیث کو ابو دائود نے نقل کیا ہے اس میں یہ نہیں ہے کہا بن شہاب نے کہا تین مرتبہ سلام کرنا آپ کی طرف سے کیا گیا ہے۔ ابود ائود نے کہا : عمر بن عبد الواحد اور ابن سماعہ نے اوزاعی سے مرسلا روایت کیا ہے ان دونوں حضرات نے قیس بن سعد کا ذکر نہیں کیا ہے۔ مسئلہ نمبر 7 ۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ اجازت طلب کرنا، اس پر لوگوں نے عمل کرنا چھوڑ دیا ہے۔ ہمارے علماء نے کہا : کیونکہ لوگوں نے اب دروازے بنالئے ہیں اور ان کو کھٹکھٹایا جاتا ہے۔ ابو دائود نے حضرت عبد اللہ بن بسر سے روایت کیا ہے فرمایا : نبی پاک ﷺ جب کسی قوم کے دروازے پر آتے تو دروازے کے سامنے کھڑے نہ ہوتے تھے بلکہ دروازے کی دائیں یا بائیں جانب کھڑے ہوتے تھے اور کہتے تھے : السلام علیکم۔ یہ اس لیے تھا کیونکہ اس وقت دروازے پر پردے نہیں ہوتے تھے۔ مسئلہ نمبر 8 ۔ اگر دروازہ بند ہوتا تو آنے والا جہاں چاہے کھڑا ہو اور اجازت طلب کرے اگر چاہے تو دروازہ کھٹکھٹائے کیونکہ یہ حضرت ابو موسیٰ نے روایت کیا ہے کہ نبی پاک ﷺ ایک باغ میں مدینہ طیبہ میں کنویں کے منڈیر پر تھے آپ نے کنویں میں اپنی ٹانگیں لمبی کردیں۔ حضرت ابوبکر نے دروازہ کھٹکھٹایا تو نبی پاک نے اسے کہا : اسے اجازت دے دو اور جنت کی بشارت بھی دو ۔ اسی طرح عبد الرحمن بن ابی الزناد نے اس کو روایت کیا ہے۔ صالح بن کیسان، یونس بن یزید نے انکی متابعت کی ہے۔ ان تمام نے اس کو ابو الزناد سے انہوں نے ابو سلمہ سے انہوں نے عبد الرحمن بن نافع سے انہوں نے حضرت ابو موسیٰ سے روایت کیا ہے۔ محمد بن عمرو لیثی نے ان کی مخالفت کی ہے انہوں نے ابو الزناد سے انہوں نے ابو سلمہ سے انہوں نے نافع بن عبد الحارث سے انہوں نے نبی کریم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے۔ پہلی سند صحیح ہے۔ مسئلہ نمبر 9 ۔ کھٹکھٹانے کا طریقہ یہ ہے کہ آہستہ سے کھٹکھٹایا جائے حتیٰ کہ سن لیا جائے۔ سختی سے نہ کھٹکھٹائے۔ حضرت انس بن مالک نے روایت کیا ہے فرمایا : نبی کریم ﷺ کے دروازے ناخنوں سے کھٹکھٹائے جاتے تھے۔ یہ ابوبکر احمد بن علی بن ثابت الخطیب نے اپنی جامع میں روایت کیا ہے۔ مسئلہ نمبر 10 ۔ بخاری و امام مسلم وغیرہما نے حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت کیا ہے فرمایا : میں نے نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں حاضری کی اجازت طلب کی آپ ﷺ نے پوچھا۔ کون ہے ؟ میں نے کہا : میں۔ نبی کریم نے فرمایا۔ میں میں۔ گویا آپ نے میں کہنا ناپسند کیا۔ ہمارے علماء نے فرمایا : نبی کریم ﷺ نے اس لئے یہ ناپسند فرمایا تھا کیونکہ میں کے لفظ سے تعریف حاصل نہیں ہوتی اس میں حکم یہ ہے کہ اپنا نام ذکر کرے جسطرح حضرت عمر بن خطاب ؓ سے ثابت ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کے پاس آئے آپ ﷺ اپنے بالا خانے میں تشریف فرما تھے عرض کی : کیا عمر داخل ہوسکتا ہے۔ ؟ صحیح مسلم میں ہے حضرت ابو موسیٰ ، حضرت عمر بن خطاب ؓ کے پاس آئے اور کہا : السلام علیکم۔ یہ ابو موسیٰ ہے۔ السلام علیکم۔ یہ اشعری ہے۔ (الحدیث) مسئلہ نمبر 11 ۔ خطیب نے اپنی جامع میں علی بن عاصم واسطی سے روایت کیا ہے فرمایا : میں بصرہ میں آیا تو شعبہ کے گھر آیا میں نے ان کا دروازہ کھٹکھٹایا انہوں نے پوچھا : کون ؟ میں نے کہا : میں۔ انہوں نے فرمایا : اے شخص میرا تو کوئی ایسا دوست نہیں جس کو میں کہا جاتا ہو۔ پھر وہ میری طرف نکلے اور کہا : مجھے منکدر نے بتایا انہوں نے حضرت جابر بن عبدا للہ سے روایت کیا فرمایا : میں کسی کام کے لئے نبی کریم ﷺ کے پاس آیا۔ میں نے ان کا دروازہ کھٹکھٹایا انہوں نے پوچھا کون ؟ میں نے کہا : انہوں نے کہا۔ میں میں۔ گویا نبی پاک ﷺ نے میرے اس قول کو ناپسند فرمایا۔ عمر بن شیبہ سے روایت ہے میں نے عمرو بن عبید کا دروازہ کھٹکھٹایا انہوں نے پوچھا کون ہے ؟ میں نے کہا : میں۔ انہوں نے کہا : غیب تو صرف اللہ جانتا ہے۔ خطیب نے کہا : میں نے یہ حکایت کرتے ہوئے سنا کہ جب ان کا دروازہ کھٹکھٹایا جاتا وہ پوچھتے کون ؟ دروازے پر کھڑا شخص کہتا میں تو شیخ صاحب فرماتے : انا (میں) ھم دق۔ مسئلہ نمبر 12 ۔ ہر قوم کا استیذان میں اپنا عرف ہے جیسا کہ ابوبکر خطیب نے مسند ابو عبد الملک مولی ام مسکین بنت عاصم بن عمر بن خطاب سے روایت کیا ہے فرمایا : مجھے میری مالکن نے حضرت ابوہریرہ کے پاس بھیجا وہ میرے ساتھ آئے جب دروازے پر کھڑے ہوئے تو فرمایا : اندرایم ؟ میری مالکن نے کہا : ا ندرون۔ انہوں نے عنوان باندھا ہے باب الاستیذان بالفارسیتہ۔ احمد بن صالح سے روایت کیا گیا ہے فرمایا : دراوردی اہل اصبحان سے تھے وہ مدینہ طیبہ آئے تو جو شخص ان کے پاس آنے کا ارادہ کرتا اسے کہتے اندرون۔ اہل مدینہ نے اس کا لقب دراوردی رکھا۔ مسئلہ نمبر 13 ۔ ابو دائود نے حضرت کلدۃ بن حنبل سے روایت کیا ہے کہ حضرت صفوان بن امیہ نے اسے بارگاہ رسالت میں دودھ، ہرن کا بچہ اور ضغا بیس دے کر بھیجا۔ نبی پاک ﷺ مکہ کی بالائی طرف میں تھے۔ میں حاضرہوا اور میں نے سلام نہ کیا : آپ ﷺ نے فرمایا : تو و اپس جا اور کہہ السلام علیکم۔ یہ حضرت صفوان بن امیہ کے اسلام لانے کے بعد کا واقعہ ہے۔ ابو زبیر نے حضرت جابر سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جو سلام سے آغاز نہ کرے اسے اجازت نہ دو ۔ ابن جریح نے ذکر کیا ہے کہ عطا نے مجھے بتایا کہ میں نے حضرت ابوہریرہ ؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا : جب کوئی شخص کہے : کیا میں د اخل ہوسکتا ہوں۔ اور سلام نہ کرے تو تم کہو۔ نہیں حتیٰ کہ تو چابی لے آئے۔ میں نے پوچھا۔ چابی سے مراد السلام علیکم ہے ؟ فرمایا : ہاں۔ روایت ہے کہ حضرت حذیفہ کے پاس ایک شخص آیا اس نے جو گھر میں تھا اسے دیکھا پھر کہا : السلام علیکم کیا میں داخل ہوسکتا ہوں ؟ حضرت حذیفہ نے کہا۔ اپنی آنکھوں کے ساتھ تو تو داخل ہوچکا ہے اور سرین کے ساتھ داخل نہیں ہوا ہے۔ مسئلہ نمبر 14 ۔ اس مسئلہ میں یہ بھی ہے جو ابو دائود نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا : ایک شخص کا دوسرے شخص کی طرف اپناپیغام رسان بھیجنا اس کی طرف اجازت ہے۔ یعنی اس نے اسے بلا بھیجا تو اس نے اسے اندر داخل ہونے کی اجازت دی۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد اس کی وضاحت کرتا ہے۔ جب تم میں سے کسی کو کھانے پر بلایا جائے اور وہ پیغام رساں کے ساتھ آئے تو یہ اس کے لئے اجازت ہے۔ اس حدیث کو ابو دائود نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے بھی روایت کیا ہے۔ مسئلہ نمبر 15 ۔ جب نظر پر نظر پڑھ جائے تو سلام متعین ہوجاتا ہے اندر والے کا تجھے دیکھنا تیرے داخل ہونے کے لیے اذن نہ ہوگا جب تک تو سلام کا حق ادا نہ کرے گا کیونکہ اس پر وارد ہونے والا ہے تو کہے گا : کیا میں داخل ہوسکتا ہوں۔ وہ اگر تجھے اجازت دے تو فبہا ورنہ تو واپس لوٹ جا۔ مسئلہ نمبر 16 ۔ یہ تمام احکام اس گھر کے لئے ہیں جو تمہارا نہیں ہے۔ رہا تمہارا اپنا گھر تو اس میں تمہارے اہل ہیں تو پھر ان سے اجازت طلب کرنے کی ضرورت نہیں مگر تو ان پر سلام کر جب بھی تو داخل ہو۔ قتادہ نے کہا : جب تو اپنے گھر میں داخل ہو تو اپنے گھر والوں پر سلام کر وہ سب سے زیادہ حق دار ہیں۔ جنہیں تو سلام کرتا ہے اگر اس گھر میں تیرے ساتھ تیری والدہ یا تیری ہمشیرہ ہے تو علماء فرماتے ہیں : پہلے تو کھانسی کر اور زمین پرز ور سے پائوں مارتا کہ وہ تیری آمد کے متعلق آگاہ ہوجائیں کیونکہ تیرے اور تیرے اہل کے درمیان تو کوئی حشمت نہیں لیکن والدہ اور ہمشیرہ کبھی ایسی حالت میں ہوتی ہیں جس میں تو انہیں دیکھنا پسند نہیں کرتا۔ ابن القاسم نے کہا : امام مالک نے فرمایا : آدمی اپنی والدہ اور اپنی ہمشیرہ سے اجازت طلب کرے جب وہ انکے پاس جانے کا ارادہ کرے۔ عطا بن یسار نے روایت کیا ہے ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے عرض کی۔ کیا میں اپنی والدہ سے بھی اجازت طلب کروں ؟ فرمایا : ہاں۔ اس شخص نے عرض کی : حضور : میں اس کی خدمت کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تو اجازت طلب کر۔ تین مرتبہ یہی سوال و جواب ہوا پھر آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تو اسے برہنہ حالت میں دیکھنا پسند کرتا ہے۔ اس نے کہا : نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : پھر تو اس سے اجازت طلب کر۔ یہ طبری نے ذکر کیا ہے۔ مسئلہ نمبر 17 ۔ اگر اپنے گھر میں داخل ہو جس میں کوئی نہیں رہتا تو ہمارے علماء نے کہا : وہ کہے : السلام علینا من ربنا التحیات الطیبات المبارکات اللہ السلام۔ اس کو ابن وہب نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا اور اس کی سند ضعیف ہے۔ قتادہ نے کہا : جب تو ایسے مکان میں داخل ہو جہاں کوئی نہیں ہے تو تو کہہ : السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین۔ اس کا تجھے حکم دیا گیا ہے فرمایا : ہمارے لئے ذکر کیا گیا ہے فرشتے سلام کا جواب دیتے ہیں۔ ابن عربی نے کہا : صحیح سلام اور استیذان کا ترک ہے۔ میں کہتا ہوں۔ قتادہ کا قول بہتر ہے۔
Top