Ruh-ul-Quran - Al-Kahf : 9
اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ وَ الرَّقِیْمِ١ۙ كَانُوْا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًا
اَمْ حَسِبْتَ : کیا تم نے گمان کیا اَنَّ : کہ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ : اصحاب کہف (غار والے) وَالرَّقِيْمِ : اور رقیم كَانُوْا : وہ تھے مِنْ : سے اٰيٰتِنَا عَجَبًا : ہماری نشانیاں عجب
کیا تم سمجھتے ہو کہ غار اور رقیم والے ہماری کوئی بڑی عجیب نشانیوں میں تھے۔
اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْـکَھْفِ وَالرَّقِیْمِ لا کَانُوْا مِنْ اٰیٰـتِنَا عَجَبًا۔ (الکہف : 9) (کیا تم سمجھتے ہو کہ غار اور رقیم والے ہماری کوئی بڑی عجیب نشانیوں میں تھے۔ ) مخاطب کون ہے ؟ اس آیت کریمہ کا پہلا لفظاَمْ حَسِبْتَ کا مخاطب کون ہے ؟ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ اس کے مخاطب آنحضرت ﷺ ہیں۔ لیکن اس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے نبوت کے بعد سے مختلف اوقات میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کی عجیب و غریب نشانیاں دیکھیں اور اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ یہ سورت سورة بنی اسرائیل کے بعد نازل ہوئی ہے جیسا کہ بعض اہل علم کا خیال ہے تو پھر تو آپ ﷺ معراج شریف کے سفر میں جو کچھ دیکھ چکے ہیں اس کے بعد کسی نشانی کو عجیب سمجھنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ویسے بھی قرآن کریم میں مختلف انبیائے کرام کے معجزات کا ذکر ہوا ہے اور مختلف قوموں کی تاریخ بیان ہوئی ہے۔ اصحابِ کہف کا واقعہ ان سے زیادہ عجیب تو نہیں ہے۔ اس لیے قرین قیاس یہی ہے کہ اس میں خطاب آنحضرت ﷺ کو نہیں بلکہ ہر شخص اس کا مخاطب ہے۔ خطاب کا یہ انداز اپنے اندر اس قدر عموم رکھتا ہے کہ جن لوگوں اور جس قوم سے خطاب ہورہا ہے اس کا ایک ایک شخص مخاطب ہوتا ہے۔ یہ سوال بھی چونکہ قریش کی طرف سے آیا تھا اس لیے اسی عموم اور تاکید کے ساتھ انھیں متوجہ کرتے ہوئے جواب دیا جارہا ہے۔ رقیم سے کیا مراد ہے ؟ قریش نے اہل کتاب کی انگیخت پر آنحضرت ﷺ سے تین سوال کیے تھے جن میں سے ایک سوال اصحابِ کہف کے بارے میں تھا۔ چناچہ یہ اسی کا جواب دیا گیا ہے۔ کہف عربی زبان میں وسیع غار کو کہتے ہیں اور غار تنگ کھوہ کو۔ لیکن اردو زبان میں یہ دونوں لفظ ہم معنی ہیں۔ قرآن کریم اور دوسری تاریخی معلومات سے معلوم ہوتا ہے کہ اصحابِ کہف جس غار میں پناہ گزین ہوئے تھے وہ ایک وسیع غار تھا۔ اور تاریخ میں وہ غار والے (اصحابِ کہف) ہی کے نام سے مشہور ہوئے۔ لیکن یہاں قرآن کریم نے انھیں اَصْحٰبَ الْـکَھْفِ وَالرَّقِیْمِ لا کہا ہے۔ اہل علم میں اس بات پر اختلاف ہوا ہے کہ رقیم سے کیا مراد ہے ؟ بعض صحابہ اور تابعین اس طرف گئے ہیں کہ یہ اس بستی کا نام ہے جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا لیکن بعض قدیم مفسرین کا خیال ہے کہ اس سے مراد وہ کتبہ ہے جو اصحابِ کہف کے دریافت ہونے کے بعد ان کی یادگار کے طور پر ان کی غار پر لگایا گیا تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم نے اپنی تفسیر ترجمان القرآن میں پہلے معنی کو ترجیح دی ہے اور یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ مقام وہی ہے جسے بائبل کی کتاب یشوع (باب 18 آیت 27) میں رقم یا راقم کہا گیا ہے۔ پھر وہ اسے نبطیوں کے مشہور تاریخی مرکز پیٹرا کا قدیم نام قرار دیتے ہیں۔ لیکن مولانا مودودی کا خیال یہ ہے کہ کتاب یشوع میں رقم یا راقم کا ذکر بنی بن یمین کی میراث کے سلسلے میں آیا ہے اور خود اسی کتاب کے بیان کی رو سے اس قبیلے کی میراث کا علاقہ دریائے اردن اور بحرلوط کے مغرب میں واقع تھا جس میں پیٹرا کے ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ پیٹرا کے کھنڈر جس علاقے میں پائے گئے ہیں اس کے اور بنی بن یمین کی میراث کے درمیان تو یہوداہ اور ادومیہ کا پورا علاقہ حائل تھا۔ اسی بنا پر جدید زمانے کے محققینِ آثارِ قدیمہ نے یہ بات ماننے میں سخت تأمل کیا ہے کہ پیٹرا اور راقم ایک چیز ہیں۔ مولانا مودودی کا خیال اس تحقیق کی بنا پر یہ ہے کہ رقیم سے مراد کوئی بستی نہیں بلکہ کتبہ ہے جو ان کے غار پر لگایا گیا تھا۔ لیکن چند سال پہلے جو ایک نئی تحقیق سامنے آئی ہے اس کا ہم آگے چل کر ذکر کریں گے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصحابِ کہف کا غار اردن کے علاقے میں عمان کے قریب دریافت ہوا ہے اور اس غار کے قریب ایک بستی ہے جس کے بارے میں سینہ بہ سینہ روایات یہ ہیں کہ اصحابِ کہف وہاں کے رہنے والے تھے۔ اسے بدو لوگ اپنی زبان میں رجیب کہتے ہیں۔ خیال یہ ہے کہ یہ رقیم کی بگڑی ہوئی شکل ہے کیونکہ یہاں کے بدو اکثر قاف کو جیم اور میم کو با سے بدل کر بولتے ہیں۔ مسیحی مصادر میں تقریباً جزم کے ساتھ یہ بیان کیا گیا ہے کہ یہ واقعہ ترکی کے شہر افسس کے قریب پیش آیا تھا جس کا اسلامی نام طرسوس ہے اور وہیں پر ایک غار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اصحابِ کہف کا غار ہے۔ شاید انھیں مسیحی روایات کے زیراثر بہت سے مسلمان مفسرین اور مؤرخین نے بھی اصحابِ کہف کا محل وقوع افسس ہی کو بتایا ہے۔ اس سلسلے میں صاحب تفہیم القرآن نے ایک طویل نوٹ لکھا ہے، ہم اسے یہاں نقل کررہے ہیں۔ اس قصے کی قدیم ترین شہادت شام کے ایک عیسائی پادری جیمس سروجی کے مواعظ میں پائی گئی ہے جو سریانی زبان میں لکھے گئے تھے۔ یہ شخص اصحابِ کہف کی وفات کے چند سال بعد 452 ء میں پیدا ہوا تھا اور اس نے 474 ء کے لگ بھگ زمانے میں اپنے یہ مواعظ مرتب کیے تھے۔ ان مواعظ میں وہ اس پورے واقعہ کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ یہی سریانی روایت ایک طرف ہمارے ابتدائی دور کے مفسرین کو پہنچی جسے ابن جریر طبری نے مختلف سندوں کے ساتھ اپنی تفسیر میں نقل کیا، اور دوسری طرف یورپ پہنچی جہاں یونانی اور لاطینی زبانوں میں اس کے ترجمے اور خلاصے شائع ہوئے۔ گبن نے اپنی کتاب ” تاریخ زوال و سقوطِ دولت روم “ کے باب 33 میں ” سات سونے والوں “ کے عنوان کے تحت ان مآخذ سے اس قصے کا جو خلاصہ دیا ہے وہ ہمارے مفسرین کی روایات سے اس قدر ملتا جلتا ہے کہ دونوں قصے قریب قریب ایک ہی ماخذ سے ماخوذ معلوم ہوتے ہیں۔ مثلاً جس بادشاہ کے ظلم سے بھاگ کر اصحابِ کہف غار میں پناہ گزین ہوئے تھے، ہمارے مفسرین اس کا نام دقینوس یا دقیانوس یا دقیوس بتاتے ہیں اور گبن کہتا ہے کہ وہ قیصر ڈیسیس (Decirs) تھا جس نے 249 ء سے 251 ء تک سلطنت روم پر فرمانروائی کی ہے اور مسیح (علیہ السلام) کے پیروئوں پر ظلم و ستم کرنے کے معاملہ میں جس کا عہد بہت بدنام ہے جس شہر میں یہ واقعہ پیش آیا اس کا نام ہمارے مفسرین افسس یا افسوس لکھتے ہیں، اور گبن اس کا نام افسس (Ephesus) بتاتا ہے جو ایشیائے کو چک کے مغربی ساحل پر رومیوں کا سب سے بڑا شہر اور مشہور بندرگاہ تھا، جس کے کھنڈر آج موجودہ ٹرکی کے شہر ازمیر (سمرنا) سے 20۔ 25 میل بجانب جنوب پائے جاتے ہیں (ملاحظہ ہو نقشہ نمبر 2 صفحہ 43) ۔ پھر جس بادشاہ کے عہد میں اصحابِ کہف جاگے اس کا نام ہمارے مفسرین تیذوسیس لکھتے ہیں اور گبن کہتا ہے کہ ان کے بعث کا واقعہ قیصر تھیوڈوسیس (Theodosius) ثانی کے زمانے میں پیش آیا جو رومی سلطنت کے عیسائیت قبول کرلینے کے بعد 408 ء سے 450 ء تک روم کا قیصر رہا۔ دونوں بیانات کی مماثلت کی حد یہ ہے کہ اصحابِ کہف نے بیدار ہونے کے بعد اپنے جس رفیق کو کھانا لانے کے لیے شہر بھیجا تھا اس کا نام ہمارے مفسرین یملیخا بتاتے ہیں اور گبن اسے یملیخس (Jamblchus) لکھتا ہے۔ قصے کی تفصیلات دونوں روایتوں میں یکساں ہیں اور ان کا خلاصہ یہ ہے کہ قیصر ڈیسیس کے زمانے میں جب مسیح (علیہ السلام) کے پیروئوں پر سخت ظلم و ستم ہورہے تھے، یہ سات نوجوان ایک غار میں جا بیٹھے تھے۔ پھر قیصر تھیوڈوسیس کی سلطنت کے اڑتیسویں سال (یعنی تقریباً 445 ء یا 446 ء میں) یہ لوگ بیدار ہوئے جبکہ پوری رومی سلطنت مسیح (علیہ السلام) کی پیرو بن چکی تھی۔ اس حساب سے غار میں ان کے رہنے کی مدت تقریباً 196 سال بنتی ہے۔ بعض مستشرقین نے اس قصے کو قصہ اصحابِ کہف کا مترادف ماننے سے اس بنا پر انکار کیا ہے کہ آگے قرآن ان کے قیام غار کی مدت 309 سال بیان کر رہا ہے لیکن اس کا جواب ہم نے حاشیہ نمبر 25 میں دے دیا ہے۔ اس سریانی روایت اور قرآن کے بیان میں کچھ جزوی اختلافات بھی ہیں جن کو بنیاد بناکر گبن نے نبی کریم ﷺ پر ” جہالت “ کا الزام لگایا ہے، حالانکہ جس روایت کے اعتماد پر وہ اتنی بڑی جسارت کررہا ہے اس کے متعلق وہ خود مانتا ہے کہ وہ اس واقعہ کے تیس چالیس سال بعد شام کے ایک شخص نے لکھی ہے اور اتنی مدت کے اندر زبانی روایات کے ایک ملک سے دوسرے ملک تک پہنچنے میں کچھ نہ کچھ فرق ہوجایا کرتا ہے۔ اس طرح ایک روایت کے متعلق یہ خیال کرنا کہ وہ حرف بحرف صحیح ہے اور اس سے کسی جز میں اختلاف ہونا لازماً قرآن ہی کی غلطی ہے، صرف ان ہٹ دھرم لوگوں کو زیب دیتا ہے جو مذہبی تعصب میں عقل کے معمولی تقاضوں تک کو نظرانداز کر جاتے ہیں۔ (تفہیم القرآن) ایک اور تحقیق مسیحی اور مسلمان مؤرخین کی اس تاریخی تحقیق کے پہلو بہ پہلوہم یہ دیکھتے ہیں کہ واقعہ کی تفصیل سے قطع نظر جس جگہ یہ واقعہ پیش آیا تھا اس کے بارے میں حضرت ابن عباس ( رض) کی ایک روایت تفسیر ابن جریر میں مروی ہے، جس میں حضرت ابن عباس ( رض) نے فرمایا ہے کہ اصحابِ کہف کا غار ایلہ (خلیج عقبہ) کے قریب یعنی اردن میں واقعہ ہے۔ اس روایت اور متعدد دوسرے قرائن کی بنیاد پر آخری دور کے بہت سے محققین نے اسی کو ترجیح دی ہے کہ یہ غار اردن میں واقع ہے۔ حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی نے قصص القرآن میں اس موضوع پر مفصل بحث کی ہے اور متعلقہ تاریخی اور جغرافیائی شواہد کی روشنی میں اسی کو درست قرار دیا ہے کہ یہ غار اردن میں ہے اور مولانا سیدسلمان ندوی ( رح) نے بھی ارض القرآن میں اردن کے قدیم شہر پٹرا کو رقیم قرار دیا ہے۔ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب نے بھی تفسیر معارف القرآن میں مفصل بحث کے بعد اسی طرف رجحان ظاہر فرمایا ہے کہ یہ غار اردن میں ہے۔ اور مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم کی رائے بھی یہی تھی۔ ان تمام حضرات کی تحقیق کا حاصل بھی یہی ہے کہ اردن کے مشہور تاریخی شہر پٹرا کا اصل نام رقیم تھا جسے رومی حکومت نے بدل کر پٹرا کردیا اور یہ غار اسی کے قریب واقع تھا۔ اور ہم عرض کرچکے ہیں کہ مولانا مودودی کو اس سے اختلاف ہے کہ پٹرا اور رقیم ایک ہی چیز ہیں۔ مولانا محمد تقی عثمانی نے اپنے سفرنامہ ” جہانِ دیدہ “ میں اردن کے ایک مشہور محقق کی تحقیق کا تفصیل سے ذکر فرمایا ہے اور خوداپنے چشم دید واقعات بھی اسی حوالے سے سپردقلم کیے ہیں۔ ہم ان کی تحریر کو یہاں نقل کررہے ہیں۔ 1953 ء میں اردن کے محقق تیسیر ظبیان صاحب کو کسی طرح پتہ چلا کہ عمان کے قریب ایک پہاڑ پر ایک ایسا غار واقع ہے جس میں کچھ قبریں اور مردہ ڈھانچے موجود ہیں اور اس غار کے اوپر ایک مسجد بھی بنی ہوئی ہے۔ چناچہ وہ اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ اس غار کی تلاش میں روانہ ہوئے۔ یہ جگہ عام راستے سے ہٹ کر واقع تھی۔ اس لیے کئی کلو میٹر دشوار گزار راستہ طے کرکے وہ اس غار کے دہانے پر پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ تیسیرظبیان صاحب کے الفاظ ہیں : ” ہم ایک اندھیرے غار کے سامنے کھڑے تھے جو ایک دورافتادہ جگہ اور ایک چٹیل پہاڑ پر واقع تھا، غار میں اس قدر اندھیرا تھا کہ ہمارا اندر داخل ہونا مشکل ہوگیا، ایک چرواہے نے ہمیں بتایا کہ غار کے اندر کچھ قبریں ہیں اور ان میں بوسیدہ ہڈیاں پڑی ہیں، غار کا دروازہ جنوب کی سمت تھا اور اس کے دونوں کناروں پر دو ستون تھے جو چٹان کو کھود کر بنائے گئے تھے۔ میری نظر اچانک ان ستونوں پر بنے ہوئے نقوش پر پڑی تو اس پر بیزنطی نقوش نظر آرہے تھے، غار کو ہر طرف سے پتھروں کے ڈھیروں اور ملبے نے چھپایا ہوا تھا اور یہاں سے تقریباً سو میٹر کے فاصلے پر ایک بستی تھی جس کا نام ” رجیب “ تھا۔ “ تیسیرظبیان صاحب نے اپنی تحقیق جاری رکھی، محکمہ آثار قدیمہ کو متوجہ کیا بالآخر ایک ماہر اثریات رفیق رجانی صاحب نے ماہرانہ تحقیق کے بعد یہ رائے ظاہر کی کہ یہی غار اصحابِ کہف کا غار ہے، چناچہ 1961 ء میں اس کی کھدائی کا کام شروع ہوا تو اس رائے کی تائید میں بہت سے قرائن و شواہد ملتے چلے گئے جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں : 1 اس غار کا دہانہ جنوب کی طرف ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس پر قرآن کریم کی یہ آیت پوری طرح صادق ہے۔ وَتَرٰی الشَّمْسَ اِذَا طَلَعَتْ تَزَاوَرُعَنْ کَـھُفِھِمْ ذَاتَ الْیَمِیْنِ وَاِذَا غَرَبَتْ تَقْرِضْھُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَھُمْ فِیْ فَجْوَۃٍ مِّنْہْ ۔ اور سورج جب طلوع ہوتا تو ان کے غار سے دائیں جانب جھکتا ہوا گزرتا اور جب غروب ہوتا تو ان کے بائیں جانب سے کترا کر گزرتا اور یہ لوگ اس غار کے کشادہ حصے میں تھے۔ اس غار میں صورتحال یہی ہے کہ دھوپ کسی وقت اندر نہیں آتی بلکہ طلوع و غروب کے وقت دائیں بائیں سے گزر جاتی ہے اور غار کے اندر ایک کشادہ خلا بھی ہے جس میں ہوا اور روشنی آرام سے پہنچتی ہے۔ 2 قرآن کریم نے یہ بھی ذکر فرمایا ہے کہ بستی کے لوگوں نے اس غار کے اوپر مسجد بنانے کا ارادہ کیا تھا۔ چناچہ اس غار کے ٹھیک اوپر کھدائی کرنے اور ملبہ ہٹانے کے بعد ایک مسجد بھی برآمد ہوئی ہے جو قدیم رومی طرز کے پتھروں سے بنی ہوئی ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ یہ شروع میں بازنطینی طرز کا ایک معبد تھا اور عبدالملک بن مروان کے زمانے میں اسے مسجد بنادیا گیا۔ 3 عصر حاضر کے بیشتر محققین کا کہنا یہ ہے کہ وہ مشرک بادشاہ جس کے ظلم و ستم سے تنگ آکر اصحابِ کہف نے غار میں پناہ لی تھی ٹراجان تھا جو 98 ء سے 117 ء تک حکمران رہا ہے اور اس کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ بت پرستی سے انکار کرنے والوں پر سخت ظلم ڈھاتا تھا، تاریخ سے یہ بھی ثابت ہے کہ ٹرا جان نے 106 ء میں شرق اردن کا علاقہ فتح کرلیا تھا اور اسی نے عمان کا وہ سٹیڈیم تعمیر کیا تھا جس کا ذکر پیچھے آچکا ہے اور وہ بادشاہ جس کے عہد میں اصحابِ کہف بیدار ہوئے اس کا نام جدید محققین تھیوڈوسیس بتاتے ہیں جو پانچویں صدی کے آغاز میں گزرا ہے۔ دوسری طرف اس نئے دریافت شدہ غار کے اندر جو سکے پڑے ہوئے ملے ہیں ان میں سے کچھ ٹرا جان کے زمانے کے ہیں (موقع اصحاب الکہف ص 35) جس سے اس خیال کو بہت تقویت ملتی ہے کہ یہی اصحابِ کہف کا غار ہے۔ 4 قرآن کریم نے اصحابِ کہف کو ” اصحاب الکہف والرقیم “ (غار اور رقیم والے) کہا ہے، رقیم کیا چیز ہے ؟ اس کی تشریح میں مختلف آراء بیان کی جاتی ہیں لیکن بیشتر محققین کا خیال یہ ہے کہ رقیم اس بستی کا نام تھا جس میں ابتداً یہ حضرات آباد تھے۔ اب جس جگہ یہ غار واقع ہے وہاں سے نکل کر سو میٹر کے فاصلے پر ایک چھوٹی سی بستی ” رجیب “ کہلاتی ہے۔ رفیق الدجانی صاحب کا خیال یہ ہے کہ یہ ” رقیم “ کی بگڑی ہوئی شکل ہے کیونکہ یہاں کے بدو اکثر قاف کو جیم اور میم کو با سے بدل کر بولتے ہیں (موقع اصحاب الکہف ص 118) چناچہ اب حکومت اردن نے اس بستی کا نام سرکاری طور پر ” رقیم “ ہی کردیا ہے بعض قدیم علماء جغرافیہ نے بھی رقیم کی بستی کو عمان کے قریب بتایا ہے۔ چناچہ معروف جغرافیہ نگار ابوعبداللہ البشاری المقدسی اپنی کتاب ” احسن التقاسیم فی معرفۃ الاقالیم “ میں لکھتے ہیں : والرقیم بلد فی شرق الأردن بالقرب من عمان، حیث وجدت مغارۃ فیھا عدد من الجثث غیرالبالیۃ۔ (موقع اصحاب الکہف، ص 49) رقیم شرق اردن میں عمان کے قریب ایک شہر ہے جہاں ایک غار بھی پایا گیا ہے جس میں کچھ انسانی ڈھانچے بھی ہیں جو زیادہ بوسیدہ نہیں ہوئے۔ اس کے علاوہ علامہ یاقوت حموی ( رح) نے بھی رقیم کی تشریح کرتے ہوئے ایک قول یہ نقل کیا ہے کہ : ان بالبلقاء بأرض العرب من نواحی دمشق موضعا یزعمون آنہ الکہف والرقیم قرب عمان۔ دمشق کے مضافات میں جو عربی سرزمین بلقا کہلاتی ہے اس میں شہر عمان کے قریب ایک جگہ ہے جس کے بارے میں ان لوگوں کا خیال ہے کہ وہی کہف اور رقیم ہے۔ 5 تیسیرظبیان صاحب نے بعض روایات نقل کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ قرون اولیٰ کے مسلمان اسی علاقے کے کسی غار کو اصحابِ کہف کا غار سمجھتے تھے۔ حضرت عبادہ بن صامت ( رض) کے بارے میں مروی ہے کہ حضرت صدیق اکبر ( رض) نے انھیں بادشاہ روم کے پاس ایلچی بناکر بھیجا تو وہ راستے میں شام و حجاز کے راستے پر ایک پہاڑ سے گزرے جس کا نام جبل الرقیم تھا، اس میں ایک غار بھی تھا جس میں کچھ ڈھانچے تھے اور وہ بوسیدہ بھی نہیں ہوئے تھے۔ نیز تفسیر قرطبی میں حضرت ابن عباس ( رض) کے بارے میں بھی مروی ہے کہ وہ اس غار سے گزرے تھے اور اسے اصحابِ کہف کا غار قرار دیا تھا۔ فتوح الشام میں واقدی نے بھی حضرت سعید بن عامر ( رض) کا ایک طویل قصہ لکھا ہے کہ وہ شام کی طرف جہاد کے لیے روانہ ہوئے اور راستہ بھول گئے، بالآخر بھٹکتے بھٹکتے جبل الرقیم کے پاس پہنچے تو اسے دیکھ کر پہچان گئے۔ اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ یہ اصحابِ کہف کا غار ہے، چناچہ وہاں نماز پڑھ کر عمان شہر میں داخل ہوئے۔ (موقع اصحاب الکہف ص 46، 47، 103) بہرکیف ! اتنے پرانے واقعہ کے محل وقوع کے بارے میں حتمی طور پر سو فیصد یقین کے ساتھ کچھ کہنا تو مشکل ہے لیکن اس میں شک نہیں ہے کہ اب تک جتنے مقامات کے بارے میں مقام اصحابِ کہف ہونے کی رائے ظاہر کی گئی ہے ان سب میں جتنے زیادہ قرائن و شواہد اس غار کے حق میں ہیں، کسی اور غار کے حق میں اتنے قرائن موجود نہیں ہیں۔ تیسیرظبیان صاحب نے اپنی کتاب میں افسس کے غار سے اس غار کا موازنہ بھی کیا ہے، اس موازنے سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے۔ یہ غار عمان شہر سے 7 کلو میٹر جنوب میں واقع ہے اور اردن کی مرکزی شاہراہ جو عقبہ سے عمان تک گئی ہے اس سے اس کا فاصلہ 3 کلو میٹر ہے۔ ہم تقریباً 9 بجے صبح یہاں پہنچے۔ اب کاروں کے لیے پہاڑ کے اوپر تک جانے کے لیے راستہ بنادیا گیا ہے۔ کار سے اتر کر تھوڑا سا اوپر چڑھے تو ایک کشادہ صحن سا ہے جس میں قدیم طرزتعمیر کے کچھ ستون وغیرہ بنے ہوئے ہیں۔ اس صحن کو عبور کرکے غار کا دہانہ ہے، دہانہ کے فرش پر ایک خاصی چوڑے پتھر کی بنی ہوئی ایک چوکھٹ سی ہے، اس سے غار کے اندر اترنے کے لیے تقریباً دو سیڑھیاں نیچے جانا پڑتا ہے۔ یہاں آکر یہ غار تین حصوں میں تقسیم ہوگیا ہے۔ ایک حصہ دہانے سے سیدھا شمال تک گیا ہے، دوسرا دائیں ہاتھ مشرق کی طرف مڑ گیا ہے اور تیسرا بائیں ہاتھ مغرب کی طرف۔ مشرقی اور مغربی حصوں میں 8 تابوت نما قبریں بنی ہوئی ہیں۔ مشرقی حصے کی ایک قبر میں ایک چھوٹا سا سوراخ بھی ہے۔ اس سوراخ میں جھانک کر دیکھیں تو ایک انسانی ڈھانچہ صاف نظر آتا ہے۔ اگر اندھیرا ہو تو غار کا مجاور موم بتی جلا کر اندر کا منظر دکھا دیتا ہے۔ لیکن غار کا جو حصہ جنوب سے شمال کی طرف سیدھا گیا ہے، وہ تقریباً سپاٹ ہے اور اسی کے بارے میں تیسیرظبیان صاحب کا خیال یہ ہے کہ یہی وہ ” فجوہ “ ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے۔ جب 1961 ء میں اس غار کی صفائی اور کھدائی کا کام شروع ہوا تو رفیق الدجانی کہتے ہیں کہ غار کی اسی درمیانی جگہ میں ایک جانور کا جبڑا پڑا ہوا ملا جس میں ایک نوکیلا دانت اور چار داڑھیں محفوظ تھیں۔ تیسیرظبیان صاحب کا خیال ہے کہ یہ اصحابِ کہف کے کتے کا جبڑا تھا۔ اس کے علاوہ اسی جگہ پر رومی، اسلامی اور عثمانی دور کے بہت سے سکے ٹھیکری کے برتن، کوڑیوں کے ہار، پیتل کے کنگن اور انگوٹھیاں بھی پڑی ہوئی ملی تھیں۔ اب یہ ساری چیزیں ایک الماری میں جمع کرکے غار کی شمالی دیوار میں محفوظ کردی گئی ہیں جو ہم نے بھی دیکھیں۔ غار کے مشرقی حصے میں ایک اوپر کو بلند ہوتی ہوئی چھوٹی سے سرنگ ہے جو دھواں نکالنے والی چمنی کی شکل میں ہے، یہ سرنگ غار کی چھت پر جو مسجد بنی ہوئی ہے اس میں جا کر نکلی ہے لیکن جب یہ غار دریافت ہوا اس وقت اس سرنگ کے بالائی دھانے پر ایک پتھر رکھا ہوا ملا تھا۔ اتفاق سے سلطان صلاح الدین ایوبی کے لشکر کے ایک جرنیل اسامہ بن منقذ نے اپنی کتاب ” الاعتبار “ میں بھی ذکر کیا ہے کہ میں 30 شہسواروں کے ساتھ اس غار میں گیا اور وہاں نماز پڑھی لیکن وہاں ایک تنگ سرنگ تھی اس میں داخل نہیں ہوا۔ تیسیرظبیان صاحب کا خیال ہے کہ یہ وہی تنگ سرنگ ہے۔ (موقع اصحاب الکہف، ص 49) غار کو جب صاف کرکے دیکھا گیا تو اس کی دیواروں پر خط کوفی اور خط یونانی میں کچھ عبارتیں بھی لکھی ہوئی تھیں، جو اب پڑھی نہیں جاتیں۔ غار سے باہر نکلے تو سامنے کے صحن میں ایک گول دائرہ بنا نظر آیا، مجاور نے بتایا کہ غار کی دریافت کے وقت یہاں ایک زیتون کے درخت کا تنا برآمد ہوا تھا۔ رفیق الدجانی صاحب نے لکھا ہے کہ زیتون کا یہ درخت بدوی دور کا ہے اور اس کے قریب ایک مسقف قبر بھی تھی اور جب ہم نے پہلے پہل یہاں کھدائی اور صفائی شروع کی تو آس پاس کے معمر لوگوں نے بتایا کہ زیتون کا یہ درخت 20 سال پہلے تک تروتازہ تھا اور ہم اس کا پھل بھی کھایا کرتے تھے۔ غار کے ٹھیک اوپر ایک قدیم مسجد کی دیواریں ایک محراب سمیت چند فٹ تک ابھری ہوئی نظر آتی ہیں۔ جب شروع میں تیسیرظبیان اور رفیق الدجانی صاحب یہاں پہنچے تھے اس وقت یہ مسجد نظر نہ آتی تھی، کھدائی اور صفائی کے بعد مسجد برآمد ہوئی۔ یہ مسجد دس میٹر لمبی اور دس میٹر چوڑی ہے اور کھدائی کے دوران اس کے بیچ میں چار گول ستون برآمد ہوئے جو رومی طرز کے ہیں یہاں سے رومی بادشاہ جسٹن کے عہد (517 ء۔ 527 ء) کے کچھ پیتل کے سکے بھی کھدائی کے دوران برآمد ہوئے، ڈیڑھ میٹر کے برابر ایک چھوٹا سا کمرہ بھی نکلا جس کی چھت کو شاید اذان کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، اسی کے قریب کچھ مٹی کے لوٹے بھی پائے گئے جو وضو میں استعمال ہوتے ہوں گے۔ یہ یہیں سے ایک کتبہ بھی برآمد ہوا جس کی تحریر سے واضح ہوتا ہے کہ احمد بن طولون کے بیٹے خمارویہ کے زمانے (895 عیسوی) میں اس مسجد کی مرمت کی گئی تھی۔ اس تمام مجموعے سے ماہرین نے جو نتائج نکالے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ ابتدا میں یہاں رومیوں نے ایک عبادت گاہ بنائی تھی۔ عہد اسلام میں (غالباً عبدالمالک بن مروان کے زمانے میں) اسے مسجد میں تبدیل کردیا گیا لیکن مسلمانوں نے اس کے طول و عرض میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔ اس وقت اردن کے محکمہ آثار قدیمہ اور محکمہ اوقاف نے اس غار کے تحفظ اور اس کی صفائی وغیرہ پر خاص توجہ صرف کی ہے۔ اس کے قریب ایک نئی مسجد بھی تعمیر کردی ہے۔ زائرین کی سہولت کے لیے راستہ آسان بنادیا ہے اور غار کے اندر کتبات لگا دیئے ہیں۔
Top