Urwatul-Wusqaa - An-Noor : 48
وَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ مُّعْرِضُوْنَ
وَاِذَا : اور جب دُعُوْٓا : جب وہ بلائے جاتے ہیں اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کا رسول لِيَحْكُمَ : تاکہ وہ فیصلہ کردیں بَيْنَهُمْ : تاکہ وہ فیصلہ کردیں اِذَا : ناگہاں فَرِيْقٌ : ایک فریق مِّنْهُمْ : ان میں سے مُّعْرِضُوْنَ : منہ پھیر لیتا ہے
اور جب ان کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ ان کے درمیان فیصلہ فرما دے تو ان میں سے ایک گروہ (کے لوگ) مُنہ پھیر جاتے ہیں
ان کی حالت کے پیش نظر ان کی اندرونی حالت وکیفیت کا بیان : 82۔ جب ان کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف دعوت دی جاتی ہے تو ان کے قدم آگے کی طرف کو نہیں اٹھتے کیوں ؟ اس لئے کہ ان کے دل میں جو بیماری ہے وہ قدم اٹھانے ہی نہیں دیتی اور انکو اس بات کا پختہ یقین ہے کہ وہ کسی رو رعایت کی کوئی امید نہیں جو بات ہوگی وہ بالکل صاف صاف اور کھلی ہوگی اور اس طرح کی کھلی اور صاف بات کو وہ ہرگز ہرگز پسند نہیں کرتے ۔ یاد رہے کہ اس وقت جب خود نبی اعظم وآخر ﷺ موجود تھے جب ان کو دعوت دی جاتی تھی تو صرف رسول اللہ ﷺ ہی کی طرف دعوت دی جاتی تھی اور آپ ﷺ ہی کی فیصلہ صادر کرنا ہوتا تھا پھر یہ اللہ کی طرف دعوت چہ معنی دارد ؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خود نبی کریم ﷺ کے وقت میں بھی جو فیصلے ہوتے تھے وہ سارے کے سارے وحی متلوہی کے ذریعہ نہیں ہوتے تھے بلکہ نبی کریم ﷺ اپنی ذاتی صوابدید کے مطابق بھی فیصلہ فرماتے تھے جن کا ماننا مسلمانوں کے لئے ایسا ہی ضروری تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف وحی متلو کے ذریعہ کئے گئے فیصلوں کا ماننا ضروری تھا یہی وجہ ہے کہ دوسری جگہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں وضاحت فرما دی کہ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ہی دراصل اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے کیونکہ ہر انسان کے اختیار کی بات نہیں کہ وہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے لیکن افسوس کہ یہ بات اس وقت کے منافقین کو بھی کھٹکتی تھی اور آج کے دور کے منافقین کو بھی یہی بات کھٹکتی نظر آتی ہے ، وہ قرآن کریم کا بار بار نام استعمال کرتے ہیں لیکن حدیث وسنت کے نام سے دور بھاگتے ہیں اور سننے کو تیار ہی نہیں ہوتے ‘ کیوں ؟ اگر حدیث وسنت کا نام لیاجائے تو ان کو پابند ہونا پڑتا ہے اور وہ پابند ہونا نہیں چاہتے حالانکہ اگر حدیث وسنت سے مکمل طور پر گلوخلاصی کرائی جاسکے تو قرآن کریم کے کثیر حصہ سے خود بخود چھٹکارا ہوجاتا ہے کہ کون اللہ سے ملا ہے اور کس سے اللہ نے یہ باتیں کی ہیں ؟ اور یہ بھی کہ اللہ نے جس سے یہ باتیں کی ہیں وہ کیا ہے ؟ کوئی مشین ہے یا انسان ؟ اگر اس واسطے کو درمیان سے ہٹا دیا جائے تو قرآن کریم کی آخر حیثیت ہی کی رہ جاتی ہے ؟ آپ قرآن کریم کو کس ورطہ سے قرآن کریم تسلیم کریں گے ؟ افسوس کہ منافقین نے اپنی چرب زانی سے اقرار کیا اور عملی طور پر انکار کے مرتکب ہوگئے ، اس لئے زیر نظر آیت میں تین باتوں کا ذکر کیا گیا کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا ؟ 1۔ کیا ان کے دل کفر ونفاق کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں ۔ 2۔ کیا ان کو ابھی اس میں تردد ہے کہ جو احکام ہمیں مل رہے ہیں یہ کتاب وسنت میں ہیں بھی یا نہیں ؟ 3۔ کیا انہیں یہ خوف لگا ہوا ہے کہ اللہ اور رسول ان کے ساتھ ناانصافی کریں گے اور ان کے حقوق کو سلب کرلیں گے ؟ ظاہر ہے کہ یہ تینوں باتیں ان کے دعوی اسلام کے شایان شان نہیں ‘ انہیں کسی طرح یہ حق نہیں پہنچتا کہ ایمان کا دعوی کرنے کے بعد اللہ رب ذوالجلال والاکرام کے احکام سے انحراف کریں پھر اگر وہ اسی جرم کے مرتکب ہوتے ہیں تو یقینا انکو تمام تر اسلامی برکات سے محروم کردیا جائے گا اور آج ہم لوگ من حیث القوم ان برکات اسلامی سے بلاشبہ محروم کردیئے گئے ہیں لیکن افسوس کہ اس کے باوجود ہمارے سیاسی اور مذہبی حلقے کے پیشوا اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے بھی تیار نہیں حالانکہ حقیقت اس کی محتاج نہیں ہوتی کہ اس کو کوئی تسلیم کرتا ہے یا نہیں ۔
Top