Urwatul-Wusqaa - Al-Ankaboot : 13
وَ لَیَحْمِلُنَّ اَثْقَالَهُمْ وَ اَثْقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ١٘ وَ لَیُسْئَلُنَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ عَمَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ۠   ۧ
وَلَيَحْمِلُنَّ : اور وہ البتہ ضرور اٹھائیں گے اَثْقَالَهُمْ : اپنے بوجھ وَاَثْقَالًا : اور بہت سے بوجھ مَّعَ : ساتھ اَثْقَالِهِمْ : اپنے بوجھ وَلَيُسْئَلُنَّ : اور البتہ ان سے ضرور باز پرس ہوگی يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن عَمَّا : اس سے جو كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ : وہ جھوٹ گھڑتے تھے
اور یہ لوگ یقینا اپنے بوجھ اٹھائے ہوں گے اور اپنے بوجھ کے ساتھ کچھ اور بوجھ بھی ، اور قیامت کے روز ان سے اس بہتان کی ضرور ہی پرسش ہوگی جو وہ (بطور) جھوٹ باندھتے رہے
وہ یقینا اپنے بوجھ اٹھائیں گے اور ان کی ساری حقیقت کھل جائے گی : 13۔ اپنے گناہوں کے بوجھ تو ان پر لادے ہی جانے والے ہیں اس لئے کہ انہوں نے گناہ کئے ہیں اور ظاہر ہے کہ جس نے جو کچھ کیا ہے اس کا گناہ اس پر پڑنے والا ہے لیکن ایسا کہنے والوں پر جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے ان پر ان کے بوجھ کے ساتھ ساتھ ان کے بوجھ کا وزن بھی ڈالا جائے گا جن کی وہ ذمہ داری خود قبول کر رہے تھے انہوں نے انکی بات مانی یا نہ مانی ایسا کہنے والوں نے تو ایک بےلذت گناہ حاصل کر ہی لیا اور اس بوجھ کے وہ خواہ مخواہ مستحق قرار پائے ۔ دوسرے ایسے لوگ بھی ہوں گے جو یقینا ان کی باتوں میں آگئے اور وہ ان کے کہنے پر کفر کی ہمت کرگئے چونکہ ان کے کفر میں تو وہ برابر کے حصہ دار ہیں اس لئے ان کی طرف سے جو حصہ ان کا تقسیم ہو کر آئے گا اس کا وبال بھی ان کے سر پڑے گا ‘ کیوں ؟ اس لئے کہ دراصل یہ بھی ان کا اپنا کیا ہی ہے جس کا بوجھ انکے سر پر آئے گا یہ دوسری بات ہے کہ جن لوگوں کو انہوں نے باتوں میں لگا کر کفر کرایا وہ بھی اپنے کئے سے بالکل بری الذمہ قرار نہیں پائیں گے گویا ان گناہوں کے وہ دونوں برابر برابر حصہ دار ٹھہرے جس کی سزا لازم آئے گی ۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ” جس شخص نے ہدایت کی طرف لوگوں کو دعوت دی اور لوگوں نے اس ہدایت کو قبول کرلیا اور پھر اس پر عمل کیا تو سارے عمل کرنے والوں کا ثواب اس داعی کو ملے گا اور ان کے ثواب میں جنہوں نے اس داعی کی دعوت کو قبول کر کے عمل کرنے والوں کا ثواب اس داعی کو ملے گا اور ان کے ثواب میں جنہوں نے اس داعی کی دعوت کو قبول کرکے عمل کیا ذرا برابر بھی کمی نہیں ہوگی اور اس طرح جس نے گمراہی کی دعوت دی اور لوگوں نے اسے قبول کیا اور اس کے مطابق عمل کیا تو سب گمراہوں کی گمراہی کا بوجھ اس پر بھی لادا جائے گا اور ان کے بوجھ میں بھی ذرا کمی نہیں ہوگی ، اس طرح جو انہوں نے جھوٹ باندھا اس کے متعلق ان سے یقینا باز پرس ہوگی اس کی مثال سمجھنے کے لئے ذرا غور کرو کہ کسی نے ایک فعل ناروا کیا جس کی دو سزائیں اس کو سنا دیں کہ تمہارا جی چاہے تو سو جوتا کھالو اور اگر تمہارا جی پسند کرے تو سو پیاز کھالو ۔ سزا پانے والے نے پیاز کا کھانا پسند کیا اور بمشکل دس پیاز کھائے تھے کہ گھبرا گیا کہ یار مجھے چھوڑ دو میں پیاز نہیں کھاتا بلکہ جوتے لگا لو جب دس جوتے پڑے تو چیخنے لگا کہ چھوڑ دو میں پیاز کھاتا ہوں اور اس طرح کرتے کرتے وہ سو جوتے بھی برداشت کر گیا اور سو پیاز بھی کھا گیا ، یہی حال ان لوگوں کا بھی ہوگا کہ یہ دوسروں کے بوجھ بھی اٹھا گئے جب کہ اپنے تو ان کو اٹھانے ہی تھے لیکن اس قانون کی خلاف ورزی بھی نہ ہوئی کہ ہر جان اپنا بوجھ اٹھائے گی اور کوئی بھی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ‘ بلاشبہ اس قانون کے تحت انہوں نے اپنا ہی بوجھ اٹھایا لیکن اپنی بیوقوفی اور تکبر کے باعث دوسروں کے بھی بوجھ کے مستحق قرار پا گئے اور اس بات کو ہم نے بےلذت گناہ سے تعبیر کیا ہے کہ بظاہر انہوں نے کچھ کیا بھی نہیں تھا لیکن نتیجہ کے وقت دوسروں کے بوجھ بھی باقاعدہ قانون کے مطابق ان پر رکھ دیئے گئے اور انہوں نے دنیا میں بخوشی قبول کیا تھا اور اب مجبورا ان کو اٹھانے پڑیں گے اور اس طرح گویا وہ پیاز بھی کھا جائیں گے اور جوتے بھی ، کتنے عقل مند ہیں یہ لوگ جو اس طرح کی ڈینگیں مارنے والے ہیں اور راہ جاتے گناہوں کو اپنے سر لادنے والے ہیں ، بلاشبہ یہ قوم کے و ڈیرے ہیں اور وڈیروں کی اس وقت بھی یہی حالت تھی اور آج بھی یہی ہے ذرا غور کرو گے تو یہ جو سیاسی قیدی آپ کو جیلوں میں نظر آ رہے ہیں سب اسی طرح کی ڈینگیں مارنے والے ہیں ، اگرچہ ان جیلوں کو انہوں نے عیش و آرام کے ٹھکانے بنا لیا ہے کیونکہ سب کو اپنی اپنی باری یہاں پہنچنا ہے لیکن وہاں کی جیل کے قانون بلاشبہ ایسے نہیں ہوں گے کیونکہ ان کا انتظام براہ راست اللہ رب العزت کی نگرانی میں چلے گا جس کے علم میں ہرچیز بطور حال موجود ہے اور وہاں ماضی ومستقبل کا کوئی گزر ہی نہیں اور اب مضمون گزشتہ دعوتوں کی طرف منتقل کیا جارہا ہے تاکہ بات سمجھی جاسکے ۔
Top