Urwatul-Wusqaa - Yaseen : 41
وَ اٰیَةٌ لَّهُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّیَّتَهُمْ فِی الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِۙ
وَاٰيَةٌ : اور ایک نشانی لَّهُمْ : ان کے لیے اَنَّا : کہ ہم حَمَلْنَا : ہم نے سوار کیا ذُرِّيَّتَهُمْ : ان کی اولاد فِي الْفُلْكِ : کشتی میں الْمَشْحُوْنِ : بھری ہوئی
اور ایک نشانی ان کے لیے یہ ہے کہ ہم نے نسل انسانی کو (ایک وقت) بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا
انسانوں کے لیے نشانی ان کی اولاد سے بھری ہوئی کشتی میں بھی موجود ہے : 41۔ (فلک) کے معنی دراصل فتح ‘ جبر اور ضمہ تینوں سے آتا ہے جمع اس کی افلاک ہے اور کبھی یہ لفظ اسم جنس کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے اس طرح اس کو بطور مذکر بھی بولا جاتا اور مؤنث کے طور پر بھی ۔ معنی اس کے گھیرایا دائرہ کے ہیں اس پانی کو بھی کہتے ہیں جس پر ہوا کی وجہ سے گول گول دائرے پڑجاتے ہیں اور اس طرح اس کا اطلاق پانی پر چلنے والی یا ہوا میں چلنے والی چیز پر ہے اور ظاہر ہے کہ پانی پر چلنے والی کشتیاں بھی موجود ہیں جن کو پانی کے جہاز بھی کہا جاسکتا ہے اور ہوا میں چلنے والی کشتیاں بھی ہیں جن کو ہوائی جہاز سے تعبیر کیا جاتا ہے ، زیر نظر آیت میں (الفلک المشحون) بھری ہوئی کشتی مراد ہے ۔ مفسرین نے اس سے مراد نوح (علیہ السلام) کی کشتی لی ہے کیونکہ اس میں انسانوں ہی کی اولاد میں سے وہ لوگ شامل ہوئے تھے جو نوح (علیہ السلام) پر ایمان لائے تھے اور اس ذریت انسانی سے انسانوں کی نسل آگے بڑی ہے اس لئے اس کا ذکر اس جگہ کیا گیا ہے یہ رائے اکثریت کی ہے اور نئے اور پرانے مفسرین نے اس ایک مثال پر اتفاق کیا ہے لیکن ہم اس سے مراد اس زمین ہی کو سمجھتے ہیں کیونکہ پیچھے اجرام فلکی کا ذکر کرتے ہوئے ان کے ہر ایک فرد کا اپنے دائرہ کے اندر رہ کر چلنے کا ذکر تھا اور ظاہر ہے کہ جس طرح اجرام سماوی اور دوسرے سیارے چل رہے ہیں اسی نظام کے تحت زمین کا سیارہ بھی اپنے مدار یا محور کے طور پر متحرک نظر آرہا ہے اور اس میں جتنی مخلوق ہے سب کی سب انسانوں ہی کے فائدہ کے لئے ہے کسی چیز کے ہونے سے فی نفسہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ انسانوں ہی کا فائدہ ہے اس لئے اس کو انسانوں کی اولاد سے بھرا ہوا قرار دیا ہے اور یہ بھی کہ جتنی مخلوق اس زمین پر بستی ہے سب میں اشرف المخلوقات بھی انسان اور اس کی نسل ہی قرار دی گئی ہے اور انہی اجرام کے ذکر میں زمین کا ذکر بھی آیا ہے اور بلاشبہ اس نے ساری نسل انسانی کو اٹھا بھی رکھا ہے اور یہ یقینی امر ہے کہ اس زمین کی ساری نسل انسانی کا ایک وحدت میں آنا اور بولا جانا بھی ضروری ہے کیونکہ دوسرے افلاک کی مخلوقات بھی عین ممکن ہے کہ اس طرح نئی تلاش میں سرگرداں ہوں اور دونوں ہی کی تلاش کے سلسلہ میں یہ بات کسی وقت بھی روشن ہو سکتی ہے کہ جب ایک دوسرے کو معلوم ہوجائے تو بجائے اس دھرتی کے رہنے والوں سے مقابلہ شروع ہوجائے اگر ایسا ہوا تو دنیا کی ساری مخلوق اور خصوصا انسانوں کو ایک قومیت میں آنے کے سوا کوئی چارہ باقی نہ رہے گا اس لحاظ سے یہ وہ پیش گوئی ہے جس کے ظاہر ہونے میں ابھی نہ معلوم کتنے سال اور لگیں گے اور شاید اس طرح اس قوم پر کوئی حادثہ فاجعہ اچانک آجائے اور لینے کے دینے پڑجائیں اور انسانوں کی ساری ترقی کا راز ہوا ہوجائے جیسا کہ پہلے ہوتا آیا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم اس طرف رواں دواں ہیں ۔ رہی یہ بات کہ ہم بات شک سے کر رہے ہیں بلاشبہ صحیح ہے لیکن جو چیز ایمانیات میں نہیں ان میں شک کا ہونا نقصان دہ نہیں ہوتا اس شک کی باتوں کا تعلق ایمانیات سے نہیں بلکہ نظریات سے ہے اور ہم اس جگہ نظریہ کی بحث کر رہے ہیں نہ کہ ایمانیات کی اس لئے اگر کوئی شخص اس نظریہ کو تسلیم نہیں کرتا تو ہم اس کے ایمان کے خطرہ کی کوئی بات نہیں کرتے اور یہی بات ہر مشاہدہ میں نہ آنے والی چیز کی ہے الا یہ کہ قرآن کریم نے اس کو حتمی طور پر بیان کیا ہو ۔
Top