Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Aal-i-Imraan : 144
وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ١ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ١ؕ اَفَاۡئِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰۤى اَعْقَابِكُمْ١ؕ وَ مَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰى عَقِبَیْهِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰهَ شَیْئًا١ؕ وَ سَیَجْزِی اللّٰهُ الشّٰكِرِیْن
وَمَا
: اور نہیں
مُحَمَّدٌ
: محمد
اِلَّا
: مگر (تو)
رَسُوْلٌ
: ایک رسول
قَدْ خَلَتْ
: البتہ گزرے
مِنْ قَبْلِهِ
: ان سے پہلے
الرُّسُلُ
: رسول (جمع)
اَفَا۟ئِنْ
: کیا پھر اگر
مَّاتَ
: وفات پالیں
اَوْ
: یا
قُتِلَ
: قتل ہوجائیں
انْقَلَبْتُمْ
: تم پھر جاؤگے
عَلٰٓى اَعْقَابِكُمْ
: اپنی ایڑیوں پر
وَمَنْ
: اور جو
يَّنْقَلِبْ
: پھر جائے
عَلٰي عَقِبَيْهِ
: اپنی ایڑیوں پر
فَلَنْ يَّضُرَّ
: تو ہرگز نہ بگاڑے گا
اللّٰهَ
: اللہ
شَيْئًا
: کچھ بھی
وَسَيَجْزِي
: اور جلد جزا دے گا
اللّٰهُ
: اللہ
الشّٰكِرِيْنَ
: شکر کرنے والے
محمد اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول ہیں ‘ ان سے پہلے اور رسول بھی گزرچکے ہیں ‘ پھر کیا اگر وہ مرجائیں یا قتل کردیئے جائیں تو تم لوگ الٹے پاؤں پھر جاؤگے ؟ یاد رکھو ! جو الٹا پھرے گا وہ اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا ‘ البتہ جو اللہ کے شکر گزار بندے بن کر رہیں گے انہیں وہ اس کی جزادے گا ۔
اس ٹکڑے کی پہلی آیت ایک متعین واقعہ کی طرف اشارہ کررہی ہے اور یہ واقعہ غزوہ احد میں پیش آیا۔ جب تیراندازوں نے پہاڑ پر اپنا متعین مقام چھوڑدیا ‘ اور مشرکین وہاں سے ان پر چڑھ دوڑے ‘ مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے ‘ مسلمانوں کو شکست ہوئی اور رسول ﷺ کے دانت مبارک شہید ہوگئے اور آپ کے چہرے پر زخم آئے اور چہرہ مبارک سے خون بہنے لگا ‘ فریقین باہم گتھم گتھا ہوگئے ‘ مسلمان منتشر ہوگئے ‘ کسی کو کسی کا پتہ نہ رہا۔ ان حالات میں کسی پکارنے والے نے یہ آواز دے دی ۔ لوگو ! محمد ﷺ قتل ہوگئے۔ اس چیخ کا مسلمانوں پر بہت ہی برا اثر ہوا۔ ان میں سے بہت سے لوٹ کر مدینہ آگئے ۔ پہاڑ کے اوپر چڑھ گئے ‘ شکست کھاگئے اور مایوس ہوکر میدان جنگ کو چھوڑ گئے ۔ رسول ﷺ کے پاس چند افراد رہ گئے اور ان حالات میں آپ ﷺ ان چند افراد کے ساتھ جم گئے۔ اور مسلمانوں کو یہ آواز دینے لگے کہ واپس آؤ ‘ چناچہ وہ پھر سے مجتمع ہوئے ۔ ان کے دل تھم گئے ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے ایک محسوس انداز میں ان پر اونگھ طاری کرکے انہیں طمانیت قلب اور امن و سکون عطا کردیا جب کہ تفصیلات بعد میں آرہی ہیں۔ یہ واقعہ جس نے ان لوگوں کو مکمل طور پر مدہوش کردیا تھا ‘ قرآن کریم اسے نکتہ توجہ بناتا ہے اور اس مناسبت سے وہ یہاں اسلامی تصور حیات کے اہم حقائق کو سامنے لاتا ہے۔ اس کو موضوع بناکر یہاں حقیقت موت وحیات کے بارے میں اہم اشارے دئیے جاتے ہیں اور تاریخ ایمانی اور حالات قافلہ ایمانی پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ ” محمد اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول ہیں ‘ ان سے پہلے اور بھی رسول گزرچکے ہیں ‘ پھر کیا اگر وہ مرجائیں یا قتل کردیئے جائیں تو تم لوگ الٹے پاؤں پھر جاؤگے یاد رکھو ‘ جو الٹا پھرے گا وہ اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا ‘ البتہ جو اللہ کے شکر گزار بندے بن کر رہیں گے انہیں وہ اس کی جزادے گا۔ “ بیشک محمد ﷺ صرف رسول ہیں ‘ ان سے پہلے بھی رسول گزرے ہیں ‘ یہ سب رسل فوت ہوئے ہیں اور محمد ﷺ بھی اس طرح فوت ہوں گے جس طرح وہ رسول فوت ہوئے ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ جب اس معرکہ میں یہ حقیقت (اگرچہ جھوٹی افواہ کے طور پر) تمہارے سامنے آئی تو کیوں تمہاری نظروں سے اوجھل رہی ۔ یہ نہایت ہی حیرت انگیز بات ہے۔ محمد ﷺ اللہ کی طرف سے پیغام لانے والے ہیں ۔ وہ اس لئے آئے ہیں کہ اللہ کا پیغام پہنچادیں ۔ اللہ اپنی جگہ زندہ لایموت ہے ۔ اس کا پیغام زندہ جاوید ہے ۔ اس لئے یہ کس طرح مناسب ہوگا کہ اگر پیغام لانے والے فوت ہوجائیں یا قتل ہوجائیں تو تم اپنے نظریہ حیات کو چھوڑ کر الٹے پاؤں پھر جاؤ۔ یہ بھی ایک واضح حقیقت تھی جو اس معرکہ کی افراتفری میں ان کی نظروں سے اوجھل ہوگئی تھی حالانکہ مناسب تھا کہ یہ اہل ایمان کی نظروں سے اوجھل ہوجائے کیونکہ یہ نہایت ہی سیدھی سادھی بات تھی۔ انسان فانی ہے اور نظریہ حیات باقی ہے ۔ اسلامی نظام زندگی ایک علیحدہ حقیقت ہے جو ان لوگوں سے بالکل مستقل حقیقت رکھتا ہے جو اس کے حاملین ہیں اور جو اسے لوگوں تک پہنچاتے ہیں ‘ وہ رسول ہوں یا رسولوں کے بعد امت کے داعی اور مبلغین ہوں ۔ وہ مسلمان جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ محبت رکھتا ہے اور یہ محبت ایسی ہے جس کی پوری تاریخ انسانی میں کوئی نظیر نہیں ملتی ‘ اس کا فرض ہے کہ وہ ذات رسول اور اس نظریہ حیات کے اندر فرق و امتیاز کرے جسے اس ذات نے لوگوں تک پھیلایا۔ اس لئے کہ جو نظریہ حیات آپ ﷺ نے دیا وہ حَیٌّ لِایَمُوتُ…………ہے۔ اس کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ہے جو حَیٌّ لَایَمُوتُ…………ہے۔ یہ فرق کرنا ان کا فرض اس لئے بنتا ہے کہ وہ محب رسول ہیں ۔ یہ لوگ نہیں چاہتے تھے کہ رسول ﷺ کو کانٹا تک بھی چبھے ۔ ابودجانہ کو دیکھو وہ اپنی پیٹھ کے ذریعہ رسول اللہ ﷺ کے ڈھال بنے ہوئے ہیں ۔ ان پر تیروں کی بارش ہورہی ہے اور وہ وہیں ہیں جو جمے ہوئے ہیں اور یہ دیکھو کہ آپ صرف 9 آدمیوں کے ساتھ رہ گئے اور ان سے ایک کے بعد ایک شہید ہورہا ہے ‘ سب ختم ہوجاتے ہیں لیکن آپ ﷺ کو گزند نہ پہنچے نہیں دیتے ۔ اور آج ہر جگہ اور ہر زمانے میں آپ کا نام سنتے ہی لوگ بوجہ محبت وجد میں آجاتے ہیں اور ٹوٹ کر آپ سے محبت کرتے ہیں ‘ اپنے پورتے پورے وجود کے ساتھ اور اپنے پورے جذبات کے ساتھ ۔ اے محبان رسول ! داعی سے دعوت کی قدر و قیمت زیادہ ہے ۔ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ……………” محمد اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول ہیں ۔ ان سے پہلے اور رسول بھی گزرچکے ہیں ۔ “ وہ سابق رسول بھی اسی دعوت کے حاملین تھے جس کی جڑیں زمانہ قدیم تک دور تک پھیلی ہوئی ہیں ‘ تاریخ کے بڑے بڑے میدانوں میں بارہا یہ دعوت سر سبز ہوتی رہی ہے ۔ اس کا آغاز ‘ آغاز انسانیت کے ساتھ ساتھ ہوا ہے ۔ اور یہ رسول زندگی کی گزرگاہوں میں اس کے حدی خواں رہے ہیں ۔ قائدانہ انداز میں امن وسلامتی کے ساتھ ۔ اس لئے یہ پیغام اور یہ نظام داعی سے بڑا ہے اور داعی سے زیادہ زندہ رہنے والا ہے۔ داعی تو آتے جاتے رہتے ہیں لیکن یہ پیغام زمانوں اور نسلوں سے جاری وساری ہے ۔ اس کے ماننے والے اس کے منبع اول کے ساتھ مربوط اور جڑے رہتے ہیں ۔ وہ منبع اور مصدر جس نے خود ان رسولوں کو بھیجا وہ منبع باقی ہے۔ اس کی طرف مومنین کا رخ ہے ۔ وہ نصب العین ہے اور اہل ایمان کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ الٹے پاؤں پھریں اور اللہ کی ہدایت کو چھوڑ کر مرتد ہوجائیں حالانکہ اللہ زندہ جاوید ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں ان کے رویے پر سخت نکیر کی گئی ۔ فرماتے ہیں أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ ” کیا اگر وہ مرجائیں یا قتل کردیئے جائیں تو تم لوگ الٹے پاؤں پھر جاؤگے ؟ یاد رکھو جو الٹا پھرے گا وہ اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا ‘ البتہ جو اللہ کے شکر گزار بن رہیں گے انہیں وہ اس کی جزادے گا۔ “ تعبیر ایسی ہے کہ اس میں ارتداد کی زندہ تصویر سامنے آجاتی ہے۔” تم لوگ الٹے پھر جاؤگے۔ “ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ……………اوروَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ……………” جو الٹاپھرے۔ “ یہ ایک حسی اور دیکھے جانے والی حرکت ہے ‘ ایک زندہ شخص الٹے پاؤں مڑتا ہے۔ یہ انقلاب ارتداد کی ایک مجسم شکل ہے ۔ اسلامی نظریہ حیات چھوڑنا بعینہ اسی طرح ہے جس طرح ایک شخص اچانک واپس الٹے پاؤں مڑجائے ۔ حالانکہ یہاں اس انقلاب سے مراد یہ حسی حرکت نہیں ہے ‘ بلکہ اس سے مراد وہ نفسیاتی حالت ہے جس میں ایک شخص نظریاتی پسپائی اختیار کرتا ہے ۔ ایک شخص نے یہ آواز دی کہ محمد ﷺ قتل ہوگئے ہیں ‘ یہ سنتے ہی بعض مسلمانوں کے ذہن میں یہ تصور اور یہ سوال آگیا کہ اب مشرکین کے ساتھ جنگ کا فائدیہ کیا ہے ؟ غرض اس طرح ذہنی حرکت اور اس ذہنی انقلاب کا اظہار حسی حرکت سے کیا گیا۔ یعنی ان کے ذہن اس طرح واپس ہوگئے جو طرح وہ معرکہ احد میں جسمانی طور پر پسپائی اختیار کررہے تھے ۔ یہ ہے وہ حقیقت جس کی طرف نضربن انس ؓ نے اشارہ کیا تھا۔ لوگوں نے ہتھیار چھوڑ دئیے اور ان سے کہا گیا کہ رسول اکرم ﷺ تو مارے گئے۔ اس پر انہوں نے ان سے کہا :” پھر محمد ﷺ کے بعد تم زندہ رہ کر کیا کروگے۔ اٹھو اور اس مقصد کے لئے شہیدہوجاؤ جس کے لئے آپ ﷺ شہید ہوئے۔ “ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا……………” یاد رکھو جو الٹاپھرے گا وہ اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا۔ “ وہ تو خود خسارہ اٹھائے گا ۔ وہ خود اپنے آپ کو ایذا شدیتا ہے کہ وہ الٹا پھرتا ہے اور اس کے اس انقلاب موقف سے اللہ کو کوئی نقصان نہ ہوگا۔ اللہ تو لوگوں سے بےنیاز ہے ۔ وہ ان کے ایمان کا محتاج نہیں ہے ۔ یہ تو اس کی مہربانی ہے کہ اس نے لوگوں کے لئے یہ نظام تجویز کیا جس میں خود ان کی سعادت اور ان کا فائدہ ہے ۔ اور جو شخص اس نظام سے روگردانی کرے گا وہ خود برے انجام سے اس دنیا میں دوچار ہوگا۔ وہ اپنی ذات میں حیران وپریشان ہوگا اور اپنی سوسائٹی میں بھی ۔ اس کے اس فعل کی وجہ سے یہ نظام خراب ہوگا ‘ حیات انسانی خراب ہوگی اور پوری انسانی آبادی خراب ہوگی ۔ تمام معاملات بےترتیب ہوجائیں گے ‘ لوگ خود اپنے ہاتھوں گرفتار مصیبت ہوں گے ۔ محض اس لئے کہ انہوں نے اس نظام سے روگردانی کی کہ صرف اس کے اندر پوری انسانی نظام زندگی کا نظام درست طور پر چل سکتا ہے ۔ انسان مطمئن ہوسکتا ہے اور صرف اس نظام کے زیرسایہ نفس انسانی اپنی فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہوسکتا ہے ۔ اور اس پوری کائنات کے ساتھ چل سکتا ہے جس کے اندر وہ زندہ رہ رہا ہے۔ وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ……………” اور جو اللہ کے شکر گزاربندے بن کر رہیں گے انہیں وہ اس کی جزادے گا۔ “ یہ شکرگزار وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کی قدر و قیمت جاتے جو اس نے انہیں اسلامی نظام زندگی دے کر ان پر کی ۔ وہ شکر اس طرح ادا کرتے ہیں کہ وہ اس نظام کی اطاعت کرتے ہیں ‘ وہ اس طرح بھی شکر کرتے ہیں کہ اللہ کی ثناء خوانی کریں ‘ اور اس کو قائم کرکے اس دنیا کی سعادت حاصل کریں اور یہی ان کی جزا اس دنیا میں ہے ۔ ان کی شکر گزاری کی بہترین جزا اور اس کے بعد آخرت میں ان کو جزا دی جائے گی اور یہ اخروی سعادت ہوگی جو اس دنیاوی سعادت مندی سے بہت بڑی ہوگی اور جوابدہی ہوگی۔ گویا اس واقعہ پر اس تبصرے کے ذریعہ ‘ اللہ تعالیٰ ‘ مسلمانوں کی اس ذاتی دلچسپی کو ‘ جو رسول اکرم ﷺ کی ذات کے ساتھ تھی ‘ ہٹاکر اسے براہ راست ذات باری کے ساتھ جوڑتے ہیں جو اس دعوت کا اصل سرچشمہ ہے ۔ اس لئے کہ دعوت اسلامی کا یہ چشمہ صافی رسول ﷺ نے نہیں جاری فرمایا تھا۔ آپ نے تو لوگوں راہنمائی اس طرف فرمائی اور لوگوں کو بلایا کہ وہ اس ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریا کے فیض سے فیض یاب ہوں ‘ جس طرح آپ ﷺ سے پہلے دوسرے رسول بھی یہی راہنمائی کرتے رہے تھے ۔ اور وہ مخلوق کے پیاسے قافلوں کو دعوت دیتے رہے کہ اس چشمہ صافی سے سیراب ہوں اور پیاس بجھائیں۔ گویا اللہ تعالیٰ کا ارادہ یہ تھا کہ وہ لوگوں کا ہاتھ پکڑ کر ان کے ہاتھ میں وہ مضبوط رسی تھمادیں ‘ جسے حضرت محمد ﷺ نے نہیں باندھا ‘ بلکہ آپ تو اس لئے تشریف لائے تھے کہ لوگوں کو اس پختہ رسی میں باندھ دیں۔ ان کو اسی حالت میں چھوڑ دیں اور وہ اس دنیا سے اس حالت میں چلے جائیں کہ لوگ اس رسی کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہوں۔ گویا اللہ تعالیٰ یہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کا رابطہ براہ راست اسلام سے ہوجائے اور ان کا عہد براہ راست اللہ کے ساتھ ہوجائے اور اللہ تعالیٰ کے سامنے ‘ اس عہد کے بارے میں ان کی شمولیت بلاواسطہ ہوجائے ۔ براہ راست اللہ کے سامنے وہ جوابدہ ہوں تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرسکیں ‘ ایسی ذمہ داریاں جو رسول اکرم ﷺ کے فوت ہونے سے ختم نہیں ہوجاتیں ۔ گویا انہوں نے براہ راست اللہ سے بیعت اور براہ راست اللہ کے سامنے وہ اس کے بارے میں جوابدہ ہیں ۔ گویا اللہ کی مشیئت یہ تھی کہ امت مسلمہ اس صدمے سے دوچار ہوجائے جس سے ایک دن اس نے دوچار ہونا تھا۔ اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ جب یہ صدمہ ہوگا تو ان کے لئے ناقابل برداشت ہوگا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر انہیں اس صدمے کی ریہرسل کرادی ۔ وہ انہیں عملاً پہنچادیا یعنی رسول کی وفات کے بارے میں بھی انہیں یہ صدمہ پہنچادیا ‘ قبل اس کے کہ یہ صدمہ جب فی الواقعہ ہو تو انہیں بالکل ہی نڈھال نہ کردے۔ اور جب رسول ﷺ کی وفات کے وقت وہ اس صدمے سے دوچار ہوئے تو وہ فی الوا قعہ اسے برداشت نہ کرسکے ۔ حضرت عمرؓ جیسی تربیت یافتہ شخصیت اٹھ کھڑی ہوئی ‘ تلوار سونت لی اور پکارا کہ کوئی یہ لفظ منہ تک نہ لائے کہ محمد ﷺ فوت ہوگئے ہیں۔ یہ ابوبکرؓ ہی تھے جو فوراً اٹھے ‘ جو خدا رسیدہ تھے ‘ جن کا تعلق تقدیر الٰہی سے براہ راست مضبوط تھا ‘ انہوں اسی آیت کو پڑھا اور ان لوگوں کو یاد دلایا جو نڈھال ہوکر حواس کھوبیٹھے تھے ۔ جب انہوں نے اس خدائی پکار کو سنا تو ان کے حواس بحال ہوئے اور وہ ہوش میں آئے ۔
Top