Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 144
وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ١ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ١ؕ اَفَاۡئِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰۤى اَعْقَابِكُمْ١ؕ وَ مَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰى عَقِبَیْهِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰهَ شَیْئًا١ؕ وَ سَیَجْزِی اللّٰهُ الشّٰكِرِیْن
وَمَا
: اور نہیں
مُحَمَّدٌ
: محمد
اِلَّا
: مگر (تو)
رَسُوْلٌ
: ایک رسول
قَدْ خَلَتْ
: البتہ گزرے
مِنْ قَبْلِهِ
: ان سے پہلے
الرُّسُلُ
: رسول (جمع)
اَفَا۟ئِنْ
: کیا پھر اگر
مَّاتَ
: وفات پالیں
اَوْ
: یا
قُتِلَ
: قتل ہوجائیں
انْقَلَبْتُمْ
: تم پھر جاؤگے
عَلٰٓى اَعْقَابِكُمْ
: اپنی ایڑیوں پر
وَمَنْ
: اور جو
يَّنْقَلِبْ
: پھر جائے
عَلٰي عَقِبَيْهِ
: اپنی ایڑیوں پر
فَلَنْ يَّضُرَّ
: تو ہرگز نہ بگاڑے گا
اللّٰهَ
: اللہ
شَيْئًا
: کچھ بھی
وَسَيَجْزِي
: اور جلد جزا دے گا
اللّٰهُ
: اللہ
الشّٰكِرِيْنَ
: شکر کرنے والے
اور نہیں ہیں حضرت محمد ﷺ مگر اللہ کے رسول تحقیق گزر چکے ہیں ان سے پہلے بھی رسول۔ اگر وہ مرجائیں یا شہید کردیے جائیں ، تو کیا تم الٹے پاؤں پلٹ جاؤ گے۔ اور جو شخص الٹے گا ، اپنی ایڑیوں پر ، پس ہرگز وہ اللہ کو کچھ نقصان نہیں پہنچائیگا۔ اور اللہ تعالیٰ شکر گزاروں کو بدلہ دیتا ہے۔
ربط آیات : سلسلہ کلام غزوہ احد کے تمعلق ہی چل رہا ہے۔ اس سے پہلے ارشاد ہوچکا ہے کہ دشمن کے مقابلے میں سستی نہ دکھاؤ۔ اور کوئی تکلیف پہنچنے پر غمگین بھی نہ ہو۔ اگر تم ایمان کے تقاضوں پر پورا اتروگے ، تو غلبہ تمہیں ہی حاصل ہوگا ، تم احد میں تکلیف پہنچنے پر رنجیدہ خاطر ہو ، تو اس قسم کی تکلیف تو دشمنوں کو بھی پہنچ چکی ہے۔ فرمایا کہ ہم زمانے کے دلوں کو پھیر پھیر کر لاتے ہیں۔ کبھی کسی گروہ کا پلہ بھاری ہوتا ہے ، کبھی کسی کا۔ اللہ تعالیٰ نے اذیت پہنچنے میں بھی حکمت رکھی ہے۔ اس میں بھی بہت سی مصلحتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو ممتاز کرنا چاہتا ہے۔ اور بعض کو شہادت کے درجے پر فائز کرنا چاہتا ہے یہ نہ سمجھو کہ اس میں کافروں کو بڑائی حاصل ہوتی ہے۔ اللہ ان سے ہرگز محبت نہیں کرتا۔ اس کے علاوہ یہ بھی مصلحت ہے کہ آزمائش میں ڈال کر اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو ، ان کی جانوں کو اور نسموں کو پاک کرنا چاہتا ہے۔ اور کافروں کو مٹانا چاہتا ہے۔ ایسی آزمائشوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ جہاد اور صبر کرنے والے لوگوں کو ظاہر کرنا چاہتا ہے۔ تم دشمن کے ساتھ ٹکر لینے کے لیے بیتاب تھے۔ اب اللہ نے موقع فراہم کیا ہے۔ تو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ثابت قدمی سے مقابلے پر آؤ۔ سانحہ احد : آج کی اس آیت میں بھی اس خاص واقعہ کی طرف اشارہ ہے جو غزوہ احد میں پیش آیا۔ جنگ کی حکمت عملی کے طور پر حضور ﷺ نے تیر اندازوں کی ایک جماعت کو پہاڑ کے درے پر مقرر فرمایا تھا اور حکم دیا تھا۔ کہ ہمیں فتح ہو یا شکست تم نے اس درے کو نہیں چھوڑنا۔ لڑائی شروع ہوئی۔ مسلمانوں کا پلہ بھاری تھا۔ دشمن بھاگ نکلا ، اس دوران کچھ مجاہدین نے کفار کا تعاقب کیا۔ اور بعض دوسرے مال غنیمت اکٹھا کرنے لگے۔ اس موقع پر درے پر مامور تیر اندازوں نے غلطی کی۔ حضور ﷺ کے حکم کے برخلاف ان کی اکثریت پہاڑ سے نیچے اتر کر مال غنیمت پر متوجہ ہوگئی ، صرف د س آدمی مقررہ مقام پر باقی رہ گئے۔ اس وقت دشمن کی کمان خالد بن ولید کے ہاتھ میں تھی۔ جب انہوں نے جنگی اہمیت کے حامل اس درے کو خالی پایا تو گھڑ سواروں کی جماعت کے ساتھ وہاں پہنچ گئے اور مسلمانوں پر عقب سے حملہ کردیا۔ بھاگنے والے مشرکین نے جب دیکھا کہ ان کی فوج مسلمانوں کے عقب میں پہنچ گئی ہے۔ تو وہ بھی پلٹ آئے۔ اور اس طرح اہل اسلام کفار کے دو لشکروں کے درمیان آگئے۔ درے پر موجود دس آدمی پہلے ہی شہید ہوچکے تھے۔ بہت سے دوسرے مسلمان بھی شہید ہوئے۔ عتبہ بن ابی وقاص نے حضور ﷺ پر پتھر پھینکا جس سے خود میں لگی ہوئی دو کڑیاں حضور ﷺ کے رخسار مبارک میں ددھنس گئیں۔ آپ شدید زخمی ہوئے۔ ابن قمیہ نے نبی (علیہ السلام) پر حملہ کیا۔ جس سے آپ کے دانت مبارک شہید ہوگئے۔ آپ کے جسم اطہر سے کافی مقدار میں خون بہہ گیا۔ حضرت مصعب بن عمیر ؓ حضور کا دفاع کر رہے تھے۔ پرچم اسلام بھی ان کے ہاتھ میں تھا انہوں نے بھی اپنی جان حضور پر قربان کردی۔ ابن قمیہ نے شور مچا دیا کہ اس نے خود حضور ﷺ کو شہید کردیا ہے۔ یہ سن کر مسلمانوں میں بد دلی پھیل گئی۔ بہت سے ہمت ہار بیٹھے۔ بعض نے تجویز کیا کہ عبداللہ بن ابی کو کہہ کر ابو سفیان سے امان حاصل کرلینی چاہئے۔ مگر بعض دوسرے جانثاروں نے کہا کہ جب حضور ﷺ ہی ہم میں موجود نہ رہے۔ تو ہماری زندگیاں کس کام کی ہیں۔ ہمیں بھی دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئئے شہید ہوجانا چاہیے۔ حضرت انس بن مالک کے چچا انس بن نضر بنی نجار میں سے تھے کہنے لگے۔ اگر محمد ﷺ شہید کردیے گئے ہیں تو رب محمد تو زندہ ہے ہمیں اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے راستے پر اپنا سفر جاری رکھنا چاہئے۔ یہ کہہ کر دشمنوں پر حملہ آور ہوئے اور جام شہادت نوش فرمایا۔ اس موقع پر پورے لشکر اسلام میں افراتفری پھیل گئی۔ سب لوگ ادھر ادھر بھاگ گئے۔ صرف سترہ یا پچیس آدمی ثابت قدم رہے۔ ان میں حضرات ابوبکر ؓ ، عمر ؓ ، علی ؓ ، طلحہ ؓ ، ابوطلحہ ؓ ، ابودجانہ ؓ ، سعد ؓ وغیرہ شامل تھے۔ ایک صحابی نے حضور ﷺ کو زخمی حالت میں پہچانا اور لوگوں کو آواز دی کہ حجور علیہ السالم زندہ سلامت ہیں۔ آپ نے اسے آواز پست رکھنے کا حکم دیا۔ پھر آپ نے فرمایا۔ اللہ کے بندو ! تم کدھر بھاگ گئے ہو۔ آپ کے ارشاد پر لوگ پھر اکٹھے ہوگئے۔ انہوں نے دشمن کا مقابلہ کیا اور دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوگئے۔ ازلی و ابدی صرف ذات خداوندی ہے : آج کی آیت میں حضور ﷺ کی شہادت کی افواہ پھیلنے سے جو بددلی پیدا ہوگئی تھی ، اس کی طرف اشارہ ہے۔ اور مسلمانوں کو تنبیہ کی جا رہی ہے۔ کہ اس قسم کے واقعات سے بد دل نہیں ہونا چاہئے۔ بلکہ یہ ایک فطری عمل ہے جو ہمیشہ سے ہوتا رہا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ وما محمد الا رسول۔ نہیں ہیں حضرت محمد ﷺ مگر اللہ کے رسول۔ آپ رسول ہیں۔ خود خدا تو نہیں جو ازلی ابدی ہستی ہے۔ بحیثیت رسول آپ کو بھی وہ آزمائشیں آسکتی ہیں جو آپ سے پہلے رسولوں پر آئیں۔ اللہ کے بہت سے رسول طبعی موت کے ذریعے اپنے رب کی بارگاہ میں پہنچے اور ان میں سے بہت سے کافروں کے ہاتھوں شہید بھی ہوئے۔ لہذا رسول کی موت کے بعد مسلمانوں کا دین سے پلٹ جانا ہرگز روا نہیں۔ نبی اور رسول کی زندگی بھی ایک نہ ایک دن ختم ہونے والی ہے۔ اور وہ صرف خدا کی ذات ہے جو ازلی ، ابدی ، حی اور قیوم ہے لہذا کسی ایسی متوقع صورت میں اہل ایمان کو بد دل نہیں ہونا چاہئے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حضور ﷺ کی ذات اقدس اپنی جانوں سے بھی زیادہ عزیز تھی۔ بعض اوقات انسان اپنی جان دینے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں مگر اپنے پیرو مرشد یا برگزیدہ ہستی کے متعلق بہت زیادہ حساس ہوتے ہیں لہذا ان کی تکلیف کے مقابلے میں اپنی جان کی بازی لگا دینے سے بھی گریز نہیں کرتے ، جو لوگ راسخ العقیدہ اور ثابت قدم تھے ، ان میں کسی قسم کی بد دلی پیدا نہیں ہوئی۔ وہ سمجھتے تھے کہ اگر حضور ﷺ ہم میں موجود نہ بھی رہیں ، دین تو تب بھی قائم رہے گا۔ اور اس دین کے لیے محنت اور کوشش کرنا اولین فرض ہوگا۔ دین تو منجانب اللہ ہی ہے۔ جو ازلی ابدی ذات ہے۔ لہذا اس دین کی حفاظت لازم ہے۔ لہذا راسخ العقیدہ مسلمان پھر اپنے پاؤں پر کھڑے ہوگئے۔ فرمایا۔ قد خلت من قبلہ الرسل۔ آپ سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔ افائن مات۔ وہ اپنی طبعی موت سے وفات پاکر اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہوں۔ اوقتل۔ یا شہید کردیے جائیں۔ انقلبتم علی اعقابکم۔ تو اے ایمان والو کیا تم اپنے الٹے پاؤ پلٹ جاؤ گے کیا اپنے دین کو چھوڑ دوگے۔ اللہ تعالیٰ نے تنبیہ فرمائی کہ رسول کے اس دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد ین تو ختم نہیں ہوجائے گا۔ اس لیے تمہیں اپنے دین پر قائم رہنا ہوگا۔ یہ خیال دل سے نکال دو کہ جب حضور ﷺ تم میں موجود نہیں رہیں گے۔ تو تم دین اسلام ترک کرکے پھر اپنے پرانے دین کی طرف پلٹ جاؤگے۔ فرمایا۔ ومن ینقلب علی عقبیہ۔ اور جو کوئی اپنی ایڑیوں پر پلٹے گا۔ فلن یضر اللہ شیئا۔ پس وہ اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ دین سے مرتد ہو کر وہ اپنا ہی نقصان کرے گا۔ اور یاد رکھو ! و سیجزی اللہ الشکرین۔ اللہ تعالیٰ شکر ادا کرنے والوں وک بدلہ اور ثواب عطا کرے گا۔ قد خلت من قبلہ الرسل سے مرزائیوں نے غلط استدلال کیا ہے۔ کہ حضور ﷺ سے پہلے سب کے سب رسول گزر چکے ہیں جن میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی شامل ہیں۔ اس سے وہ آپ کی موت ثابت کرکے اپنے جعلی مسیح مرزا قادیانی کے لیے راہ ہموار کرتے ہیں۔ حالانکہ عبداللہ بن مسعود ؓ کی روایت کے مطابق۔ الرسل۔ سے مراد سارے رسول نہیں بلکہ کچھ رسول گزر چکے ہیں۔ مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) فرماتے ہیں کہ اگر الرسل سے سارے رسول بھی مراد لیے جائیں تو بھی رحضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی موت ثابت نہیں ہوتی۔ کیونکہ آسمان پر اٹھایا جانا بھی گزر جانے کے مترادف ہے۔ اس دنیا سے تو وہ ایک دفعہ گذر کر ہی آسمان پر گئے ہیں جہاں وہ زندہ ہیں اور قرب قیامت میں دوبارہ نزول فرمائیں گے۔ مرزائیوں کا عقیدہ محض دجل ، الحاد اور کفر ہے۔ اس آیت سے بھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی موت ثابت نہیں ہوتی۔ دین پر ثابت قدمی : اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے شکر کرنے والوں کا تذکرہ کیا ہے کہ انہیں اچھا بدلہ دیا جائے گا۔ حضرت علی فرماتے ہیں۔ کہ یہاں شکر ادا کرنے سے مراد دین پر ثابت قدم رہنا ہے۔ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ امیر الشاکرین تھے کیونکہ وہ جنگ احد کے موقع پر ثابت قدم رہے۔ حضور ﷺ کی وفات پر جب صحابہ کرام سخت پریشانی کے عالم میں تھے۔ تو صدیق اکبر نے یہی آیت تلاوت کی تھی۔ وما محمد الا رسول۔ الایۃ۔ سب کو تسلی ہوگئی کہ حضور ﷺ وفات پا چکے ہیں۔ اسلام کی نعمت پر ثابت قدم رہنا ہی شکرگزاری کی علامت ہے اور سب سے بڑی نعمت ایمان ہے ، جسے نصیب ہوجائے۔ جو شخص ایمان پر ثابت قدم رہے گا۔ اس کے پاؤں میں لغزش نہیں آئیگی۔ یقینا وہ شکر گذار ہوگا۔ احد کے میدان میں جب مسلمان کفار کے دوگروہوں کے درمیان گھر گئے۔ حضور ﷺ کی شہادت کی افواہ اڑ گئی تو کئی صحابہ تتر بتر ہوگئے۔ پھر جب آپ کو زندہ سلامت پایا گیا تو صحابہ کرام دوبارہ آپ کے گرد جمع ہوگئے۔ وہ اپنی لغزش پر نادم ہوئے اور پھر ثابت قدم ہوگئے۔ آگے آئیگا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس لغزش کو معاف فرما دیا۔ الغرض یہاں پر شکر گزاری سے مراد ایمان پر ثابت قدمی ہے۔ ابن قمیہ کا حشر : ابن قمیہ نے حٗضور (علیہ السلام) کا دفاع کرنے والے حضرت مصعب بن عمیر ؓ کو شہید کرکے حضور ﷺ کی شہادت کی افواہ اڑا دی تھی۔ آپ نے اس بدبخت کے متعلق فرمایا تھا۔ خدا تیری جڑ اکھاڑ دے۔ اس شخص کی سزا کے متعلق دو روایات ملتی ہیں۔ ایک روایت تو یہ ہے کہ اس لڑائی میں حضرت ابودجانہ نے اس کا سر قلم کردیا تھا۔ اور دوسری روایت یہ ہے کہ یہ شخص کہیں پہاڑوں کے درمیان سفر کر رہا تھا۔ اچانک ایک جنگلی بکرا جسے عربی میں وعل کہتے ہیں نمودار ہوا ، اور اس نے ابن قمیہ پر حملہ کرکے اسے ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ اس وقت اسلام کے اور بھی بڑے بڑے دشمن تھے۔ حضرت خالد بن ولید اور ابوسفیان اور بعض دوسرے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے بعد میں ایمان کی دولت نصیب فرمائی۔ جنگ بدر میں حضرت حمزہ نے ہندہ کے بیٹے کو قتل کیا تھا ، اسے آپ سے سکت عداوت تھی۔ چناچہ آپ کی شہادت پر ہندہ نے حضرت حمزہ کا کلیجہ چبایا۔ اور آپ کا مثلہ بنایا ، مگر وہ بھی ابوسفیان کے ساتھ ایمان لے آئی۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ ثابت قدم رہنے والوں کو اچھا بدلہ دے گا۔ مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو کسی حالت میں بھی بد دل نہیں ہونا چاہئے۔ کسی بڑی سے بڑی ہستی کے فوت ہونے پر بھی جزع فزع نہیں کرنا چاہئے ، کیونکہ وہ بہرحال خدا کی مخلوق ہے اور اسے ایک نہ ایک وقت پر فوت ہونا ہے۔ دنیا میں کسی ہستی کو دوام نہیں۔ صرف ذات خداوندی ہمیشہ قائم و دائم ہے۔ موت کا وقت مقرر ہے : فرمایا۔ وما کان لنفس ان تموت الا باذن اللہ۔ کسی نفس کے لیے یہ بات نہیں ہے۔ کہ وہ مرے مگر اللہ کے حکم سے۔ ہر شخص کی موت اللہ کے حکم سے ہی واقع ہوگی۔ اور موت کیا ہے۔ کتابا موجلا۔ ایک قرر نوشتہ ہے۔ موت اپنے مقررہ وقت سے ایک سیکنڈ بھی آگے پیچھے نہیں آسکتی۔ اللہ تعالیٰ کے علم اور لوح محفوظ میں یہ چیز لکھی ہوئی ہے کہ فلاں شخص اتنی عمر پائیگا اور فلاں وقت میں فلاں بیماری یا فلاں حادثہ میں اس کی موت واقع ہوگی۔ مقصد یہ کہ جس طرح ایک عام امتی کی موت کا وقت مقر ہے اسی طرح اللہ کے برگزیدہ انبیاء بھی اپنے اپنے وقت پر داعی اجل کو لبیک کہتے رہے ہیں۔ مگر ان کا ملایا ہوا دین قائم رہا ہے۔ لہذا نبی کے بعد بھی اس کے دین پر ثابت قدم رہنا ضروری ہے۔ اہل اسلام کو سمجھایا جا رہا ہے۔ کہ دین کا دامن کسی حالت میں بھی نہیں چھوڑنا۔ طلب دنیا یا طلب آخرت : فرمایا ہر شخص کے لیے اجر وثواب اس کی نیت اور ارادے کے مطابق ملتا ہے۔ ومن یرد ثواب الدنیا۔ جو شخص دنیا کا ارادہ کرتا ہے۔ توتہ منھا۔ ہم اس کو دنیا میں سے ہی بدلہ دیتے ہیں۔ ہاں یہ بات ہے کہ ہر مطلوبہ چیز مہیا نہیں کرتے بلکہ جتنا چاہتے ہیں اتنا دیتے ہیں۔ سورة بنی اسرائیل میں آتا ہے۔ عجلنا لہ یھا ما نشاء۔ دنیا کی ہر خواہش پوری نہیں ہوتی بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی منشاء ہے۔ جتنا چاہے عطا کردے۔ برخلاف اس کے۔ ومن یرد ثواب الاخرۃ۔ جو کوئی آخرت کے ثواب کا طلبگار ہے۔ نوتہ منھا۔ ہم اسے آخرت میں سے بدلہ دیں گے۔ ظاہر ہے کہ کوئی شخص دنیا کی خواہش کرتا ہے وہ غرض فانی کے لیے کرتا ہے ، جو چند روز بعد ختم ہوجانے والی ہے اور جو کوئی آخرت کی خواہش کرتا ہے۔ تو اس سے مراد خدا تعالیٰ کی رضا ہے ، جو دائمی ہے آخرت کی خواہش کے ذریعہ سے ہی انسان اپنی جان کی بازی لگا دیتا ہے۔ جس سے دین قائم ہوتا ہے۔ اسلام کو غلبہ حاصل ہوتا ہے۔ یہی چیز روحانی ترقی کا ذریعہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں عزت و کامیابی کی دلیل ہے۔ اس خواہش کا مقصد وحید یہ ہے کہ انسان حظیرۃ القدس کا ممبر بن جائے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پہنچ جائے۔ فرمایا۔ وسیجزی اللہ الشکرین۔ ہم شکر ادا کرنے والوں کو پورا پورا بدلہ دیتے ہیں۔ اور شکر گزاری یہ ہے۔ کہ انسان ایمان ، توحید ، اطاعت اور فرمانربداری کے کاموں پر ثابت قدم رہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے۔ سب سے پہلی ثابت قدمی حضور ﷺ کے صحابہ کرام کو حاصل ہوئی ، جو براہ راست حضور کے فیض یافتہ تھے۔ جو تھوڑی بہت کمزوریاں رہ گئی تھیں۔ وہ بھی رفع ہوگئیں۔ ان کی غلطیاں معاف ہوگئیں اور وہ لوگ مجموعی طور پر شکر گزار بن گئے۔ یہی لوگ ایمان کی دولت کے محافظ تھے ایمان ہی ان کی سب سے قیمتی متاع تھی جسے انہوں نے آئندہ نسلوں کو منتقل کیا۔ ایمان کے علاوہ باقی سب چیزیں فانی اور بےحقیقت ہیں۔
Top