Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 144
وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ١ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ١ؕ اَفَاۡئِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰۤى اَعْقَابِكُمْ١ؕ وَ مَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰى عَقِبَیْهِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰهَ شَیْئًا١ؕ وَ سَیَجْزِی اللّٰهُ الشّٰكِرِیْن
وَمَا : اور نہیں مُحَمَّدٌ : محمد اِلَّا : مگر (تو) رَسُوْلٌ : ایک رسول قَدْ خَلَتْ : البتہ گزرے مِنْ قَبْلِهِ : ان سے پہلے الرُّسُلُ : رسول (جمع) اَفَا۟ئِنْ : کیا پھر اگر مَّاتَ : وفات پالیں اَوْ : یا قُتِلَ : قتل ہوجائیں انْقَلَبْتُمْ : تم پھر جاؤگے عَلٰٓى اَعْقَابِكُمْ : اپنی ایڑیوں پر وَمَنْ : اور جو يَّنْقَلِبْ : پھر جائے عَلٰي عَقِبَيْهِ : اپنی ایڑیوں پر فَلَنْ يَّضُرَّ : تو ہرگز نہ بگاڑے گا اللّٰهَ : اللہ شَيْئًا : کچھ بھی وَسَيَجْزِي : اور جلد جزا دے گا اللّٰهُ : اللہ الشّٰكِرِيْنَ : شکر کرنے والے
اور محمد ﷺ تو صرف (خدا کے) پیغمبر ہیں ان سے پہلے بھی بہت پیغمبر ہو گزرے ہیں بھلا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے ؟ (یعنی مرتد ہوجاؤ گے) اور جو الٹے پاؤں پھرجائے گا تو خدا کا کچھ نقصان نہیں کرسکے گا اور خدا ‌شکر گزاروں کو (بڑا) ثواب دے گا۔
(آیت) ” وما محمد الا رسول، قد خلت من قبلہ الرسل افائن مات اوقتل انقلبتم علی اعقابکم ومن ینقلب علی عقبیہ فلن یضر اللہ شیئا، وسیجزی اللہ الشکرین، وما کان لنفس ان تموت الا باذن اللہ کتبا مؤجلا، ومن یرد ثواب الدنیا نؤتہ منھا، ومن یرد ثواب الاخرۃ نؤتہ منا وسنجزی الشکرین، وکاین من نبی قتل معہ ربیون کثیر، فما وھنوا لما اصابھم فی سبیل اللہ وما ضعفوا وما استکانوا واللہ یحب الصبرین، وما کان قولھم الا ان قالو ربنا اغفرلنا ذنوبنا واسرافنا فی امرنا وثبت اقدامنا وانصرنا علی القوم الکفرین، فاتھم اللہ ثواب الدنیا “۔ (1) (اسباب النزول “۔ صفحہ 83) اس میں ما نافیہ ہے اور اس کا ما بعد مبتدا اور خبر ہے، اور ما کا عمل باطل ہوگیا ہے اور حضرت ابن عباس ؓ نے اس طرح قرات کی ہے : ” قد خلت من قبلہ رسل “۔ یعنی بغیر الف الام کے، اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس پر آگاہ فرمایا ہے کہ رسل علیہم الصلوت والتسلیمات اپنی قوم میں ہمیشہ باقی رہنے والے نہیں ہیں، اور یہ کہ اس کو مضبوطی سے تھامنا واجب ہے جو رسل (علیہم السلام) لے کر آئے اگرچہ رسول موت یا قت کے سبب نقود ہو۔ اور اپنے نبی مکرم ﷺ کی عزت و تکریم فرمائی (آپ کے دو وصفوں) دو اسموں کے ساتھ جو دونوں آپ کے اسم سے مشتق ہیں محمد اور احمد ﷺ عرب کہتے ہیں : رجل محمود ومحمد جب اس کے خصائل حمیدہ کثیر ہوں۔ کسی شاعر نے کہا ہے : الی الماجد القرم الجواد المحمد : تحقیق یہ معنی سورة الفاتحہ میں گزر چکا ہے۔ اور عباس بن مرداس نے کہا ہے : یا خاتم النبآء انک مرسل بالخیر کل ھدی السبیل ھداکا : اے خاتم الانبیاء بلاشبہ آپ خیر وبھلائی کے ساتھ بھیجے گئے ہیں ہر راہ ہدایت آپ ہی کی ہدایت ہے۔ ان الالہ بنی علیک محبۃ فی خلقہ ومحمدا سما کا : بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں تجھ پر محبت کی بنیاد رکھی ہے اور تیرا نام محمد ﷺ رکھا ہے۔ پس یہ آیت شکست کھانے والوں کے عتاب کا تتمہ ہے، یعنی ان کے لئے شکست کھانا نہیں ہے اگرچہ محمد ﷺ بھی شہید کردیئے جائیں، اور نبوت موت کو دور نہیں کرسکتی اور ادیان انبیاء (علیہم السلام) کی موت سے زائل نہیں ہوتے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (2) یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی شجاعت اور آپ کی جرات پر سب سے بڑھ کر دلیل ہے، کیونکہ شجاعت اور جرات کی تعریف اور حد مصائب وآلام آنے کے وقت دل کا ثابت رہنا ہے، اور حضور نبی مکرم ﷺ کی موت سے بڑی اور کوئی مصیبت نہیں۔ جیسا کہ اس کا بیان سورة البقرہ میں گزر چکا ہے، پس اسی وقت آپ کی شجاعت اور آپ کا علم ظاہر ہوا لوگوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ فوت نہیں ہوئے ان میں سے حضرت عمر ؓ تھے، اور حضرت عثمان ؓ خاموش ہوگئے، اور حضرت علی ؓ نے بھی (معاملہ) مخفی رکھا اور معاملہ مضطرب ہوگیا تو حضرت ابوبکرصدیق ؓ نے اس آیت کے ساتھ اس حقیقت کو ظاہر کیا جب آپ اپنی رہائش گاہ سخ سے آئے۔ بخاری میں اسی طرح ہے (1) (صحیح بخاری، کتاب الجنائز، حدیث نمبر 1165، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور سنن ابن ماجہ میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان فرمایا : جب رسول اللہ ﷺ کا وصال ہوا تو اس وقت حضرت ابوبکرصدیق ؓ اپنی زوجہ جو کہ خارجہ کی بیٹی تھی، کے ساتھ عوالی میں تھے تو لوگ کہنے لگے : حضور نبی مکرم ﷺ فوت نہیں ہوئے بلکہ یہ انہیں حالات میں سے ایک حالت ہے جو وحی لیتے وقت آپ طاری ہوتی تھی، اتنے میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ آئے اور آپ نے آپ ﷺ کے چہرہ اقدس سے (کپڑا) اٹھایا اور آپ کی آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور دو بار کہا : انت اکرم علی اللہ من ان یمیتک (آپ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ ہیں اس سے زیادہ معزز اور مکرم ہیں کہ وہ آپ کو موت دے) قسم بخدا ! رسول اللہ ﷺ وصال فرماگئے اور حضرت عمر ؓ مسجد کے ایک کونے میں کہہ رہے تھے : قسم بخدا رسول اللہ ﷺ فوت نہیں ہوئے، اور نہ وہ فوت ہوں گے یہاں کہ منافقین میں سے بہت سے لوگوں کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیئے جائیں، پس حضرت ابوبکر صدیق ؓ اٹھے اور منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا : ” من کان یعبد اللہ فان اللہ حی لم یمت، ومن کان یعبد محمدا فان محمدا قد مات “ جو اللہ تعالیٰ تو زندہ ہے وہ فوت نہیں ہوا۔ اور جو محمد ﷺ کی عبادت کرتا تھا تو محمد ﷺ تو فوت ہوچکے ہیں۔ (آیت) ” وما محمد الا رسول، قد خلت من قبلہ الرسل افائن مات اوقتل انقلبتم علی اعقابکم ومن ینقلب علی عقبیہ فلن یضر اللہ شیئا، وسیجزی اللہ الشکرین، حضرت عمر ؓ نے بیان کیا ” گویا میں نے تو یہ آیت اس دن کے سوا پڑھی ہی نہیں (2) (سنن ابن ماجہ، کتاب الجنائزصفحہ 116، اسلام آباد، ایضا ابن ماجہ، حدیث نمبر 1615، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور انہوں نے اپنے اس قول سے رجوع کرلیا جو پہلے انہوں نے کہا تھا اسے وائلی ابو نصر عبید اللہ نے اپنی کتاب ” الابانۃ “ میں ذکر کیا ہے : حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے اس وقت سنا جب رسول اللہ ﷺ کی مسجد میں ابوبکرصدیق کی بیعت کی گئی، اور آپ رسول اللہ ﷺ کے منبر پر تشریف فرما ہوئے اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے پہلے شہادت دی اور کہا : اما بعد، میں نے کل تمہیں ایک بات کہی تھی اور وہ اس طرح نہ تھی جیسے میں نے کہی تھی، اور قسم بخدا ! میں نے وہ بات جو تمہیں کہی اسے اس کتاب میں نہیں پایا جسے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا اور نہ ہی اس عہد میں پایا جو عہد رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : البتہ میں یہ امید کرتا تھا کہ رسول اللہ ﷺ زندہ رہیں گے یہاں تک کہ آپ ہمارے بعد آئیں گے۔۔۔۔ آپ کے کہنے کی مراد یہ تھی کہ آپ ﷺ کو موت آخر میں آئے گی : پس اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول مکرم ﷺ کے لئے اپنی پسند کو تمہاری پسند پر ترجیح دی، اور یہ وہ کتاب ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول مکرم ﷺ کی راہنمائی فرمائی پس تم اسے پکڑ لو تم ہدایت پاجاؤ گے اس کی طرف جو رسول اللہ ﷺ نے رہنمائی فرمائی (1) (صحیح بخاری کتاب الاحکام حدیث نمبر 6679، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) وائلی ابو نصر نے کہا : وہ بات جو انہوں نے کہی پھر اس سے رجوع کرلیا وہ یہ ہے ” کہ حضور نبی مکرم ﷺ فوت نہیں ہوئے اور وہ ہرگز فوت نہیں ہوں گے یہاں تک کہ لوگوں کے ہاتھ اور ان کے پاؤں کاٹ دیئے جائیں گے اور انہوں نے یہ اس عظیم صدمہ کی وجہ سے کہا جو انہیں لاحق ہوا اور انہیں فتنہ اور منافقین کے ظہور کا خدشہ ہوا، اور جب انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی قوت یقین کا مشاہدہ کیا، اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد پڑھا : (آیت) ” کل نفس ذآئقۃ الموت “۔ اور (آیت) ” انک میت وانہم میتون “۔ اور وہ جو انہوں نے اس دن کہا تو یہ آگاہ ہوئے اور یہ بات (ان کے ذہن میں) راسخ ہوگئی اور انہوں نے کہا : گویا میں نے یہ آیت حضرت ابوبکر ؓ کے سوا کسی سے سنی ہی نہیں، اور لوگ یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے مدینہ طیبہ کی گلیوں میں نکل پڑے، گویا یہ آیت کبھی نازل نہیں ہوئی مگر اسی دن (2) (صحیح بخاری، کتاب الجنائز، حدیث 1165، ایضا) اور آپ ﷺ کا وصال بلا اختلاف پیر کے دن ہوا اسی وقات میں جس میں آپ ﷺ ہجرت کے وقت مدینہ طیبہ میں داخل ہوئے تھے جس وقت دھوپ خوب سخت ہوچکی تھی، اور آپ ﷺ کو منگل کے دن دفن کیا گیا، اور یہ قول بھی ہے کہ بدھ کی رات کو (آپ کو دفن کیا گیا) (3) (صحیح بخاری کتاب الجنائز، حدیث نمبر 1298، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) صفیہ بنت عبدالمطلب نے رسول اللہ ﷺ کا مرثیہ کہتے ہوئے کہا : الا یارسول اللہ کنت رجاء نا وکنت بنا برا ولم تک جافیا : خبردار یا رسول اللہ ﷺ آپ ہماری امید تھے اور آپ ہمارے محسن تھے اور کبھی اعراض نہ برتتے تھے۔ وکنت رحیما ھادیا ومعلما لیبک علیک علیک الیوم من کان با کیا ؛ اور بڑے مہربان، راہبر اور معلم تھے چاہیے کہ آج کے دن آپ پر ہر رونے والا روئے۔ لعمرک ما ابکی النبی لفقدہ ولکن لما اخشی من الھرج اتیا : تیری عمر کی قسم میں نبی مکرم ﷺ کے مفقود ہونے کے سبب نہیں روؤں گی البتہ مجھے کسی حرج اور مصیبت آنے کا خدشہ ہوگا۔ کان علی قلبی لذکر محمد وما خفت من بعد النبی المکاویا : گویا میرے دل پر حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا ذکر ہے اور مجھے نبی مکرم ﷺ کے بعد کسی گالیاں دینے والے کا کوئی خوف نہیں۔ افاطم صلی اللہ رب محمد علی جدث امسی بیثرب ثاویا : میں چھوڑتی ہوں اللہ تعالیٰ پر جو حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا رب ہے کہ وہ اس قبر پر رحمتیں نازل فرمائے جو یثرب میں آباد ہے۔ فدی لرسول اللہ امی وخالتی وعمی وآبائی ونفسی ومالیا رسول اللہ ﷺ پر میری ماں، میری خالہ، میری پھوپھی، میری جان اور میرا مال سبھی نثار ہوں۔ صدقت وبلغت الرسالۃ صادقا ومت صلیب العود ابلج صافیا : آپ نے سچ بولا اور پیغام رسالت کو صدقت کے ساتھ پہنچا یا اور آپ نے لکڑی کی صلیب کو ختم کردیا اور خوب صاف کردیا۔ فلو ان رب الناس ابقی نبینا سعدنا ولکن امرہ کان ماضیا : آپ پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے صلوۃ وسلام ہو اور آپ کو جنات عدن میں داخل کیا جائے اس حال میں کہ آپ راضی اور خوش ہوں۔ اری حسبنا ایتمتہ وترکتہ یبکی ویدعو جدہ الیوم ناعیا : میں دیکھ رہی ہوں آپ نے ہی ہمارے حسب کو مکمل کیا ہے اور اسے رلاتے ہوئے چھوڑ دیا ہے اور آج یہ دور اپنے دادا کو پکار رہا ہے۔ مسئلہ نمبر : (3) اور اگر یہ کہا جائے کہ رسول اللہ ﷺ کی تدفین کو کیوں مؤخر کیا گیا حالانکہ آپ نے اہل بیت کو اپنی میتوں کو تدفین کو مؤخر کرنے پر کہا : ” اپنے مردوں کی تدفین میں جلدی کرو اور تم ان میں تاخیر نہ کرو “ (1) (ابن ماجہ کتاب الجنائز، صفحہ 108، کراچی، ایضا ابن ماجہ کتاب الجنائز، حدیث نمبر 1474، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) تو اس کا جواب تین طرح سے دیا گیا ہے۔ (1) ایک تو و ہی ہے جو ہم نے ذکر کیا ہے کہ آپ ﷺ کے وصال فرمانے پر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے مابین اتفاق نہ تھا۔ (2) اس لئے کہ وہ اس مقام اور جگہ کو نہ جانتے تھے جہاں وہ آپ کو دفن کریں، پس ایک جماعت نے کہا : جنت البقیع میں دفن کیا جائے اور دوسرے گروہ نے کہا : مسجد میں اور ایک قوم نے کہا : آپ کو روکا جائے گا یہاں تک کہ آپ کو اپنے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف اٹھا لیا جائے، یہاں تک کہ عالم اکبر (مراد حضرت ابوبکرصدیق ؓ ہیں) نے کہا : میں نے آپ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ما دفن نبی الا حیث یموت (کسی نبی کو دفن نہیں کیا جاتا مگر اسی جگہ جہاں اس کا وصال ہوتا ہے) اسے ابن ماجہ اور مؤطا وغیرہ نے بیان کیا ہے۔ (2) (3) وہ اس اختلاف میں مشغول ہوگئے جو مہاجرین وانصار کے درمیان بیعت کے بارے میں واقع ہوا، پس وہ اس میں غور وفکر کرتے رہے یہاں تک کہ معاملہ واضح ہوگیا اور کام منظم ہوگیا اور حالات پر سکون ہوگئے اور خلافت اپنے نصاب میں پختہ ہوگئی پس انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی بیعت کرلی، پھر دوسرے دن ان میں سے ایک جماعت نے برضا ورغبت دوسری بیعت کی، پس اللہ تعالیٰ نے آپ کے سبب مرتدین کے فتنہ سے نجات دلائی اور آپ کے سبب دین کو تقویت حاصل ہوئی، والحمد للہ رب العالمین “۔ پھر اس کے بعد انہوں نے حضور نبی مکرم ﷺ کی طرف رجوع کیا اور آپ کے دفن کے بارے میں غور وفکر کی تب انہوں نے آپ ﷺ کو غسل دیا اور آپ کو کفن پہنایا، واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (4) اس میں اختلاف ہے کہ کیا آپ ﷺ پر نماز پڑھی گئی یا نہیں، پس بعض نے کہا ہے : کسی نے بھی آپ ﷺ پر نماز جنازہ نہیں پڑھی بلکہ ہر ایک آپ ﷺ کے پاس کھڑے ہو کر دعا مانگتا رہا کیونکہ آپ ﷺ کی شان اس سے اشرف واعلی ہے کہ آپ پر نماز جنازہ پڑھی جائے، اور علامہ ابن عربی نے کہا ہے : یہ کلام ضعیف ہے، کیونکہ سنت یہی ہے کہ آپ پر نماز جنازہ میں کھڑے ہو کر درود پاک پڑھا جائے گا جیسا کہ آپ پر دعا میں درود پاک پڑھا جاتا ہے۔ اور وہ یہ کہے : اللھم صل علی محمد ال یوم القیامۃ “۔ (اے اللہ ! حضرت محمد مصطفیٰ ؓ پر یوم قیامت تک رحمتیں نازل فرما) اور یہ ہمارے لئے بھی باعث نفع ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے : آپ ﷺ پر نماز جنازہ نہیں پڑھی گئی، کیونکہ وہاں کوئی امام نہ تھا، اور یہ ضعیف ہے، کیونکہ وہ جو انہیں فرض نماز پڑھا رہا تھا وہی اس نماز میں ان کی امامت نہیں کرائی، اس حدیث کو انہوں نے نصر ابن علی جہضمی سے اس سند کے ساتھ بیان کیا ہے انبانا وھب بن جریر حدثنا ابی عن محمد بن اسحاق قال حدثنی حسین ابن عبداللہ عن عکرمۃ عن ابن عباس، الحدیث بطولہ، (1) (ابن ماجہ، کتاب الجنائز، صفحہ 118، ایضا این ماجہ کتاب الجنائز حدیث نمبر 1616، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) مسئلہ نمبر : (5) حضور نبی مکرم ﷺ کے وصال کے بعد حالات کی تبدیلی کے بارے میں حضرت انس ؓ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا : جس دن رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ میں تشریف لائے تو آپ کی آمد سے ہر شے منورہ و روشن وہ گئی اور جس دن آپ ﷺ کا مدینہ میں وصال ہوا تو وہاں کی ہر شے تاریک ہوگئی اور ہم نے حضور نبی مکرم ﷺ سے ہاتھ نہیں جھاڑے یہاں تک کہ ہم نے اپنے کا انکار کردیا ابن ماجہ نے روایت بیان کی ہے (2) (سنن ابن ماجہ، کتاب الجنائز، صفحہ 119، ایضا ابن ماجہ، کتاب الجنائز حدیث نمبر 1620، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور کہا ہے : محمد بن بشار، عبدالرحمن بن مہدی، سفیان نے عبداللہ بن دینار سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے فرمایا : ہم رسول اللہ ﷺ کے عہد میں اپنی عورتوں کے ساتھ کلام کرنے اور دل لگی کرنے سے بچتے تھے اس خوف سے کہ کہیں ہمارے بارے میں قرآن میں قرآن نہ نازل ہوجائے، اور جب رسول اللہ ﷺ کا وصال ہوگیا تو پھر ہم کلام کرنے لگے۔ (1) (سنن ابن ماجہ، کتاب الجنائز، صفحہ 119، ایضا ابن ماجہ، کتاب الجنائز حدیث نمبر 1621، ضیاء القرآن) اور ام سلمہ بنت ابی امیہ زوج النبی ﷺ سے مسند روایت ہے (کہ انہوں نے کہا) لوگ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو کسی نمازی کی نظر اپنے قدموں سے تجاوز نہ کرتی تھی اور جب رسول اللہ ﷺ وصال فرما گئے اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا (عہد) آیا تو لوگوں میں سے جب کوئی نماز کے لئے کھڑا ہوتا تو ان میں سے کسی کی نظر پیشانی رکھنے کی جگہ سے تجاوز نہ کرتی، پھر جب حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا وصال ہوا اور حضرت عمر ؓ (عہد) آیا لوگوں کی حالت یہ تھی کہ ان میں سے جب کوئی نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہوتا تو کسی کی نظر قبلہ کی سمت سے نہ پھرتی پھر جب حضرت عثمان بن عفان ؓ (کا عہد) آیا تو فتنے برپا ہوگئے اور لوگ نماز میں دائیں بائیں متوجہ ہونے لگے۔ (2) (سنن ابن ماجہ، کتاب الجنائز، صفحہ 119، ایضا ابن ماجہ، کتاب الجنائز حدیث نمبر 1623، ضیاء القرآن) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” افائن مات اوقتل انقلبتم علی اعقابکم “۔ اس میں افائن مات “۔ شرط ہے اور ” اوقتل “ اس پر معطوف ہے اور ” انقلبتم “۔ جواب شرط ہے اور حرف استفہام حرف جزا پر داخل ہے کیونکہ شرط اسی کے ساتھ منعقد ہے اور یہ ایک جملہ اور ایک خبر ہوگیا ہے اور معنی یہ ہے۔ افتنقلبون علی اعقابکم ان مات اوقتل ؟ (کیا تم الٹے پاؤں (دین اسلام سے) پھر جاؤ گے اگر آپ انتقال فرما جائیں یا آپ کو شہید کردیا جائے) اور اسی طرح (حکم ہے) ہر استفہام کا جو حرف جزا پر داخل ہو، کیونکہ وہ اپنے محل میں نہیں ہوتا، اور اس کا محل یہ ہے کہ وہ جواب شرط سے پہلے ہو، اور قول باری تعالیٰ : (آیت) ” انقلبتم علی اعقابکم “۔ ایک تمثیل ہے، اور اس کا معنی ہے تم اپنے ایمان کی بعد کفار کی طرف لوٹ جاؤ گے، حضرت قتادہ وغیرہ نے یہی کہا ہے، اور یہ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے جو اس حالت کی طرف لوٹ آئے جس پر وہ پہلے تھا، انقلب علی عقبیبہ، اور اسی معنی میں نکص علی قبیہ “ بھی ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہاں انقلاب (لوٹنے) سے مراد شکست کھانا ہے، اور یہ حقیقت ہے نہ کہ مجاز، اور یہ قول بھی ہے اس کا معنی ہے تم نے مرتدین کا فعل کیا ہے اگرچہ یہ ردۃ (مرتد ہونا) نہیں۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ومن ینقلب علی عقبیہ فلن یضر اللہ شیائ “۔ ترجمہ : اور جو الٹے پاؤں پھرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکے گا۔ بلکہ اپنی ذات کا نقصان کرے گا اور مخالفت کے سبب اپنے آپ کو سزا کے لئے پیش کرے گا، اور اللہ تعالیٰ تو غنی ہے اسے کوئی طاقت نفع نہیں دے سکتی اور نہ کوئی معصیت اسے کوئی نقصان اور ضرر پہنچا سکتی ہے۔ (آیت) ” وسیجزی اللہ الشکرین “۔ (اور اللہ تعالیٰ جلدی اجر دے گا شکر کرنے والوں کو) یعنی وہ جنہوں نے صبر کیا اور جہاد کیا اور شہید کردیئے گئے، اور (آیت) ” وسیجزی اللہ الشکرین “۔ قول باری تعالیٰ : (آیت) ” فلن یضر اللہ شیئا “۔ کے بعد آیا ہے اور یہ وعدہ کا وعید کے ساتھ اتصال ہے۔
Top