Dure-Mansoor - Aal-i-Imraan : 144
وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ١ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ١ؕ اَفَاۡئِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰۤى اَعْقَابِكُمْ١ؕ وَ مَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰى عَقِبَیْهِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰهَ شَیْئًا١ؕ وَ سَیَجْزِی اللّٰهُ الشّٰكِرِیْن
وَمَا : اور نہیں مُحَمَّدٌ : محمد اِلَّا : مگر (تو) رَسُوْلٌ : ایک رسول قَدْ خَلَتْ : البتہ گزرے مِنْ قَبْلِهِ : ان سے پہلے الرُّسُلُ : رسول (جمع) اَفَا۟ئِنْ : کیا پھر اگر مَّاتَ : وفات پالیں اَوْ : یا قُتِلَ : قتل ہوجائیں انْقَلَبْتُمْ : تم پھر جاؤگے عَلٰٓى اَعْقَابِكُمْ : اپنی ایڑیوں پر وَمَنْ : اور جو يَّنْقَلِبْ : پھر جائے عَلٰي عَقِبَيْهِ : اپنی ایڑیوں پر فَلَنْ يَّضُرَّ : تو ہرگز نہ بگاڑے گا اللّٰهَ : اللہ شَيْئًا : کچھ بھی وَسَيَجْزِي : اور جلد جزا دے گا اللّٰهُ : اللہ الشّٰكِرِيْنَ : شکر کرنے والے
اور محمد ﷺ صرف رسول ہیں، ان سے پہلے رسول گذر چکے ہیں، تو کیا ان کو موت آجائے یا مقتول ہوجائیں تو تم الٹے پاؤں پلٹ جاؤ گے ؟ اور جو شخص الٹے پاؤں پھر جائے تو وہ اللہ کو کچھ نقصان نہ دے گا، اور اللہ عنقریب شکر گذاروں کو ثواب دے گا۔
ہر حال میں دین پر ثابت قدم رہنا (1) ابن المنذر نے کلیب (رح) سے روایت کیا ہے کہ ہم کو حضرت عمر ؓ نے خطبہ دیا اور وہ منبر پر سورة آل عمران پڑھتے تھے اور یہ فرماتے تھے یہ غزوہ احد کے بارے میں ہے پھر فرمایا ہم احد کے دن رسول اللہ ﷺ سے جدا ہوگئے میں ایک پہاڑ پر چڑھ گیا اور میں نے ایک یہودی کو یہ کہتے ہوئے سنا محمد ﷺ قتل کر دئیے گئے میں نے کہا کسی کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنوں گا کہ محمد ﷺ شہید کر دئیے گئے مگر اس کی گردن ماردوں گا (یعنی اس کو قتل کر دوں گا) میں نے دیکھا تو اچانک رسول اللہ ﷺ لوگوں کے ساتھ واپس لوٹ رہے تھے (اس پر) یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت ” وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل “۔ (2) ابن جریر نے عوفی کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ الگ ہوگئے اور ایک جماعت آپ کے ساتھ ایک پہاڑی پر تھی اور لوگ بھاگ رہے تھے ایک آدمی راستے پر کھڑا ہوا ان سے پوچھ رہا تھا رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کیا ہوا ؟ اور وہ برابر ان سے پوچھ رہا تھا جب بھی لوگ اس کے پاس سے گذرتے تھے تو وہ لوگ کہتے تھے اللہ کی قسم ! ہم نہیں جانتے کہ آپ کے ساتھ کیا ہوا ؟ (پھر) اس نے کہا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر نبی ﷺ شہید کر دئیے گئے تو ہم ان کو ضرور دیں گے اپنے ہاتھوں سے (یعنی جان ان کے حوالہ کردیں گے) کیونکہ وہ ہمارے قبیلہ کے ہیں اور ہمارے بھائی ہیں اور کہنے لگے اگر محمد ﷺ زندہ ہوئے تو شکست نہ کھاتے لیکن وہ قتل کر دئیے گئے سو اب انہوں نے بھاگنے میں عافیت سمجھی تو (اس پر) اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی لفظ آیت ” وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل “ پوری آیت۔ (3) ابن جریر وابن ابی حاتم نے ربیع (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ یہ احد کا دن تھا جب ان کو قتل ہونے اور زخمی ہونے کی تکلیف پہنچی اور تم نے ایک دوسرے کو بلایا کہ اللہ تعالیٰ کے نبی کہاں ہے ؟ بعض نے کہا وہ شہید ہوچکے ہیں اور کچھ لوگوں نے ان میں سے کہا اگر وہ نبی ہوتے تو شہید نہ ہوتے جلیل القدر صحابہ میں سے کچھ نے کہا تم بھی (کافروں کے ساتھ) اس دین پر لڑتے ہو جس پر تمہارے نبی ﷺ شہید ہوئے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو فتح عطا فرما دیں گے یا تم (شہید ہو کر) ان کے ساتھ مل جاؤ گے اور ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ مہاجرین میں سے ایک آدمی گذرا ایک انصاری صحابی پر اور وہ اپنے خون میں لت پت ہوچکا تھا اس نے پوچھا اے فلانے ! کیا تو جانتا ہے کہ محمد ﷺ قتل کر دئیے گئے تو اس صحابی نے جواب دیا کہ اگر شہید کر دئیے گئے ہیں تو تحقیق وہ اپنا پیغام پہنچا چکے وہ (دین اسلام) کی تبلیغ کرچکے ہیں سو اب تم اپنے دین کی طرف سے (کافروں سے) لڑو تو (اس پر) اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) اتاری لفظ آیت ” وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل افائن مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم “ یعنی کیا تم اپنے ایمان کے بعد کفر کی طرف پھر جاؤ گے۔ (4) ابن جریر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا ہے کہ احد کے دن ایک آواز لگانے والے نے آواز لگائی جب محمد ﷺ کے صحابہ شکست کھا گئے کہ محمد ﷺ قتل کر دئیے گئے اب تم اپنے پہلے دین کی طرف لوٹ جاؤ اس پر اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) اتاری لفظ آیت ” وما محمد الا رسول۔۔ “ (5) ابن جریج (رح) سے روایت کیا ہے کہ ان لوگوں نے جن میں کفر کا مرض تھا اور شک کرنے والے اور نفاق کرنے والوں نے کہا جب لوگ نبی ﷺ سے بھاگ گئے کہ محمد ﷺ قتل کر دئیے گئے اس لیے اب اپنے دین کے ساتھ مل جاؤ تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی ” وما محمد الا رسول “۔ (6) ابن جریر نے سدی (رح) سے روایت کیا ہے کہ احد کے دن لوگوں میں یہ خبر پھیل گئی کہ رسول اللہ ﷺ قتل کر دئیے گئے پتھروں کی پوجا کی کرنے) والوں میں سے بعض نے کہا کہ کاش ہمارا کوئی قاصد ہوتا جو عبد اللہ بن ابی کے پاس جا کر ہمارے لیے ابو سفیان سے امان لیتا اے قوم ! محمد ﷺ قتل کر دئیے گئے اب تم اپنی قوم کی طرف لوٹ جاؤ پہلے اس سے کہ وہ تمہارے پاس آئیں اور تم کو قتل کردیں انس بن نضر ؓ کہا اے قوم ! اگر محمد ﷺ قتل کر دئیے گئے تو بلاشبہ محمد ﷺ کا رب تو قتل نہیں ہوا سو تم لڑو اس دین پر جس پر محمد ﷺ لڑے (پھر فرمایا) اے اللہ ! بلاشبہ میں معذرت کرتا ہوں تیری طرف ان باتوں سے جو یہ لوگ کہتے ہیں اور جو کچھ انہوں نے کیا میں اس سے بری ہوتا ہوں آپ کی طرف پھر تلوار کو پکڑا اور لڑنا شروع کردیا یہاں تک کہ شہید ہوگئے تو اس پر اللہ تعالیٰ نے اتارا لفظ آیت ” وما محمد الا رسول “۔ (7) ابن جریر نے قاسم بن عبد الرحمن بن رافع (رح) سے روایت کیا جو نبی عدی بن نجار کے بھائی ہیں وہ روایت کرتے ہیں کہ انس بن نضر جو انس بن مالک کے چچا ہیں وہ طلحہ بن عبید اللہ حضرت عمر ؓ اور مہاجرین اور انصار کے پاس آئے۔ یہ لوگ اپنے ہاتھوں کو ڈال چکے تھے (یعنی کافروں سے لڑنا ختم کرچکے تھے) حضرت انس ؓ نے (ان سب لوگوں سے) فرمایا تم کس لیے بیٹھے ہو ؟ انہوں نے کہا محمد رسول اللہ ﷺ شہید کر دئیے گئے (اب ہم کیا کریں) حضرت انس ؓ نے فرمایا ان کے بعد تم اس زندگی کا کیا کرو گے ؟ تم کھڑے ہوجاؤ اور مرجاؤ اس دین پر جس پر رسول اللہ ﷺ کی شہادت ہوئی قوم نے (اس مشورہ کو) قبول کیا اور (کافروں سے) لڑتے رہے یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔ (8) عبد بن حمید ابن المنذر نے عطیہ عوفی (رح) سے روایت کیا کہ جب احد کا دن تھا اور (مسلمان) شکست کھا گئے تو بعض لوگوں نے کہا۔ اگر محمد ﷺ شہید کر دئیے گئے کیا تم اس راستے پر نہیں چلتے جس راستے پر تمہارے نبی ﷺ چلے ہیں (یعنی تم بھی انہی کی طرح شہید ہوجاؤ) یہاں تک کہ ان کے ساتھ مل جاؤ۔ تو اللہ تعالیٰ نے (اس پر یہ آیت) اتاری لفظ آیت ” وما محمد الا رسول “ سے لے کر ” فاتہم اللہ ثواب الدنیا “ تک۔ (9) ابن سعد نے طبقات میں محمد بن شرجیل عبدری ؓ سے روایت کیا کہ احد کے دن مصعب بن عمیر ؓ نے جھنڈا اٹھایا ہوا تھا اس کا دایاں ہاتھ کاٹ دیا گیا تو انہوں نے اپنے بائیں ہاتھ میں جھنڈے کو پکڑ لیا جبکہ وہ یہ آیت پڑھ رہے تھے لفظ آیت ” وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل افائن مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم “ پھر ان کا بایاں ہاتھ بھی کاٹ دیا گیا تو وہ جھنڈے کی طرف جھکے اور بازوں میں لے کر سینے سے لگا لیا اور وہ کہہ رہے تھے لفظ آیت ” وما محمد الا رسول “ (حالانکہ) یہ آیت اس دن نازل نہیں ہوئی تھی بلکہ اس کے بعد نازل ہوئی۔ (10) عبد بن حمید ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ومن ینقلب علی عقبیہ “ سے مراد ہے کہ جو شخص اسلام سے مرتد ہوگیا۔ صدیق اکبر ؓ کی ثابت قدمی (11) بخاری و نسائی نے زہری کے طریق سے ابو سلمۃ سے روایت کیا ہے اور انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ اپنے مسکن مسخ سے گھوڑے پر تشریف لائے یہاں تک کہ (گھوڑے سے) اترے مسجد میں داخل ہوگئے لوگوں سے بات کی یہاں تک کہ (اپنی بیٹی) حضرت عائشہ ؓ کے پاس چلے گئے پھر رسول اللہ ﷺ کے جھنڈے کی طرف گئے اور آپ ﷺ حبرہ کپڑے میں لپٹے ہوئے تھے انہوں نے آپ کے چہرے مبارک سے کپڑا ہٹایا پھر ان پر جھک کر بوسا لیا اور رونے لگے پھر فرمایا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ آپ ﷺ پر دو موتیں جمع نہیں فرمائے گا لیکن وہ موت جو آپ پر لکھی گئی تھی پس وہ آچکی زہری (رح) نے کہا اور مجھو کو ابو سلمہ ؓ نے بیان کیا کہ ابن عباس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ابوبکر صدیق نے فرمایا اے عمر ! بیٹھ جاؤ اور فرمایا اما بعد ! جو شخص محمد ﷺ کی عبادت کیا کرتا تھا بیشک محمد ﷺ وفات پا چکے ہیں اور جو شخص اللہ کی عبادت کیا کرتا تھا سو بیشک اللہ تعالیٰ زندہ ہیں ان کو موت نہیں آئے گی اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” وما محمد الا رسول “ سے لے کر ” الشکرین “ تک (پھر) فرمایا اللہ کی قسم ! لوگ نہیں جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو اتارا ہے یہاں تک کہ ابوبکر ؓ نے اس کو پڑھا (اس کے بعد) سب لوگوں نے اس کو پڑھا اور لوگوں میں سے جس آدمی نے بھی اس کو سنا تو اس کو پڑھنے لگا۔ (12) ابن المنذر نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ وفات پا گئے تو حضرت عمر ؓ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ بیشک کچھ منافقین میں سے یہ گمان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وفات پاگئے اور اللہ کی قسم ! رسول اللہ ﷺ نے وفات نہیں پائی لیکن اپنے رب کے پاس چلے گئے جیسے موسیٰ بن عمران گئے تھے اور اپنی وفات نہیں پائی اور اپنی قوم سے چالیس رات غائب ہوگئے تھے پھر ان کی طرف لوٹ آئے تھے بعد اس کے کہ کہا گیا تھا کہ وہ وفات پاگئے ہیں اللہ کی قسم ! رسول اللہ ﷺ ضرور لوٹیں گے جیسے موسیٰ (علیہ السلام) لوٹ آئے تھے ان لوگوں کے ہاتھوں اور ان کے پاؤں کو ضرور کاٹ دیا جائے گا جو یہ گمان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وفات پا گئے ہیں ابوبکر ؓ باہر تشریف لائے اور فرمایا اے عمر ! ٹھہر جاؤ خاموش ہوجاؤ (پھر) اللہ کی حمد وثنا بیان کی پھر فرمایا اے لوگو ! بلاشبہ تم میں سے جو محمد ﷺ کی عبادت کرتا تھا بلاشبہ محمد ﷺ وفات پا چکے ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے تو بلاشبہ اللہ تعالیٰ زندہ ہیں ان کو موت نہیں آئے گی پھر یہ آیت پڑھی لفظ آیت ” وما محمد الا رسول “ اللہ کی قسم ! گویا کہ لوگ اس آیت کو جانتے ہی نہ تھے یہاں تک کہ ابوبکر ؓ کو تلاوت کرتے ہوئے سنا تو میں کانپنے لگا اور زمین پر گرگیا (اور فرمایا) میری ٹانگوں نے میرا بوجھ برداشت نہ کیا اور میں نے جان لیا کہ رسول اللہ ﷺ وفات پا چکے ہیں۔ (13) البیہقی نے دلائل میں عروہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ جب نبی ﷺ وفات پا گئے ہیں تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ جس نے کہا کہ محمد ﷺ وفات پاگئے تو میں اس کو قتل کر دوں گا اور اس کے اعضاء کاٹ دوں گا حضرت ابوبکر ؓ تشریف لائے اور ممبر کے ایک جانب کھڑے ہو کر فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی کی موت کی خبر دی جب وہ تمہارے درمیان تھے اور تمہاری موت کی بھی خبر دی ہے اور وہ موت (ضرور آئے گی) یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی باقی نہیں رہے گا اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” وما محمد الا رسول “ سے لے کر ” الشکرین “ تک حضرت عمر ؓ نے فرمایا یہ آیت قرآن میں ہے ؟ اللہ کی قسم ! میں نہیں جانتا تھا کہ یہ آیت آج کے دن سے پہلے نازل ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کے لیے بھی یہ فرمایا لفظ آیت ” انک میت وانہم میتون “۔ (14) ابن المنذر اور بیہقی نے ابن عباس کے طریق سے حضرت بن خطاب ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں اس آیت کی تاویل کیا کرتا تھا (یعنی یہ آیت) ” وکذلک جعلنکم امۃ وسطا لتکونوا شھداء علی الناس ویکون الرسول علیکم شھیدا “ اللہ کی قسم ! میں یہ گمان کرتا تھا کہ آپ اپنی امت میں باقی رہیں گے یہاں تک کہ (اپنی امت کے) آخری اعمال کی گواہی دیں گے اسی چیز نے مجھے ایسا کہنے پر آمادہ کیا جو میں نے کہا۔ (15) ابن جریر نے حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وسیجزی اللہ الشکرین “ میں ” الشکرین “ سے مراد ہے اپنے دین پر ثابت قدم رہنے والے ابوبکر اور آپ کے صحابہ ؓ اور حضرت علی ؓ فرمایا کرتے تھے کہ ابوبکر امین اور شکر کرنے والے تھے۔ سہیل بن عمرو کی خطابت (16) الحاکم والبیہقی نے دلائل میں حسن بن محمد (رح) سے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے چھوڑ دیجئے میں سہیل بن عمرو کے اوپر نیچے سامنے والے دانت توڑ دوں تاکہ وہ اپنی قوم میں کبھی بھی خطیب بن کر کھڑا نہ ہو سکے آپ نے فرمایا اس کو چھوڑ دو شاید کہ وہ کبھی تجھے خوش کرے جب نبی ﷺ وفات پا گئے تو مکہ والے بھاگ گئے اور سہیل کعبہ کے پاس کھڑے ہو کر کہنے لگے جو شخص محمد ﷺ کی عبادت کرتا تھا تو (جان لے) کہ محمد ﷺ وفات پا گئے ہیں اور اللہ تعالیٰ زندہ ہے وہ نہیں مرے گا۔ (17) ابن المنذر ابن ابی حاتم نے طبرانی اور حاکم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ حضرت علی ؓ سے رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں فرمایا کرتے تھے بلاشبہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لفظ آیت ” افائن مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم “ اللہ کی قسم ! ہم اپنی ایڑیوں پر نہیں پھریں گے جب کہ اللہ تعالیٰ ہم کو ہدایت عطا فرما چکا ہے اور اللہ کی قسم ! اگر رسول اللہ ﷺ فوت ہوگئے یا قتل کر دئیے گئے تو میں ضرور قتال کروں گا اس دین پر جس پر آپ نے قتال فرمایا یہاں تک کہ میں مرجاؤں گا۔ (18) ابن المنذر نے زہری (رح) سے روایت کیا ہے کہ جب یہ آیت ” لیزدادوا ایمانا مع ایمانہم “ نازل ہوئی تو صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم یہ جان چکے ہیں کہ ایمان زیادہ ہوتا ہے کیا کم بھی ہوتا ہے ؟ آپ نے فرمایا اس ذات کی قسم ! جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے بلاشبہ وہ البتہ کم ہوجاتا ہے صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا اس بات کی کتاب اللہ میں کوئی دلیل ہے ؟ فرمایا ہاں پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت پڑھی لفظ آیت ” وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل افائن مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم “ تو یہ پلٹ جانا نقصان ہے ناکہ کفر ہے۔ (19) ابن جریر ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے ابن اسحاق (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وما کان لنفس “ سے مراد ہے کہ محمد ﷺ کے لیے بھی ایک مدت مقرر ہے جس کو وہ پہنچ جائیں گے جب اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں اجازت دے دی تو ” ومن یرد ثواب الدنیا نؤتہ منھا “ یعنی جو تم میں سے دنیا کا ارادہ کرے گا اور اس کی رغبت آخرت میں نہ ہوگی تو ہم اس کو دیں گے جو کچھ رزق ہم نے اس کے لیے تقسیم کردیا ہے اور آخرت میں اس کے لیے کوئی حصہ نہ ہوگا (اور فرمایا) لفظ آیت ” ومن یرد ثواب الاخرۃ “ یعنی جو کوئی تم میں سے آخرت کے ثواب کا ارادہ کرتا ہے ” نؤتہ منھا “ تو ہم اس کو دیں گے جو اس سے وعدہ کیا ہے ساتھ وہ رزق بھی دیں گے جو اس کی دنیا میں ہم نے جاری کیا تھا اور یہی بدلہ ہے شکر کرنے والوں کا۔ (20) ابن ابی حاتم نے حضرت عمر بن عبد العزیز (رح) سے اس آخرت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ کسی جان کو موت نہیں آئی جب تک وہ دنیا میں اپنی عمر کے وقت کو پورا نہ کرے۔ (21) ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وسیجزی اللہ الشکرین “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر بندے کو اس کی نیت کے مطابق دنیا اور آخرت میں عطا فرماتے ہیں (یعنی دنیا کی نیت ہوگی تو دنیا دیں گے اگر آخرت کی نیت ہوگی تو آخرت دیں گے ) ۔ (22) ابن ابی شیبہ نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا اگر (زکوٰۃ دینے میں) مجھ سے ایک رسی بھی روک دی گئی جو رسول اللہ کو دیتے تھے تو میں ان کے ساتھ جہاد کروں گا پھر (یہ آیت) تلاوت فرمائی لفظ آیت ” وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل افائن مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم “۔ (23) البغوی نے اپنی معجم میں ابراہیم بن حنظلہ سے روایت کیا ہے کہ اور وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ سالم ؓ جو ابو حذیفہ ؓ کے آزاد کردہ غلام تھے یمامہ کے دن ان کے پاس جھنڈا تھا ان کا دایاں ہاتھ کاٹ دیا گیا تو انہوں نے جھنڈے کو بائیں ہاتھ میں لے لیا پھر ان کا بایا ہاتھ کاٹ دیا گیا تو انہوں نے جھنڈے کو گلے سے لگا لیا اور وہ (یہ آیت) پڑھ رہے تھے لفظ آیت ” وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل افائن مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم “۔
Top