Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 144
وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ١ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ١ؕ اَفَاۡئِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰۤى اَعْقَابِكُمْ١ؕ وَ مَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰى عَقِبَیْهِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰهَ شَیْئًا١ؕ وَ سَیَجْزِی اللّٰهُ الشّٰكِرِیْن
وَمَا : اور نہیں مُحَمَّدٌ : محمد اِلَّا : مگر (تو) رَسُوْلٌ : ایک رسول قَدْ خَلَتْ : البتہ گزرے مِنْ قَبْلِهِ : ان سے پہلے الرُّسُلُ : رسول (جمع) اَفَا۟ئِنْ : کیا پھر اگر مَّاتَ : وفات پالیں اَوْ : یا قُتِلَ : قتل ہوجائیں انْقَلَبْتُمْ : تم پھر جاؤگے عَلٰٓى اَعْقَابِكُمْ : اپنی ایڑیوں پر وَمَنْ : اور جو يَّنْقَلِبْ : پھر جائے عَلٰي عَقِبَيْهِ : اپنی ایڑیوں پر فَلَنْ يَّضُرَّ : تو ہرگز نہ بگاڑے گا اللّٰهَ : اللہ شَيْئًا : کچھ بھی وَسَيَجْزِي : اور جلد جزا دے گا اللّٰهُ : اللہ الشّٰكِرِيْنَ : شکر کرنے والے
اور محمد ﷺ تو بس ایک رسول ہی ہیں،281 ۔ ان کے قبل اور بھی رسول گزر چکے ہیں،282 ۔ سو اگر یہ وفات پاجائیں یا قتل ہوجائیں تو کیا تم الٹے پاؤں واپس چلے جاؤ گے،283 ۔ اور جو کوئی بھی الٹے پاؤں چلا جائے جائے گا وہ اللہ کا کچھ بھی نقصان نہ کرے گا،284 ۔ اور اللہ عنقریب شکر گزاروں کو بدلہ دے گا،285 ۔
281 ۔ (اور اس لیے فنا پذیر بھی ہیں۔ کوئی خدایا جزء خدایا مظہر خدا تو ہیں نہیں جو قانون حیات وممات سے بالا تر ہوں) (آیت) ” محمد “ اسم مبارک قرآن میں پہلی بار آیا ہے۔ لفظی معنی ہیں وہ شخص جس کی مدح بہت یا بار بار کی جائے یا جو صفات حسنہ کا مجموعہ ہو۔ یقال فلان محمد اذاکثرت خصالہ المحمودۃ (راغب) اسم علم ہے ہمارے رسول ﷺ اور دنیا کے آخری نبی کا۔ حضور ﷺ کی بعثت سے قبل اس نام کا رواج بہت کم تھا۔ علامہ ابو جعفر محمد بن حبیب بغدادی المتوفی 245 ھ ؁ نے کل سات آدمی اس نام کے گنائے ہیں (کتاب المعتبر صفحہ 130) اور ان میں سے ایک محمد بن سفیان بن مجاشع کی بابت تو یہ کہا ہے کہ ان کے والد نے ایک شامی راہب سے یہی سن کر کہ آئندہ پیغمبر کا نام محمد ہوگا اپنے لڑکے کا یہی نام رکھ دیا۔ کان سفیان اتی الشام تنزل علی راھب فاعجبتہ فصاحتہ وعقلہ فسال الراھب عن نسبہ فانتسب لہ الی مضر فقال لہ اما انہ یبعث فی العرب نبی یقال لہ محمد فسمی سفیان ابنہ محمدا تاج العروس اور لسان العرب میں بھی یہی سات نام نقل ہوئے ہیں۔ لیکن یہ نام عام طور سے عرب میں شائع نہ تھا۔ اور تصریحات اس قسم کی ملتی ہوئے ہیں۔ لیکن یہ نام عام طور سے عرب میں شائع نہ تھا۔ اور تصریحات اس قسم کی ملتی ہیں کہ لم یکن شائعا بین العرب ھذا الاسم اور تاج میں بھی اسی سے ملتا جلتا قول موجود ہے۔ راقم آثم کے ایک قدیم اور جواں مرگ دوست مولنا عبدالرحمن ندوی نگرامی مرحوم کا ایک مستقل مقالہ اسم پاک محمد ﷺ پر ہے، ان کی یادگار کے طور پر اور ان کی روح کو ثواب پہنچانے کی خاطر اس مقالہ کا بیشتر حصہ سورة کے آخر میں بہ طور ضمیہ کے شامل کیا جاتا ہے۔ 282 ۔ (اور ان سب نے اپنے اپنے وقت پر دنیا کو خیر باد کہا، سو یہ بھی اپنے وقت موعود پر وفات پائیں گے اور اس میں نہ کوئی بات حیرت کی ہوگی اور نہ کوئی پہلو آپ کی اہانت کا نکلے گا) رسول کا مرتبہ خوب سمجھ لیا جائے، رسول محض عبد ہوتے ہیں صاحب وحی، عقیدہ حلول، مظہریت، ابنیت وغیرہ پر ضرب لگانے کے لیے مرتبہ رسالت اور رسولیت کی بار بار تصریح ضروری تھی، حضور ﷺ کی وفات کا حادثہ اس قدر سخت تھا کہ حضرت عمر فاروق ؓ جیسے باوقار عالی ظرف بھی صبر وضبط کھوبیٹھے اور بےاختیار ہوگئے، عین اس وقت ایک ان سے بھی برتر شخصیت ابوبکر صدیق ؓ اسی آیت کی برمحل تلاوت کرکے ان کے اور سب کے جذبات کو قابو میں لے آئے تھے ، 283 ۔ (کفر اور بےدینی کی طرف) مطلب سوال کا یہ ہے کہ جب دین کی حقیقت تمہاری نظر میں ثابت ہوچکی، تو اب قاصد یا پیغامبر کی زیست یا وفات کا اس حقیقت وصداقت پر کیا اثر ! غزوۂ احد میں جب حضور ﷺ کو زخم پہنچا اور کسی شیطان نے یہ افواہ اڑا دی کہ آپ ﷺ دنیا سے رخصت ہوگئے تو بعض صحابہ نے اس انتہائی صدمہ انگیز خبر سے بددل اور شکستہ خاطر ہو کر میدان جنگ چھوڑنا شروع کردیا تھا اور منافقین کی وقتی طور پر بن آئی تھی۔ انہوں نے برابر طنز کرنا اور ارتداد کی ترغیب دینی شروع کردی تھی، آیت میں ان سب پہلوؤں کی طرف اشارہ ہے۔ (آیت) ” افائن مات “۔ اشارہ طبعی اسباب سے آنے والی موت کی طرف ہے۔ (آیت) ” اوقتل “۔ اشارہ معرکہ جنگ وغیرہ میں شہادت کی طرف ہے۔ (آیت) ” انقلبتم علی اعقابکم۔ من ینقلب علی عقبیہ “۔ محاورہ میں کنایہ ہے ارتداد سے۔ جنگ سے فرار بھی مراد ہوسکتی ہے۔ مجاز من الارتداد اوالا نھزام (مدارک) 284 ۔ (بلکہ اس کا وبال خود اپنے ہی سر لائے گا) جاہلی مذہبوں میں دیوتاؤں اور بچاریوں کے درمیان ایک طرح کی مساوات ہمیشہ رہی ہے۔ یعنی معبود بھی اپنی پرستش وعدم پرستش سے برابر متاثر ہوتے رہے ہیں۔ قرآن نے بار بار اسی جاہلی ذہنیت پر ضرب لگائی ہے۔ 285 ۔ شاکرین۔ یہ شکریہ (کافر) کے مقابلہ میں ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ عنقریب جزائے خیر ان لوگوں کو ملے گی جو اللہ کی اصلی اور بڑی نعمت دین حق کا شکریہ اس کے قبول واختیار کی صورت میں ادا کرتے ہیں۔ الشاکرین علی نعمۃ الاسلام بالثبات علیہ (بیضاوی) ضمیمہ پ 4 اسم پاک محمد ﷺ (بہ سلسلہ حاشیہ نمبر 281 پ 4) حضور کا نام نامی آپ کے دادا ” عبدالمطلب “ نے رکھا تھا۔ عام طور پر اس کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ رجاء ان یحمد عبدالمطلب نے آثار نیک دیکھ کر محمد ﷺ نام رکھا کہ مستقبل میں یہ مولود سعید آقائے مجموعہ محامد اور مرجع خلائق بنے۔ ارباب تصوف موشگافی کی انتہا کردیتے ہیں اور بتلاتے ہیں کہ یہ لفظ ” محمد ﷺ “ خدا کے نام ” احد “ سے مشتق ہے۔ اگرچہ عام طور پر نام کی صرف اس قدر ضرورت سمجھی جاتی ہے کہ چندچیزوں میں باہم امتیاز قائم رہے لیکن نام کی صحیح اور حقیقی غرض یہ نہیں۔ اسم کو اپنے مسمی کے صفات، خواص اور حالات کا آئینہ ہونا چاہیے۔ افراد کے نام رکھنے میں تو اس کا کم لحاظ کیا جاتا ہے۔ لیکن عموما انواع واجناس کے نام اسی مقصد کو پورا کرتے ہیں، مثلا انسان، مسلم، قوم۔ شاذونادر طریقہ پر افراد واشخاص کے ناموں میں بھی اس کا لحاظ کرلیا جاتا ہے جیسے لیکن عموما انواع واجناس کے نام اسی مقصد کو پورا کرتے ہیں۔ مثلا انسان، مسلم، قوم، شاذو نادر طریقہ پر افردواشخاص کے ناموں میں بھی اس کا لحاظ کرلیا جاتا ہے جیسے ” مسیح “ اور ” بدھ “ یہ دونوں نام اپنے مسمی کے اوصاف اور خواص کو بتلاتے ہیں۔ یہ امر یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جیسا کہ تاریخی طور پر ثابت ہے کہ آپ ﷺ سے پہلے عرب میں کہیں اس نام کا پتہ نہیں چلتا۔ مؤرخین اکثر لکھتے ہیں۔ ولم یکن شائعا بین العرب ھذا الاسم اس حالت کو تسلیم کرتے ہوئے دیکھا جائے تو اتفاقی طور سے ” نام مبارک “ کا ” عبدالمطلب “ کے ذہن میں آنا منشاء خداوندی معلوم ہوتا ہے کہ جب اس نام کا محل کامل دنیا کو اپنے وجود گرامی سے مشرف کرچکا تو پھر اسم بھی فطری طور سے نام رکھنے والے کے ذہن میں وارد ہوا۔ نام مبارک کا عام اور سادہ ترجمہ یہی کیا جاتا ہے کہ ” وہ ذات جس کی تعریف کی گئی “ اس ترجمہ کی صحت میں کوئی شبہ نہیں۔ لیکن اس جامعیت کبری، برزخ کامل اور مقصود آفرینش کے فضائل و کمالات کے سامنے ترجمہ ہیچ ہے خدا کے تمام نبی اس کے نزدیک موجب توصیف ہیں۔ دنیا کے تمام حکیم، فاتح عام انسانوں کی نظروں میں لائق مدح و ستائش ہیں اس لیے اس ترجمہ کی صحت کو پورے طور پر تسلیم کرتے ہوئے تفحص کو اور زیادہ وسعت دیں، صاحب مفردات ” محمد “ کے معنی لکھتے ہیں الذی اجمعت فیہ الخصال المحمودۃ یعنی مختصر لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ لفظ محمد ﷺ کے معنی مجموعہ خوبی کے ہیں۔ ع : اے کہ تو مجمویہ خوبی بچہ نامت خوانم۔ کار ساز قدرت کی وسعت لامحدود اس کے کرشمے ناقابل شمار اس کی خلقت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے وا ہے، غور کرنے سے ہم اپنی عقل کے مطابق اس فیصلہ پر پہنچتے ہیں کہ قدرت نے تخلیق انواع کے لیے ایک معیار مقرر کیا ہے، مخلوقات کی ہر نوع کا ایک درجہ کمال ہے، کہ جس کے آگے اس کا قدم نہیں بڑھتا ” حیوانات “ ” نباتات “ اور ” جمادات “ تک میں اس کے شواہد مل سکتے ہیں، صورتیں ایک ہیں شکلیں متحد ہیں، اوصاف مختلف ہیں، لیکن ان مختلف اوصاف کی ایک انتہا ہے جسے جنس اعلی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ کہ جس کے آگے کوئی درجہ نہیں، ہر نوع میں جنس اعلی کو جس پر اوصاف جامعیت کے ساتھ جاکر ختم ہوتے ہیں ہم مقصود فطرت اور نقطہ تخلیق کہہ سکتے ہیں۔ اس نقطہ تخلیق کی اصطلاح کو پوری تشریح کے ساتھ ذہن میں رکھنا چاہیے یہ بات تھوڑے سے غور اور مشورے سے بہ آسانی سمجھ میں آسکتی ہے، تفحص اور تفتیش کے بعد تمام انواع مخلوقات کے اوصاف کا ایک درجہ اعلی پاتے ہیں کہ جس کے آگے انسانی معلومات میں کوئی درجہ نہیں۔ دوسرے تمام انواع کی طرف اس مقصود فطرت کو انسانوں کی جماعت میں بھی تلاش کرنا ضروری ہے دوسری مخلوقات اور انسانوں میں ایک عام اور بین فرق یہ ہے کہ وہاں نوع کے سینکڑوں افراد ہیں اور یہاں اوصاف و خصوصیات کے اعتبار سے ہر ہر فرد اپنے مقام پر نوع مستقل ہے۔ آفرینش انسان کی مجمل یا مفصل تاریخ پر ایک اجمالی نظر بتلا سکتی ہے کہ آج بھی انسان کی شکل وشباہت اس کے اعضاء وجوارح اس کا ڈھانچہ جسمانی ساخت ٹھیک وہی ہے سب چیزیں وہی ہیں جو دنیا کے پہلے انسان کی تھیں، لیکن دماغی کیفیتوں کا حال ان سے جداگانہ ہے۔ ان میں برابر ارتقاء واختلاف جاری ہے۔ اب اگر انسان کی اس ارتقائے دماغی پر غور کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ماقبل وما بعد ادبوں، زبانوں کی تاریخ میں ارتقائے دماغی کی آخر ترین سر حد اگر کوئی معلوم ہوسکتی ہے تو وہ ذات قدسی صفات آقائے نامدار رسول خدا ﷺ کی ہے لغات قاموس نے لفظ ” حمد “ کے ایک معنی قضاء الحق کے بھی بتلائے ہیں پس لفظ ” محمد ﷺ “ کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ وہ جس کا حق پورا دیا گیا ہو یعنی قدرت کی جانب سے نوع انسان کو جس سرحد کمال تک پہنچانا مقصود تھا اور انسان کا اپنے خالق پر جو حق تخلیق مقرر تھا وہ محمد ﷺ پر پورا کردیا گیا، علم وعمل، خلق وخلق، دماغ وکیرکڑارتقائے ذہنی وارتقائے عملی یہی دو چیزیں انسان کا خلاصہ اور اس کی کائنات تخلیق کا لب لباب ہیں اول ثانی کے لیے بنیاد ہے عمل علمپر، کیرکٹر دماغ پر، خلق خلق پر قائم ہے، یہ ایک عجیب نکتہ ہے جس کی تشریح کسی دوسرے مقام پر آئے گی کہ جتنی ہی کسی انسان کی حالت مکمل ہوگی اسی قدر اس کی خلقی کیفیت راسخ ومستحکم ہوگی ایک کا کمال دوسرے کے کمال کی علامت اور ایک کا نقصان دوسرے کے نقصان کی نشانی ہے، تاریخی طور پر یہ امر ثابت ہے کہ کیرکٹر اور اخلاق کی جملہ شاخوں کی پختگی اور تکمیل کا جو نمونہ آنحضرت ﷺ کی ذات مبارک نے پیش کیا عالم انسانی اس کی نظیر سے عاجز ہے حتی کہ خود دشمنوں کے اقرار سے اس کو فرمادیا گیا۔ (آیت) ” انک لعلی خلق عظیم “۔ محاورات عرب سے حمد کے یہ بھی معنی معلوم ہوتے ہیں کہ کسی کام کو اپنی قدرت کے مطابق انجام دینا حماسیات میں نیزہ کے بھرپور پڑنے کے وقت، حمدت بلاء ہ ، (میں نے وار پورا کیا) کا محاورہ بہت مشہور ہے۔ اس معنی کو سامنے رکھتے ہوئے اور اوپر کے مضمون کو پیش نظر رکھ کر بےتامل کہا جاسکتا ہے کہ لفظ محمد ﷺ کے معنی مخلوق کامل کے بھی ہیں۔ منجملہ دیگر کمالات نبوت ومعجزات رسالت کے ایک معجزہ گرامی حضور اقدس ﷺ کا نام نامی بھی ہے۔ یہ زندہ جاوید معجزہ بعثت کے وقت سے تاہنوز اپنے فضائل کی شہادتیں پیش کررہا ہے۔ صاحب قاموس نے لکھا ہے کہ محمد الذی یحمد مرۃ بعد مرۃ جس کی تعریف کا سلسلہ کبھی ختم نہ ہو، تعریف کے بعد تعریف اور توصیف پر توصیف ہوتی رہے۔ زمانہ جوں جوں بڑھتا جاتا ہے اور انسان اپنی سعی و کوشش کے مطابق جس درجہ ترقی کرتا جاتا ہے محض اعتقادا نہیں بلکہ واقعۃ رسالتماب روحی فداہ ﷺ کے کمالات سے پردہ اٹھتا جاتا ہے۔ علماء وفضلاء یورپ کی اکثریت تاریخ اسلام کے ماتحت اپنا مطالعہ جس قدر گہرا کرتی جاتی ہے دنیا کی مختلف پریشانیوں اور بےقراریوں کو معدوم کرنے کی ضرورت جتنی ہی ان کے نزدیک بڑھتی جاتی ہے، بادل ناخواستہ انہیں اسی راہ کی طرف آنا پڑتا ہے اور زبان اعتراف کھولنا پڑتا ہے کہ بےشبہ پیغمبر عرب کے قانون دنیا کی ضرورتوں کے کفیل اور ان کے زندگی عالم انسان کے لیے ایک بہترین نمونہ ہے۔ اہل ایشیا کا رجحان طبعی جتنا روحانیت اور سادگی کی طرف بڑھ رہا ہے اسی قدر وہ پیغمبر عالم محمد رسول اللہ ﷺ سے قریب تر ہوتا جاتا ہے “۔ یہ دنیا کا صرف واحد معجزہ ہے کہ نام مبارک تیرہ سو برس پہلے سے اس آنے والی حالت کا پتہ دے رہا ہے مستقبل میں دنیا کی عمر جس قدر دراز ہوگی خواہ وہ اپنی موجودہ حالت میں ترقی کرے جس کی بظاہر امید نہیں اور خواہ اپنے پچھلے سبق دہرائے، دونوں حالتوں میں اسے کمالات نبوت کے اعتراف سے چارہ نہ ہوگا اس حیثیت سے نام مبارک محمد ﷺ کا ترجمہ سلسلہ اوصاف ومحامد ہوگا۔ جیسا اوپر کہا گیا ہے عام طور سے اشخاص کے نام اور اوصاف باہم کوئی نسبت نہیں رکھتے شاذ ونادراتفاقی حیثیت سے تناسب بھی مل جاتا ہے اور ایسا تو کبھی نہیں ہوا کہ کسی انسان کا وہ نام رکھا گیا ہو جو اس کی تمام زندگی کا آئینہ اور اس کے شعبہائے حیات کی تفصیل ہو۔ مگر نام نامی آقائے نامدار اس سے مستثنی ہے۔ اسی مطابقت سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس خاص نام کے رکھنے کے متعلق ضرور عبدالمطلب کو ایک غیبی تحریک ہوئی، اب غور کیا جائے کہ آنحضرت ﷺ کی زندگی کا خلاصہ دوست و دشمن کی یکساں تنقید حاضر و غائب کی رائے زنی کا محاصل اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ علم وعمل، ظاہر و باطن، خلق وخلق ہر حیثیت سے حضور ﷺ کی زندگی قابل تعریف تھی اور اسی خلاصہ حیات کا ترجمہ ہے محمد ﷺ ۔ اس سے بھی زیادہ عجیب امر یہ ہے کہ نام مبارک حضور کے نہ صرف نبی بلکہ خاتم النبیین ہونے کی دلیل بھی ہے۔ کمال و کمال اخلاق بھی انبیاء (علیہم السلام) کی مخصوص اور ممتاز صفات میں سے ہیں، دوسرے انبیاء (علیہم السلام) کا کمال علمی وعملی کسی ایک خاص صفت میں مخصوص تھا لیکن حضور کی جامعیت آپ ﷺ کی سوانح وتعلیمات سے معلوم کی جاسکتی ہے۔ لفظ ” محمد “ کے معنی مجموعہ خوبی اور ” مخلوق کامل “ کے جو ہم اوپر بیان کر آئے ہیں۔ اس کے آگے کوئی نقطہ ہی نہیں۔ اسی حالت پر کمال کلی کی انتہا اور معارف کا اختتام ہے جس کے بعد نہ کسی نبی کی حاجت نہ کسی نبی کا وجود ممکن ہے۔ مستشرقین یورپ میں سے جن لوگوں نے آنحضرت ﷺ کی سیرت پاک کا مطالعہ کیا ہے وہ باوجود ہزار سعی تنقیص اعتراف کمال پر مجبور ہوئے ہیں۔ سرولیم میور اور مارگولیٹ جیسے سخت لوگوں کو بھی کھلے اور چھپے لفظوں میں اس کا اقرار کرنا پڑا کہ پیغمبر اسلام کی تعلیم انتہائی سچائی اور حقیقی صداقت پر منبی نظر آتی ہے۔ عہد نبوت میں بھی اسی قسم کے واقعات پیش آچکے ہیں کہ بعض سخت ترین منکر ایک توجہ نظر اقدس کی تاب نہ لاسکے۔ عبداللہ بن سلام جو نامور علماء یہود میں سے تھے وہ جس طرح اسلام لائے معلوم ہے۔ بعثت کے حالات سیرت طیبہ تعلیم وتلقین اپنے اندر کچھ ایسی کشش رکھتی ہے کہ مخالف سے مخالف اور سخت سے سخت حریف اعتراف پر مجبور ہوجاتا ہے۔ اسی خاصیت اور بےاختیار انہ کشش کو نام مبارک میں بیان کیا گیا لفظ ” محمد “ عربی زبان میں تحمید سے مشتق ہے جو باب تفعیل کا مصدر ہے اس باب کے معنی کے خواص میں سے ہے کہ کسی کام کا وجود میں آنا اس طور پر مانا جائے کہ گویا کسی مخفی یا ظاہر طاقت نے اس کو وجود میں آنے کے لیے مجبور کیا جیسے صرف (پھیر دیا) ۔ یعنی کسی طاقت نے بےاختیار کرکے پھیر دیا اسی طرح ” محمد “ کے معنی ہیں وہ جس کی تعریف بےاختیار کی گئی ہو۔ اس معنی سے اسی قوت جاذبہ اور کشش اصلی کی طرف اشارہ ہے۔ عبداللہ ؓ بن سلام کے متعلق مروی ہے کہ وہ چہرہ اقدس کو دیکھتے ہی پکار اٹھے ” ھذا لیس بوجہ کذاب “ یورپ میں بڑی ہوشیار انہ تدبیر سے محمد رسول اللہ ﷺ کو بدترین پیرایوں میں دکھلانے کی کوشش کی گئی ہیں لیکن اب آج کل بعض جماعتوں اور خدا ترس بندوں کی طرف سے جو مساعی جمیلہ کی جارہی ہیں انہیں نے تجربہ کرادیا کہ جب کبھی اصل صورت ان کی سامنے پیش کی گئی ہے تو انہوں نے یہی کہا کہ یہی تو ہمارا کعبہ مقصود ہے۔ اس باب کی دوسری خاصیت یہ بھی ہے کہ وہ کسی کام کے اس طور پر ہونے کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے تمام پہلوؤں کا استقصاء کئے ہوئے ہے کوئی جزء اس سے چھوٹا ہوا نہیں استعمال میں آتا ہے قتلہ تقتیلا یعنی خوب خوب قتل کیا اس خاصیت کا لحاظ رکھتے ہوئے نام مبارک کے یہ معنی معلوم ہوتے ہیں کہ ” محمد “ یعنی جس کا جزء جزء قابل تعریف ہے ” اصلاح نفس “ تدبیر منزل اور تدبیر مدن کی وہ کونسی شاخ ہے جس کا عملی نمونہ ذات قدسی صفات محمد رسول اللہ ﷺ نے پیش نہیں کردیا۔ انبیاء (علیہم السلام) کا تمامتر سلسلہ عالم میں ایک خاص ترتیب ونظام کے ساتھ آیا اور ہر ایک اپنے اندر کوئی نہ کوئی کمال اخلاقی یا عرفانی یا انتظامی لایا یہ بابرکت سلسلہ جب اپنی حدونہایت کو پہنچا تو ضرورت ہوئی کہ عالم انسان کے سامنے ایک ایسا نمونہ کامل پیش کیا جائے۔ جو ان تمام صفات کا مجمع اور فضائل کا آئینہ ہو۔ جس کی زندگی کو سامنے رکھنے سے موسویانہ مستی، مسیحانہ اخلاق، ابراہیمی محبت بیک وقت نظر کے سامنے آجائے، اور پھر ان تمام اوصاف میں وہ اپنے متقدمین سے بالا ترہو، وہ ہستی کا جامع اور برزخ کامل ذات پاک حضرت محمد رسول اللہ ﷺ ہے اسی لیے حضرت مسیح (علیہ السلام) نے اپنی بشارت میں لفظ ” احمد “ فرمایا۔ یعنی وہ آئے گا جو اپنے تمام پہلے آنے والوں کا سردار اور سب پر فائق ہوگا۔ دنیا کے تمام بڑے بڑے مذاہب نے اپنی کامل نشوونما جب ہی پائی ہے جب وہ معرفت وروحانیت کی آغوش سے نکل کر سلطنت اور حکومت کی گود میں چلے گئے ہیں۔ مسیحی مذہب کی ترقی رومی بادشاہوں کی رہین احسان ہے۔ بودھ نے بہت کچھ تبلیغ کی لیکن اس کا عالمگیرمذہب بھی اسی وقت اپنی تکمیل کرسکا جب وہ اشوک خاندان کی سرپرستی میں آگیا۔ لیکن اسلام میں بالکل علیحدہ ہے وہ جن جن ملکوں میں گیا اور جن جماعتوں میں پھیلا اخلاق وروحانیت سے گیا غریب تلوار اسلام میں روحانیت اور مذہب کے داخلہ کے بعد گئی ہے۔ افریقہ اور ہندوستان کی نظیریں اس بارے میں بہت صاف ہیں۔ اس خاص نعمت تبلیغ کو بھی نام مبارک میں ظاہر کردیا گیا ہے۔ فقطع دابر القوم الذین ظلموا والحمد للہ رب العالمین بظاہر اسباب مفاسد کے مٹنے کی کوئی صورت نہیں ہوتی لیکن فطرت کی تدبیریں اندر اندر جاری رہتی ہیں اور ایک وقت معین پر ظاہر ہوجاتی ہیں، فطرت کی رفتار ہوا کی طرح تیز اور سیلاب کی طرح نرم ہوتی ہے۔ خوش تدبیری اور حسن اسلوب کے موقع پر بھی حمد کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے پس لفظ ” محمد “ کے ایک بھی معنی قرار دیئے جاسکتے ہیں کہ وہ جس کے ساتھ خوش تدبیری نے ترقی کی آپ ﷺ کی تعلیم کا انتشار آپ ﷺ کا لایا ہوا دین خدا کی خاص مرضی اور خاص تدبیر سے عالم میں پھیل گیا جس کی سرعت اور بغیر جدوجہدو رفتار ترقی سے اس وقت بھی دنیا متحیر ہے۔ الغرض اسلام کی تمام معنوی خوبیوں کے ساتھ ساتھ پیغمبر اسلام کا نام مبارک بھی اپنے معانی کے لحاظ سے مختلف خوبیوں کا مرقع بہترے فضائل کا خلاصہ ہے ایک طرف وہ اپنے مسمی کے کام اور کام کے انجام کی پیشن گوئی ہے دوسری طرف اس کے کاموں کی تاریخ اور اس کی تعلیم کا لب لباب ہے۔ پاک ہے وہ اللہ جس نے اپنے نبی کا ایسا پاک نام رکھا اور پاکیزہ ہے وہ نبی جسے اس کے معبود نے ایسی فضیلتوں سے آراستہ کیا۔ والحمد للہ رب العالمین ‘
Top