Ahkam-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 97
فِیْهِ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰهِیْمَ١ۚ۬ وَ مَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا١ؕ وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًا١ؕ وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ
فِيْهِ : اس میں اٰيٰتٌ : نشانیاں بَيِّنٰتٌ : کھلی مَّقَامُ : مقام اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم وَمَنْ : اور جو دَخَلَهٗ : داخل ہوا اس میں كَانَ : ہوگیا اٰمِنًا : امن میں وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے عَلَي : پر النَّاسِ : لوگ حِجُّ الْبَيْتِ : خانہ کعبہ کا حج کرنا مَنِ : جو اسْتَطَاعَ : قدرت رکھتا ہو اِلَيْهِ : اس کی طرف سَبِيْلًا : راہ وَمَنْ : اور جو۔ جس كَفَرَ : کفر کیا فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ غَنِىٌّ : بےنیاز عَنِ : سے الْعٰلَمِيْنَ : جہان والے
اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں جن میں سے ایک ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے۔ جو شخص اس (مبارک) گھر میں داخل ہوا اس نے امن پالیا۔ اور لوگوں پر خدا کا حق (یعنی فرض) ہے کہ جو اس گھر تک جانے کا مقدور رکھے وہ اس کا حج کرے اور جو اس حکم کی تعمیل نہ کرے گا تو خدا بھی اہل عالم سے بےنیاز ہے
مقام ابراہیم بھی اللہ کی نشانی ہے۔ قول باری ہے (فیہ ایات بینات مقام ابراھیم ، اس میں کھلی نشانیاں ہیں، ابراہیم کا مقام عبادت ہے) ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ مقام ابراہیم نشانی یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دونوں قدم اللہ کی قدرت سے ایک تھوس پتھر میں دھنس کر اپنا نقش چھوڑگئے تاکہ یہ نقش یانشان اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نبوت کی صداقت وصحت کی دلالت اور علامت بن جائے۔ بیت اللہ کی امتیازی نشانیاں بیت اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی وہ ہے جس کا ہم نے پہلے ذکرکر دیا ہے کہ جنگلی جانوروں کو یہاں امن طتا ہے اور وہ چیرپھاڑ کرنے والے درندوں کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں۔ نیز زمانہ جاہلیت میں خوفزوہ انسان کو یہیں امن نصیب ہوتا تھا اور یہ امن کا گہوارتھاجب کہ حرم سے باہر کا ماحول یہ تھا کہ لوگوں کو اچک لیاجاتا تھا اور ان کی جان ومال کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں تھا۔ ایک نشانی یہ ہے کہ تینوں جمرے ابھی تک پہلے کی طرح باقی ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے سے لے کر آج تک لامحدود افراد نہیں کنکریاں مارتے چلے آرہے ہیں اور کنکریاں بھی دوسری جگہوں سے لائی جاتی ہیں ایک اور نشانی یہ ہے کہ پرندے بیت اللہ کے اوپر پرواز نہیں کرتے بلکہ اس کے اردگرد محوپر وازرہتے ہیں اور جو پرندے بیمارہوتے ہیں انہیں یہاں آکرشفاحاصل ہوجاتی ہے۔ نیز ایک نشانی یہ بھی ہے کہ جو شخص بیت اللہ کی بےحرمتی کرتا اسے فوری طورپرسزامل جاتی۔ شروع سے ہی یہی طریقہ چلاآرہا ہے۔ اصحاب فیل کا واقعہ بھی ایک نشانی ہے کہ جب انہوں نے بیت اللہ کو ڈھانے کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈبھیج کر انہیں تباہ و برباد کردیا۔ بیت اللہ کی یہ چند نشانیاں ہیں جو ہم نے بیان کیں جبکہ بےشمارنشانیاں ہمارے بیان کے دائرے میں آنے سے رہ گئیں۔ ان تمام نشانیوں میں ایک بات کی دلیل موجود ہے اور وہ یہ کہ بیت اللہ سے مراد ساراحرم ہے اس لیے کہ یہ تمام نشانیاں حرم میں پھیلی ہوئی ہیں اور خودمقام ابراہیم بھی بیت اللہ سے باہر اورحرم کے اند رہے۔ واللہ اعلم۔ کوئی مجرم جرم کرنے کے بعد حرم میں پناہ لے لے یاحرم کے حدود میں ارتکاب جرم کرے قول باری ہے (ومن دحلہ کان امنا، اور جو شخص اس میں داخل ہوگیا دہ مامون ہوگیا) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری (ان اول بیت وضع للناس) کے بعد جن نشانیوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ پورے حرم میں موجود ہیں اور اس کے بعد یہ فرمایا گیا (ومن دخلہ کان امنا) تو اس سے یہ واجب ہوگیا کہ یہاں صرف بیت اللہ مرادنہ ہوبل کہ پوراحرم مراد لیاجائے۔ نیز قول باری (ومن دخلہ کان امنا) اس بات کا مقتضی ہے کہ وہ مامون ہوجائے خواہ اس نے داخل ہونے سے پہلے جرم کیا ہویا داخل ہونے کے بعد تاہم فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص حدود حرم کے اندر کسی کی جان لے لے یا اس سے کم یعنی کسی کے اعضاء کو نقصان پہنچانے کا جرم کرے تو وہ حرم کے اندر بھی اس جرم میں ماخوذہوگا۔ یہاں ایک بات واضح ہے وہ یہ کہ قول باری (وامن دخلہ کان امنا) خبر کی صورت میں ام رہے گویا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ حرم میں داخل ہونے والا شخص اللہ کے حکم اور اس کے امر میں مامون ہے۔ جیسا کہ آپ کہتے ہیں کہ فلاں چیزمباح ہے فلاں چیز منوع ہے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اللہ کے حکم اور بندوں کو دیئے گئے اوامر میں اس چیز کی حیثیت یہی ہے۔ یہ مراد نہیں ہوتی کہ کسی مباح کرنے والے نے اسے مباح سمجھ لیا ہے۔ یانما نعت کا اعتقادرکھنے والے شخص نے اسے ممنوع قرار دیا ہے۔ اس کی حیثیت یہ ہے کہ گویا اللہ تعالیٰ نے مباح کے متعلق یہ فرمادیا کہ ، یہ فعل کرلو، اس کانہ کوئی جرمانہ تم پر آئے گانہ ہی ثواب ملے گا۔ اور ممنوع کے متعلق یہ فرمادیا کہ یہ فعل نہ کرو اگر کروگے تو سزا کے مستحق ٹھہروگے۔ اسی طرح قول باری (ومن دخلہ کان امنا) میں ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم داخل ہونے والے کا مان دیں اور اس کا خون نہ بہایں، آپ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (ولاتقاتلوھم عندالمسجدالحرام حتی یقاتلوکم فیہ فان قاتلوکم فاقتلوھم، ان سے مسجدحرام کے پاس اس وقت تک قتال نہ کروجب تک وہ تم سے جنگ کرنے میں پہل نہ کریں اگر وہ تم سے وہاں یہ حکم دیا کہ ہم حرم میں مشرکین کو اس وقت قتل کریں جب وہ ہمارے ساتھ پنچہ آزمائی پر اترآئیں۔ اب اگر قول باری (ومن دخلہ کان امنا) جملہ خبریہ ہوتا تو ہرگز اس کا جواز نہ ہوتا کہ جس بات کی خبر دی گئی ہے وہ سرے سے پائی نہ جائے۔ اس لیئے یہ بات ثابت ہوگئی کہ درج بالا قرآنی فقرہ خبر کی صورت میں ام رہے جس کے ذریعے ہمیں یہ حکم دیاگیا ہے کہ ہم اسے امان دیں اور اس کا خون بہانے سے ہمیں روک قتل سے امان دیں جس کا وہ ارتکاب قتل کی بناپرسزاوارہوچکا ہے۔ اگ اس حکم کو پہلی صورت پر محمول کیا جائے یعنی بلاوجہ بلکہ ازراہ ظلم قتل ہوجانے سے امان دے دی جائے تو پھر اس حکم کے ساتھ حرم کی تخصیص بےفائدہ ہوگی کیونکہ اس معاملے میں حرم اور غیرحرم دونوں کی یکساں حیثیت ہے، اس لیئے کہ یہ ہمارا فرض ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ہم ہر شخص کو ظلم وتعدی سے بچائیں اور حفاظت مہیاکریں خواہ یہ ظلم ہماری طرف سے ہورہاہویا کسی اور کی طرف سے ۔ غرض اس پوری بحث سے جو چیز ہمارے علم میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ امان سے مراد ایسے قتل سے امان ہے جس کا حرم میں داخل ہونے والا ارتکاب قتل کے جرم کی بناپرسزاوارہوچکا ہے۔ آیت کا ظاہراس کا متقاضی ہے کہ ہم اسے امان مہیا کریں خواہ اس نے حرم کے اندریہ جرم کیا ہو یا حرم سے باہر۔ تاہم اہل علم کے اتفاق کی بناپریہ دلالت قائم ہوگئی ہے کہ جب کوئی شخص حرم کے اندرقتل کا ارتکاب کرے گا تو اسے اس جرم کی پاداش میں قتل کردیاجائے گا۔ قول باری ہے (ولاتقاتلوھم عندالمسجدالحرام حتی یقاتلوکم فیہ فان قاتلوکم فاقتلوھم) اللہ تعالیٰ نے حرم کے اندرجرم کرنے والے اور حرم سے باہرجرم کرکے حرم میں پناہ لینے والے کے درمیان فرق رکھا ہے۔ حدود حرم سے باہرجرم کرنے والا اگر حرم میں پناہ لے لے تو کیا سلوک کیا جائے اس شخص کے متعلق فقہاء کا اختلاف ہے جو حدود حرم سے باہرجرم کرکے حرم میں پناہ لے لے۔ امام ابوحنیفہ امام ابویوسف امام محمد زفر اورحسن بن زیادہ کا قول ہے کہ جب کوئی شخص کسی کو قتل کرنے کے بعد حدودحرم میں داخل ہوجائے تو اس وقت تک قصاص نہیں لیاجائے گا جب تک وہ حدددحرم میں رہے گا۔ لیکن نہ اس کے ساتھ خرید د فروخت کی جائے گی اور نہ ہی کھانے پینے کے لیئے اسے کچھ دیا جائے گا حتی کہ وہ مجبورہو کر حدود حرم سے باہرنکل آئے پھر اس سے قصاص لیاجائے گا۔ اگر وہ حرم کے اندرقتل کا ارتکاب کرے گا تو اسے قتل کردیاجائے۔ اگر اس نے حرم سے باہر قتل نفس سے کم تر جرم کیا ہو یعنی کسی کے اعضاء وجوارح کو نقصان پہنچایاہو اور پھر حرم میں داخل ہوگیا تو اس سے حرم کے اندرہی قصاص لے لیا جائے گا۔ امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے کہ اس سے ہر صورت میں حرم کے اندرہی قصاص لیا جائے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس ؓ حضرت ابن عمر ؓ ، عبید اللہ بن عمیر، سعید بن جبیر، طاؤس اور شعبی سے مروی ہے کہ اگر کوئی شخص قتل کا جرم کرکے حرم میں پنا ہ لے لے تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ ایسے شخص کے ساتھ نشست وبرخاست کی جائے گی نہ اسے ٹھکانہ مہیاکیاجائے گا نہ اس کے ہاتھ کوئی چیزوفروخت کی جائے گی حتی کہ دہ حدددحرم سے نکل جائے پھر اسے قتل کر دیاجائے گا۔ اگر اس نے حرم کے اندر ارتکاب قتل کیا تو اس پر د ہیں حدجاری کردی جائے گی۔ قتادہ نے حسن بصری سے روایت کی ہے کہ جو شخص حرم کے اندریاحرم سے باہر کسی کے خون سے اپناہاتھ آلودہ کرلے تو اس پر حدقائم کرنے سے حرم آڑے نہیں آئے گا۔ قتادہ کہتے ہیں کہ حسن کہا کرتے تھے کہ (ومن دخلہ کان امنا) کا تعلق دور جاہلیت سے تھا کہ اس زمانے میں اگر کوئی شخص خواہ کتنا بھیانک جرم کیوں نہ کرلیتا اور پھر حرم میں پناہ گزیں ہوجاتا تو جب تک وہ حرم میں رہتا اس سے کوئی سے باہر کسی حدکاسزاوار ہوجائے پھر بھاگ کر حرم میں پناہگزیں ہوجائے تو اس پر حرم کے اندرہی حد جاری کردیں جائے گی۔ ہشام نے حسن اور عطاء سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اگر کوئی شخص حدودحرم سے باہر کسی حدکاسزا واہوجائے۔ پھر حرم میں پناہگزیں ہوجائے تو اسے حرم سے باہر نکال دیاجائے گا اور باہرلے جاکر اس پر حدجاری کردی جائے گی۔ مجاہد سے بھی یہی قول منقول ہے۔ اس قول میں یہ احتمال ہے کہ ان کی مراد اس سے یہ ہو کہ اسے حرم سے باہرچلے جانے پر اس طرح مجبورکردیاجائے گا کہ حرم کے اندراس کی مجالست تزک کردی جائے گی، اسے ٹھکانہ نہیں دیاجائے گا اس کے ہاتھ کوئی چیز فردخت نہیں کی جائے گی غرض اس کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے گا۔ عطاء سے یہ قول اسی تفسیر کے ساتھ منقول ہے۔ اس لیے یہ جائز ہے کہ اسے حرم سے نکالنے کے سلسلے میں عطاء اور حسن سے جو روایت منقول ہے اسے اسی معنی پر محمول کیا جائے ہم نے بتادیا ہے کہ قول باری (ولاتقاتلوھم عندالمسجد الرحرام حتی یقاتلوکم فیہ) کی دلالت اسی مفہوم پر ہورہی ہے جس پر قول باری (ومن دخلہ کان امنا) کی ہے۔ اس مقام پر ہم نے اس بات پر دلالت کی وجہ بھی بیان کردی ہے کہ حرم میں دخول اس شخص کو قتل کرنے سے مانع ہے جو اس میں آکرپناہ لے لے بشرطیکہ اس نے جرم کا ارتکاب حرم میں نہ کیا ہو۔ اس بارے میں ہم نے سلف کے جو اقوال نقل کیئے ہیں وہ اس پر دلالت کرتے ہیں کہ سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جو شخص حدودحرم سے باہرقتل کا ارتکاب کرکے حرم میں پناہگزیں ہوجائے اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔ اس لیئے کہ حسن بصری سے اس سلسلے میں دومتضادروایتیں ہیں۔ ایک روایت قتادہ کے واسطے سے ہے کہ اسے قتل کردیاجائے گا۔ دوسری روایت ہشام کے واسطے سے ہے کہ اسے قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ اسے حرم سے نکال باہر کیا جائے گا اور پھر قتل کیا جائے گا، ہم نے یہبیان کردیا ہے کہ حسن کے اس قول میں یہ احتمال ہے کہ ان کی مراد شاید یہ ہو کہ اس کے ساتھ لین دین کھاناپینا اور اٹھنا بیٹھنا نزک کرکے اسے باہر نکلنے پر مجبورکردیاجائے گا۔ اس طرح دومتضادردایتوں کی بناپر اس اس مسئلے میں گویا حسن بصری کا قول برقرارنہ رہ سکا۔ اس لیے صحابہ اور تابعین کا یہ قول باتی رہ گیا کہ حرم کے حدود سے باہرقتل کے جرم کا قصاص حرم کے اندر نہیں لیاجائے گا۔ سلف اور ان کے بعد آنے والے فقہاء کے درمیان اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص حرم کے اندر ارتکاب جرم کرے گا تو وہ اس جرم میں ماخوذہوکرسزائے موت یا اور کوئی سزاپالے گا۔ اگریہ کہاجائے کہ قول باری (کتب علیکم القصاص فی القتلٰی، قتل ہوجانے والے کے لیے قصاص لینا تم پر فرض کردیا گیا ہے) اور قول باری (النفس بالنفس ، جان کے بدلے جان) نیز قول باری (ومن قتل مظلمومافقد جعلنا لولیہ سلطاتا۔ جو شخص ازراہ ظلم قتل کردیاجائے اس کے ولی کو ہم نے قصاص کے مطالبے کا حق عطاکردیا ہے۔ ) کا عموم حرم میں قاتل سے قصاص لینا واجب کردیتا ہے۔ خواہ اس نے قتل کا ارتکاب حرم کے اندر کیا ہو یا حرم سے باہر۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ ہم نے پہلے ہی اس بات کی دلیل پیش کردی ہے کہ قول باری (ومن دخلہ کان امنا) کا مقتضیٰ یہ ہے کہ حدود حرم سے باہرقتل کے مرتکب کو اس کے جرم کی سزا یعنی قتل سے حرم میں امن حاصل ہوجاتا ہے اور قول باری (کتب علیکم القصاص) نیز دیگر دوسری آیات جو قصاص کو واجب کردیتی ہیں ترتیب میں ان کا حکم حرم میں دخول کی بناپرحاصل ہوجانے والے امن کے حکم کے بعد آتا ہے اس بناپرقصاص کی آیات کے عمومی حکم سے اس حکم کی تخصیص کردی جائے گی۔ نیز قول باری (کتب علیکم القصاص) کا حکم ایجاب قصاص کے سلسلے میں واردہوا ہے۔ حرم کے احکامات کے ضمن میں نازل نہیں ہوا اور (ومن دخلہ کان امنا) حرم کے حکم اور حرم میں پناہ لینے والے کو امن کے حصول کے سلسلے میں واردہوا ہے۔ اس لیے ہر حکم اپنے متعلقہ باب میں مؤثرہوگا اور جس سلسلے میں ی ہ واردہوا ہے اس پر اسی سلسلے میں عمل جائے گا اور اس طرح قصاص کی آیتیں حرم کے حکم میں رکاوٹ نہیں بنیں گی۔ ایک اور پہلو سے غور کیا جائے تو عملوم ہوگا کہ قصاص کا ایجاب حرم میں داخل ہوجانے کی بناپر امان ملنے کے وجوب پر لامحالہ مقدم ہے۔ اس لیے کہ اگر دخول سے پہلے اس پر قصاص واجب نہ ہوتاتو یہ کہنا محال ہوتا کہ اسے اس جرم کی سزا سے امن مل گیا ہے۔ جس کا ارتکاب نہیں کیا اور نہ ہی وہ اس سزاکا حقداربنا۔ اس استدلال سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ دخول حرم کی بناپرا سے ملنے والے امن کا حکم ایجاب قصاص کے حکم سے متاخ رہے۔ اگر روایات کی جہت سے دیکھا جائے تو حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت ابوسریح کعبی کی حدیث ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (ان اللہ حرم مکۃ ولم تحل لاحدقبل ولالاحدبعدی وانما احلت لی ساعۃ من نھار، اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کی تحریم کردی ہے یعنی اسے حرمت والی جگہ بنادیا ہے۔ اب اس کی حرمت نہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے اٹھائی گئی اور نہ مجھ سے بعد کسی کے لیے اٹھائی جائے گی۔ اور میرے لیے بھی دن کی ایک گھڑی بھرکے لیئے اس کی حرمت اٹھادی گئی تھی۔ ) اس حدیث کا ظاہر اس بات کا متقاضی ہے کہ حرم میں پناہ لینے والے قاتل اور حرم کے اندرقتل کا جرم کرنے والے دونوں کے قتل کی ممانعت ہے۔ تاہم حرم کے اندرجرم کرنے والے کے متعلق امت کا اتفاق ہے کہ اسے پکڑکرحرم کے اندرہی سزادے دی جائے گی۔ اس لیے اب حدیث کا حکم صرف اس شخص کے حق میں باقی رہ گیا جو حدددحرم سے باہرجرم کا ارتکاب کرنے کے بعد حرم میں آکرپنا ہگزیں ہوجائے۔ حمادین سلمہ نے حبیب المعلم سے روایت کی ہے انہوں نے عمروبن شعیب سے انہوں نے واپنے والد سے انہوں نے اپنے والد عبداللہ بن عمروبن العاص سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے کہ آپ نے فرمایا (ان اعتی الناس علی اللہ عزوجل رجل قتل غیر قاقلہ اوقتل فا الحرم اوقتل بذھل الجاھلیۃ، اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ سرکش اور معتوب انسان وہ ہے۔ جو اپنے قاتل کے سوا کسی اور کو قتل کردے۔ یاحرم کے حدود میں قتل کا ارتکاب کرے یا زمانہ جاہلیت کے کسی کینے اور دشمنی کی بناپر کسی کی جان لے لے) اب اس روایت کا عموم بھی ہراس شخص کے قتل کی ممانعت کرتا ہے جو حرم میں موجود ہو اس لیے اس عمومی حکم سے دلالت کے بغیر کوئی تخصیص کی جائے گی۔ اتلاف نفس سے کم ترجرم پر وہیں سزادی جائے گی اگرجرم اتلاف نفس سے کم درجے کا ہو یعنی کسی عضویا اعضاء کو نقصان پہنچایا گیا ہو تو حرم کے اندررہتے ہوئے بھی مجرم کو پکڑکرسزادے دی جائے گی۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر کسی شخص کے ذمے قرض ہو اور وہ بھاگ کر حرم میں پناہ لے لے توا سے پکڑکرقید میں ڈال دیاجائے گا۔ اس لیے کہ حضور ﷺ کا فرمان ہے (لی الواجد یحل عرضہ وعقوبتہ، جو شخص قرض ادا کرسکتا ہو اورپھروہ ادائیگی میں ٹال مٹول کرے تو اس کی یہ حرکت اس کی آبروادراس کی سزاکوحلال کردے گی) قرض کے سلسلے میں کسی کو قید ر دینا سزا کی صورت ہے اور یہ سزا اسے اتلاف نفس سے کم ترجرم پر دی جارہی ہے۔ اس لیے ہر وہ حق اتلاف نفس سے کم ترجرم کی بنا پر واجب ہورہا ہو اس کی بناپرمجرم کو پکڑلیا جائے گا اگر دہ بھاگ کر حرم میں پناہ گزیں کیوں نہ ہوگیا ہو۔ اس مسئلے کو قرض کے سلسلے میں جس کرنے کے مسئلے پر قیاس کیا گیا ہے۔ نیز فقہاء کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اتلاف نفس سے کم ترجرم کو پکڑاجائے گا۔ اسی طرح اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اتلاف نفس اور اس سے کم ترجم کا مجرم اگر حرم میں ارتکاب جرم کرے تو دہ ماخوذ ہوگا، نیز اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے کہ حددد حرم سے باہر جرم کرنے کے بعد حرم میں آکرپناہ لینے والے مجرم کو جب حدد دحرم میں سزائے موت دینا واجب نہیں ہوگاتو کم ازکم یہ ضرور کیا جائے گا۔ کہ اس کے ساتھ لین دین خرید وفرخت بندکردی جائے گی نیز اسے کوئی ٹھکانہ بھی مہیا نہیں کیا جائے گا۔ حتی کہ وہ بےبس ہو کر حدودحرم سے باہرنکل جائے۔ جب ہمارے نزدیک حددحرم میں اس کا قتل نہ کیا جانا ثابت ہوگیا تو اس کے متعلق دوسرے حکم پر عمل ورآمدنا گزیرہوگیا یعنی لین دین خرید و فروخت اور ٹھکانہ وغیرہ مہیانہ کرنے کا حکم ۔ درج بالاتمام صورتیں وہ ہیں جن میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اختلاف صرف اس صورت میں ہے جبکہ کوئی قاتل حدودحرم سے باہرجرم کرنے کے بعد حرم میں آکرپنا ہ لے لے۔ ہم نے اس کے متعلق اپنے دلائل بیان کردیئے ہیں۔ اس لیے اس اختلافی صورت کے علاوہ بقیہ تمام صورتوں کو اس معنی پر محمول کیا جائے گا جس پر اتفاق ہوچکا ہے۔ تین طرح کے لوگ مکہ میں نہیں رہ سکتے ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی انہیں محمد بن عبدوس بن کامل نے انہیں یعقوب بن حمید نے انہیں عبداللہ بن الولید نے سفیان ثوری سے، انہوں نے محمد بن المنکدر سے انہوں نے حضرت جابر ؓ سے انہوں نے فرمایا کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (لایسکن مکۃ سافک دمولااکل ریاولامشاء بنمیمۃ، مکہ میں وہ شخص نہیں رہ سکتا جس کا ہاتھ کسی کے خون سے رنگا ہواہو اورنہ دہ شخص جو سود خورہو اورنہ وہ جو لگائی بجھائی کرنے والاہو) یہ روایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ جب قاتل حرم میں داخل ہوجائے تو اسے نہ کوئی ٹھکانہ دیاجائے نہ اس کے ساتھ مجالست کی جائے، لین دین اور خرید و فروخت کی جائے اور نہ ہی اسے کھلایاپلایاجائے۔ حتی کہ وہ مجبورہوکر حرم سے باہرچلاجائے اس لیئے کہ آپ نے فرمادیا کہ، کسی کے خون سے ہاتھ رنگنے والا مکہ میں رہ نہیں سکتا۔ ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی انہیں احمدبن الحسن بن عبدالجبارنے انہیں داؤد بن عمرونے انہیں محمد بن مسلم نے ابراہیم بن میسرہ سے انہوں نے طاؤس سے انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ آپ نے فرمایا ۔ جب قاتل حرم میں داخل ہوجائے تو اس کے ساتھ نہ تومجالست کی جائے، نہ خرید و فروخت اور نہ ہی اسے کوئی ٹھکانہ دیاجائے۔ بلکہ مقتول کے خون کا طالب اس کے پیچھے لگا رہے اور اس سے یہ کہتا رہے کہ فلاں شخص کے خون کے معاملے میں اللہ سے ڈرو اورحرم سے نکل جاؤ۔ قول باری (ومن دخلہ کان امنا) کی نظیر یہ قول باری ہے۔ (اولم یروا اناجعلنا حرماامنا ویتخطف الناس من حولھم، کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے حرم کو امن کی جگہ بنادیا جبکہ (احرم سے باہر) ان لوگوں کے چاروں طرف یہ صورت حال تھی کہ لوگوں کو اچک لیاجاتا تھا) نیزیہ قول بار (اولم نمکن لھم حرماامنا، کیا ہم نے انہیں امن وامان دالے حرم میں جگہ نہیں دی) اور یہ قول باری بھی (واذجعلناالبیت متابۃ للناس وامنا، اور جبکہ ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے لیے ٹھکانہ اور امن والی جگہ بنادیا۔ یہ تمام آیتیں اس بات پر دلالت کرنے میں تقریباہم معنی ہیں کہ حرم میں آکر پناہ لے لینے واے کو باوجود یکہ دہ حرم میں آنے سے پہلے سزائے موت کا مستحق ہوچکا تھا قتل کرنے کی ممانعت ہے پھر ان آیات میں کبھی لفظ بیت کے ذکر سے اور کبھی لفظ حرم کے ذکر سے بات بیان کی گئی ہے تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ حرم کا سارا علاقہ امن کے اعتبار سے اور پناہ لینے والے کو قتل نہ کرنے کے لحاظ سے بیت اللہ کے حکم میں ہے۔ پھر جب کسی کا اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ جو شخص بیت اللہ میں پناہ گزیں ہوجائے اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کو صفت امن کے ساتھ موصوف کیا ہے تو ضروری ہوگیا کہ حرم اور حرم میں پناہ لینے والے کا بھی یہی حکم ہو۔ اگر یہ کہاجائے کہ جو شخص بیت اللہ کے اندرقتل کا ارتکاب کرے گا اسے بیت اللہ میں سزا کے طورپرقتل نہیں کیا جائے گا لیکن جو شخص حرم میں اس جرم کا ارتکاب کرے گا اسے سزائے موت دے دی جائے گی اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ حرم بیت اللہ کی طرح نہیں ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان باتوں میں حرم کو بیت اللہ کے حکم میں رکھا جن سے اس کی حرمت کی عظمت میں اضافہ ہوتا ہی اور اس کی تعبیر کبھی لفظ بیت کے ذکر سے اور کبھی لفظ کے ذکر سے کی تو یہ اس بات کا مقتضی ہوگیا کہ بیت اللہ اور حرم دونوں کو یکساں درجے پر رکھا جائے سوائے ان باتوں کے جن کی تخصیص کے لیے دلائل موجودہوں۔ اور چونکہ بیت اللہ کے اندر کسی کو قتل کرنے کی ممانعت کی دلیل قائم ہوچکی ہے اس بناپرہم نے اس کی تخصیص کردی ہے۔ اور حرم کا حکم اس طورپرباقی رہ گیا جو ظاہر قرآن کا مقتضی تھا یعنی بیت اللہ اور حرم کے درمیان یکسانیت کا۔ واللہ اعلم ! حج کی فرضیت قول باری ہے (وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا، لوگوں پر یہ اللہ کا حق ہے کہ جو شخص وہاں تک پہنچنے کی استطاعترکھتا ہو وہ اللہ کے گھرکا حج کرے) ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ حج کی فرضیت کے ایجاب کے لیے یہ آیت بالکل واضح ہے۔ بشرطیکہ وہاں تک پہنچنے کی استطاعت ہو۔ یہ شرط جس بات کا تقاضا کرتی ہے وہ یہ ہے کہ جس شخص کے لیئے وہاں تک پہنچ ناممکن ہوا سے گویا استطاعت حاصل ہوگئی۔ اگر استطاعت کا مفہوم وہاں تک پہنچنے کا امکان لیا جائے جس طرح کہ قول باری ہے (فھل الی خروج من سبیل، کیا یہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے) یعنی کوئی ذریعہ ہے۔ نیز قول باری ہے (وھل الی مردمن سبیل، کیا واپس جانے کا کوئی راستہ ہے) یعنی کوئی ذریعہ ہے۔ حضور ﷺ نے وہاں تک پہنچنے کی استطاعت کی شرط زادرہ اور راحلہ یعنی توشہ (سفرخرچ) اور سواری کی موجود گی رکھی ہے۔ استطاعت کے باوجودحج نہ کرنا بہت بڑاجرم ہے ابواسحاق ن الحارث سے انہوں نے حضرت علی ؓ اور انہوں نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا (من ملک زاد اوراحلۃ یبلغہ بیت اللہ ولم یحج فلا علیہ ان یموت یھودیا اونصرانیا، جو شخص زادراہ اور سواری کا مالک ہو جس کے ذریعے وہ بیت اللہ تک پہنچ سکتا ہو اورپھرحج نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی رواہ نہیں ہوگی کہ وہ یہودی یانصرافی بن کرمرے ، یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے (وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا۔ ابراہیم بن یزید الخوزی نے محمد بن عباد سے انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ سے آیت درج بالاکامطلب پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا (السبیل الی الحج الزادوالراحلۃ، حج تک پہنچنے کا ذریعہ زادراہ اور سواری ہے) یونس نے حسن بصری سے روایت کی ہے۔ کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ایک شخص نے حضور ﷺ سے عرض کیا۔ اللہ کے رسول ! سبیل سے کیا مراد ہے ؟ آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا۔ زادراہ اور سواری۔ عطاء خراسانی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ سبیل سے مراد زادراہ اور سواری ہے۔ نیز اس کے اور بیت اللہ کے درمیان کوئی شخص رکاوٹ نہ بناہو۔ سعیدبن جبیرکاقول ہے کہ سبیل سے مراد زادراہ اور سواری ہے۔ حج نہ کرنے کے شرعی عذرکون کون سے ہیں ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ زادراہ اور سواری کا وجود اس سبیل کا مدلول ہے جس کا ذکراللہ تعالیٰ نے درج بالا آیت میں کیا ہے۔ نیز یہ حج کی شرائط میں سے ہے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ استطاعت کا انحصارصرف ان ہی دونوں چیزوں پر نہیں اس لیے کہ مریض، خالف، بوڑھا انسان جو سواری پر بیٹھنے کی قدرت بھی نہ رکھتا ہو، اپاہج نیز ہر وہ شخص جس کے لیے بیت اللہ تک پہنچنامتعدزہوان تمام لوگوں کا شماران میں ہوتا ہے جو بیت اللہ تک پہنچنے کی استطاعت نہیں رکھتے خواہ ان کے پاس زادراہ اور سواری کیوں نہ موجودہو۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ حضور ﷺ نے یہ فرماکر کہ، سبیل الی الحج زادراہ اور سواری کا نام ہے، یہ مراد نہیں لیا کہ یہی دونوں چیزیں استطاعت کی جملہ شرطیں ہیں۔ البتہ اس سے اس قائل کے قول کا بطلان ضرورہوگیا ہے۔ جس کے نزدیک اگر کوئی شخص بیت اللہ تک پیدل سفر کی طاعت رکھتا ہو اورا سے زادراہ اور ر سواری میسر نہ ہو تو اس پر حج فرض ہے۔ حضور ﷺ نے درج بالاحدیث میں یہ بیان فرمادیا کہ حج کی قرضیت کالزوم سواری کے ذریعے سفر کے ساتھ مخصوص ہے۔ نہ کہ پیدل سفر کے ساتھ۔ نیز یہ کہ جس شخص کے لیے وہاں تک صعوبت اٹھاکر اوردشواری برداشت کرکے ہی پیدل پہنچ ناممکن ہو اس پر حج فرض نہیں۔ مکہ کے قریب وجوار میں مقیم لوگوں کے لیے حکم حج اگریہ کہاجائے کہ پھر تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ جس شخص کے گھر اورم کہ مکرمہ کے درمیان صرف ایک گھنٹے کی مسافت ہو اور وہ پیدل چلنے کی قدرت رکھتا ہو صرف اسی پر حج کی فرضیت لازم ائے۔ اسے جواب میں کہا جائے گا کہ اسے پیدل چلنے میں سخت مشقت کا سامنانہ کرنا پڑے قو اس کا معاملہ اس شخص کے مقابلہ میں زیادہ آسان ہوگا جس کے پاس زادراہ اور سواری قوموجودہو لیکن اس کا وطن مکہ مکرمہ سے بہت دورہویہ بات تو واضح اور معلوم ہے کہ زادراہ اور سواری کی شرط صرف اس واسطے لگائی گئی ہے کہ اسے حج کے سفر میں مشقت پیش نہ آئے اور چلنے کی پر پیش آنے والی تکلیفوں سے بچا رہے ۔ اب اگر وہ شخص مکہ مکرمہ یا اس کے اطراف کا باشندہ ہو کہ جسے دن کی ایک گھڑی بھرپیدل سفر میں کوئی دشواری پیش نہ آئے تو ایسا شخص بیت اللہ تک بلامشقت پہنچنے کی استطاعت کا حامل سمجھا جائے گا۔ لیکن اگر کوئی شخص سخت مشقت اٹھائے بغیر بیت اللہ تک نہ پہنچ سکتا ہوا س کے لیے اللہ نے تحفیف کردی ہے کہ اس پر حج کی فرضیت کالزوم صرف اس شرط کی بناپرہوگا جسے حضور ﷺ نے اپنے ارشاد میں بیان فرمادیا ہے۔ قول باری ہے (وما جعل علیکم فی الدین من حرج، اللہ تعالیٰ نے تمہاری لیے دین کے معاملے میں کوئی تنگی پیدا نہیں کی) حرج سے مراد ضیق تنگی ہے۔ بغیرمحرم کے عورت سفرنہ کرے چاہے سفرحج کیوں نہ ہو ہمارے نزدیک عورت پر فرضیت حج کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ اس کے ساتھ کرنے کے لیے اس کا کوئی محرم موجودہو۔ اس لیے کہ حضور ﷺ سے مروی ہے کہ (لایحل لامرا ۃ تومن باللہ والیوم الاخران تسفرسفوافوق ثلاث الامع ذی محرمرادزوج کسی ایسی عورت کے لے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو تین دن سے زائد کا سفرحلال نہیں ہے الایہ کہ اس کا کوئی محرم یاشوہر ساتھ ہو) عمربن دینارنے ابومعبد سے، انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے دوران خطبہ ارشاد فرمایا (لاتسافرامراۃ الاومعھا ذومحرم، کوئی عورت محرم کے بغیر سفرنہ کرے) ایک شخص نے کھڑے ہوکرعرض کیا کہ میرانام فلاں غزوہ کے لیے لکھ لیا گیا ہے اور میری بیوی حج کے لیے جانا چاہئی ہے۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ۔ تم اپنی بیوی کے ساتھ حج پر جاؤ۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ آپ کا یہ قول کہ۔ کوئی عورت محرم کے بغیر سفرنہ کرے۔ حج کے ارادے سے سفر کرنے والی عورت بھی تین وجوہ سے شامل ہے۔ اول یہ کہ سائل کو اس شمولیت کی سمجھ تھی اس لیے اس نے اپنی بیوی کے متعلق مسئلہ پوچھا جو حج پر جانا چاہتی تھی۔ دوسری طرف حضور ﷺ نے اس کے سوال پر ناپسند یدگی کا اظہار بھی نہیں کیا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ اس سے ہر قسم کا سفرمراد ہے۔ خواہ وہ حج کا سفرہو یا کسی اور کا۔ دوم حضور ﷺ کا یہ ارشاد کہ، اپنی بیوی کے ساتھ حج پر جاؤ، اس میں دراصل یہ خبردی گئی ہے کہ آپ کے ارشاد، کوئی عورت محرم کے بغیر سفرنہ کرے، میں سفر سے مراد سفرحج ہے۔ سوم حج ہے۔ سوم آپ نے سائل کو غزدہ پر جانے سے منع کرکے بیوی کیساتھ حج کے سفرپرجانے کا حکم دیا۔ اگر اس کی بیوی کے لیے محرم یاشوہر کے بغیر حج کا سفر جائز ہوتا تو آپ ہرگزا سے فرض یعنی غزوہ کو چھوڑکرنفل یعنی سفرحج پر جانے کا حکم نہ دیتے۔ اس میں یہ دلیل بھی موجود ہے کہ وہ عورت فرض حج پر جانا چاہتی تھی۔ نفلی حج پر نہیں ۔ اس لیے کہ اگر یہ اس کانفلی حج ہوتا تو آپ شوہر کو بیوی کے نفلی حج کے لیئے نزک جہاد کا حکم نہ دیتے جو کہ فرض تھا۔ ایک اور جہت سے اس پر غورکریں۔ حضور ﷺ نے اس شخص سے یہ نہیں پوچھا کہ اس کی بیوی فرض حج پر جانا چاہتی ہے یانفلی حج پر۔ اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ محرم کے بغیر عورت پر سفر کی پابندی کے لحاظ سے نفلی اور فرض حج دونوں کا حکم یکساں ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ محرم کا ساتھ ہونا حج کے لیے عورت کی استطاعت کی شرطوں میں سے ایک شرط ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ کہ عورت کی استطاعت کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ وہ عدت میں نہ ہو اس لیے کہ قول باری ہے (لاتخرجوھن من بیوتھن ولا یخرجن الاان یاتین بفاحشۃ، انہیں (یعنی عدت گزارنیوالی عورت کو) ان کے گھروں میں سے نہ نکالو اور نہ ہی وہ خود گھروں سے نکلیں الایہ کہ وہ کسی بےحیائی کا ارتکاب کربیٹھیں) جب عورت کی استطاعت کے سلسلے میں اس بات کا اعتبار کیا گیا ہے تو یہ ضروری ہوگیا کہ محرم کے بغیرسفر کی ممانعت کا بھی استطاعت میں اعتبارکیاجائے۔ حج کے لیے ایک شرط جس کا ہم نے پہلے ذکرکر دیا ہے یہ ہے کہ حج پر جانے والا سواری پر بیٹھنے کے قابل ہو۔ اس سلسلے میں ایک روایت ہے جو ہمیں عبدالباقی بن قانع نے بیان کی ہے انہیں موسیٰ بن الحسن بن ابی عبادنے انہیں محمد بن مصعب نے انہیں اوزاعی نے زھری سے انہوں نے سلیمان بن یسار سے انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی خثعم کی ایک خاتون نے حضور ﷺ سے عرض کیا میرے بوڑھے باپ کو فریضہ حج عائد ہوگیا ہے لیکن اس کی حالت یہ ہے کہ بڑھا پے کی وجہ سے وہ سواری پرجم کر بیٹھ بھی نہیں سکتا آیامیں اس کی طرف سے حج کرلوں ؟ آپ نے جواب میں فرمایا کہ ، ہاں، اپنے باپ کی طرف سے حج کرلو، اس طرح آپ نے اس عورت کو اپنے باپ کی طرف سے حج کرنے کی اجازت دے دی اور اس کے باپ پر حج اداکرنالازم قرار نہیں دیا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ حج تک پہنچنے کا امکان استطاعت کی ایک شرط ہے۔ ایسے لوگ یعنی مریض، اپاہج اور عورت وغیرہ اگرچہ زادراہ اور سواری رکھنے کے باوجود ان پر حج لازم نہیں ہوتا۔ لیکن ان کے لیے یہ ضروری ہے کہ اپنی طرف سے دوسروں کو بھیج کر ان کے ذریعے اپنا حج کرائیں اور قریب الموت ہونے کی صورت میں حج کرانے کی وصیت کرجائیں۔ اس لیے کہ ان کی ملکیت میں ان چیزوں کا وجودجن کے ذریعے حج تک پہنچنا ممکن ہے ۔ ان کے مال میں حج کی فرضیت کو اس صورت میں لازم کردیتا ہے جبکہ ان کے لیے خود حج کرنا ممکن نہ ہو۔ اس لیے کہ حج کی فرضیت کا تعلق دوچیزوں کے ساتھ ہے۔ اول زادراہ اور سواری کی موجودگی اور ذاتی طورپر اس کی ادائیگی کا ممکن ہونا۔ جس شخص کی یہ کیفیت ہو اس کے لیئے حج پر نکلنا ضروری ہے۔ دوم، بیماری، بڑھا پییا اپاہج ہونے کی بناپریا عورت کے ساتھ محرم یاشوہرنہ ہونے کی وجہ سے خود سفرکرکے حج کی ادائیگی کا متعذرہونا۔ ان صورتوں میں ایسے لوگوں پر ان کے مال میں حج کی فرضیت لازم ہوجاتی ہے۔ جبکہ انہیں خود جا کر حج کی ادائیگی سے مایوسی اور درماند گی لاحق ہوچکی ہو۔ اگر کوئی بیماریا عورت اپنی طرف سے حج کرا دے اور پھر مریض تندرست ہونے سے پہلے مرجائے یا عورت کو محرم دستیاب ہونے سے پہلے اس کی وفات ہوجائے تو ان کا یہ حج بدل ان کی طرف سے کفایت کرجائے گا اور اگر حج کرانے کے بعد مریض صحتیاب ہوجائے یا عورت کو محرم دستیاب ہوجائے تو یہ حج بدل ان کی طرف سے کفایت نہیں کرے گا۔ خثعمی خاتون کا حضور ﷺ سے یہ عرض کرنا کہ اس کے بوڑھے باپ کو فریضہ حج لازم ہوگیا ہے۔ لیکن وہ سواری پرجم کر بیٹھنے کے بھی قابل نہیں ہے اور آپ کی طرف سے اسے اپنے باپ کی جگہ حج کرنے کی اجازت اس پر ال ہے کہ اس بوڑھے کو اس کے مال فرضیت حج لازم ہوگئی تھی۔ اگرچہ اس کی اپنی حالت یہ تھی کہ وہ سواری پر بیٹھنے کی بھی قدرت نہیں رکھتا تھا۔ مال میں فرضیت کے لزدم کی دلیل یہ ہے کہ اس عورت نے یہ خبردی تھی کہ اس کے باپ پر حج فرض ہوگیا ہے۔ لیکن وہ بہت بوڑھا ہے۔ حضور ﷺ نے عورت کی اس بات کی تردید نہیں فرمائی یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ اس کے مال میں فرضیت حج لازم ہوگئی تھی۔ پھر حضور ﷺ کی طرف سے اسے یہ حکم ملنا کہ اپنے باپ پر لازم شدہ حج کو تم خوداداکرو۔ یہ بھی اس کے لزوم پر دال ہے۔ فقیر کے حج کے بارے میں آرائے ائمہ فقیر کے حج کے متعلق اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب اور امام شافعی کا قول یہ ہے کہ اس پر کوئی حج فرض نہیں۔ لیکن اگر وہ حج کرلے تو حج اسلام یعنی فرض حج کی ادائیگی ہوجائے گی۔ امام مالک سے منقول ہے کہ اگر اس کے لیئے پیدل سفرممکن ہو تو اس پر حج فرض ہے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ اور حسن بصری سے منقول ہے کہ استطاعت کا مفہوم یہ ہے کہ اسے وہاں تک پہنچا نے کا کوئی ذریعہ حاصل ہو خواہ اس ذریعے کی کوئی بھی شکل کیوں نہ ہو لیکن حضور ﷺ کا یہ ارشاد کہ استطاعت زادراہ اور سواری کا نام ہے اس پر دلالت کرتا ہے کہ ایسے شخص پر کوئی حج نہیں۔ تاہم فقیرپیدل چلی کر اگربیت اللہ پہنچ گیا تو وہاں پہنچنے کے ساتھ ہی اسے استطاعت حاصل ہوجائے گی اور اس ی حیثیت مکہ کے باشندوں کی طرح ہوجائے گی اس لیے کہ یہ بات تو واضح ہے کہ زاد اور راحلہ کی شرط ان لوگوں کے لیے ہے جو مکہ مکرمہ سے دوررہتے ہیں۔ اس لیے جب ایک شخص مکہ معظمہ پہنچ گیا تو اب دہ زادوراحلہ کی ضرورت سے مسغنی ہوگیا۔ جن کی شرط صرف اس لیے تھی کہ وہ وہاں پہنچ سکے ۔ اس بناپر اس پر حج لازم ہوجائے گا اور جب وہ حج ادا کرلے گا توفرضیت کی ادائیگی ہوجائے گی۔ غلام کے حج کے متعلق خیالات ائمہ۔ غلام اگر حج کرلے تو آیا اس کا فرض حج ادا ہوجائے گا ؟ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ ادا نہیں ہوگا اور امام شافعی کے نزدیک ادا ہوجائے گا۔ ہمارے قول ک صحت کی دلیل وہ روایت ہے جو ہمیں عبدالباقی بن قانع نے بیان کی انہیں ابراہیم بن عبداللہ نے انہیں مسلم بن ابراہیم نے انہیں ہلال بن عبداللہ نے جو ربیعہ بن سلیم کے آزاد کردہ غلام تھے، انہیں ابواسحق نے الحارث سے انہوں نے حضرت علی ؓ سے، انہوں نے حضور ﷺ سے کہ آپ نے فرمایا (من ملک زاد اوراحلۃ تبلغم الی بیت اللہ ثم لم یحیج فلاعلیہ ان یموت یھودیا اونصرانیا، جو شخص زاد اورراحلہ کا مالک ہو جس کے ذریعے وہ بیت اللہ پہنچ سکتا ہو پھر وہ حج نہ کرے تو اللہ پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں کہ خواہ وہ یہودی بن کرمر سے یانصرافی۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمادیا ہے کہ (وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا ومن کفرفان اللہ غنی عن العالمین) حضور ﷺ نے خبردی کہ حج کے لزوم کی شرط زادراہ اور سواری کا مالک ہونا ہے۔ اور غلام چونکہ کسی چیزکامالک نہیں ہوتا اس لیے اس کا ان لوگوں میں شمار نہیں ہوتا جنہیں حج کی ادائیگی کے سلسلے میں مخاطب بنایاگیا ہے۔ حضور ﷺ سے منقول تمام روایتیں جن استطاعت کی تشریح زادراہ اور سواری سے کی گوئی ہے۔ وہ اس پر محمول ہیں کہ یہ دونوں چیزیں اس کی ملکیت ہوں۔ جس طرح کہ حضرت علی ؓ کی درج بالا روایت میں اس کی وضاحت ہوگئی ہے۔ نیزحضور ﷺ کی طرف سے زادراہ اور سواری کی شرط میں آپ کی مراد معلوم ہوگئی کہ یہ دونوں چیزیں اس کی ملکیت میں ہوں۔ اس شرط سے آپ کی مراد یہ نہیں کہ یہ دونوں چیزیں کسی اور کی ملکیت ہوں۔ دوسری طرف غلام کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا اس لیے وہ ان لوگوں میں سے نہیں ہوسکتا جنہیں حج کی ادائیگی کے سلسلے میں مخاطب بنایاگیا ہے اس لیے اس کا حج فرض حج کی ادائیگی کیطرف سے کفایت نہیں کرسکتا۔ اگریہ کہاجائے کہ فقیر بھی تو ان لوگوں میں سے نہیں جو حج کے حکم کے مخاطب ہیں اس لیے کہ وہ ز اوراہ اور سواری کا مالک نہیں ہوتا۔ لیکن اس کے باوجود اگر وہ حج کرلیتا ہے تو اس کا حج جائز ہوگا اسی طرح غلام کا حج بھی جائز ہوجانا چاہیئے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ فقیران لوگوں میں سے ہے جو حج کے حکم کے مخاطب ہیں اس لیے کہ اس کے اندر ملکیت کی صلاحیت ہے جبکہ غلام کے اندرسرے سے ملکیت کی صلاحیت ہے ہی نہیں۔ فقیر سے وقتی طورپرفرضیت حج اس لیے ساقط ہوتی ہے کہ اس کے پاس زادراہ اور سواری نہیں ہوتی، اس سے حج کے سقوط کی یہ وجہ نہیں ہوتی کہ وہ ملکیت کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس لیے وہ مکہ مکرمہ پہنچ جاتا ہے تو وہ زادراہ اور سواری کی ضرورت سے مستغنی ہوجاتا ہے اور اس کی حیثیت ان لوگوں کی طرح ہوجاتی ہے جن کے پاس زاددراحلہ کا وجود ہوتا ہے۔ اور جوان کے ذریعے مکہ مکرمہ پہنچ جانے والے ہوتے ہیں۔ رہ گیا غلام تو اس سے حج کی ادائیگی کا خطاب اس لیے نہیں ساقط ہوا کہ اس کے پاس زادو راحلہ نہیں ہے بلکہ اس لیے ساقط ہوگیا کہ وہ سرے سے ان کا مالک ہی نہیں ہوتا خواہ وہ مکہ کیوں نہ پہنچ گیا ہو اس لیے وہ حج کے خطاب میں داخل ہی نہیں ہوتا۔ اس لیے اس کا حج فرض حج کی طرف سے کفایت نہیں کرے گا اور اس پہلو سے اس کی حیثیت اس نابالغ کی سی ہوتی ہے جسے اس وجہ سے حج کے حکم کا مخاطب قرار نہیں دیا گیا کہ اس کے پاس زادراہ اور سواری نہیں ہے۔ بلکہ اس وجہ سے کہ اس میں حج کے حکم کا مخاطب بننے کی صلاحیت نہیں ہے۔ اس لیے کہ حج کے حکم کے مخاطب بننے کی جس طرح یہ شرط ہے کہ اس میں ملکیت کی صلاحیت ہو۔ نیز غلام اپنی ذات سے حاصل ہونے والے منافع کا مالک نہیں ہوتا اور آقاکو بالا تفاق یہ حق حاص ہے کہ اسے حج پر جانے سے روک دے ۔ غلام کے تمام منافع کا مالک آقا ہوتا ہے۔ اب اگر ان منافع کے تحت غلام حج کرے گا تو یہ گویا آقاکاحج ہوگا اس لیے فرضیت حج اس سے ادانہ ہوسکے گی اور اس کا یہ حج اسلام قرار نہیں پائے گا۔ غلام اپنے منافع کا مالک نہیں ہوتا اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ یہ منافع اگر مال کی شکل اختیار کرلیں تو ان کے ابدال کا آقاہی حقدارہوتا ہے۔ نیز اسے یہ حق بھی ہوتا ہے کہ اسے اپنی خدمت میں لگارکھے اور حج پر جانے نہ دے۔ پھر اگر وہ اسے حج پر جانے کی اجازت دے دیتا ہے توگویاوہ ان منافع کو جن کا وہ مالک ہوتا ہے عاریت کے طورپر اسے دے دیتا ہے۔ اس لیے یہ منافع آقا کی ملکیت کی بنیاد پر صرف ہوتے ہیں اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ غلام کا حج اس کی اپنی ذات کے منافع کا خود مالک ہوتا ہے۔ اگر ان منافع کے تحت وہ حج اداکرے گا تو اس کا ذاتی حج ہوگا اور حج کی فرضیت ادا ہوجائے گی۔ کیونکہ وہ صورت میں اہل استطاعت میں سے ہوجائے گا۔ اگر یہ کہاجائے کہ آقاکویہ حق حاص ہے کہ وہ اسے جمعہ کی نماز ادا کرنے سے روک دے۔ اور غلام ان لوگوں میں سے بھی نہیں ہوتا جنہیں جمعہ کی ادائیگی کے سلسلے میں مخاطب بنایاگیا ہے، اس پر جمعہ فرض بھی نہیں ہوتا ۔ لیکن اگر وہ جمعہ کی نماز جاکرادا کرلے تو اس کی ادائیگی ہوجائے گی۔ توپھرحج کے سلسلے میں یہی بات کیوں نہیں ہوسکتی ؟ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ غلام پر ظہر کی فرضیت قائم رہتی ہے اور آقاکویہ حق نہیں ہوتا کہ اسے ظہر کی نماز پڑھنے سے روک دے اس لیے غلام جب جمعہ کی نماز ادا کرلے گا تو وہ اپنے اوپر سے ظہر کی فرضیت ساقط کرلے گا۔ جس کی ادائیگی کا وہ مالک تھا۔ اور اس کے لیے اسے آقا سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں تھی اس لیے اس کی نماز جمعہ کی ادائیگی درست ہوجائے گی۔ دوسری طرف حج کی صورت میں وہ کسی اور فرض کی ادائیگی کا مالک نہیں تھا کہ حج اداکرکے وہ اس فرض کی ادائیگی اپنی ذات سے ساقط کرلیتاتا کہ ہم اس کے جواز کا حکم لگادیتے اور اسے اس فرض کے حکم میں کردیتے جس کی ادائیگی کا وہ مالک ہوتا۔ اس لیے یہ دونوں صورتیں مختلف ہوگئیں۔ غلام کے حج کے متعلق ایک روایت منقول ہے حضور ﷺ سے۔ جسے عبدالباقی بن قانع نے ہمیں بیان کی انہیں بشرین موسیٰ نے انہیں یحییٰ بن اسحق نے انہیں یحییٰ بن ایوب نے حرام بن عثمان سے، انہوں نے حضرت جابر ؓ کے دو بیٹوں سے ان دونوں نے اپنے والدحضرت جابر ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (لوان صبیاحج عشراححج ثم بلغ لکانت علی حجتم ان استطاع الیھا سبیلا، ولوان اعرابیاحج عشرححج ثم ھاجرلکانت علیہ حجۃ ان استطاع الیھا سبیلا ولوان مملوکا حج عشرححج ثم اعتق لکانت علیہ حجۃ ان استطاع الیھا سبیلا، اگر کوئی بچہ دس حج بھی کرلے اور پھر وہ بالغ ہوجائے تو اس پر ایک حج فرض ہوگا، بشرطیکہ اسے حج تک پہنچنے کی استطاعت حاصل ہوجائے اور اگر کوئی اعرابی دس حج کرلے پھر ہجرت کرلے تو اس پر ایک حج فرض ہوگابشرطی کہ اسے حج تک پہنچنے کی استطاعت حاصل ہوجائے ۔ اور اگر کوئی غلام دس حج کرلے پھر آزادہوجائے تو اس پر ایک حج فرض ہوگا اگر وہ حج تک پہنچنے کی استطاعت حاصل کرلے۔ ہمیں عبدالباقی نے حدیث بیان کی انہیں موسیٰ بن الحسن بن ابی عبادنے انہیں محمد بن منہال نے انہیں یزیدبن ذریع نے ، انہیں شعبہ نے اعمش سے انہوں نے ابوظبیان سے انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (ایما صبی حج ثم ادرک الحلم فعلیہ ان یحج حجۃ اخری واینااعرابی حج ثم ھاجرفعلیہ ان یحج حجۃ اخری وایماعبدحج ثم اعتق فعلیہ ان یحج حجۃ اخری، جو بچہ حج کرلے پھر بالغ ہوجائے تو اس پر ایک اور حج کرنا فرض ہوگا اور جو اعرابی حج کرلے پھر ہجرت کرجائے تو اس پر ایک اور حج کرنا فرض ہوگا اور جو غلام حج کرلے پھر آزاد ہوجائے تو اس پر ایک اور حج کرنا فرض ہوگا) حضور ﷺ نے غلام پر آزاد ہونے کے بعد ایک اور حج فرض کردیا۔ اور غلامی کے دوران کیئے ہوئے حج کا کوئی اعتبارنہ کیا اور اسے نابالغ کے کئے ہوئے حج کا درجہ دے دیا۔ اگریہ یہ کہا جائے کہ اعرابی یعنی بدو کے متعلق بھی یہی فرمایا گیا ہے حالانکہ وہ اگر ہجرت سے پہلے حج کرلے تو اس کا یہ حج اس سے فرضیت کو ساقط کرنے کے لیے کافی ہوگا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اعرابی کے متعلق اس زمانے تک یہی حکم تھا جب تک ہجرت کرنا فرض تھا۔ لیکن جب ہجرت کی فرضیت منسوخ ہوگئی تو اب اس کے متعلق پچھلاحکم باقی رکھنا ممتنع ہوگیا۔ اس لیے جب حضور ﷺ نے یہ فرمادیا کہ (لاھجرۃ بعالفتح۔ فتح مکہ کے بعد اب کوئی ہجرت نہیں تو اس کے ساتھ ہی وہ حکم بھی منسوخ ہوگیا جس کا اس کے ساتھ تعلق تھا۔ یعنی ہجرت کے بعد حج کا اعادہ اس لیے کہ اس ارشاد کے بعد اب ہجرت واجب نہیں رہی تھی۔ غلام کے حج کے متعلق حضرت ابن عباس ؓ حسن اور عطاء ہمارے قول کی طرح قول منقول ہے۔ حج زندگی میں صرف ایک بارفرض ہے ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ ظاہر آیت (وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا) صرف ایک حج کا تقاضا کرتا ہے۔ کیونکہ اس میں تکرارکو واجب کرنے والی کوئی بات موجود نہیں ہے اس لیے جب کوئی ایک دفعہ حج ادا کرلے گا تو وہ آیت میں مذکورہ ذمہ داری سے عہدہ برا ہوجائے گا۔ حضور ﷺ نے بھی اسی مفہوم کی تاکید فرمائی ہے۔ چناچہ ہمیں محمد بن ب کرنے روایت بیان کی انہیں وبوداؤد نے انہیں زہیربن حرب اور عثمان بن ابی شیبہ نے ان دونوں کو یزیدبن ہارون نے سفیان بن حسین سے انہوں نے زہری سے انہوں نے ابوسنان سے (ان کے نسبتی نام کے متعلق ابوداؤد نے کہا ہے کہ یہ دولی ہیں) انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ اقرع حابس ؓ نے حضور ﷺ سے دریافت کیا، اللہ کے رسول ! حج ہر سال ہے یا صرف ایک دفعہ۔ آپ نے فرمایا صرف ایک مرتبہ اس سے زائد جو کرے گا وہ اس کے لیے نفل ہوگا۔ قول باری ہے (ومن کفرفان اللہ ٹنی عن العالمین، جو شخص اس حکم کی پیروی سے انکارکرے گا تو اللہ تعالیٰ تمام جہان والوں سے بےنیاز ہے) وکیع نے فطربن خلیفہ انہوں نے نفیع ابی واؤد سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے حضور ﷺ سے (ومن کفر) کے مفہوم کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا یہ شخص وہ ہے جو اگرحج کرے تو اللہ سے ثواب کی امیدنہ رکھے اگر حالات میں گرفتارہوکرحج پر نہ جاسکے تو اللہ کے عتاب سے نہ ڈرے۔ مجاہد نے بھی اسی طرح کی روایت کی ہے۔ حسن کا قول ہے کہ جو شخص حج کا انکارکرے۔ آیت فرقہ جبریہ کے مذہب کے بطلان پر دلالت کرتی ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو حج کی استطاعت رکھنے والا قراردیا ہے۔ جس کے پاس حج کی ادائیگی سے قبل زادراہ اور سواری کا انتظام ہو اور اس فرقہ کا مذہب یہ ہے کہ جو شخص حج ادا نہیں کرے گا وہ صاحب استطاعت قرار نہیں دیاجائے گا اس مذہب کے بناپرپھریہ ضروری ہوگیا کہ جب ایک شخص حج نہ کرے وہ معذورقراردیاجائے اور اس پر حج لازم بھی نہ کیا جائے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صرف اس شخص پر حج لازم کردیا ہے جو صاحب استطاعت ہو اور اس شخص نے چونکہ حج نہیں کیا اس لیے حج کے لیے صاحب استطاعت قرار نہیں پایا۔ جبکہ پوری امت کا اس پر اتفاق ہے کہ ہراس شخص پر حج کی فرضیت لازم ہے جس کے اندرہماری مذکورہ صفات یعنی جسمانی صحت زادراہ اور سواری کی موجودگی پائی جاتی ہوں۔ امت کا یہ اتفاق فرقہ جبریہ کے قول کے بطلان کو واجب کردیتا ہے۔ راہ خدا سے روکنے کی کیفیت قول بارے ہے (قل یاھل الکتاب لم تصدون عن سبیل اللہ من امن تبغونھاعوجاوانتم شھداء کہو، اے اہل کتاب ایہ تمہاری کیا روش ہے کہ جو اللہ کی بات مانتا ہے اسے بھی تم اللہ کے راستے سے روکتے ہو اورچاہتے ہو کہ وہ ٹیڑھی راہ چلے۔ حالانکہ تم خود (اس کے راہ راست ہونے پر گواہ ہو) زیدبن اسلم کا قول ہے کہ یہ آیت یہود کے ایک گروہ کے متعلق نازل ہوئی جو انصار مدینہ کے دوقبیلوں اوس اور خزرج کو ان کی زمانہ جاہلیت میں لڑی جانے والی جنگیں یاددلاکر ایک دوسرے کے خلاف بھڑکا کرتے تھے تاکہ قبائلی تعصب اور جاہلیت کی غیرت سے متاثرہوکریہ ہوگ دین اسلام سے نکل جائیں۔ حسن بصری سے مروی ہے کہ یہ آیت یہودونصاری کے بارے میں نازل ہوئی اس لیے کہ وہ حضور ﷺ کی ان صفات کو چھپاگئے تھے جن کا ذکر ان کی کتابوں میں آیا تھا۔ اگریہ کہا جائے کی اللہ تعالیٰ نے کفار یعنی اہل کتاب کو شہداد (گواہوں) کے نام سے موسوم کیا۔ حالانکہ ان کے غیروں پر ان کی بات حجت تسلیم نہیں کی جاتی اس لیے کہ قول باری (لتکونواشھدآء علی الناس، تاکہ تم لوگوں پر گواہ بن جاؤ) سے اجماع امت کی صحت اور اس کے حجت ہونے پر آپ کا استدلال درست نہیں ہوگا اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے متعلق یہ نہیں فرمایا کہ تم اپنے غیروں پر گواہ بن جاؤ اور یہاں یہ فرمایا کہ (لتکونواشھدآء علی الناس) جس طرح یہ فرمایا (ویکون الرسول علیکم شھیدا، اور رسول تم پر گواہ بن جائیں۔ ) اس قول باری نے اس کی تصدیق اور ان کے اجماع کی صحت کو واجب کردیا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے (وانتم شھداء) فرمایا جس کے معنی (شھدآء علی الناس) سے مختلف ہیں۔ قول باری (وانتم شھدآء) کے دومعنی بیان کیے گئے ہیں۔ اول یہ کہ اللہ کے دین سے روکنے کے متعلق تم اپنے قول کے بطلان کا علم رکھتے ہو۔ اس صورت میں اس قول کا تعلق اہل کتاب میں سے لوگوں کے ساتھ ہوگا۔ دوم یہ کہ اللہ تعالیٰ نے لفظ (شھدآء) سے عقلاء مراد لیا ہے۔ جیسا کہ قول باری ہے۔ (والقی السمع وھوشھید، یا اس نے کان دھرا اور وہ سمجھ بھی رہاہو) یعنی وہ عاقل ہو۔ اس لیے کہ اس نے وہ دلیل دیکھ لی ہے۔ جس کے ذریعے حق وباطل میں وباطل میں تمیز کرسکتا ہے۔
Top