Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Baghwi - Aal-i-Imraan : 97
فِیْهِ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰهِیْمَ١ۚ۬ وَ مَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا١ؕ وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًا١ؕ وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ
فِيْهِ
: اس میں
اٰيٰتٌ
: نشانیاں
بَيِّنٰتٌ
: کھلی
مَّقَامُ
: مقام
اِبْرٰهِيْمَ
: ابراہیم
وَمَنْ
: اور جو
دَخَلَهٗ
: داخل ہوا اس میں
كَانَ
: ہوگیا
اٰمِنًا
: امن میں
وَلِلّٰهِ
: اور اللہ کے لیے
عَلَي
: پر
النَّاسِ
: لوگ
حِجُّ الْبَيْتِ
: خانہ کعبہ کا حج کرنا
مَنِ
: جو
اسْتَطَاعَ
: قدرت رکھتا ہو
اِلَيْهِ
: اس کی طرف
سَبِيْلًا
: راہ
وَمَنْ
: اور جو۔ جس
كَفَرَ
: کفر کیا
فَاِنَّ
: تو بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
غَنِىٌّ
: بےنیاز
عَنِ
: سے
الْعٰلَمِيْنَ
: جہان والے
اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں جن میں سے ایک ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے۔ جو شخص اس (مبارک) گھر میں داخل ہوا اس نے امن پالیا۔ اور لوگوں پر خدا کا حق (یعنی فرض) ہے کہ جو اس گھر تک جانے کا مقدور رکھے وہ اس کا حج کرے اور جو اس حکم کی تعمیل نہ کرے گا تو خدا بھی اہل عالم سے بےنیاز ہے
(تفسیر) 97۔ (آیت)” فیہ ایات بینات مقام ابراہیم ومن دخلہ کان امنا “۔ یہ فضائل بیت المقدس کے بارے میں نہیں۔ (اول بیت وضع سے کیا مراد ہے) علماء کا اس بات میں اختلاف ہے کہ (آیت)” اول بیت وضع “ سے کیا مراد ہے ؟ بعض حضرات کے نزدیک آسمان و زمین کی پیدائش کے زمانے میں پانی کی سطح سے سب سے پہلے کعبہ کا مقام نمودار ہوا، شروع میں یہ سفید جھاگ تھی جو بعد میں منجمد ہوگئی زمین کی پیدائش سے دو ہزار سال پہلے ، اس کی تخلیق ہوئی تھی پھر اس کے نیچے سے زمین پھیلائی ، یہ قول عبداللہ بن عمر ؓ ، امام مجاہد (رح) ، قتادہ (رح) ، اور سدی (رح) ، کا ہے ۔ بعض نے کہا کہ زمین پر سب سے پہلا گھر جو بنایا گیا وہ بیت اللہ ہے۔ حضرت علی بن حسین ؓ ، کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عرش کے نیچے ایک مکان بنایا جس کا نام بیت المعمور ہے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ اس کا طواف کریں، پھر زمین پر رہنے والے فرشتوں کو حکم دیا کہ بیت المعمور کی طرح زمین پر ایک مکان بنائیں ، اسی کی مثل اور اسی مقدار پر ، فرشتوں نے اس کو تعمیر کیا اور اس کا نام (صراح) رکھا ، اللہ تعالیٰ نے زمین پر رہنے والے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم اس گھر کا طواف کرو جیسا کہ آسمان والے فرشتے بیت المعمور کا طواف کرتے ہیں اور بعض روایات میں ہے کہ بیت اللہ کو حضرت آدم (علیہ السلام) کی پیدائش سے دو ہزار سال پہلے بنایا اور اس کا حج کرتے تھے ، جب حضرت آدم (علیہ السلام) نے حج کیا تو فرشتوں نے کہا اے آدم آپ کا حج مبرور ہے ، ہم نے آپ سے دو ہزار سال پہلے اس کا حج کیا تھا ۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت کی گئی کہ حضرت آدم (علیہ السلام) نے سب سے اول زمین پر کعبہ کی عمارت بنائی تھی ۔ بعض نے کہا کہ اولیت برکت والا گھر ہے جس میں لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور تاکہ لوگ اس کی طرف عبادت کریں اور حج کریں ۔ بعض نے کہا کہ لوگوں کے لیے جو قبلہ اول بنایا گیا وہ یہی ہے ۔ حسن (رح) ، اور کلبی (رح) ، فرماتے ہیں معنی اس کا یہ ہے کہ زمین میں عبادت کرنے کے لیے پہلی مسجد جو تعمیر کی گئی وہ پہلی مسجد بیت اللہ ہے، اسی طرح علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے ضحاک (رح) فرماتے ہیں کہ سب سے پہلا مکان جس میں برکت عطا کی گئی وہ بیت اللہ ہے ، بعض نے کہا کہ زمین میں سب سے پہلے وہ عمارت بنائی گئی جس میں اللہ کی عبادت کی جاتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان (آیت)” فی بیوت اذن اللہ ان ترفع “ بیوت سے مراد مساجد ہیں۔ ابراہیم بن یزید التیمی (رح) ، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوذر ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے کہا اے اللہ کے رسول ! ﷺ (سب سے پہلی مسجد ، مسجد حرام) زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد قائم کی گئی ؟ فرمایا مسجد حرام ، میں نے کہا پھر کون سی مسجد ؟: فرمایا مسجد اقصی ، فرمایا ان دونوں کے درمیان کتنا عرصہ کا فاصلہ ہے ؟ فرمایا چالیس سال ، پھر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ، پس تم میں سے جس کو جہاں نماز کا وقت آجائے وہاں پڑھ لے اس میں فضیلت ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان (آیت)” للذی ببکۃ “ بعض نے کہا کہ اس سے مکہ مراد ہے یہی ضحاک (رح) ، کا قول ہے اور عرب کے نزدیک باء اور میم ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوتے رہتے ہیں ، جیسے ” سبدا راسہ “ کو ” سمدا راسہ “۔ پڑھتے ہیں ، ” ضربۃ لازب “ کو ” ضربۃ لازم “ پڑھتے ہیں ، دوسرے حضرات کے ہاں مکہ میں بکۃ ایک جگہ کا نام ہے اور مکہ پورے شہر کا نام ہے ، بعض نے کہا کہ بکۃ بیت اللہ اور مطاف کے درمیان جگہ کا نام ہے اس کو بکہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں ، یہ نام اس وجہ سے رکھا گیا کہ اس جگہ خوب آہ وزاری سے اللہ تعالیٰ سے مانگتے ہیں اور اس جگہ لوگوں کا بہت زیادہ رش ہوتا ہے ، عبداللہ بن زبیر ؓ فرماتے ہیں اس جگہ کو ” بکۃ “ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں جابر بادشاہ کی گردن جھک جاتی ہے اور اس جگہ پر وہ کسی برائی کا نہیں سوچتے ، مکہ کو مکۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں پانی کی کمی ہوتی تھی (مکہ میں پانی بہت نایاب ہوتا تھا) اس وجہ سے اس کو مکہ کہا جاتا ہے ، جیسا کہ عرب کا قول ہے کہ کھیتی خشک ہوگئی ، یہ اس وقت بولتے ہیں جب عورتوں میں دودھ کی کمی واقع ہوجائے اور بچہ کی پرورش کے لیے دائی کو بلایا جاتا ہے وہ اس پر رحم کرتی ہے اور وہ اس کو دودھ بھی پلاتی ہے، ” مبارکا “ منصوب ہے حال ہونے کی وجہ سے عبارت یوں ہوگی ، ” ذا برکۃ وھدی للعالمین “ کہ وہ برکت والی اور دو جہانوں کے لیے ہدایت ہے کیونکہ یہ قبلہ مؤمنین کا ہے اس میں واضح نشانیاں موجود ہیں ۔ (آیات بینات کی مختلف تفاسیر) حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ نے ” آیۃ بینۃ “ واحد پڑھا ہے ، اس سے مراد مقام ابراہیم (علیہ السلام) لیا ہے ۔ دوسرے حضرات نے جمع کے صیغہ کے ساتھ ” آیات بینات “ پڑھا ہے ، اس صورت میں مقام ابراہیم (علیہ السلام) اور حجر اسود اور وہ پتھر جس پر کھڑے ہو کر حضر ابراہیم (علیہ السلام) نے بیت اللہ کی تعمیر کی تھی اور اس پتھر پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاؤں کے نشانات پڑگئے ، اب لوگوں کے کثرت سے مس کرنے کی وجہ سے وہ نشانات مٹ گئے ، ” آیات بینات “ میں حجراسود ، حطیم ، زمزم ، اور مشاعر سب شامل ہیں ، بعض نے کہا کہ مقام ابراہیم (علیہ السلام) تمام حرم کا نام ہے، بیت اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کے اوپر کوئی پرندہ نہیں اڑتا اور اسی طرح جب زخمی شکار حرم میں داخل ہوجائے تو اس سے شکاری تعرض نہیں کرتا بلکہ اس کا پیچھا کرنے سے رک جاتا ہے ، یہ ایسا شہر ہے جس کی طرف انبیاء کرام (علیہم السلام) اللہ کے بھیجے ہوئے رسول ، اولیاء ابرار آتے ہیں اور اس جگہ نیکی کرنے سے دگنا اجر ملتا ہے ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا میری اس مسجد میں ایک نماز مسجد حرام کے علاوہ دوسری مسجدوں میں ہزاروں نمازوں سے افضل ہے، (آیت)” ومن دخلہ کان امنا “ جو کوئی کسی لڑ کر اس میں پناہ لے ، یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کی برکت کی وجہ سے تھا ، ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ دعا مانگی تھی (آیت)” رب اجعل ھذا البلد امنا “۔ زمانہ جاہلیت میں عرب باہم ایک دوسرے کے ساتھ قتل و قتال کرتے تھے اور حرم میں پناہ لیتے تھے تو وہ قتال سے مامون ہوجاتے ، یہی قول حسن (رح) ، قتادہ (رح) ، اور اکثر مفسرین کے نزدیک ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (آیت)” اولم یروا انا جعلنا حرما امنا ویتخطف الناس من حولھم “۔ بعض نے کہا کہ اس سے مراد جو شخص عمرۃ القضاء میں آپ ﷺ کے ساتھ مکہ میں داخل ہوا وہ امن والا ہوگیا ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (آیت)” لتدخلن المسجد الحرام ان شاء اللہ آمنین “۔ یہ خبر بمعنی امر کے ہے تقدیری عبارت یوں ہوگی (آیت)” ومن دخلہ فامنوہ “ آگے فرمایا (آیت)” فلا رفث ولا فسوق ولا جدال فی الحج “ یہاں بھی امر کے معنی میں ہے کہ بےحیائی اور برائی سے بچو، اسی وجہ سے بعض اہل علم کا قول ہے کہ جس شخص پر قصاص یا حد واجب ہو اور وہ حرم میں پناہ لے لے تو اس سے حرم میں بدلہ نہیں لیا جائے گا بلکہ اس کا کھانا پینا بند کردیا جائے گا اور نہ ہی کوئی چیز اس کو بیچی جائے گی اور نہ ہی اس سے کوئی چیز خریدی جائے گی ، یہاں تک کہ وہ وہاں سے نکلنے پر مجبور ہوجائے، پھر جب وہ باہر آجائے گا تو اس کو قتل کیا جائے گا ، حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ اور امام ابوحنیفہ (رح) اور بعض حضرات اس طرف گئے ہیں کہ قصاص تو شریعت کی طرف سے واجب ہوا ہے اس سے بدلہ لیا جائے گا ، اگر وہ حرم کے اندر جرم کا ارتکاب کرے تو بالاتفاق اس سے حرم کے اندر ہی اس کی سزا دی جائے گی ، بعض علماء نے کہا کہ آیت کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ جو شخص حرم کی تعظیم اور اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے حرم میں داخل ہوگا قیامت کے دن عذاب سے مامون ہوگا ، (آیت)” وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا “۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کے لیے بعض لوگوں پر حج فرض ہے اور بعض پر واجب ہے ، ابو جعفر (رح) ، اور حمزہ (رح) ، کسائی (رح) ، اور حفص (رح) ، نے ” حج البیت “ کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے اور اکثر قراء نے حاء کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے یہ لغت اہل حجاز کے ہاں ہے اور یہی دونوں لغت فصیح ہیں ، دونوں کا معنی ایک ہی ہے ، حج بھی اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے ، گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، دوسرا نماز ادا کرنا ، تیسرا زکوۃ ادا کرنا رمضان کے روزے رکھنا ، بیت اللہ کا حج کرنا ، اہل اسلام کے ہاں وجوب حج پانچ شرائط کے ساتھ ہوتا ہے، اسلام ، عقل ، بلوغ ، آزاد ہونا ، طاقت زاد راہ کا ہونا، حج کافر اور مجنون پر فرض نہیں ، اگر ان دونوں نے ادا کردیا تو ان کا حج قبول نہیں ہوگا کیونکہ کافر تو اس کا اہل نہیں اور مجنون کی طرف شریعت کا حکم متوجہ ہی نہیں ، اسی طرح بچے اور غلام پر فرض نہیں ، اگر کسی سمجھدار بچے نے حج کرلیا یا غلام نے حج کیا تو دونوں کا حج صحیح ہوگا لیکن نفل ہوگا لیکن ان دونوں سے فرضیت ساقط نہیں ہوگی ، اگر بچہ بالغ ہوگیا اور غلام آزاد ہوگیا تو ان پر مذکورہ شرائط کے پائے جانے کی وجہ سے حج فرض ہوگا اور جو شخص استطاعت نہیں رکھتا اس پر حج فرض نہیں ، اللہ تعالیٰ کا فرمان (آیت)” من استطاع الیہ سبیلا “۔ اگر کسی شخص نے تکلف کے ساتھ بغیر استطاعت کے حج کرلیا تو اس سے حج کی فرضیت ساقط ہوجائے گی ۔ (من استطاع کی وضاحت) استطاعت کی دو قسمیں ہیں ۔ (1) وہ شخص بذات کود استطاعت رکھتا ہو ۔ ّ (2) وہ استطاعت غیر کی وجہ سے ہو ، اگر وہ شخص بنفسہ قادر ہو اور زاد وراحلۃ پر قدرت رکھتا ہو، یہاں پر پہلی قسم مراد ہے ۔ عباد بن جعفر (رح) ، فرماتے ہیں کہ ہم عبداللہ بن عمر ؓ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ان کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! ﷺ کون سا حج مقبول ہے ؟ فرمایا ” الشعث الثفل “ بکھرے بال ہوں (یعنی جس میں خوب مشقت اٹھائی جائے) دوسرا شخص کھڑا ہوا ، اس نے کہا اے اللہ کے رسول ! ﷺ کون سا حج افضل ہے فرمایا جس میں چلانا اور خون بہانا ہو ؟ پھر ایک اور شخص کھڑا ہوا اس نے کہا اے اللہ کے رسول ! ﷺ سبیل کیا ہے ؟ فرمایا زاد راحلۃ اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ سواری ایسی ہو جو آنے جانے پر قادر ہو اور زاد سے مراد جو آنے اور جانے کے لیے کافی ہو اپنے اہل و عیال سے زائد ہو اور زاد وراحلۃ اتنا ہو کہ اس کے آنے تک گھر والوں کے لیے کافی ہوجائے اور جو ان پر قرض ہو اس کی ادائیگی بھی پوری ہو ، ان اشیاء کا حساب اپنے شہر سے نکلنے کے وقت لگایا جائے گا ، اگر وہ پہلے نکلے یا بعد میں حج کے لیے نکلے یا انکو تاخیر ہوگئی کہ ایک نماز کا وقت نہیں گزرا یا ان سے ایک دن قافلہ نکل گیا تو اس وقت ان کا حج کے لیے نکلنا لازم نہیں ، بایں معنی اس عذر کی وجہ سے وہ گنہگار نہیں ہوگا ۔ (حج کی شرائط اور فضیلت) حج کی شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ راستہ امن و سلامتی والا ہو، ہاں اگر راستے میں کسی دشمن کا خوف ہو تو اس حج فرض نہیں اور اس کے لیے زاد وراحلۃ کے لیے جگہ کا ہونا جہاں پر پانی اور دوسری ضروریات سامان مل جائے اگر راستہ ایسا ہے جس سے اپنے اہل و عیال کا لشکر سے جدا ہونا معلوم ہو رہا ہو تو پھر بھی حج فرض نہیں ، اگر وہ سواری پر قدرت نہیں رکھتا لیکن پیدل چلنے پر قدرت رکھتا ہے یا زاد پر قدرت نہیں رکھتا لیکن یہ ممکن ہے کہ وہ راستے میں کمائی کرلے گا تو پھر بھی اس پر حج فرض نہیں ۔ دوسری قسم جو استطاعت بالغیر کے متعلق ہے ، سو اس میں انسان بنفسہ عاجز ہوتا ہے اور غیر کا محتاج ہوتا ہے یا اس کو ایسا مرض لاحق ہے جو زائل ہونے والا نہیں ہے یا اس کے پاس اتنا مال ہے کہ وہ اجرت پر لگالے تو حج پر جاسکتا ہے تو اس پر واجب ہے کہ وہ تجارت کرے یا خود تو اس کے پاس مال نہیں بلکہ اس کے بیٹے کے پاس مال ہے یا کسی اجنبی کے پاس ہے اور اس کو یقین ہے کہ یہ اشخاص اس کو حج کروا دیں گے تو اس پر واجب ہے کہ یہ حج کرنے کا ارادہ کرلے جب اسے ان پر مکمل یقین ہو کیونکہ حج کا وجوب استطاعت کے ساتھ اور وہ یقین کے ساتھ حاصل ہوگئی اور حج واجب ہوتا ہے جب استطاعت ہو ، جیسا کہ عرف میں کہا جاتا ہے فلاں صاحب استطاع ہے کیونکہ اس نے گھر بنایا اگرچہ اس نے بنفسہ خود گھر نہ بنایا ہو اگرچہ اس کے مال سے یا اس کے مددگاروں نے بنایا ہو ، امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک ایسے شخص پر واجب نہیں ، امام مالک (رح) کے نزدیک مغصوبہ مال پر حج واجب نہیں۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ فضل بن عباس ؓ آپ ﷺ کے ساتھ پیچھے سوار تھے ، ایک خثعم قبیلے سے تعلق رکھنے والی عورت نے مسئلہ پوچھا ، فضل ان کی طرف دیکھنے لگے اور وہ عورت بھی ان کو دیکھنے لگی آپ ﷺ نے تھوڑا سا چہرہ مبارک پھیر کر فضل کو دیکھا ، وہ عورت کہنے لگی اے اللہ کے رسول ﷺ اللہ نے اپنے بندوں پر حج فرض کیا ہے، میرے والد بڑھاپے میں ہیں وہ سواری کی طاقت نہیں رکھتے ، کیا میں ان کے لیے حج ادا کرسکتی ہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا جی ہاں (آیت)” ومن کفر فان اللہ غنی عن العالمین “۔ ابن عباس ؓ ، حسن (رح) ، عطاء (رح) ، فرماتے ہیں کہ جس نے حج کی فرضیت کا انکار کیا ، مجاہد (رح) ، فرماتے ہیں جس نے اللہ اور آخرت کے دن کا انکار کیا ، سعید بن المسیب فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو فرمایا مکہ کی طرف حج کرنا واجب نہیں ، سدی (رح) فرماتے ہیں جس شخص پر حج فرض ہو اور اس نے حج نہ کیا اس حالت میں مرگیا تو وہ کافر ہوجائے گا ۔ حضرت ابو امامہ ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ جس شخص کو کسی حاجت اور ضرورت نے نہ روکا ہو نہ کسی مرض نے یا سلطان جابر (ظالم بادشاہ) نے تو پھر بھی اس نے حج نہیں کیا تو چاہے یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر مرے ۔
Top