Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 97
فِیْهِ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰهِیْمَ١ۚ۬ وَ مَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا١ؕ وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًا١ؕ وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ
فِيْهِ : اس میں اٰيٰتٌ : نشانیاں بَيِّنٰتٌ : کھلی مَّقَامُ : مقام اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم وَمَنْ : اور جو دَخَلَهٗ : داخل ہوا اس میں كَانَ : ہوگیا اٰمِنًا : امن میں وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے عَلَي : پر النَّاسِ : لوگ حِجُّ الْبَيْتِ : خانہ کعبہ کا حج کرنا مَنِ : جو اسْتَطَاعَ : قدرت رکھتا ہو اِلَيْهِ : اس کی طرف سَبِيْلًا : راہ وَمَنْ : اور جو۔ جس كَفَرَ : کفر کیا فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ غَنِىٌّ : بےنیاز عَنِ : سے الْعٰلَمِيْنَ : جہان والے
اس میں کھلے ہوئے نشان ہیں (ان میں سے ایک) مقام ابراہیم ہے،206 ۔ اور جو کوئی اس میں داخل ہوجاتا ہے وہ امن سے ہوجاتا ہے،207 ۔ اور لوگوں کے ذ مہ ہے حج کرنا اللہ کے لیے اس مکان کا (یعنی) اس شخص کے ذمہ جو وہاں تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہو،208 ۔ اور جو کوئی کفر کرے تو اللہ سارے جہاں سے بےنیاز ہے،209 ۔
206 ۔ تقدیر کلام یوں ہے منھا مقام ابراہیم والتقدیر منھا مقام ابراھیم قال الاخفش (قرطبی) (آیت) ” فیہ “۔ یعنی اس اول بیت میں (آیت) ”۔ ایت بینت “۔ کھلے ہوئے توحید الہی کے شعائر یا حج کے شعائر۔ والمراد بالایات شعائر الحج (کبیر) (آیت) ” مقام ابرھیم “۔ پر حاشیہ پارۂ اول کے آخر یعنی سورة بقرہ کے رکوع 16 میں گزر چکا۔ (آیت) ” بیت “۔ سے یہاں مراد خانہ کعبہ نہیں بلکہ سارا حرم شریف ہے۔ (آیت) ” مقام ابرھیم “۔ کے نام سے جو پتھر رکھا ہوا ہے وہ خانہ کعبہ کے اندر نہیں باہر ہی ہے۔ المراد بالبیت ھنا الحرم کلہ لان ھذہ الایات موجودۃ فی الحرم ومقام ابراھیم لیس فی البیت انما ھو خارج البیت (جصاص) 207 ۔ (شریعت الہی کی نظر میں) (آیت) ” امنا “۔ پر حاشیہ پارۂ اول کے آخر یعنی سورة بقرہ کے رکوع 16 میں گزر چکا۔ 208 ۔ (بہ لحاظ زاد سفر وامن راہ وغیرہ) (آیت) ” استطاع الیہ سبیلا “۔ استطاعت سبیل سے مراد وہاں تک پہنچ جانے ذرائع واسباب ہیں۔ اسطاعۃ السبیل الیہھی امکان الوصول الیہ (جصاص) اسطاعۃ السبیل الی الشئی عبارۃ عن امکان الوصول الیہ (کبیر) (آیت) ” حج البیت “۔ حج وفرضیت حج پر حواشی پارۂ دوم کے وسط میں گزر چکے۔ (آیت) ” علی الناس “۔ میں علی شدت تاکید کے لیے ہے۔ ھی من اوکد الفاظ الوجوب عند العرب فاذا قال العربی لفلان علی کذا فقد وکدہ واوجبہ (قرطبی) 209 ۔ (سو وہ سیاہ بخت اپنا نقصان آپ کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کو کیا نقصان پہنچا سکے گا) اللہ تعالیٰ کی صفت غنا کا اثبات ان مشرک قوموں کے رد میں ہے۔ جن کے دیوی دیوتاؤں کا وجود ان کے پچاریوں ہی کے دم سے قائم ہے۔ اور وہ دیوتا اپنے کھانے پینے تک کے لیے اپنے پجاریوں کے محتاج رہتے ہیں۔
Top