Dure-Mansoor - Aal-i-Imraan : 97
فِیْهِ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰهِیْمَ١ۚ۬ وَ مَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا١ؕ وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًا١ؕ وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ
فِيْهِ : اس میں اٰيٰتٌ : نشانیاں بَيِّنٰتٌ : کھلی مَّقَامُ : مقام اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم وَمَنْ : اور جو دَخَلَهٗ : داخل ہوا اس میں كَانَ : ہوگیا اٰمِنًا : امن میں وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے عَلَي : پر النَّاسِ : لوگ حِجُّ الْبَيْتِ : خانہ کعبہ کا حج کرنا مَنِ : جو اسْتَطَاعَ : قدرت رکھتا ہو اِلَيْهِ : اس کی طرف سَبِيْلًا : راہ وَمَنْ : اور جو۔ جس كَفَرَ : کفر کیا فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ غَنِىٌّ : بےنیاز عَنِ : سے الْعٰلَمِيْنَ : جہان والے
اس میں کھلی نشانیاں ہیں، مقام ابراہیم ہے، اور جو اس میں داخل ہوگا امن والا ہوگا اور اللہ کے لئے لوگوں کے ذمہ ہے اس گھر کا حج کرنا جسے طاقت ہو اس گھر تک راہ طے کر کے جانے کی، اور جو شخص منکر ہو سو اللہ بےنیاز ہے سارے جہانوں سے۔
(1) سعید بن منصور، فریابی، عبد بن حمید، ابن المنذر اور ابن الانباری نے مصاحف میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ وہ اس طرح پڑھتے تھے لفظ آیت ” فیہ ایت بینت مقام ابراہیم “۔ (2) ابن الانباری نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ وہ اس کو ” فیہ ایت بینت “ پڑھتے تھے۔ (3) عبدبن حمید نے عاصم بن ابی النجود (رح) سے ” فیہ ایت بینت “ روایت کیا ہے یعنی جمع کے صیغوں کے ساتھ۔ (4) ابن جریر وابن ابی حاتم نے عوفی کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے لفظ آیت ” فیہ ایت بینت “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ ان سے مراد مقام ابراہیم اور مشعر الحرام ہیں۔ (5) ابن جریر نے مجاہد و قتادہ رحمۃ اللہ علیہما سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ مقام ابراہیم آیات بینات میں سے ہے۔ (6) عبد بن حمید اور ابن جریر نے حسن (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” فیہ ایت بینت “ سے مراد یہ آیت ہے ” فیہ ایت بینت مقام ابراہیم ومن دخلہ کان امنا وللہ علی الناس حج البیت “ یعنی مقام ابراہیم واضح نشانی ہے اور جو شخص اس میں داخل ہوگا امن والا ہوگا اور اللہ کے لیے لوگوں پر یہ بیت اللہ کا حج (فرض) ہے۔ (7) عبد بن حمید ابن جریر ابن المنذر وابن ابی حاتم اور ازرقی نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” فیہ ایت بینت “ سے مراد ہے مقام ابراہیم میں ان کے قدموں کی نشانی ایک واضح نشانی ہے (اور) لفظ آیت ” ومن دخلہ کان امنا “ سے دوسری چیز مراد ہیں۔ (8) الازرقی نے زید بن اسلم (رح) سے لفظ آیت ” فیہ ایت بینت “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ آیات بینات سے مقام ابراہیم مراد ہے اور (دوسری واضح نشانی) ” ومن دخلہ کان امنا “ میں ہے کہ جو شخص اس میں داخل ہوگا وہ امن والا ہوگا (اور) (تیسری واضح نشانی ) ” وللہ علیہ الناس حج البیت “ ہے کہ اس میں حج ہوتا ہے پھر فرمایا لفظ آیت ” یاتین من کل فج عمیق “ یعنی اس میں دو ردراز سے لوگ آئی گے (یہ بھی ایک واضح نشانی ہے) ۔ (9) ابن الانباری نے کلبی (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” فیہ ایت بینت “ میں آیات سے مراد کعبہ صفا مروہ اور مقام ابراہیم ہیں۔ حرم پناہ گاہ ہے (10) عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے لفظ آیت ” ومن دخلہ کان امنا “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ یہ عمل زمانہ جاہلیت میں تھا کہ ایک آدمی اگر کوئی بھی جرم کرتا پھر وہ حرم کی طرف پناہ لے لیتا تھا تو نہ اسے پکڑا جاتا اور نہ اسے طلب کیا جاتا تھا لیکن اسلام میں اللہ کی حدود قائم کرنے سے وہ محفوظ نہیں ہوتا جس نے چوری کی اس میں اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا جس نے زنا کیا اس میں اس پر حد قائم کی جائے گی اور جس نے کسی کو قتل کردیا اسے قتل کیا جائے گا۔ (11) ابن المنذر اور الازرقی نے حویطب بن عبد العزیز (رح) سے روایت کیا ہے کہ میں نے زمانہ جاہلیت میں کعبہ میں حلقے دیکھے مثل چوپاؤں کی لگاموں کے کوئی خوف زدہ آدمی اس میں اپنا ہاتھ داخل کردیتا تو کوئی دوسرا اس پر حملہ نہیں کرتا تھا ایک دن ایک خوف زدہ آدمی آیا اس نے اپنا ہاتھ اس حلقہ میں داخل کردیا اور اس کے پیچھے دوسرا آیا اور اس کو کھینچ لیا تو کھینچنے والے کا ہاتھ شل ہوگیا اسلام لانے کے بعد بھی میں نے اس کے ہاتھ شل دیکھا۔ (12) عبد بن حمید وابن المنذر اور الازرقی نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا ہے کہ اگر میں پالیتا خطاب کے قاتل کو اس (مسجد) میں تو اس کو نہ چھوتا یہاں تک کہ وہ اس میں سے نکل جاتا۔ (13) ابن جریر وابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر ؓ کے طریق سے حضرت ابن ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ومن دخلہ کان امنا “ سے مراد ہے جس شخص نے پناہ مانگی اللہ کے گھر کے ساتھ تو اللہ کا گھر اس کو پناہ دے دیتا ہے لیکن اس کو تکلیف نہ پہنچائی جائے نہ اس کو کھلایا جائے نہ پلایا جائے نہ اس کی رعایت کی جائے جب وہ باہر نکلے تو اس کو جرم کے بدلہ میں پکڑ لیا جائے۔ (14) ابن المنذر وازرقی نے طاؤس کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ومن دخلہ کان امنا “ سے مراد ہے کہ جو شخص مقام حل میں قتل کرے یا چوری کرے پھر حرم میں داخل ہوجائے نہ اس کے ساتھ بیٹھا جائے نہ اس سے بات کی جائے نہ اس کو ٹھکانہ دیا جائے لیکن اس کو اللہ کا واسطہ دیا جائے گا یہاں تک کہ وہ باہر نکلے پھر اس کو پکڑ لیا جائے پھر اس پر حد قائم کی جائے گی اگر اس نے قتل کیا یا چوری کی حل میں اور وہ حرم میں داخل ہوگیا اور وہ لوگ اس پر حد قائم کرنے کا ارادہ کریں جو اس نے جرم کیا تو اس کو حرم سے نکالیں حل کی طرف پھر اس پر حد قائم کریں۔ (15) عبد بن حمید اور ابن ابن جریر نے مجاہد کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ جب کسی آدمی کو کوئی حد پہنچ جائے قتل کرے یا چوری کرے اور حرم میں داخل ہوجائے اس کے ساتھ خریدوفروخت نہ کرو اور اسے پناہ نہ دو یہاں تک کہ وہ مجبور ہوجائے اور حرم سے نکل جائے پھر اس پر حد جاری کی جائے گی۔ (16) ابن المنذر نے طاؤس (رح) سے روایت کیا حضرت ابن عباس ؓ نے ابن زبیر ؓ پر عیب لگا دیا ایسے آدمی کے بارے میں جس کو انہوں نے حل سے پکڑا تھا پھر اس کو حرم کی حدود میں داخل کیا پھر اس کو حدود حل کی طرف نکالا اور اس کو قتل کردیا (17) ابن جریر نے عکرمہ کے طریق سے شعبی (رح) سے روایت کیا ہے کہ جو شخص کوئی جرم کرے پھر حدود حرم میں پناہ لے تو وہ امن میں ہوگیا اس کے ساتھ تعرض نہ کیا جائے اگر اس نے حرم میں جرم کیا تو اس پر (حرم ہی میں) حد لگائی جائے۔ (18) عبد بن حمید اور ابن جریر نے عطا کے طریق سے حضرت ابن عباس عنہما سے روایت کیا ہے کہ جو شخص کوئی جرم کرے پھر وہ بیت اللہ میں پناہ پکڑ لے تو وہ امن والا ہے اب مسلمانوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ اس کو کسی چیز پر سزا دیں حرم کی حدود سے نکلنے سے پہلے جب وہ نکل جائے تو اس پر حد جاری کریں۔ حرم میں پناہ لینے والے کے ساتھ برتاؤ (19) حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ جس شخص نے غیر حرم میں جرم کیا پھر اس نے حرم کی طرف پناہ لے لی تو اس سے کوئی تعارض نہیں کیا جائے گا نہ اس سے خریدو فروخت کی جائے گی نہ اس کو پناہ دی جائے گی یہاں تک کہ وہ مجبور ہو کر حرم سے نکل جائے جب وہ حرم سے نکل جائے اس کو پکڑا جائے اور اس پر حد قائم کی جائے اور جو شخص حرم میں جرم کرے تو اس پر (حرم ہی میں) حد قائم کی جائے۔ (20) ابن جریر نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ اگر میں حضرت عمر ؓ کے قاتل کو پکڑ لیتا تو (حرم میں) اس سے کوئی تعارض نہ کرتا۔ (21) عبد بن حمید اور ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ اگر میں اپنے باپ کے قاتل کو حرم میں پالیتا تو اس سے کوئی تعارض نہ کرتا۔ (22) ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں کوئی آدمی کسی آدمی کو قتل کردیتا تو پھر وہ حرم میں داخل ہوجاتا اور اس سے مقتول کا بیٹا یا اس کا باپ اس سے ملاقات کرتا تو اس کو کچھ نہ کہتا تھا۔ (23) بخاری مسلم ترمذی نسائی نے ابو شریح عدوی رحمۃ اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ فتح مکہ کے اگلے دن خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ مکہ کو اللہ تعالیٰ نے حرمت والا بنایا ہے لیکن لوگوں نے اس کو حرمت والا نہیں بنایا کسی مرد کے لیے یہ حلال نہیں جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو کہ وہ اس میں کسی کا خون بہائے اور نہ کسی درخت کو کاٹے اگر کوئی دلیل بنائے کہ رسول اللہ ﷺ نے قتال کیا تھا تو تم کہو بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے لیے اجازت دی تھی اور تمہارے لیے اجازت نہیں اور میرے لیے بھی دن کے کچھ وقت حلال کیا گیا تھا پھر اس کی حرمت آج اسی طرح لوٹ آئی ہے جیسے اس کی حرمت کل تھی۔ (24) سعید بن منصور نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ قریش کے کچھ لوگوں کے پاس سے گذرے جو کعبہ کے سایہ میں بیٹھے ہوئے تھے جب ان کے پاس پہنچے تو ان کو سلام فرمایا پھر فرمایا تم جان لو کہ جو کچھ تم اس میں عمل کر رہے ہیں اس سے پوچھا جائے گا اور اس کا رہنے والا (ناحق) خون نہیں بہاتا اور نہ چغل خوری کرتا ہے۔ (25) عبد اللہ بن حمید ابن جریر ابن المنذر ابن ابی حاتم نے یحییٰ بن جعدہ بن ھبیرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ومن دخلہ کان امنا “ سے مراد ہے کہ جہنم کی آگ سے امن والا ہوگیا۔ بیت المقدس میں داخل ہونے والا (26) بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص بیت المقدس میں داخل ہوا تو وہ نیکی میں داخل ہوا اور برائی سے نکل گیا اور اس کی بخشش ہوگئی۔ (27) ابن المنذر نے عطاء (رح) سے روایت کیا ہے کہ جو شخص حرم میں مرگیا وہ امن والا اٹھایا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لفظ آیت ” ومن دخلہ کان امنا “۔ (28) شعبی نے شعب الایمان میں جابر ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص کسی ایک حرم میں مرگیا تو وہ امن والا اٹھایا جائے گا۔ (29) بیہقی نے شعب الایمان میں اس کو ضعیف کہا سلیمان ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص کسی ایک حرم میں مرگیا اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوگئی اور قیامت کے دن امن والوں میں سے ہو کر آئے گا۔ (30) جندی اور بیہقی نے انس بن مالک ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص حرمین میں سے کسی ایک میں مرگیا وہ قیامت کے دن امن والوں سے اٹھایا جائے گا اور جس شخص نے میری زیارت کی ثواب کی امید رکھتے ہوئے مدینہ منورہ کی طرف تو وہ قیامت کے دن میرے پڑوس میں ہوگا۔ (31) جندی نے محمد بن قیس بن مخرمہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جو شخص حرمین میں سے کسی ایک میں مرگیا وہ قیامت کے دن امن والوں میں سے اٹھایا جائے گا۔ (32) جندی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ جو شخص مکہ مکرمہ میں دفن کیا گیا مسلمان ہونے کی حالت میں اسے قیامت کے دن امن والا اٹھایا جائے گا۔ اما قولہ تعالیٰ : وللہ علی الناس حج البیت (الآیۃ) (33) احمد اور ترمذی نے اس کو حسن کہا ابن ماجہ وابن ابی حاتم اور حاکم نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا ہے کہ جب یہ آیت ” وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا “ نازل ہوئی تو صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا ہر سال میں حج فرض ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں اگر میں ہاں کہہ دیتا تو (ہر سال) فرض ہوجاتا تو اس پر (یہ آیت) نازل ہوئی لفظ آیت ” لا تسألوا عن اشیأ ان تبدلکم تسؤکم “ (سورۃ المائدۃ 101) (یعنی نہ سوال کرو ایسی چیزوں کے بارے میں کہ اگر تم پر ظاہر کردی جائیں تو تم کو بری لگیں) (34) عبد بن حمید وابن المنذر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ جب (یہ آیت) ” وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا “ نازل ہوئی تو ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ کیا ہر سال حج فرض ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ حج اسلام کی دلیل ہے جو تم پر لازم ہے اگر میں ہاں کہہ دیتا تو تم پر ہر سال فرض ہوجاتا۔ حج زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے (35) عبد بن حمید وحاکم نے اس کو صحیح کہا اور بیہقی نے اپنی سنن میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو خطبہ ارشاد فرمایا اور فرمایا اے لوگو ! بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کردیا ہے اقرع بن حابس کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا ہر سال میں حج فرض ہے ؟ آپ نے فرمایا اگر میں ہاں کہہ دیتا تو فرض ہوجاتا اگر فرج ہوجاتا تو تم عمل نہ کرتے اور اس پر عمل کرنے کی طاقت نہ رکھتے حج ایک مرتبہ (فرض) ہے اور جو زیادہ کرے وہ نفل ہے۔ (36) عبد بن حمید نے حسن (رح) سے روایت کیا ہے کہ جب (یہ آیت) نازل ہوئی لفظ آیت ” وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا “ ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ! کیا ہر سال حج فرض ہے ؟ آپ نے فرمایا اس ذات کی قسم کے قبضے میں میری جان ہے اگر میں ہاں کہہ دیتا تو فرض ہوجاتا تو تم اس حکم کو قائم نہ کرسکتے اور اگر تم اس کو چھوڑ دیتے تو تم کافر ہوجاتے پس مجھے چھوڑ دو (یعنی مجھ سے زیادہ سوال نہ کرو) بلاشبہ تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء سے کثرت سوال کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے اور ان سے اختلاف کرنے کی وجہ سے جب میں تم کو حکم دوں کسی بات کا تو اس حکم کو بجالاؤ جہاں تک تمہاری طاقت ہو اور جب میں تم کو کسی کام سے روکوں تو اس سے رک جاؤ۔ (37) شافعی، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ترمذی، ابن ماجہ، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، ابن عدی، ابن مردویہ اور بیہقی نے اپنی سنن میں حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کے سامنے کھڑا ہوا اور پوچھا حاجی کون ہے ؟ آپ نے فرمایا بکھرے ہوئے بالوں والا اور میل والا پھر دوسرا آدمی کھڑا ہوا اور اس نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ ! کون سا حج افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا جس میں لبیک خوب پکار کر کہی جائے اور خون بہایا جائے (یعنی قربانی کی جائے) پھر تیسرا آدمی کھڑا ہوا اور اس نے پوچھا یا رسول اللہ ! سبیل سے کیا مراد ہے ؟ آپ نے فرمایا زادراہ اور سواری۔ (38) دار قطنی اور حاکم نے اس کو صحیح کہا انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” من استطاع الیہ سبیلا “ کے بارے میں پوچھا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ سبیل کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا زادراہ اور سواری۔ (39) سعید بن منصور، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر، دار قطنی اور بیہقی نے اپنی سنن میں حسن (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے پڑھا ” وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا “ صحابہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! سبیل کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا زادراہ اور سواری۔ (40) دارقطنی اور بیہقی نے اپنی سنن میں (حسن کے طریق سے) اور انہوں نے اپنے والد سے اور ان کے والد نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے پوچھا حج کی طرف راستے کا کیا مطلب ہے ؟ آپ نے فرمایا زادہ راہ اور سواری۔ (41) دارقطنی نے اپنی سنن میں حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے لفظ آیت ” وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا “ کے بارے میں فرمایا (جب) آپ سے پوچھا گیا حج کی طرف راستے کا کیا مطلب ہے ؟ آپ نے فرمایا زادراہ اور سواری۔ (42) دار قطنی نے عمر وبن شعیب (رح) سے روایت کیا اور انہوں نے اپنے باپ دادا سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا سبیل الی البیت سے مراد ہے زاد راہ اور سواری۔ (43) دار قطنی نے جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ جب یہ آیت ” وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا “ نازل ہوئی تو ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ! سبیل سے کیا مراد ہے ؟ آپ نے فرمایا زاد راہ اور سواری۔ (44) دار قطنی نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جب آپ سے پوچھا گیا اس آیت ” وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا “ کے بارے میں تو آپ نے فرمایا جب تو اونٹ کی پیٹھ کو پائے (یعنی سواری کو پائے) ۔ (45) ابن ابی شیبہ وابن جریر نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا “ سے مراد زاد راہ اور اونٹ مراد ہے اور دوسرے لفظ میں سواری مراد ہے۔ (46) ابن ابی شیبہ، ابن جریر اور بیہقی نے اپنی سنن میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” من استطاع الیہ سبیلا “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ ” السبیل “ سے مراد ہے کہ بندے کا بدن صحیح ہو۔ اور اس کے پاس پیسے ہوں سفر خرچ اور سواری کے لیے جبکہ اس کے لیے اسے کوئی پریشانی نہ ہو۔ بیت اللہ پہنچنے کی طاقت ہونا (48) ابن ابی شیبہ عبد بن حمید نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ ” سبیلا “ سے مراد ہے کہ جو شخص وسعت پائے اور (کوئی اور رکاوٹ) اس کے اور حج کے درمیان حائل نہ ہو۔ (49) ابن ابی شیبہ عبد بن حمید اور ابن المنذر نے عبد اللہ بن زبیر ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” من استطاع الیہ سبیلا “ میں ” استطاع “ سے مراد قوت ہے۔ (50) ابن ابی شیبہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا لفظ آیت ” من استطاع الیہ سبیلا “ سے مراد زادہ راہ اور سواری ہے۔ (51) ابن ابی شیبہ وابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر حسن اور عطا (رح) ابراہیم نخعی (رح) سے محرم عورت کے لیے سبیل کے حکم میں ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ (52) حاکم نے اس کو صحیح کہا حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کوئی عورت ایک رات کی مسافت (اکیلی) سفر نہ کرے دوسرے لفظ میں یوں ہے کہ کوئی عورت ایک برید کی مسافت سفر نہ کرے مگر اس کے ساتھ محرم ہو۔ (53) ابن ابی شیبہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ بات ارشاد فرماتے ہوئے سنا کوئی عورت سفر نہ کرے مگر اس کے ساتھ محرم ہو ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہا یا رسول اللہ ! میری بیوی حج کے لیے نکلی ہے جبکہ میں نے فلاں غزوہ میں (اپنا نام) لکھا ہے (یعنی جانے کا ارادہ کیا ہے) آپ نے فرمایا جاؤ اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔ (54) ترمذی ابن جریر ابن ابی حاتم بیہقی نے شعب الایمان میں ابن مردویہ نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص سواری اور سفر خرچ کا مالک ہو جو اس کو بیت اللہ تک پہنچا دے اور پھر حج نہ کرے تو وہ یہودی یا نصرانی ہو کر مرے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ” وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا ومن کفر فان اللہ غنی عن العلمین “۔ (55) سعید بن منصور احمد نے کتاب الایمان میں ابو یعلی اور بیہقی نے ابو امامہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے فرمایا جو شخص مرگیا اور اس نے حج بیت اللہ نہیں کیا حالانکہ اس کو نہیں روکا تھا کسی مرض نے یا کسی ظالم بادشاہ نے یا کسی ظاہری حاجت نے تو جیسا چاہے مرے یہودی ہو کر یا نصرانی ہو کر۔ استطاعت ہوتے ہوئے حج نہ کرنے والا (56) سعید بن منصور نے صحیح سند کے ساتھ حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں نے ارادہ کیا کہ ایک آدمی کو ان شہروں کی طرف بھیجوں تاکہ وہ دیکھیں ہر اس شخص کو جس کے پاس دولت ہو اور وہ حج نہ کرے تو ان پر جزیہ یعنی ٹیکس لگا دیں وہ مسلمان نہیں ہیں وہ مسلمان نہیں ہیں۔ (57) سعید بن منصور وابن ابی شیبہ نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا ہے کہ جو شخص اس حال میں مرگیا کہ وہ مالدار تھا جبکہ اس نے حج نہیں کیا تھا تو وہ جس حالت میں چاہے مرے عیسائی ہو کر مرے یا یہودی ہو کر مرے۔ (58) ابن ابی شیبہ عبد بن حمید ابن ابی حاتم نے مجاہد کے طریق سے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ جو شخص مالدار ہے اور تندرست ہے اور وہ حج نہ کرے تو اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوا ہوگا پھر یہ آیت پڑھی ” ومن کفر فان اللہ غنی عن العلمین “ اور ابن ابی شیبہ کے الفاظ ہیں۔ (59) سعید بن منصور نے نافع کے طریق سے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ جس شخص نے حج کی طرف جانے کی ایک سال طاقت پائی پھر دوسرے سال بھی طاقت پائی اور حج نہیں کیا تو اس پر نماز جنازہ نہ پڑھی جائے یہ نہ جانا جائے گا کہ وہ یہودی ہو کر مرا ہے یا نصرانی ہو کر مرا۔ (60) سعید بن منصور نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا اگر لوگ حج کرنا چھوڑ دیں تو میں ان سے قتال کروں گا جیسا کہ ہم نماز اور زکوٰۃ (چھوڑنے والوں) سے جنگ کرتے ہیں۔ (61) سعید بن منصور نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ اگر لوگ ایک سال حج کو چھوڑ دیں کہ کوئی ایک بھی حج نہ کرے تو وہ اس کے بعد مہلت نہیں دئیے جائیں گے۔ (62) ابن جریر وابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ومن کفر “ سے مراد ہے کہ جس شخص نے یہ خیال کیا کہ اس پر (حج) فرض نہیں ہے (تو اس نے کفر کیا) ۔ (63) ابن جریر وابن المنذر اور بیہقی نے اپنی سنن میں حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ حج کے انکار کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے حج کو نیک کام خیال نہیں کیا اور اس کے ترک کرنے کو گناہ نہ سمجھا۔ (64) سعید بن منصور عبد بن حمید ابن جریر ابن المنذر اور بیہقی نے اپنی سنن میں عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ جب یہ آیت ” ومن یبتغ غیر الاسلام دینا “ نازل ہوئی تو یہودیوں نے کہا ہم مسلمان ہیں نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر بیت اللہ کا حج فرض کیا ہے تو انہوں نے کہا ہم پر فرض نہیں کیا اور حج کرنے سے انکار کردیا اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” ومن کفر فان اللہ غنی عن العلمین “ (یعنی جس نے انکار کیا تو اللہ تعالیٰ جہان والوں سے بےپرواہ ہیں) ۔ (65) عبد بن حمید ابن جریر نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ جب یہ آیت ” ومن یبتغ غیر الاسلام دینا “ نازل ہوئی تو مختلف حلقوں کے لوگوں نے کہا کہ ہم بھی مسلمان ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی لفظ آیت ” وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا ومن کفر فان اللہ غنی عن العلمین “ تو اس پر مسلمانوں نے حج کیا اور کافر بیٹھ گئے (انہوں نے حج نہیں کیا) ۔ (66) عبد بن حمید اور بیہقی نے اپنی سنن میں مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ جب یہ آیت ” ومن یبتغ غیر الاسلام دینا “ نازل ہوئی تو سارے لوگوں نے کہا ہم مسلمان ہیں تو اللہ تعالیٰ نے اتارا ” وللہ علی الناس حج البیت “ یعنی مسلمان پر فرض ہے تو مسلمانون نے حج کیا اور مشرکوں نے چھوڑ دیا۔ حج سے انکار کرنے والا دین اسلام پر نہیں (67) سعید بن منصور وعبد بن حمید ابن جریر ابن المنذر نے ضحاک (رح) وسلم سے روایت کیا ہے کہ جب آیت الحج یعنی لفظ آیت ” وللہ علیہ الناس حج البیت “ نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے سب دین والوں کو جمع فرمایا (یعنی) عرب کے مشرک نصاریٰ یہود مجوس اور صائبین کو اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض فرمایا ہے اللہ کے گھر کا حج کرو سو اس حکم کو کسی نے قبول نہیں کیا سوائے مسلمانوں کے باقی دین والوں نے اس کا انکار کیا اور کہنے لگے نہ ہم اس پر ایمان لاتے ہیں نہ اس کی طرف نماز پڑھتے ہیں اور نہ ہم اس کا استقبال کرتے ہیں تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاردی لفظ آیت ” ومن کفر فان اللہ غنی عن العلمین “ (68) عبد بن حمید وابن جریر نے ابو داود نفیع ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (اور یہ آیت پڑھی) ” وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا ومن کفر فان اللہ غنی عن العلمین “ تو ایک آدمی ہذہل میں سے کھڑا ہوا اور کہا یا رسول اللہ ﷺ ! جو شخص حج کو چھوڑ دے تو اس نے کفر کیا ؟ آپ نے فرمایا جس شخص نے اس کو چھوڑ دیا اور اس کی سزا سے بھی نہ ڈرتا ہو اور جو شخص حج کرے اس کے ثواب کی امید نہ رکھے وہ اسی طرح سے (کافر) ہے۔ (69) ابن جریر وابن ابی حاتم اور بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” ومن کفر “ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد وہ جو شخص جس نے اللہ تعالیٰ کا اور آخرت کے دن کا انکار کیا۔ (70) عبد بن حمید ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ جب ان سے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” ومن کفر فان اللہ غنی عن العلمین “ کے بارے میں پوچھا گیا کہ یہ کفر کیا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کا اور آخرت کے دن کا انکار کرے (71) عبد بن حمید وابن جریر نے عطاء بن ابی رباح (رح) سے اس آیت کے بارے روایت کیا کہ اس سے مراد ہے جو شخص اللہ کے گھر کا انکار کرے۔ (72) ابن جریر نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ جب ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے یہ آیات پڑھیں لفظ آیت ” ان اول بیت وضع للناس “ الی قولہ سبیلا “ پھر فرمایا جس شخص نے ان آیات کا انکار کیا۔ (73) ابن المنذر نے حضرت ابن مسعود ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ جس شخص نے انکار کیا اور ایمان نہ لایا وہ کافر ہے۔ (74) ابن ابی شیبہ نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا ہے کہ اگر میرا ہمسایہ مالدار ہوتا اور حج کئے بغیر مرجائے تو میں اس پر نماز نہیں پڑھوں گا۔ (75) عبد بن حمید نے اعمش (رح) سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے لفظ آیت ” وللہ علی الناس حج البیت “ حاء کے کسرہ کے ساتھ پڑھا۔ (76) ابن ابی شیبہ نے اور حاکم نے اس کو صحیح کہا عاصم بن ابی النجود (رح) نے اس طرح پڑھا ” وللہ علی الناس حج البیت “ حاء کے فتح کے ساتھ۔ (77) ابن ابی شیبہ نے اور حاکم نے اس کو صحیح کہا حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ اقرع بن حابس ؓ نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا کیا حج ہر سال ہے یا ایک مرتبہ (زندگی میں) ؟ تو آپ نے فرمایا نہیں بلکہ ایک مرتبہ اور جس نے ایک سے زیادہ دو مرتبہ حج کیا تو اس نے نفل ادا کیا۔
Top