Tafseer-al-Kitaab - Aal-i-Imraan : 97
فِیْهِ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰهِیْمَ١ۚ۬ وَ مَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا١ؕ وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًا١ؕ وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ
فِيْهِ : اس میں اٰيٰتٌ : نشانیاں بَيِّنٰتٌ : کھلی مَّقَامُ : مقام اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم وَمَنْ : اور جو دَخَلَهٗ : داخل ہوا اس میں كَانَ : ہوگیا اٰمِنًا : امن میں وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے عَلَي : پر النَّاسِ : لوگ حِجُّ الْبَيْتِ : خانہ کعبہ کا حج کرنا مَنِ : جو اسْتَطَاعَ : قدرت رکھتا ہو اِلَيْهِ : اس کی طرف سَبِيْلًا : راہ وَمَنْ : اور جو۔ جس كَفَرَ : کفر کیا فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ غَنِىٌّ : بےنیاز عَنِ : سے الْعٰلَمِيْنَ : جہان والے
اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں۔ (ان میں سے ایک) مقام ابراہیم ہے اور جو کوئی اس گھر میں داخل ہوا (وہ) امن میں آگیا اور اللہ ہی کے لیے ہے لوگوں پر بیت اللہ کا حج کرنا، جو کوئی استطاعت رکھتا ہو اس کی طرف راستے کی اور جو کوئی (اس حکم سے) انکار کرے تو (یاد رکھو) اللہ دنیا جہان سے بےنیاز ہے۔
[37] یعنی ایسی علامات جو اس گھر کے اللہ کی جناب میں قبول ہونے پر دلالت کرتی ہیں اور وہ یہ ہیں : (1) لق و دق صحرا میں بنایا گیا اور پھر اللہ نے اس جگہ کو آباد کردیا اور وہاں کے رہنے والوں کے لئے رزق رسانی کے لئے بہتر سے بہتر انتظام کردیا۔ (2) ڈھائی ہزار برس تک دور جاہلیت میں تمام عرب فتنہ و فساد میں مبتلا رہا۔ صرف خانہ کعبہ اور اسی کے اطراف کا ایک خطہ ایسا تھا جس میں امن قائم رہا بلکہ اسی کعبہ کی یہ برکت تھی کہ سال بھر میں چار مہینے کے لئے پورے ملک میں اسی کی بدولت امن قائم ہوجاتا تھا۔ (3) یمن کی حبشی حکومت کے عیسائی بادشاہ ابرہہ نے اس آیت کے نزول سے صرف پچاس سال قبل جب کعبہ کو ڈھانے کی غرض سے مکہ پر حملہ کیا تو اس کی فوج قہر الٰہی کا شکار ہوئی۔ [38] وہ پتھر جس پر کھڑے ہو کر ابراہیم (علیہ السلام) نے خانہ کعبہ تعمیر کیا تھا اور اللہ کی قدرت سے اس پتھر میں ان کے قدموں کا نشان پڑگیا تھا جو آج تک محفوظ چلا آرہا ہے۔
Top