Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 97
فِیْهِ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰهِیْمَ١ۚ۬ وَ مَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا١ؕ وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًا١ؕ وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ
فِيْهِ : اس میں اٰيٰتٌ : نشانیاں بَيِّنٰتٌ : کھلی مَّقَامُ : مقام اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم وَمَنْ : اور جو دَخَلَهٗ : داخل ہوا اس میں كَانَ : ہوگیا اٰمِنًا : امن میں وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے عَلَي : پر النَّاسِ : لوگ حِجُّ الْبَيْتِ : خانہ کعبہ کا حج کرنا مَنِ : جو اسْتَطَاعَ : قدرت رکھتا ہو اِلَيْهِ : اس کی طرف سَبِيْلًا : راہ وَمَنْ : اور جو۔ جس كَفَرَ : کفر کیا فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ غَنِىٌّ : بےنیاز عَنِ : سے الْعٰلَمِيْنَ : جہان والے
اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں جن میں سے ایک ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے جو شخص اس (مبارک) گھر میں داخل ہوا اس نے امن پا لیا اور لوگوں پر خدا کا حق (یعنی فرض) ہے کہ جو اس گھر تک جانے کا مقدور رکھے وہ اس کا حج کرے اور جو اس حکم کی تعمیل نہ کرے گا تو خدا بھی اہلِ عالم سے بے نیاز ہے
فیہ ایٰت بینات اسی میں (صداقت و حقانیت کی) بکثرت واضح علامات موجود ہیں مثلاً پرندے اس کے اوپر نہیں اڑتے۔ شکاری جانور حرم کے باہر اپنے شکار پر حملہ کرتا ہے لیکن اگر شکار بھاگ کر حرم میں داخل ہوجائے تو درندہ اندر نہیں آتا باہر ہی رک جاتا ہے۔ مقام ابراہیم ان نشانیوں میں سے ایک نشانی مقام ابراہیم ہے یہ ترجمہ اس وقت ہوگا جب مقام ابراہیم کو مبتداء اور خبر کو محذوف قرار دیا جائے لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ مقام ابراہیم کو آیات سے بدل قرار دیا جائے اس وقت ترجمہ اس طرح ہوگا کہ کعبہ کے اندر بکثرت واضح نشانیاں ہیں یعنی مقام ابراہیم ہے وغیرہ وغیرہ مقام ابراہیم وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم نے بیت اللہ کی دیوار اونچی کی تھی اور اس پر آپ کے پاؤں کے نشانات پڑگئے تھے لیکن (حاجیوں کے) ہاتھوں کی رگڑ سے رفتہ رفتہ مٹ گیا پس پتھر کی چٹان پر قدموں کے نشانات پڑجانا اور چٹان کے اندر قدموں کا ٹخنوں تک سما جانا اور پتھر میں اتنا گہرا گڑھا پڑجانا اور آثار انبیاء میں سے صرف اسی اثر کا اتنے زمانہ تک باقی رہنا اور کثرت اعداء کے باوجود ہزاروں برس تک اس کا محفوظ رہنا ان امور میں سے ہر چیز کعبہ کے قبلہ ہونے کی واضح نشانی ہے اس لیے بعض علماء نے مقام ابراہیم کو آیات کا عطف بیان قرار دیا ہے بعض علماء کے نزدیک مقام ابراہیم پورا حرم ہے۔ و من دخلہ کان امنا اور جو حرم میں داخل ہوتا ہے وہ مقتول ہونے اور لوٹے جانے سے بےخوف ہوجاتا ہے یہ جملہ ابتدائیہ ہے یا شرطیہ ہے اور معنوی اعتبار سے مقام ابراہیم پر اس کا عطف ہے یعنی آیات بینات میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ حرم میں داخل ہونے والا مامون ہوجاتا ہے۔ اسلام سے پہلے عرب باہم کشت و خون اور قتل و غارت میں مشغول رہتے تھے لیکن جو شخص حرم میں داخل ہوجاتا تھا اس سے کسی قسم کا تعرض نہیں کرتے تھے حسن قتادہ اور اکثر اہل تفسیر کا قول ہے کہ اسی آیت کی طرح ایک اور آیت ہے فرمایا ہے : اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا جََعَلْنَا حَرَمًا اٰمِنًا وَّ یُتَخَطَّفُ النَّارُ مِنْ حَوْلِھِمْ. امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا : جو شخص حرم کے اندر آجائے وہ امن میں آجاتا ہے اس کو قتل کرنا جائز نہیں۔ پس حرم سے باہر اگر کسی نے کوئی جرم موجب قصاص یا موجب حد کیا ہو اور حرم میں آکر پناہ گیر ہوجائے تو اس سے حرم کے اندر نہ قصاص لیا جائے گا نہ حد جاری کی جائے گی البتہ اس کا کھانا پینا بند کردیا جائے گا اور خریدو فروخت بھی اس سے ترک کردی جائے گی تاکہ مجبور ہو کر وہ حرم سے باہر نکل آئے اور اس کو باہر سزا دی جاسکے حضرت ابن عباس کا بھی یہی قول ہے امام شافعی نے فرمایا : بیرون حرم جرم کرکے حرم میں پناہ لینے والے سے حرم کے اندر بھی قصاص لیا جائے گا۔ لیکن حرم کے اندر کسی نے جرم کیا تو باتفاق علماء حرم کے اندر ہی اس کو سزا دی جائے گی آیت : وَ لَا تُقَاتِلُوْھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الحَرَامِ حَتّٰی یُقَاتِلُوْکُمْ فِیْہ کی تفسیر میں گذر چکا ہے کہ حرم کے اندر مسلمانوں کی طرف سے کافروں کو قتل کرنے کی ابتداء نہ کی جائے اگر کافر مغلوب ہو کر حرم میں داخل ہوجائیں تو ہاتھوں یا تلواروں یا کوڑوں سے مار کر ان کو نکال دیا جائے یا ان کا محاصرہ کرلیا جائے اور (باہر سے) کھانے پینے کی رسد بند کردی جائے تاکہ مجبور ہو کر وہ باہر نکلیں اس وقت ان سے قتال کیا جائے اور اگر کافر خود حرم کے اندرقتال کا آغاز کردیں تو مسلمانوں کے لیے بھی حرم کے اندر ان سے لڑنا جائز ہے۔ پس آیت مذکورۂ بالا اگرچہ صورۃً خبر ہے لیکن حقیقت میں امر ہے مطلب یہ ہے کہ جو حرم میں داخل ہوجائے اس کو امن دو ۔ جیسے آیت : فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ باوجود خبر ہونے کے امر کا حکم رکھتی ہے یعنی حج کے درمیان نہ بیہودہ فحش کلام کرو نہ گناہ۔ بعض علماء نے آیت کا مطلب اس طرح بیان کیا ہے کہ جو شخص حرم کی تعظیم اور اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے اندر داخل ہوگا قیامت کے دن عذاب سے مامون ہوگا۔ ابو داؤد طیالسی نے مسند اور بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت انس کی روایت سے اور طبرانی نے کبیر اور بیہقی نے شعب میں حضرت سلمان کی روایت سے اور طبرانی نے اوسط میں حضرت جابر کی روایت سے اور دار قطنی نے سنن میں حضرت حاطب کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : جو شخص دونوں حرموں میں سے کسی میں مرے گا قیامت کے دن دوزخ سے بےخوف اٹھے گا۔ حارث بن ابی اسامہ نے مسند میں سالم بن عبد اللہ بن عمر ؓ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن میں ابوبکر ؓ و عمر ؓ (کی قبروں) کے درمیان (قبر) سے اٹھایا جاؤں گا پھر بقیع 1 ؂ غرقد کو جاؤں گا اور میرے ساتھ وہ بھی اٹھ کر آئیں گے پھر اہل مکہ کا انتظار کروں گا یہاں تک کہ وہ بھی آجائیں گے پس میری بعثت اہل حرمین کے درمیان ہوگی۔ ابو نعیم نے دلائل النبوۃ میں سالم بن عبد اللہ کے حوالہ سے حضرت عبد اللہ کی یہ روایت موصولاً نقل کی ہے اور خطیب نے بحوالہ نافع حضرت ابن عمر ؓ کی روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : قیامت کے دن میں ابوبکر و عمر ؓ کے درمیان اٹھایا جاؤں گا یہاں تک کہ اہل حرمین کے درمیان جا کر کھڑا ہوں گا اور مدینہ و مکہ والے (وہاں میرے پاس) آئیں گے۔ و اللہ علی الناس اور لوگوں پر اللہ کا فرض ہے اور اس کی طرف سے لازم ہے الناس سے مراد ہیں وہ لوگ جو آزاد ہوں، ہوشمند ہوں اور بالغ ہوں بچوں اور دیوانوں پر حج فرض نہیں کیونکہ ان میں مخاطب ہونے کی اہلیت ہی نہیں ہے نہ غلاموں پر فرض ہے یہ فیصلہ اجماعی ہے پس اگر کسی کافر نے یا ہو شیار بچہ نے یا غلام نے حج کیا تو بالاجماع کافر پر مسلمان ہونے کے بعد اور بچہ پر بالغ ہونے کے بعد اور غلام پر آزاد ہونے کے بعد حج دوبارہ واجب ہے (سابق ادائیگی کافی نہیں ہوگی) حضرت ابن عباس کی روایت کردہ حدیث اس کی دلیل ہے کہ جس بچہ نے حج کرلیا ہو پھر بالغ ہوگیا ہو تو اس پر دوسرا حج کرنا لازم ہے اور (جو غیر مسلم) دیہاتی حج کرچکا ہو پھر (مسلمان ہو کر) اس نے ہجرت کی ہو اس پر بھی دوسرا حج کرنا واجب ہے اور جو غلام حج کرچکا ہو پھر آزاد کردیا گیا ہو تو اس پر بھی دوسرا حج کرنا فرض ہے۔ (رواہ الحاکم) دیہاتی سے غیر مسلم دیہاتی مراد ہے کیونکہ عرب کے مشرک بھی حج کیا کرتے تھے حاکم نے اس حدیث کو شرط شیخین 2 ؂ کے مطابق کہا ہے ابن ابی شیبہ نے بھی یہ حدیث (مصنف میں) ذکر کی ہے اور محمد بن کعب قرظی کی روایت سے ابو داؤد نے اس کو مرسلاً ذکر کیا ہے حضرت جابر ؓ سے بھی یہ حدیث مروی ہے مگر اس کی سند ضعیف ہے ان احادیث کو امت اسلامیہ نے قبول کیا ہے اور ان کے مضامین پر اجماع امت ہے اس لیے آیت کے عموم کی تخصیص ان احادیث سے جائز ہے 1 ؂۔ حج البیت کعبہ کا حج۔ ابو جعفر، حمزہ، کسائی اور حفص کی قراءت میں حج بکسر حاء آیا ہے باقی قاریوں نے حج بفتح حاء پڑھا ہے کسر حاء اہل نجد کے محاورہ میں اور فتح حاء اہل حجاز کے محاورہ میں ہے معنی دونوں کا ایک ہی ہے صاحب مدارک نے لکھا ہے کہ بکسر حاء اسم ہے اور بفتح حاء مصدر۔ حج کا لغوی معنی ہے قصد کرنا اس جگہ ایک مخصوص عبادت مراد ہے یہ لفظ اس جگہ مجمل ہے لیکن رسول اللہ کے فعل اور دوسری آیات میں اس کا (تفصیلی) بیان موجود ہے۔ اللہ نے فرمایا ہے : ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاض النَّاس ایک اور آیت میں آیا ہے : وَ لْیَطَّوَّفُوْا بالْبَیْتِ العَتِیْقِ (پہلی آیت میں عرفات سے روانگی کا بیان ہے اور دوسری آیت میں طواف کعبہ کا حکم ہے) مسئلہ : اجماع امت ہے کہ حج ارکان اسلام میں سے ایک رکن اور فرض عین ہے حضرت ابن عمر کی روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : اسلام کی (عمارت کی) بنا پر پانچ امور پر ہے لا الہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ کا اقرار اور نماز ٹھیک ٹھیک ادا کرنا اور زکوٰۃ دینا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔ (صحیح بخاری و مسلم) فرضیت حج کے متعلق احادیث بکثرت آئی ہیں۔ (1) [ حضرت عمر ؓ نے فرمایا تھا اگر لوگ حج کو چھوڑ دیں میں ان سے جہاد کروں گا جیسے نماز اور زکوٰۃ کے سلسلہ میں ہم جہاد کرتے ہیں۔ (از مولف)] من استطاع الیہ سبیلا یعنی ان لوگوں پر جو کعبہ تک پہنچنے کی استطاع رکھتے ہوں۔ یہ جملہ الناس سے بدل ہے اس لیے جو مستطیع نہ ہو اس پر حج فرض نہیں۔ سبیلاً سے مراد ہے راستہ پر چلنا سبیلاً کی طرف استطاع کی نسبت مجازی ہے جیسے : جَرَی النَّھْرُ میں نہر کی طرف نسبت مجازی ہے (کیونکہ بہنے والی چیز پانی ہے نہر یعنی گڑھا جس میں پانی بہتا ہے خود نہیں بہتا) چونکہ حج کی فرضیت صرف اہل استطاعت پر ہے۔ اس لیے علماء کا اتفاق ہے کہ وجوب حج کے لیے راستہ کا پر امن ہونا لازم ہے اور راستہ میں جو فرودگاہیں ہوں ان میں کھانا پانی ملنا بھی ضروری ہے خطرۂ راہ کی صورت میں حج فرض نہیں۔ اگر راستہ میں سمندر پڑتا ہو اور اکثر سلامتی کے ساتھ سمندری راستہ طے ہوجاتا ہو تو حج واجب ہوگا صرف سمندر کا درمیان میں ہونا وجوب حج سے مانع نہیں ہے۔ (2)[ فتاوی قاضی خان میں امام ابوحنیفہ کا مذہب یہ منقول ہے کہ سمندر حائل ہو تو راستہ کو غیر مامون قرار دیا جائے گا یعنی حج فرض نہیں ہوگا، جیحون، سیحون، دجلہ، فرات دریا ہیں سمندر نہیں ہیں۔ مولف ] امام شافعی (رح) کا ایک قول اس کے خلاف ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور امام مالک (رح) کے نزدیک جسمانی صحت بھی شرط ہے۔ (زیادہ) ضعیف اور پاؤں سے معذور شخص پر حج واجب نہیں خواہ وہ مال خرچ کرکے اپنے قائم مقام دوسرے کو بھیج سکتا ہو کیونکہ وہ خود اہل استطاعت نہیں اور حج ایک بدنی عبادت ہے اور بدنی عبادت کا مقصود ہوتا ہے خود تکلیف اٹھانا، نائب کو اپنی جگہ بھیجنے سے اس عبادت کا اصل مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ امام شافعی اور امام احمد (کے نزدیک بدنی صحت شرط نہیں ہے اس لیے ان) کے نزدیک معذور، لنگڑا اور کمزور شخص اہل استطاعت ہے یعنی اس کو مالی استطاعت حاصل ہے۔ بغوی نے (اس قول کی تائید میں) لکھا ہے کہ محاورہ میں بولا جاتا ہے۔ زید اپنا مکان بنانے کی استطاعت رکھتا ہے یعنی مال خرچ کرکے مکان بنوا سکتا ہے خواہ خود اپنے ہاتھ سے تعمیر نہ کرسکتا ہو۔ ہم کہتے ہیں کہ ایسا شخص حج کی استطاعت نہیں رکھتا یعنی حج کے خاص ارکان خود ادا نہیں کرسکتا خواہ مال خرچ کرکے دوسرے سے کراسکتا ہو۔ حج کو مکان کی تعمیر پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ حج بدنی عبادت ہے اور مکان کی تعمیر کا مقصد خود تعمیر کرنا نہیں ہوتا۔ شافعی اور احمد نے اپنے قول کی دلیل میں حضرت ابن عباس کی روایت پیش کی ہے کہ فضل (بن عباس ؓ حضور اقدس کے ردیف تھے خاندان خثعم کی ایک عورت آئی فضل اس کی طرف دیکھنے لگے وہ بھی فضل کی طرف دیکھنے لگی۔ رسول اللہ نے فضل کا منہ دوسری طرف موڑ دیا اس عورت نے عرض کیا یا رسول اللہ اللہ کا فریضہ حج میرے باپ پر اس وقت آیا جبکہ وہ بہت بڑا بوڑھا ہے کجاوہ میں سنبھل کر بیٹھ بھی نہیں سکتا کیا میں اس کی طرف سے حج کرلوں ؟ فرمایا : ہاں۔ دوسری روایت میں آیا ہے کہ وہ ٹھیک سے کجاوہ میں بیٹھ بھی نہیں سکتا تو کیا اگر میں اس کی طرف سے حج کرلوں تو ادا ہوجائے گا ؟ فرمایا : ہاں ! یہ واقعہ حج وداع کا ہے۔ (صحیح بخاری و مسلم) جواب : یہ حدیث آحاد ہے کتاب اللہ کی قائم کی ہوئی استطاعت کی شرط حدیث احاد سے منسوخ نہیں کی جاسکتی۔ جواب کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اللہ کا فریضہ حج جس کی فرضیت کتاب اللہ میں بشرط استطاعت آئی ہے میرے باپ پر ایسی حالت میں آیا ہے کہ وہ استطاعت نہیں رکھتا تو کیا میں اس کی طرف سے حج کرلوں یعنی کیا میرے لیے اس کی طرف سے حج کرنا جائز ہے یا یہ مطلب ہے کہ کیا میرے حج کرنے سے اس کو ثواب اور نفع ہوگا ؟ حضور ﷺ نے فرمایا : (یعنی اگرچہ اس پر حج فرض نہیں ہے مگر تمہارے حج کرنے سے اس کو فائدہ ضرور ہوگا) ۔ اعتراض : بعض روایات میں یہ لفظ بھی آیا ہے کہ حج اس پر فرض ہے۔ جواب : اگر یہ الفاظ پایہ ثبوت تک پہنچ جائیں تو ان سے اس عورت کے خیال کا اظہار ہوتا ہے (کہ وہ اپنے نزدیک یہی سمجھی تھی کہ بوڑھے باپ پر بھی حج فرض ہے) ۔ اعتراض : رسول اللہ نے اس کو جواب دیا اگر اس کا خیال صحیح نہ ہوتا تو حضور ﷺ بیان فرمادیتے (کہ تیرا خیال غلط ہے تیرے باپ پر اس حالت میں حج فرض ہی نہیں ہے) اس اعتراض کا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ حضور ﷺ نے جواب اس کے سوال کا دیا تھا اس نے حج کرنے کے متعلق پوچھا تھا۔ حضور ﷺ نے ہاں فرما دیا یعنی اس کی طرف سے تو حج کرلے کیونکہ حضور نے محسوس فرما لیا تھا کہ اس عورت کے دل میں اپنے باپ کو نفع اور ثواب پہنچانے کا بڑا شوق ہے اس مطلب کی تائید حضرت ابن عباس کی اس روایت سے ہوتی ہے جس کو عبد الرزاق نے بیان کیا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا تھا اپنے باپ کی طرف سے حج کرلے اگر تو اس کی بھلائی میں اضافہ نہیں کر پائے گی تو برائی میں بھی زیادتی نہیں کر یگی۔ لیکن حفاظ حدیث نے اس روایت کو شاذ کہا ہے (اور شاذ ناقابل استدلال ہے) ۔ اولٰی جواب یہ ہے کہ حدیث مذکور کو اس صورت پر محمول کیا جائے کہ حالت صحت میں حج فرض ہوا ہو اور اداء فرض سے پہلے اس پر کمزوری کا دور آجائے یا پاؤں سے معذور ہوجائے ایسے شخص سے فریضہ حج ساقط نہیں ہوتا جب تک اس کی زندگی میں اس کے مال سے کوئی دوسرا شخص اس کی طرف سے حج نہ کرے یا مرنے کے وقت حج کی وصیت نہ کردے بغیر حج کئے مرجائے تو اس کا وارث اس کی طرف سے حج کرلے یا کسی غیر کو مال دے کر اس کی طرف سے حج کرادے۔ پس کسی کی طرف سے حج فرض کرنا قضائے حج ضرور ہے مگر بمثل غیر معقول (یعنی خلاف قیاس) مگر اس حدیث میں اس کا حکم آگیا ہے (لہٰذا خلاف قیاس بھی مانا جائے گا) جیسے پیرنا کا رہ کے حق روزہ کا فدیہ کتاب اللہ کی صراحت سے ثابت ہے (اور خلاف قیاس ہے مگر واجب التسلیم) حج کی فرضیت حدیبیہ کے سال یعنی 6 ھ میں ہوئی تھی۔ اللہ نے فرمایا تھا : وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ ﷲِ اور حدیث والا قصہ حجۃ الوداع کا ہے اس لیے ہوسکتا ہے کہ اس عورت کا باپ 6 ھ کے بعد حج وداع سے پہلے ضعیف ہوگیا ہو، وا اللہ اعلم۔ امام صاحب (رح) کے نزدیک وجوب حج کے لیے بینائی بھی شرط ہے نابینا پر حج واجب نہیں ہے خواہ رہبر اس کے پاس موجود ہو کیونکہ وہ خود اہل استطاعت نہیں ہے اور دوسرے کے سہارے سے استطاعت قابل اعتبار نہیں ہے۔ امام ابو یوسف، امام محمد اور جمہور کے نزدیک نابینا پر حج فرض ہے بشرطیکہ اس کے پاس رہبر موجود ہو۔ وجوب جمعہ میں بھی یہی اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک عورت پر ادائیگی حج اس وقت واجب ہوتی ہے جب اس کے ساتھ اس کا شوہر یا کوئی دوسرا محرم ہو اور مکہ تک جانے میں تین منزل کا فاصلہ ہو۔ امام احمد کے نزدیک مسافت کی قلت و کثرت کا اعتبار نہیں بہر صورت بغیر محرم کے عورت پر وجوب حج ہوتا ہی نہیں۔ اس لیے اگر محرم موجود نہ ہو یا محرم اس کے ساتھ نہ جائے یا اتنی اجرت مانگتا ہو کہ عورت ادا کرنے پر قادر نہ ہو تو حج واجب نہیں۔ کیونکہ شرعاً عورت کو بغیر شوہر یا محرم کے سفر کرنے کی ممانعت کردی گئی ہے اور جس چیز کی شرعاً ممانعت کردی گئی ہے وہ غیر موجود کے حکم میں ہے تو گویا بغیر محرم کے عورت کو صاحب استطاعت ہی نہیں سمجھا جائے گا۔ امام صاحب کے قول کی دلیل وہ حدیث ہے جو حضرت ابن عمر ؓ کی روایت سے آئی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ عورت بغیر محرم کے تین منزل پر سفر نہ کرے۔ (صحیح بخاری ومسلم) مسلم کی روایت میں آیا ہے کہ جو عورت اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتی ہے وہ تین رات کا سفر بغیر محرم کے نہ کرے۔ دوسری روایت میں تین رات سے زائد کا لفظ آیا ہے۔ تین رات کے لفظ والی حدیث حضرت ابوہریرہ ؓ سے بھی مروی ہے جس کو مسلم اور طحاوی نے نقل کیا ہے تین رات سے زائد کا لفظ طحاوی کی روایت میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے بھی منقول ہے۔ عمرو بن شعیب کے دادا کی روایت میں تین دن کا لفظ طحاوی نے نقل کیا ہے حضرت ابو سعید خدری کی روایت میں ہے تین دن یا زائد کا فاصلہ یہ روایت مسلم اور طحاوی نے نقل کی ہے مسلم کی روایت میں تین رات سے اوپر یا زائد کا لفظ ہے۔ امام احمد نے فرمایا : تین رات یا تین رات سے زائد کی شرط محض اتفاقی ہے (تعیین مدت مقصود نہیں ہے) پھر امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک تو مفہوم مخالف معتبر بھی نہیں ہے کہ اگر تین دن کی مسافت نہ ہو تو بغیر محرم کے عورت کا سفر جائز ہوجائے اگر شرط کو ضروری قرار دیا جائے گا اور اتفاقی نہ مانا جائے گا تو پھر احادیث میں (ناقابل ازالہ) تعارض ہوگا تین اور تین سے زیادہ والی روایات میں توافق نہ ہو سکے گا۔ امام احمد جو تین روز کی مسافت سے کم سفر کو بھی عورت کے لیے بغیر محرم کے ممنوع قرار دیتے ہیں ان کے اس قول کا ثبوت حضرت ابوہریرہ کی اس روایت سے ہوتا ہے جو صحیحین میں مذکور ہے اور اس میں ایک دن رات کی مسافت کی صراحت ہے مسلم کی ایک روایت میں فاصلہ یک یوم اور دوسری روایت میں مسافت یک شب مذکور ہے اور حضرت ابو سعید خدری کی روایت میں حسب ذکر مسلم مسافت دو روز اور حسب روایت طحاوی فاصلہ دو شب مذکور ہے۔ ابو داؤد اور طحاوی نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے حدیث نقل کی ہے کہ سوائے شوہر یا کسی محرم کی ہمراہی کے عورت ایک منزل سفر نہ کرے۔ ابن حبان نے اس حدیث کو اپنی صحیح میں نقل کیا ہے اور حاکم نے نقل کرنے کے بعد شرط مسلم کے موافق کہا ہے اور طبرانی نے معجم میں تین میل کے لفظ کی صراحت کی ہے۔ ان مختلف روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک دن یا دو دن یا تین دن کی شرط صرف تمثیلی ہے (عدد معین مراد نہیں ہے) قلیل ترین تعداد مراد ہے ایک دن تو کم ترین ابتدائی عدد ہوتا ہی ہے اور برید اکثر ایک ہی منزل ہوتا ہے دو سے کثرت شروع ہوتی ہے اور تین جمع کا اوّل مرتبہ ہے بعض احادیث میں بلاشرط ممانعت آئی ہے حضرت ابن عباس کی روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : بغیر محرم کے عورت سفر نہ کرے اور عورت کے پاس کوئی (اجنبی) شخص اس وقت تک نہ داخل نہ ہو جب تک کہ عورت کے پاس اس کا کوئی محرم نہ ہو۔ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ میں فلاں جہاد میں جانا چاہتا ہوں اور میری بیوی حج کرنا چاہتی ہے فرمایا : تم اس کے ساتھ چلے جاؤ۔ (صحیح بخاری ومسلم) اس سلسلہ کی حدیث حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابوہریرہ کی روایت سے بھی آئی ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ معتمد عورتوں کے ساتھ عورت حج کو جاسکتی ہے دوسرے قول میں کہ کسی ایک معتمد عورت کے ساتھ جاسکتی ہے لیکن جن معتمد عورتوں کے ساتھ جائے ان میں سے کسی ایک کا محرم مرد اس کے ساتھ ہونا چاہئے منہاج میں (یہ شرط مذکور نہیں ہے) بلکہ اس کا شرط نہ ہونا مذکور ہے ایک روایت میں امام شافعی (رح) کا قول اس طرح آیا ہے کہ بغیر (معتمد) عورتوں کے بھی عورت حج کو جاسکتی ہے۔ امام مالک (رح) نے فرمایا : اگر راستہ بےخطر ہو تو عورتوں کی جماعت (بغیر مرد کے) بھی حج کو جاسکتی ہے ان دونوں اماموں کے قول کے خلاف ہماری دلیل وہ حدیث ہے جس کا ذکر ہم اوپر کر آئے ہیں۔ استطاعت سے مراد سفر کی ایسی استطاعت ہے جس کی موجودگی میں حج کو جانے سے کوئی خرابی نہ پیدا ہو اسی لیے جمہور کے نزدیک دیگر لوازم سفر کی فراہمی کے علاوہ زاد راہ اور سواری ہونا استطاعت کے لیے ضروری ہے اور یہ بھی لازم ہے کہ قرض دار نہ ہو اور بیوی، بچوں کے مصارف واپسی تک کے دے چکا ہو کیونکہ جو مالدار اصلی ضروریات کی فراہمی میں مشغول ہو وہ نادار کی طرح ہوتا ہے اسی لیے اس کے مال پر زکوٰۃ واجب نہیں جس کے پاس زاد راہ یا سواری نہ ہو وہ عموماً سفر کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا اور شریعت میں ہر قسم کی تنگی دفع کردی گئی ہے۔ (یعنی شریعت نے کسی پر تنگی نہیں کی ہے) ۔ (3) [ اگر کوئی غیر مکی نادار ہو اور اس کی اولاد اپنی طرف سے اس کے زاد راہ اور سواری کا انتظام کردے تو اس سے یہ شخص صاحب استطاعت نہیں سمجھا جاتا۔ امام شافعی کا قول اس کے خلاف ہے لیکن اگر زاد راہ اور سواری کا انتظام کرنے و الا کوئی ٰگر شخص ہوتا اس میں امام شافعی کے دو قول ہیں، مثب اور منفی، بعض روایات میں آیا ہے کہ غیر ہونے کی حالت میں امام شافعی عدم استطاعت کے قائل ہیں اور اولاد ہونے کی صورت میں امام شافعی کے دو قول ہیں۔ (فتاوی قاضی خان) ] داؤد (رح) ظاہری کے نزدیک وجوب حج کے لیے نہ زاد راہ ضروری نہ سواری۔ امام مالک نے فرمایا : اگر یہ شخص مانگنے کا عادی ہو یا راستہ میں کمائی کرسکتا ہو تو اس کے لیے زاد راہ کی شرط نہیں ہے اور اگر پیدل چلنے پر قادر ہو تو سواری کی شرط نہیں ہے اللہ نے فرمایا ہے : وَ اَذِّنْ فِی النَّاس بالْحَجِّ یَاتُوْکَ رِجَالًا وَ عَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَاتِیْن مِنْ کُلِّ فَجِّ عَمِیْقٍ. ہم کہتے ہیں کہ یَا تُوْکَ ایک واقعہ کی خبر اور امر کا جواب ہے اور جو خبر امر کے جواب میں آتی ہے وہ امر کے حکم میں نہیں ہوتی اس لیے آیت سے بلا سواری حج کا وجوب ثابت نہیں ہوتا۔ رہا پیدل چلنے کی قدرت کا مسئلہ تو چلنے کی قدرت ایک پوشیدہ امر ہے کبھی راستہ میں یہ قدرت جاتی رہتی ہے اس لیے شروع ہی سے زاد راہ اور سواری ہونا لازم ہے تاکہ انجام میں ہلاکت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ شرعی احکام عمومی ہوتے ہیں 2 ؂۔ دیکھو بادشاہ کو سفر میں کوئی تکلیف نہیں ہوتی لیکن اس کے لیے بھی مسافت سفر میں نماز کا قصر اور روزہ نہ رکھنا جائز ہے اور مسافت سفر سے کم اور اس کے لیے بھی روزہ کا ترک جائز نہیں جس کو روزہ رکھنے سے تکلیف ہوتی ہو۔ جمہور کے قول کا ثبوت حضرت انس کی روایت کردہ حدیث ہے کہ رسول اللہ نے آیت : من استطاع الیہ سبیلا کی تفسیر میں فرمایا : کہ سبیل (سے مراد) زاد و سواری۔ یہ حدیث دار قطنی ‘ بیہقی اور حاکم نے حضرت انس کی روایت سے بیان کی ہے حاکم نے اس کو شرط شیخین کے موافق صحیح کہا ہے نیز حضرت حماد بن سلمہ کی روایت سے بھی حاکم نے نقل کی ہے اور شر ط مسلم کے مطابق صحیح قرار دیا ہے اور سعید بن منصور نے سنن میں مرسلاً مختلف طریقوں سے حسن بصری کی روایت سے بیان کیا ہے۔ حضرت ابن عمر کی روایت ہے جس کو امام شافعی ترمذی، ابن ماجہ اور دار قطنی نے بیان کیا ہے کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ حج کو واجب کرنے والی کیا چیزیں ہیں ؟ فرمایا : زاد اور سواری۔ ترمذی نے اس سلسلے کو حسن کہا ہے لیکن اس سلسلہ میں ابراہیم بن یزید جوزی ہے جو امام احمد و نسائی کے نزدیک متروک الحدیث ہے۔ ابن ماجہ اور دار قطنی نے حضرت ابن عباس کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : زاد و سواری یعنی اس آیت کی تفسیر میں (استطاعت سبیل کی تشریح کرتے ہوئے) فرمایا : زاد و سواری مگر اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ دار قطنی نے اس حدیث کی روایت کی نسبت حضرت جابر بن عبد اللہ، حضرت علی، حضرت ابن مسعود، حضرت عائشہ اور عمرو بن شعیب کے دادا کی طرف بھی کی ہے مگر یہ سب طریقے ضعیف ہیں۔ حج میں توشہ ساتھ لینا واجب ہے کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے : وَ تَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّاد التَّقْوٰی اور توشہ لے لیا کرو اور بہترین توشہ سوال سے بچا رہنا ہے۔ بخاری وغیرہ نے حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ اہل یمن بغیر توشہ ساتھ لیے حج کرنے پر چل دیتے تھے اور کہتے تھے ہم متوکل ہیں لیکن جب مکہ میں پہنچتے تھے تو لوگوں سے بھیک مانگتے تھے اس پر آیت و تزودوا کا نزول ہوا۔ (4) [ فتاویٰ قاضی خاں میں ہے کہ بعض علماء نے کہا اگر کوئی تاجر جس کا گذران تجارت سے ہوتا ہے اتنے مال کا مالک ہو کہ جانے آنے کے لیے زاد راہ اور سواری کا انتظارم کرلے اور واپسی کے وقت تک اہل و عیال کے لیے ضروری مصارف بھی فراہم کردے اور پھر واپسی کے بعد اس کے پاس اتنا مال بھی رہ جائے کہ تجارت کرسکے تو اس پر حج فرض ہوگا ورنہ نہیں ہوگا اگر کوئی جائیداد والا کچھ جائیداد بیچ کر زاد راہ اور سواری اور بیوی بچوں کے گذار کا سامان فراہم کرسکتا ہو اور پھر بھی اس کے پاس اتنی جائیداد رہ جائے کہ اس کی آمدنی سے گذارا کرسکتا ہو تو اس پر حج فرض ہے ورنہ نہیں اگر کوئی کاشتکار اد راہ اور سوار اور بیوی بچوں کے گذاران کی فراہمی کے بعد ریل پیل اور دوسرے آلات کشاورزی باقی رکھتا ہو کہ واپس آکر کھیتی کرسکے تو اس پر حج فرض ہے ورنہ نہیں ] و من کفر اور جس نے فرضیت حج کا انکار کیا حضرت ابن عباس، حسن بصری اور عطا خراسانی نے اس لفظ کی یہی تفسیر کی ہے۔ عبد بن حمید نے اپنی تفسیر میں نقیع کی روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ نے یہ آیت تلاوت فرمائی تو قبیلہ ہذیل کے ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ جس نے حج کو ترک کردیا وہ کافر ہوگیا۔ فرمایا : جس نے (اس طرح) حج کو ترک کردیا کہ اس کو نہ ترک حج کے عذاب کا خوف رہا نہ ادائے حج کے ثواب کی امید (وہ کافر ہوگیا) نقیع تابعی ہے اسلئے یہ حدیث مرسل ہے۔ سعید بن مسیب نے فرمایا : اس آیت کا نزول یہودیوں کے حق میں ہوا تھا جنہوں نے کہا تھا کہ مکہ کا حج کرنا واجب نہیں ہے۔ سعید بن منصور اور ابن جریر نے ضحاک کا قول بیان کیا ہے کہ جب شروع آیت : وَ ﷲِ عَلَی النَّاس حج البیت نازل ہوئی تو رسول اللہ نے مختلف مذاہب والوں کو جمع کرکے ایک تقریر کی اور فرمایا : کہ اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے اس لیے تم حج کرو۔ یہ سن کر ایک مذہب والوں نے تو اس حکم کو مان لیا یعنی مسلمانوں نے اور پانچ مذاہب والوں نے ماننے سے انکار کردیا یعنی یہودیوں نے، عیسائیوں نے، مشرکوں نے، صابیوں نے، مجوسیوں نے نہ مانا اور اس پر اللہ نے نازل فرمایا : وَ مَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللہ غَنِیٌّ عَنِ الْعَالَمِیْنَ سعید بن منصور نے عکرمہ کا قول بیان کیا کہ جب آیت : و من یبتغ غیر الاسلام دینا۔۔ نازل ہوئی تو یہودیوں نے کہا ہم تو مسلمان ہیں رسول اللہ نے ان سے فرمایا : کہ اللہ نے مسلمانوں پر حج فرض کیا ہے یہودیوں نے حج کرنے سے انکار کردیا اور کہنے لگے ہم پر حج فرض نہیں کیا گیا اس پر اللہ نے آیت : و من کفر۔۔ نازل فرمائی۔ (حج در حقیقت وسعت مال اور صحت جسمانی کا عملی شکریہ ہے) پس حج نہ کرنے کا معنی ہوا خدا داد مال و صحت کا شکریہ ادا نہ کرنا یہی کفران نعمت ہے 2 ؂۔ اوّل صورت میں کفر کرنے کا معنی ہے حج نہ کرنا حج نہ کرنے کی تعبیر کفر سے وجوب حج کو پختہ کرنے اور تارک حج کو سخت تنبیہ کرنے کے لیے کی۔ یہ دونوں معنی حضرت ابو امامہ کی روایت کردہ حدیث میں مراد ہوسکتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : جس کو کھلی ہوئی احتیاج یا روک دینے والا مرض یا ظالم بادشاہ حج سے روکنے والا نہ ہو اور اس پر بھی وہ حج نہ کرے تو چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر (ا اللہ کو اس کی پرواہ نہیں) یہ روایت دارمی نے مسند میں اور بغوی نے اور ابن جوزی نے موضوعات میں ذکر کی ہے۔ حفاظ حدیث نے اس حدیث پر نکتہ چینی کی ہے۔ حضرت علی کی حدیث ہے کہ جو شخص زاد راہ اور سواری ایسی رکھتا ہو کہ بیت اللہ تک پہنچ سکے اور حج نہ کرے تو بعید نہیں کہ یہودی اور عیسائی ہونے کی حالت میں مرے۔ (رواہ الترمذی وضعفہ) فان اللہ غنی عن العالمین تو بلاشبہ اللہ سارے جہان سے بےنیاز ہے (اس کو کسی کی عبادت کی ضرورت نہیں جو کرے گا اپنے لیے کرے گا۔ ) آیت : وَ ﷲِ علی الناس سے عن العالمین تک حکم حج کو مندرجہ ذیل وجوہ کی بنا پر تاکید کے ساتھ بیان کر رہی ہے : (1) امر وجوبی کی تعبیر صیغہ خبر سے کی گئی۔ (2) امر کو جملہ اسمیہ کی صورت میں ظاہر کیا۔ (3) اللہ کا وجوبی حق ہونا بیان کیا۔ (4) اوّل عمومی حکم دیا (اور فرمایا : وَ اللہ علی الناس حج البیت پھر حکم کو ایک شرط کے ساتھ مخصوص کردیا اور فرمایا : من استطاع الیہ سبیلاً ) گویا ابہام کے بعد وضاحت کی اور دو بار حکم دیا (ایک بار مبہم دوسری بار واضح) ۔ (5) ترک حج کو کفر فرمایا : گویا یہ کافروں کا فعل ہے۔ (6) اپنا استغنا ظاہر کیا اور اس جگہ استغناء کا ذکر نفرت اور بغض پر دلالت کر رہا ہے ( گویا مستغنی ہونے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تارک حج سے نفرت اور بغض کرتا ہے۔ (7) لفظ اللہ کو دوبارہ ذکر کیا اور ضمیر ذکر نہیں کی تاکہ تارک حج کی طرف سے اللہ کا استغنا بصورت تعمیم مدال طور پر ظاہر ہوجائے اور اللہ کا انتہائی غضب معلوم ہوجائے۔ حج البیت میں حج کی اضافت بیت کی جانب بتارہی ہے کہ کعبہ وجوب حج کا سبب ہے اور چونکہ کعبہ متعدد نہیں اسلئے عمر میں حج کا وجوب بھی بار بار نہیں ہوتا۔ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا ہے حج (فرض) ایک بار ہے جو زیاہ کرے تو نفل ہوگا۔ (رواہ احمد والنسائی) کعبہ نام کسی خاص چھت یا پتھر مٹی کی دیواروں کا نہیں ہے۔ پتھر مٹی کو اٹھا کر کہیں دوسری جگہ ڈال دیا جائے تو کعبہ منتقل نہیں ہوجائے گا اگر اس مصالحہ سے کسی دوسری جگہ کوئی عمارت بنا دی جائے تو وہ قبلہ سجود نہ بن جائے گی بلکہ کعبہ ایک ربانی لطیفہ ہے جس کی فرو دگاہ ایک موہوم مکان ہے جہاں تجلیات ذاتیہ کی بارش ہوتی ہے پس ظاہر کعبہ اگرچہ مخلوق ہے اور اس کا تعلق عالم خلق سے ہے مگر حقیقت میں کعبہ ایک باطنی نسبت ہے جس کا ادراک نہ حس کرسکتی ہے نہ خیال بلکہ محسوس (ظاہری) ہونے کے باوجود وہ محسوس نہیں ہے اور جہت مخصوصہ میں ہونے کے باوجود اس کی کوئی جہت نہیں۔ یہ ظاہر کعبہ کی شان ہے۔ رہی کعبہ کی حقیقت تو وہ کون جانے پاک ہے وہ ذات جس نے ممکنات کو وجوب کا آئینہ (اور پرتو گاہ) بنایا اور عدم (ذاتی) کو وجوب و وجود کا مظہر قرار دیا۔ پھر کعبہ کی حقیقت سے بالا حقیقت قرآن ہے۔ (جو مخلوق بھی نہیں ہے) اور حقیقت قرآن سے بالا تر نماز کی حقیقت ہے اور اس مقام پر پہنچ کر سالک کی سیر بوساطت پیغمبر ختم ہوجاتی ہے اور فنا وبقاء کا مقام آتا ہے اور اس سے بھی اوپر خالص معبودیت (الوہیت) کا مقام ہے جس کی سیر صرف نظری ہی ہوسکتی ہے (سلوکی نہیں ہوسکتی) وا اللہ اعلم۔
Top