Ahsan-ut-Tafaseer - Aal-i-Imraan : 97
فِیْهِ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰهِیْمَ١ۚ۬ وَ مَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا١ؕ وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًا١ؕ وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ
فِيْهِ : اس میں اٰيٰتٌ : نشانیاں بَيِّنٰتٌ : کھلی مَّقَامُ : مقام اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم وَمَنْ : اور جو دَخَلَهٗ : داخل ہوا اس میں كَانَ : ہوگیا اٰمِنًا : امن میں وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے عَلَي : پر النَّاسِ : لوگ حِجُّ الْبَيْتِ : خانہ کعبہ کا حج کرنا مَنِ : جو اسْتَطَاعَ : قدرت رکھتا ہو اِلَيْهِ : اس کی طرف سَبِيْلًا : راہ وَمَنْ : اور جو۔ جس كَفَرَ : کفر کیا فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ غَنِىٌّ : بےنیاز عَنِ : سے الْعٰلَمِيْنَ : جہان والے
اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں جن میں سے ایک ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے۔ جو شخص اس (مبارک) گھر میں داخل ہوا اس نے امن پالیا۔ اور لوگوں پر خدا کا حق (یعنی فرض) ہے کہ جو اس گھر تک جانے کا مقدور رکھے وہ اس کا حج کرے اور جو اس حکم کی تعمیل نہ کرے گا تو خدا بھی اہل عالم سے بےنیاز ہے
سنن سعید منصور میں عکرمہ سے روایت ہے کہ بنی اسرائیل نے اپنے آپ کا ملت ابراہیم پر ہونے کا دعویٰ کیا تو آنحضرت ﷺ نے بنی اسرائیل سے فرمایا ملت ابراہیم پر ہو تو حج کیوں نہیں کرتے بنی اسرائیل نے حج کی فرضیت کا انکار کیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی 3۔ بعض مفسرین نے اگرچہ لکھا ہے کہ آیت واتموالج سے حج فرض ہوا ہے۔ لیکن جمہور مفسرین کے نزدیک حج کی یہی آیت ہے استطاعت سے مراد زاد اور راحلہ ہے اور زاد و راحلہ کا یہ مطلب ہے کہ حج جب فرض ہوتا ہے کہ آدمی کے پاس راستہ کا خرچ ہو اور سواری کا بھی انتظام ہوسکے۔ باقی حج کی بحث سورة بقرہ میں گذر چکی ہے۔
Top