Jawahir-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 97
فِیْهِ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰهِیْمَ١ۚ۬ وَ مَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا١ؕ وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًا١ؕ وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ
فِيْهِ : اس میں اٰيٰتٌ : نشانیاں بَيِّنٰتٌ : کھلی مَّقَامُ : مقام اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم وَمَنْ : اور جو دَخَلَهٗ : داخل ہوا اس میں كَانَ : ہوگیا اٰمِنًا : امن میں وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے عَلَي : پر النَّاسِ : لوگ حِجُّ الْبَيْتِ : خانہ کعبہ کا حج کرنا مَنِ : جو اسْتَطَاعَ : قدرت رکھتا ہو اِلَيْهِ : اس کی طرف سَبِيْلًا : راہ وَمَنْ : اور جو۔ جس كَفَرَ : کفر کیا فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ غَنِىٌّ : بےنیاز عَنِ : سے الْعٰلَمِيْنَ : جہان والے
اس میں نشانیاں ہیں ظاہر جیسے مقام ابراہیم137 اور جو اس کے اندر آیا اس کو امن ملا138 اور اللہ کا حق ہے لوگوں پر حج کرنا اس گھر کا جو شخص قدرت رکھتا ہو اس کی طرف راہ چلنے کی139 اور جو نہ مانے تو پھر اللہ پروا نہیں رکھتا جہان کے لوگوں کی140
137 فِیْهِ کی ضمیر کا مرجع بیت (یعنی خانہ کعبہ) ہے اور آیات سے بیت اللہ کی فضیلت اور حرمت کی نشانیاں مراد ہیں جن میں سے کچھ تو اس سے پہلے مذکور ہوچکی ہیں مثلاً بیت اللہ کا مبارک اور مرکز ہدایت ہونا اور کچھ کا ذکر آرہا ہے مثلاً اس میں داخل ہونیوالوں کا امن اور محفوظ ہوجانا اور اس کے حج کا فرض ہونا والجملۃ اما مستانفۃ فی ٗ بھا بیان وتفسیرا للھدی (روح ص 6 ج 4) قال الزجاج ان ومن دخلہ کان آمنا من بقیۃ تفسیر الایات الخ (کبری ص 14 ج 3) اور مقام ابراہیم مبتدا ہے اور اس کی خبر مِنْھَا محذوف ہے (روح) یعنی منجملہ ان آیات بینات کے مقام ابراہیم ہے اور مقام ابراہیم سے مشہور تفسیر کے مطابق وہ پتھر مراد ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے خانہ کعبہ کو تعمیر فرمایا تھا۔ اس پتھر پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قدموں کے نشان لگ گئے تھے جو اب تک باقی ہیں۔ 138 یہ بھی منجملہ آیات بینات کے ہے۔ قال قتادۃ ذالک ایضا من آیات الحرم قال النم اس وھو قول حسن لان الناس کانوا یتخطفون من حوالیہ ولا یصل الیہ جبار وقد وصل الی بیت المقدس وضرب (قرطبی ص 140 ج 4) جو شخص حدود حرم میں داخل ہوجائے۔ وہ محفوظ الدم ہوجاتا ہے اگرچہ وہ قاتل اور مستوجب حد ہی کیوں نہ ہو جب تک وہ حدود حرم کے اندر ہے۔ اس وقت تک اس سے قصاص نہیں لیا جائے گا۔ اور نہ ہی اس پر حد قائم کی جائے گی۔ جیسا کہ حضرت امام ابوحنیفہ ؓ سے منقول ہے۔ ولھذا المعنی قال الامام السابق النعمان بن ثابت من اقترف ذنبا واستوجب بہ حدا ثم لجا الی الحرم عصمہ لقولہ تعالیٰ ومن دخلہ کان آمنا (قرطبی ص 140 ج 4) بیت اللہ کا جائے امن ہونا کوئی انسانوں ہی سے مخصوص نہیں۔ بلکہ حدود حرم میں ہر جاندار کی جان محفوظ ہے اور علاوہ ازیں وہاں سے ہر گھاس اور درختوں کا کاٹنا بھی ممنوع ہے۔ لہذا لفظ مَنْ اگرچہ ذوی العقول کے لیے آتا ہے لیکن یہاں علی سبیل التغلیب غیر ذوی العقول کو بھی شامل ہے۔ ومن اما للعقلاء اولھم ولغیرھم علی سبیل التغلیب لانہ ایامن فیہ الوحش والطیر بل والنبات الخ (روح ص 6 ج 4) ۔ مَنْ دَخَلَهٗ کَانَ اٰمِناً ۔ یہ خوبی تو صرف اللہ کے گھر کو حاصل تھی۔ لیکن آج کل کے پیر پرستوں نے اپنے پیروں کی خانقاہوں اور ان کے مزاروں کو بھی یہ درجہ دے رکھا ہے چناچہ پاک پٹن کا جنتی دروازہ اس بات کا گواہ ہے۔ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں پیر پرست اور ضعیف الاعتقاد لوگ اس میں سے گذرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ جنتی ہوگئے ہیں۔ اس دروازے پر مَنْ دَخَلَهٗ کَان َ آمِنَا لکھا ہوا ہے۔ 139 لِلّٰهِ خبر مقدم اور حِجُّ الْبَیْتِ مبتدا مؤوخر ہے اور مَنِ اسْتَطَاعَ ، اَلنَّاسَ سے بدل البعض ہے۔ خانہ کعبہ کی حرمت وفضیلت کی آیات بینات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ لوگوں پر اس گھر کا حج فرض ہے۔ یعنی جو لوگ خانہ کعبہ تک آمدورفت کا خرچ برداشت کرسکتے ہیں۔ ان پر حج فرض ہے فرضیت حج کی اور بھی کئی شرطیں ہیں۔ مثلاً عاقل وبالغ ہونا، تندرست ہونا، راستے کا پر امن ہونا اور عورت کے ساتھ خاوند یا محرم کا ہونا وغیرہ تفصیل کتب فقہ میں ہے۔ خانہ کعبہ کی مذکورہ بالا خوبیاں اور خصوصیتیں ایسی ہیں جو بیت المقدس میں نہیں پائی جاتیں اس لیے خانہ کعبہ کو اس پر فوقیت اور برتی حاصل ہے۔ 140 کفر سے فرضیت حج کا انکار مراد ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس اور دوسرے حضرات سے منقول ہے۔ اذ جحد فرضیۃ الحج وھو قول ابن عباس والحن وعطاء (مدارک ج 1 ص 134) اور ممکن ہے کہ کفر سے مراد کفران نعمت اور ناشکر ہو۔ ویجوز ان یکون من الکفران ای ومن لم یشکر ما انعمت علیہ من صحۃ الجسم وسعۃ الرزق ولم یحج (مدارک) یعنی جس نے فرضیت حج کا انکار کردیا یا اللہ کی دی ہوئی جسمانی صحت اور فراخی رزق کا شکر ادا نہ کیا اور فریضہ حج بجا نہ لایا اس نے اللہ کا کچھ نہیں بگاڑا اس نے اپنا ہی نقصان کیا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو لوگوں کی عبادت کی ضرورت نہیں وہ ان کی عبادت وطاعت سے مستغنی ہے۔
Top