Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Saadi - Aal-i-Imraan : 97
فِیْهِ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰهِیْمَ١ۚ۬ وَ مَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا١ؕ وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًا١ؕ وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ
فِيْهِ
: اس میں
اٰيٰتٌ
: نشانیاں
بَيِّنٰتٌ
: کھلی
مَّقَامُ
: مقام
اِبْرٰهِيْمَ
: ابراہیم
وَمَنْ
: اور جو
دَخَلَهٗ
: داخل ہوا اس میں
كَانَ
: ہوگیا
اٰمِنًا
: امن میں
وَلِلّٰهِ
: اور اللہ کے لیے
عَلَي
: پر
النَّاسِ
: لوگ
حِجُّ الْبَيْتِ
: خانہ کعبہ کا حج کرنا
مَنِ
: جو
اسْتَطَاعَ
: قدرت رکھتا ہو
اِلَيْهِ
: اس کی طرف
سَبِيْلًا
: راہ
وَمَنْ
: اور جو۔ جس
كَفَرَ
: کفر کیا
فَاِنَّ
: تو بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
غَنِىٌّ
: بےنیاز
عَنِ
: سے
الْعٰلَمِيْنَ
: جہان والے
اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں جن میں سے ایک ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے۔ جو شخص اس (مبارک) گھر میں داخل ہوا اس نے امن پالیا۔ اور لوگوں پر خدا کا حق (یعنی فرض) ہے کہ جو اس گھر تک جانے کا مقدور رکھے وہ اس کا حج کرے اور جو اس حکم کی تعمیل نہ کرے گا تو خدا بھی اہل عالم سے بےنیاز ہے
آیات 97 اللہ تعالیٰ کعبہ شریف کا شرف بیان فرما رہا ہے کہ یہ پہلا گھر ہے جو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لئے اس مقصد کے لئے مقرر کیا ہے کہ وہ اس میں اپنے رب کی عبادت کریں اور ان کے گناہ معاف ہوں اور انہیں وہ نیکیاں حاصل ہوں جن کی وجہ سے انہیں رب کی رضا حاص لہو، اور وہ ثواب حاصل کر کے اللہ کے عذاب سے بچ جائیں۔ اس لئے فرمایا : (مبرکا) ” برکت والا ہے “ اس میں بہت سی برکتیں اور دینی و دنیوی فوائد موجود ہیں۔ جیسے دوسرے مقام (لیشھدوا منافع لھم ویذکروا اسم اللہ فی ایام معلومت علی مارزقھم من بھیمۃ الانعام) (الحج :28/22) ” تاکہ وہ اپنے فائدے حاصل کرنے کو آجائیں اور ان مقررہ دنوں میں ان چوپایوں پر اللہ کا نام یاد کریں جو اس نے انہیں دیئے ہیں “ (وھدی للعلمین) ” اور ہدایت ہے جہان والوں کے لئے “ ہدایت کی دو قسمیں ہیں : علمی ہدایت اور عملی ہدایت۔ عملی ہدایت تو ظاہر ہے کہ اللہ نے ایسی عبادتیں مقرر کی ہیں جو اس مقدس گھر کے ساتھ مخصوص ہیں۔ علمی ہدایت یہ ہے کہ اس کی وجہ سے حق کا علم حاصل ہوتا ہے کیونکہ اس میں واضح نشانیاں موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (فیہ ایت بینت) ” اس میں کھلی کھلی نشانیاں ہیں “ یعنی مختلف علوم الٰہی اور بلند مطالب پر واضح دلائل اور قطعی براہین موجود ہیں۔ مثلاً اللہ کی توحید کے دلائل، اس کی رحمت، حکمت، عظمت، جلالت، اس کے کامل علم اور بےحد و حساب جو دوسخا کے دلائل، اور انبیاء و اولیاء پر ہونے والے اللہ کے احسانات کی نشانیاں۔ ان نشانیوں میں سے ایک (مقام ابراہیم) ” مقام ابراہیم “ بھی ہے۔ اس سے وہ پتھر بھی مراد ہوسکتا ہے جس پر کھڑے ہو کر ابراہیم کعبہ کی عمارت بناتے رہے تھے۔ پہلے یہ کعبہ کی دیوار سے متصل تھا۔ حضرت عمر نے اپنے دور خلافت میں اسے موجودہ مقام پر منتقل کیا۔ اس پتھر میں نشان سے مراد ایک قول کے مطابق حضرت ابراہیم کے قدموں کے نشان ہیں کہ سخت چٹان میں نشان پڑگئے جو امت محمدیہ کے ابتدائی زمانے تک باقی رہے۔ یہ ایک خرق عادت معجزہ ہے۔ دوسرے قول کے مطابق نشان سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دلوں میں اس کی عظمت، شرف اور احترام کے جذبات رکھ دیئے ہیں۔ (مقام ابراہیم “ کی دوسری تشریح یہ ہوسکتی ہے کہ یہ لفظ مفرد ہے جسے ابراہیم کی طرف مضاف کیا گیا ہے۔ اس لئے اس سے مراد وہ تمام مقامات ہیں جن سے آپ کا تعلق ہے یعنی وہ تمام مقامات جہاں حج کے مناسک ادا ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے حج کے تمام مناسب بھی ” آیات بینات “ میں شامل ہیں۔ مثلاً طواف، سعی اور ان کے مقامات، عرفان اور مزدلفہ میں ٹھہرنا، رمی کرنا اور دوسرے شعائر۔ اس میں نشانی یہ ہے کہ اللہ نے لوگوں کے دلوں میں ان کی عظمت و احترام نقش کردیا ہے۔ لوگ یہاں تک پہنچنے کے لئے مال و دولت خرچ کرتے اور ہر قسم کی مشقت برداشت کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس میں عجیب و غریب اسرار اور اعلیٰ معنویات پوشیدہ ہیں۔ اس کے افعال میں حکمتیں اور مصلحتیں ہیں کہ مخلوق ان میں سے تھوڑی سی حکمتیں شمار کرنے سے بھی عاجز ہے۔ اس کی کھلی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس میں داخل ہونے والے کو اللہ تعالیٰ امن عطا فرماتا ہے اور اسے شرعی حکم بھی قرار دے دیا گیا ہے، چناچہ اللہ تعالیٰ نے اور اس کے پیغمبر ابراہیم نے، پھر محمد ﷺ نے اس کے احترام کا حکم دیا ہے اور یہ حکم دیا ہے کہ جو اس میں داخل ہوجائے، اسے امن حاصل ہوجاتا ہے۔ اسے وہاں سے نکالا نہیں جاسکتا۔ یہ حرمت حرم کے شکار، درختوں اور نباتات کو بھی حاصل ہے۔ اس آیت سے بعض علماء نے استدلال کیا ہے کہ اگر کوئی شخص حدود حرم سے باہر کوئی جرم کرلے، پھر حرم میں آجائے تو اسے بھی امن حاصل ہوگا۔ جب تک وہ اس سے باہر نہیں آتا اس پر حد قائم نہیں کی جائے گی۔ اللہ کے قضا و قدر کے فیصلے کے مطابق اس مقام کے امن ہونے کی وضاحت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے دلوں میں، حتی کہ مشرکوں اور کافروں کے دلوں میں بھی اس کا احترام ڈال دیا۔ مشرکین عرب انتہائی لڑاکا طبیعت والے، غیرت والے اور کسی کا طعنہ برداشت نہ کرنے والے تھے۔ اس کے باوجود اگر کسی کو اپنے باپ کا قاتل بھی حرم کی حدود میں مل جاتا تھا تو وہ اسے کچھ نہیں کہتا تھا۔ اس کے حرم ہونے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جو اسے نقصان پہنچانا چاہے اللہ تعالیٰ اسے دنیا ہی میں سزا دے دیتا ہے۔ جیسے ہاتھی والوں کے ساتھ ہوا۔ اس موضوع پر میں نے ابن قیم کا بہت اچھا بیان پڑھا ہے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ اسے یہاں ذکر کر دوں، کیونکہ اس کا معلوم ہونا بہت ضروری ہے۔ امام صاحب فرماتے ہیں : فائدہ : (وللہ علی الناس حج البیت من استطعا الیہ سبیلا) اس آیت میں (حج البیت) مبتدا ہے۔ اس کی خبر اس سے پہلے دو چار و مجرور میں سے کوئی ایک ہوسکتا ہے۔ معنی کے لحاظ سے (علی الناس) کو بنانا بہتر ہے کیونکہ یہ وجوب کے لئے ہے اور وجوب کے لئے ہے اور وجوب کے لئے (علی) ہونا چاہیے۔ ممکن ہے ” وللہ “ خبر ہو۔ کیونکہ اس میں وجوب اور استحقاق کا مفوہم ہے۔ اس قول کو اس امر سے بھی ترجیح حاصل ہوتی ہے کہ فائدہ کا اصل مقام خبر ہے۔ اس مقام میں اس کو لفظاً مقدم کیا گیا ہے لیکن معنی کے لحاظ سے وہ موخر ہے۔ اس وجہ سے (وللہ علی الناس) کہنا بہتر ہوا۔ پہلے قول کی تائید میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ وجوب کے لئے (حج البیت علی الناس) ” بیت اللہ کا حج لوگوں پر واجب ہے “ کا انداز زیادہ استعمال ہوتا ہے بنسبت یوں کہنے کے (حج البیت للہ) ” بیت اللہ کا حج اللہ کا حق ہے۔ “ اس تشریح کے مطابق پہلے مجرور کو مقدم کرنا، حالانکہ وہ خبر نہیں، دو فوائد کا حامل ہے : پہلا فائدہ : یہ حج کو واجب کرنے والے (اللہ) کا نام ہے۔ لہٰذا وجوب کے ذکر سے پہلے اس کا ذکر کرنا زیادہ حق رکھتا ہے۔ یعنی آیت میں تین اشیا کا ذکر ہے جو وقوع کے لحاظ سے بالترتیب ذکر ہوئی ہیں : (1) اس فریضہ کو واجب کرنے والا۔ اس کا ذکر سب سے پہلے کیا گیا ہے۔ (2) واجب کو ادا کرنے والا، جس پر وہ فرض عائد ہوتا ہے۔ وہ ہیں لوگ (3) وہ حق جس کے ساتھ اللہ کا تعلق واجب کرنے کا اور بندوں کا تعلق واجب ہونے اور ادا کرنے کا ہے، وہ ہے حج۔ دوسرا فائدہ : مجرور اللہ تعالیٰ کا نام مبارک ہونے کی وجہ سے اہمیت کا مستحق ہے۔ لہٰذا اس کے واجب کئے ہوئے فریضہ کے احترام کی عظمت کا لحاظ رکھتے ہوئے، اس فریضہ کو ضائع کرنے سے منع کرنے کے لئے اسے پہلے ذکر کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ اللہ کا واجب کیا ہوا کام کسی اور کے واجب کئے ہوئے کی طرح نہیں، بلکہ زیادہ اہم اور لازم ہے۔ لفظ ” من “ بدل ہے۔ بعض لوگوں نے اسے مصدر کا فاعل قرار دینا پسند کیا ہے گویا آیت کا مفہوم یوں ہے : (ان یحج البیت من اسطاع الیہ سبیلا) ” کہ جو شخص اس کی طرف راستے کی طاقت رکھتا ہے وہ بیت اللہ کا حج کرے “ یہ قول کئی وجہ سے ضعیف ہے۔ (1) حج فرض عین ہے۔ اگر آیت کا مفہوم یہ ہوتا جو ان لوگوں نے بیان کیا ہے تو اس سے حج کا فریضہ فرض کفایہ ہوتا۔ یعنی جب استطاعت والوں نے حج کرلیا تو دوسروں کے ذمہ سے ساقط ہوگیا۔ اس صورت میں معنی یوں بن جاتا ہے (واللہ علی الناس حج البیت مستطیعھم) ” لوگوں کے ذمے اللہ کے لئے بیت اللہ کا حج فرض ہے استطاعت رکھنے والے کے لئے “ اس کا نتیجہ ہوگا کہ جب استطاعت رکھنے والوں نے ادا کرلیا تو استطاعت نہ رکھنے والوں پر واجب نہیں رہا۔ حالانکہ صحیح صورتحال یہ نہیں۔ بلکہ حج ہر شخص پر فرض عین ہے۔ طاقت والا حج کرے یا نہ کرے وہ اس کے ذمے ہے۔ لیکن طاقت نہ رکھنے والے کو اللہ نے معذور قرار دیا ہے۔ لہٰذا اس سے مواخذہ نہیں کرے گا، نہ اس سے ادائیگی کا مطالبہ کرتا ہے۔ جب وہ حج کرے گا تو خود اس کا اپنا فرض ادا ہوگا۔ ایسا نہیں ہے کہ طاقت رکھنے والوں کے حج کرنے کی وجہ سے طاقت نہ رکھنے والوں سے فرضیت ساقط ہوجاتی ہو۔ اس کی مزید وضاحت اس مثال سے ہوتی ہے کہ جب کوئی کہے : (واجب علی اھل ھذہ الناحیۃ ان یجاھد منھم الطائفۃ المستطیعون للجھاد) ” اس علاقے والوں کا فرض ہے کہ ان میں سے جہاد کی طاقت رکھنے والی جماعت ضرور جہاد کرے “ تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ جب طاقت رکھنے والے جہاد کریں تو دوسرے لوگوں سے وجوب کا تعلق ختم ہوجائے گا۔ لیکن اگر یوں کہا جائے (واجب علی الناس کلھم ان یجاھد منھم المستطیع) ” سب لوگوں کا فرض ہے کہ ان میں سے طاقت رکھنے والا جہاد کرے “ تو وجوب کا تعلق تو ہر فرد سے ہوگا، لیکن طاقت نہ رکھنے والے معذور سمجھے جائیں گے۔ لہٰذا (للہ حج البیت علی المستطیعین) کے بجائے آیت مبارکہ کے انداز سے ارشاد فرمانے میں یہ نادر نکتہ ہے۔ لہٰذا سے غور کر کے سمجھنا چاہیے۔ دوسری وجہ : جملہ میں فاعل کی موجوگدی میں مصدر کی اضافت فاعل کی طرف کرنا مفعول کی طرف اضافت کرنے کی نسبت زیادہ اولیٰ ہے۔ اس اصول سے گریز صرف کسی منقول دلیل ہی کی بنیاد پر کیا جاسکتا ہے۔ آیت مبارکہ میں اگر (من) کو فاعل تسلیم کیا جائے تو اس کا تقاضا ہے کہ مصدر کو اس کی طرف مضاف کر کے یوں کہا جائے : (وللہ علی الناس حج من استطاع) اسے (یعجبنی ضرب زید عمراً ) جیسی مثال پر یا مصدر اور اس کے مضاف الیہ فاعل کے درمیان مفعول یا ظرف کے فاصلے کی صورت پر محمول کرنا گویا مکتوب پر محمول کرنا ہے جو مرجوع ہے۔ جیسے ابن عامر کی یہ قرأت مرجوح ہے (کذلک زین لکثیر من المشرکین قتل اولادھم شرکانھم) لہٰذا یہ قول درست نہیں ہے۔ جب یہ ثابت ہوگیا کہ (من استطاع) میں (من) بدل بعض ہے تو ضروری ہے کہ کلام میں کوئی ضمیر موجود ہو جو (الناس) کی طرف راجع ہو۔ یعنی عبارت گویا یوں ہے (من استطاع منھم) اکثر مقامات پر اس ضمیر کا حذف کرنا بہتر نہیں ہوتا۔ البتہ یہاں اس کا حذف کرنا اچھا ہے۔ اس کی کئی وجوہ ہیں : (1) (من) کا لفظ اس کے مبدل منہ کی طرح غیر عاقل پر واقع ہوا ہے اس لئے اس سے ربط قائم ہوگیا۔ (2) یہ اسم موصول ہے جس کا صلہ اس سے زیادہ خاص ہے۔ اگر صلہ عام ہوتا تو ضمیر حذف کرنا قبیح ہوتا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ جب آپ کہیں : (رأیت اخوتک من ذھب الی السوق منھم) ” میں نے تیرے بھائیوں کو، ان میں سے جو بازار گیا، دیکھا “ تو یہ قبیح ہوگا۔ کیونکہ بازار جانیوالا دوسرے بھائیوں کی نسبت عام ہے۔ اسی طرح اگر یوں کہا جائے : (الیس الثیاب ماحسن) ” کپڑے پہن جو اچھے ہیں “ مطلب یہ ہوگا کہ (ماحس منھا) ” ان میں سے جو اچھے ہیں “ تو ضمیر ذکر نہ کرنا زیادہ غلط ہوگا۔ کیونکہ لفظ (ماحسن) میں ” الثبات “ کی نسبت عموم پایا جاتا ہے اور بدل بعض کو مبدل منہ سے زیادہ خاص ہونا چاہیے۔ اگر وہ زیادہ عام ہو پھر اسے مبدل منہ کی طرف لوٹنے والی چیز کی طرف مضاف کردیا جائے، یا اس ضمیر کے ساتھ مقید کردیا جائے تو عموم ختم ہوجائے گا اور خصوص کا مفہوم باقی رہ جائے گا۔ (3) یہاں مضاف کو حذف کرنا اس لئے بھی بہتر ہے کہ صلہ اور موصول کے ساتھ کلام زیادہ طویل ہوجاتا ہے۔ لفظ (للہ) کے مجرور کے بارے میں دو احتمال ہیں اول یہ کہ وہ (من سبیل) کے محل میں ہو۔ گویا وہ گویا وہ نکرہ کی صفت ہے جو نکرہ سے مقدم ہے۔ کیونکہ اگر اسے موخر کیا جاتا توہ (سبیل) کی صفت کی جگہ ہوتا۔ دوم یہ کہ (سبیل) کا متعلق ہو۔ اگر آپ کہیں کہ یہ اس کا متعلق کیسے ہوسکتا ہے جب کہ اس ” سبیل “ میں فعل کا معنی نہیں۔ جواب یہ ہے کہ یہاں ” سبیل “ کا مفہوم ” الموصل الی لبیت “ کعبہ تک پہنچانے والی چیز یعنی سامان سفر وغیرہ ہے۔ لہٰذا اس میں فعل کا تھوڑا سا مفہوم پایا جاتا ہے۔ یہاں ” سبیل “ سے وہ راستہ مراد نہیں جس پر چلتے ہیں۔ اس لئے جار مجرور اس کے متعلق ہوسکتا ہے اور حسن نظم اور اعجاز لفظی کے لحاظ سے جار مجرور کو مقدم کرنا بہتر تھا، اگرچہ اس کا اصل مقام موخر ہی ہے، کیونکہ یہ ضمیر ’ د بیت “ کی طرف راجع ہے اور اصل اہمیت ” بیت “ (کعبہ) ہی کو دینا مقصود ہے اور اہل عرب کلام میں اہم چیز کو مقدم کرتے ہیں۔ یہ سہیلی کے کلام کی وضاحت ہے۔ لیکن یہ قول بہت بعید ہے۔ بلکہ جار مجرور کے متعلق ان دونوں سے بہتر ایک قول ہے، وہی درست ہے اور اس آیت سے وہی مفہوم مناسبت رکھتا ہے۔ وہ ہے ” وجوب “ جو آیت کے لفظ (علی الناس) سے سمجھ میں آتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ (یحب للہ علی الناس الحج) ” لوگوں پر اللہ کے لئے حج کرنا واجب ہے۔ “ یعنی وہ اللہ کا وجوبی حق ہے۔ اسے ” سبیل “ کے متعلق قرار دے کر اس کا حال بنانا بہت ہی بعید ہے۔ آیت سے یہ مفہوم بالکل ذہن میں نہیں آتا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ کہیں ( للہ علیک الصلاۃ والزکاۃ و الصیام) ” آپ پر اللہ کے لئے نماز، زکوۃ اور روزہ ضروری ہے “ آیت میں ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی ایسے کام کا ذکر کرتا ہے، جسے واجب یا حرام قرار دینا مقصود ہو تو وہ اکثر اوقات امرونہی کے الفاظ سے مذکورہ ہوتا ہے۔ بعض اوقات اس مقصد کے لئے ایجاب، کتابت اور تحریم کے الفاظ بھی وارد ہوتے ہیں۔ مثلاً (کتب علیکم الصیام) (البقرہ :183/2) ” تم پر روزہ رکھنا لکھ دیا گیا ہے۔ “ (حرمت علیکم المیتۃ) (المائدۃ :3/5) ” تم پر مردار حرام کیا گیا ہے “ (قل تعالوا اتل ماحرم ربکم علیکم) (الانعام :101/6) ” آؤ میں تمہیں پڑھ کر سناؤں کہ اللہ نے تم پر کیا پابندیاں لگائی ہیں۔ “ حج کے بارے میں جو لفظ استعمال ہوا ہے (وللہ علی الناس حج البیت) ” اس سے دس انداز سے وجوب ثابت ہوتا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نام کو مقدم فرمایا ہے اور اس پر ” ل “ داخل کیا ہے، جس سے استحقاق اور اختصاص ظاہر ہوتا ہے۔ پھر جن پر واجب ہے ان کے لئے عموم کا صیغہ استعمال کیا ہے، اور اس پر ” علی “ داخل کیا ہے، جس سے اہل استطاعت کو بدل بنایا ہے پھر ” سبیل “ نکرہ ہے جو سیاق شرط میں واقع ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ حج ہر قسم کے ” سبیل “ میسر ہونے سے واجب ہوجاتا ہے مثلاً خوراک اور مال یعنی وجوب کا تعلق ہر اس چیز سے ہے جسے ” سبیل “ کہا جاسکے۔ پھر اس کے بعد سب سے عظیم تہدید ذکر فرمائی اور فرمایا (ومن کفر) یعنی جس نے اس واجب پر عمل نہ کر کے اور اسے ترک کر کے کفر کا ارتکاب کیا۔ پھر اس کی عظمت شان کے لئے وعید کو موکد فرمایا اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ مستغنی ہے۔ اسے کسی کے حج کی ضرورت نہیں۔ یہاں استغنا کے ذکر کا مقصد ناراضی، غصے اور بےاعتنائی کا اظہار ہے، جو بہت عظیم اور بلیغ وعید ہے۔ اس کی مزید تائید اس سے ہوتی ہے کہ یہاں (العالمین) کا عام لفظ بولا گیا ہے۔ یہ نہیں فرمایا : (قان اللہ غنی عنہ) ” اللہ اس سے مستغنی ہے “ کیونکہ جب وہ تمام جہانوں سے مستغنی اور بےپروا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے ہر لحاظ سے اور ہر اعتبار سے کامل و مکمل استغنا حاصل ہے۔ اس طرح اس کے واجب کردہ حق کو ترک کرنے والے پر اس کی نارضای زیادہ تاکید سے ظاہر ہوتی ہے۔ پھر اس مفہوم کو لفظ (ان) کے ساتھ ذکر فرمایا گیا ہے جو بذات خود تاکید پر دلالت کرتا ہے۔ یہ دس وجوہ ہیں جن سے اس فرض عظیم کا ضروری اور موکد ہونا ظاہر ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں آیت مبارکہ میں موجود بدل میں پوشید ہنکتہ پر بھی غور کیجے۔ بدل کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ اسناد دوبارہ ذکر ہوئی ہے۔ ایک دفعہ اسکی اسناد عمومی طور پر سب لوگوں سے ہے اور دوسری بار خاص طور پر استطاعت رکھنے والوں سے اور بدل کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اسناد کی تکرار سے معنی میں قوت پیدا ہوجاتی ہے۔ اسی لئے بدل عامل کی تکرار اور دہرانے کا مفہوم رکھتا ہے۔ پھر غور کیجیے کہ آیت میں کس طرح ابہام کے بعد توضیح اور اجمال کے بعد تفصیل ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اسے اہمیت دیتے ہوئے اور اس کی شان کی تاکید فرماتے ہوئے کلام کو دو صورتوں میں وارد کیا گیا ہے۔ پھر یہ بھی غور کیجیے کہ کس طرح وجوب کا ذکر کرنے سے پہلے کعبہ شریف کی خوبیوں اور عظمت کا ذکر کیا گیا ہے۔ جس سے دلوں میں اس کی زیارت اور حج کا شوق پیدا ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ چیز خود مقصود نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (ان اول بیت وضع للناس للذی ببکۃ مبرکا وھدی للعلمین) چناچہ کعبہ شریف کی پانچ صفات بیان کی گئی ہیں۔ (1) وہ دنیا میں عبادت کے لئے مقرر کیا جانے والا سب سے پہلا اللہ کا گھر ہے۔ (2) برکت والا ہے۔ برکت کا مطلب خیر کا دوام اور کثرت ہے۔ دنیا میں اتنی برکت والا، اس قدر کثیر اور دائمی خیر والا اور مخلوق کے لئے اس قدر فوائد کا حامل کوئی گھر موجود نہیں۔ (3) وہ ہدایت ہے۔ ہدایت دینے والے کے بجائے ہدایت (مصدر) کا لفظ بولنے میں مبالغہ کا مفہوم پایا جاتا ہے گویا یہ خود سراپا ہدایت ہے۔ (4) اس میں آیات بینات (واضح نشانیاں) موجود ہیں۔ جن کی تعداد چالیس سے زیادہ ہے۔ (5) اس میں داخل ہونے والے کے لئے امن ہے۔ اگر یہی صفات ذکر کردی جاتیں اور اس کی زیارت کا حکم نہ دیا جاتا، تب بھی ان صفات کی وجہ سے دلوں میں اس کی زیارت کی تڑپ پیدا ہوتی، خواہ کتنی دور سے آنا پڑتا۔ یہاں تو یہ صفات ذکر کرنے کے بعد صراحت کے ساتھ فرض ہونے کا ذکر کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ اس قدر تاکید ات لائی گئی ہیں، جن سے بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس گھر کی بےحد اہمیت ہے اور اس کے نزدیک اس کی شان و عظمت کی کوئی حد نہیں۔ اگر اس میں یہی شرف ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی نسبت اپنی طرف کرتے ہوئے اسے (بیتی) ” میرا گھر “ فرمایا ہے، تو یہ نسبت ہی اتنی بڑی فضیلت اور اتنا بڑا شرف ہے کہ صرف اس کی وجہ سے جہان والوں کے دل اس کی طرف متوجہ ہوجاتے اور اس کی زیارت کے لئے دور دراز سے کھینچے آتے۔ محبت کرنے والوں کی یہی شان ہوتی ہے کہ وہ اس کے پاس اکٹھے ہو کر آتے ہیں، اس کی زیارت سے کبھی سیر نہیں ہوتے۔ جتنی زیادہ زیارت کرتے ہیں، اتنا ہی محبت اور شوق میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ نہ دور جانے سے محبت کی لو مدہم ہوتی ہے نہ وصال سے ان کی پیاس بجھتی ہے۔ جیسے کسی شاعر نے کہا ہے : میں اس کا طواف کرتا ہوں اور دل پھر بھی شوق سے بھرپور ہے کیا طواف کے بعد مزید قرب بھی ہوسکتا ہے ؟ میں اس کے حجر اسود کو چومتا ہوں اور اس طرح دل میں موج زن محبت اور پیاس کو ٹھنڈک پہنچاتا ہوں قسم ہے اللہ کی ! میری محبت ہی میں اضافہ ہوتا ہے اور دل اور زیادہ دھڑکنے لگتا ہے اے جنت ماویٰ ! اے مقصود تمنا ! اور اے میری آرزو ! ہر امان سے قریب تر ! غلبہ ہائے شوق تیرے قرب پر اصرار کرتے ہیں تجھ سے فراق میرے بس میں نہیں میں اگر تجھ سے دور ہوا تو اس کی وجہ بےاعتنائی نہیں اس کا گواہ میری (اشک بار) آنکھیں اور (نالہ وشیون کرتی) زبان ہے تجھ سے دور ہونے کے بعد میں نے صبر کو بھی آواز دی اور گریہ کو بھی گریہ نے (فوراً ) لبیک کہا (اور آگیا) اور صبر نے میری بات نہ مانی (صبر نہ آیا) لوگ گمان کرتے ہیں کہ جب محب دور چلا جائے تولمبا عرصہ گزرنے کے بعد اس کی محبت کمزور ہوجاتی ہے اگر یہ خیال درست ہوتا، تو یقینا ہر زمانے کے لوگوں کے لئے محبت کا علاج ہوتا ہاں ہاں محب کمزور ہوجائے گا اور محبت اسی حال میں ہوگی، اسے رات دن کے گزرنے نے کمزور نہیں کیا ہوگا۔ (1) یہ محبت کرنے والا ہے، جسے شوق اور عشق لئے جاتا ہے بغیر کسی لگام اور باگ کے جو اسے کھینچے لئے جاتی ہو زیارت گاہ دور ہونے کے باوجود، وہ تیرے در پر آپہنچا ہے اگر اس کی سواری کمزور ہوجاتی تو اس کے قدم ہی اسے لے آتے یہاں امام ابن قیم کا کلام ختم ہوا۔ (1) امام ابن قیم کا یہ کلام ان کی ان کی کتاب ” بدائع الفوائد “ سے منقول ہے اس میں یہ شعر اس طرح درج ہے۔ بلی انہ یبلی التصبر والھوی علی حالہ لم یبلہ الملوان ہاں صبر تو کمزور ہوجاتا ہے لیکن محبت۔۔۔۔۔۔۔ اپنے حال پر رہتی ہے، وہ رات دن کے گزرنے سے کمزور نہیں ہوتی (ازمحقق)
Top