Al-Quran-al-Kareem - Aal-i-Imraan : 97
فِیْهِ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰهِیْمَ١ۚ۬ وَ مَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا١ؕ وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًا١ؕ وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ
فِيْهِ : اس میں اٰيٰتٌ : نشانیاں بَيِّنٰتٌ : کھلی مَّقَامُ : مقام اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم وَمَنْ : اور جو دَخَلَهٗ : داخل ہوا اس میں كَانَ : ہوگیا اٰمِنًا : امن میں وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے عَلَي : پر النَّاسِ : لوگ حِجُّ الْبَيْتِ : خانہ کعبہ کا حج کرنا مَنِ : جو اسْتَطَاعَ : قدرت رکھتا ہو اِلَيْهِ : اس کی طرف سَبِيْلًا : راہ وَمَنْ : اور جو۔ جس كَفَرَ : کفر کیا فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ غَنِىٌّ : بےنیاز عَنِ : سے الْعٰلَمِيْنَ : جہان والے
اس میں واضح نشانیاں ہیں، ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ اور جو کوئی اس میں داخل ہوا امن والا ہوگیا اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج (فرض) ہے، جو اس کی طرف راستے کی طاقت رکھے اور جس نے کفر کیا تو بیشک اللہ تمام جہانوں سے بہت بےپروا ہے۔
وَلِلّٰهِ عَلَي النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے، اس بات کی شہادت کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور اس کی (شہادت) کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ دینا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔“ [ بخاری، الإیمان، باب دعاؤکم إیمانکم : 8، عن ابن عباس ؓ ] ہر عاقل و بالغ مسلمان پر جو کعبہ تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہے، اس پر عمر بھر میں ایک مرتبہ حج فرض ہے۔ [ مسلم، الحج، باب فرض الحج مرۃ فی العمر : 1337 ] مَنِ اسْـتَـطَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلًا : استطاعت کی تفسیر حدیث میں زاد راہ اور سواری سے کی گئی ہے۔ [ ترمذی، عن علی عن رسول اللہ، الحج، باب ما جاء من التغلی٭۔۔ : 812 ] شیخ البانی ؓ نے صحیح الترغیب میں اسے حسن قرار دیا ہے اور ابن تیمیہ ؓ بھی یہی کہتے ہیں۔ (ہدایۃ المستنیر) استطاعت کے مفہوم میں راستے کا پر امن ہونا، جان و مال کے تلف ہونے کا اندیشہ نہ ہونا بھی شامل ہے اور عورت کے لیے محرم کا ساتھ ہونا بھی ضروری ہے۔ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر مالی استطاعت ہو مگر جسمانی نہ ہو تو کوئی دوسرا اس کی جگہ حج کرلے۔ ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ خثعم قبیلے کی ایک عورت آئی، اس نے پوچھا : ”یا رسول اللہ ! اللہ کا اپنے بندوں پر جو فریضہ حج ہے، وہ میرے والد پر اس حال میں آیا ہے کہ وہ بہت بوڑھا ہے، سواری پر جم کر بیٹھ نہیں سکتا، تو کیا میں اس کی طرف سے حج کروں ؟“ فرمایا : ”ہاں !“ اور یہ حجۃ الوداع کی بات ہے۔ [ بخاری، الحج، باب حج المرأۃ عن الرجل : 1855 ] اسی طرح اگر کسی صاحب پر حج فرض تھا، جو سستی سے رہ گیا اور وہ فوت ہوگیا تو اس کی میراث میں سے حج ادا کیا جائے گا، ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (فَاقْضِ اللّٰہَ فَہُوَ أَحَقُّ بالْقَضَاءِ) ”اللہ کا قرض ادا کرو، کیونکہ وہ پورا کیے جانے کا زیادہ حق دار ہے۔“ [ بخاری، الأیمان والنذور، باب من مات وعلیہ نذر : 6699۔ مسلم : 1148 ] ایک صحیح حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے کی طرف سے وہ شخص حج کرے جو پہلے اپنا حج کرچکا ہو۔ [ أبو داوٗد، الحج، باب الرجل یحج عن غیرہ : 1811، عن ابن عباس ] 2 ۭ وَمَنْ كَفَر : اس سے معلوم ہوا کہ استطاعت کے باوجود حج نہ کرنا کفر ہے اور جو کفر کرے تو اس بےچارے کی کیا اوقات ہے، اللہ تعالیٰ تو سارے جہانوں سے بےپروا ہے۔ اسلام کی پانچ بنیادوں کے ترک اور دوسری چیزوں کے ترک کا یہی فرق ہے کہ ان پانچوں میں سے کسی کے ترک سے اسلام کی بنیاد ڈھے جاتی ہے۔ حافظ ابن کثیر ؓ نے ابوبکر اسماعیلی الحافظ ؒ کی سند سے امیر المومنین عمر بن خطاب ؓ سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا : ”جو شخص حج کی طاقت رکھے اور پھر حج نہ کرے تو اس پر برابر ہے کہ یہودی ہونے کی حالت میں مرے یا نصرانی ہونے کی حالت میں۔“ امام ابن کثیر نے فرمایا : ”یہ سند عمر ؓ تک صحیح ہے۔“
Top