Maarif-ul-Quran - Al-Ahzaab : 53
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ اِلٰى طَعَامٍ غَیْرَ نٰظِرِیْنَ اِنٰىهُ١ۙ وَ لٰكِنْ اِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَ لَا مُسْتَاْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍ١ؕ اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ١٘ وَ اللّٰهُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّ١ؕ وَ اِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْئَلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ١ؕ ذٰلِكُمْ اَطْهَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَ قُلُوْبِهِنَّ١ؕ وَ مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰهِ وَ لَاۤ اَنْ تَنْكِحُوْۤا اَزْوَاجَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖۤ اَبَدًا١ؕ اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِیْمًا
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو لَا تَدْخُلُوْا : تم نہ داخل ہو بُيُوْتَ : گھر (جمع) النَّبِيِّ : نبی اِلَّآ : سوائے اَنْ : یہ کہ يُّؤْذَنَ : اجازت دی جائے لَكُمْ : تمہارے لیے اِلٰى : طرف (لیے) طَعَامٍ : کھانا غَيْرَ نٰظِرِيْنَ : نہ راہ تکو اِنٰىهُ ۙ : اس کا پکنا وَلٰكِنْ : اور لیکن اِذَا : جب دُعِيْتُمْ : تمہیں بلایا جائے فَادْخُلُوْا : تو تم داخل ہو فَاِذَا : پھر جب طَعِمْتُمْ : تم کھالو فَانْتَشِرُوْا : تو تم منتشر ہوجایا کرو وَلَا مُسْتَاْنِسِيْنَ : اور نہ جی لگا کر بیٹھے رہو لِحَدِيْثٍ ۭ : باتوں کے لیے اِنَّ : بیشک ذٰلِكُمْ : یہ تمہاری بات كَانَ يُؤْذِي : ایذا دیتی ہے النَّبِيَّ : نبی فَيَسْتَحْيٖ : پس وہ شرماتے ہیں مِنْكُمْ ۡ : تم سے وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يَسْتَحْيٖ : نہیں شرماتا مِنَ الْحَقِّ ۭ : حق (بات) سے وَاِذَا : اور جب سَاَلْتُمُوْهُنَّ : تم ان سے مانگو مَتَاعًا : کوئی شے فَسْئَلُوْهُنَّ : تو ان سے مانگو مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ ۭ : پردہ کے پیچھے سے ذٰلِكُمْ : تمہاری یہ بات اَطْهَرُ : زیادہ پاکیزگی لِقُلُوْبِكُمْ : تمہارے دلوں کے لیے وَقُلُوْبِهِنَّ ۭ : اور ان کے دل وَمَا كَانَ : اور (جائز) نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے اَنْ تُؤْذُوْا : کہ تم ایذا دو رَسُوْلَ اللّٰهِ : اللہ کا رسول وَلَآ : اور نہ اَنْ تَنْكِحُوْٓا : یہ کہ تم نکاح کرو اَزْوَاجَهٗ : اس کی بیبیاں مِنْۢ بَعْدِهٖٓ : ان کے بعد اَبَدًا ۭ : کبھی اِنَّ : بیشک ذٰلِكُمْ : تمہاری یہ بات كَانَ : ہے عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک عَظِيْمًا : بڑا
مومنو ! پیغمبر کے گھروں میں نہ جایا کرو مگر اس صورت میں کہ تم کو کھانے کے لئے اجازت دی جائے اور اس کے پکنے کا انتظار بھی نہ کرنا پڑے لیکن جب تمہاری دعوت کی جائے تو جاؤ اور جب کھانا کھا چکو تو چل دو اور باتوں میں جی لگا کر نہ بیٹھ رہو یہ بات پیغمبر کو ایذا دیتی ہے اور وہ تم سے شرم کرتے تھے (اور کہتے نہیں تھے) لیکن خدا سچی بات کے کہنے سے شرم نہیں کرتا اور جب پیغمبر کی بیویوں سے کوئی سامان مانگو تو پردے کے باہر سے مانگو یہ تمہارے اور انکے (دونوں کے دلوں کے لئے بہت پاکیزگی کی بات ہے) اور تم کو یہ شایان نہیں کہ پیغمبر خدا کو تکلیف دو اور نہ یہ کہ انکی بیویوں سے کبھی ان کے بعد نکاح کرو بیشک یہ خدا کے نزدیک بڑا گناہ (کا کام) ہے
نداء اہل ایمان ونزول حکم حجاب برائے خواتین اسلام واحتراز از ایذاء رسول عالی مقام وتحریم نکاح ازواج مطہرات بعد وفات سید البریات علیہ افضل الصلوات والتحیات قال اللہ تعالیٰ یایھا الذین امنوا لا تدخلوا بیوت النبی الا ان یؤذن لکم۔۔۔ الی۔۔۔ ان اللہ کان علی کل شیء شھیدا۔ (ربط) گذشتہ آیات میں نکاح کے بارے میں آنحضرت ﷺ کے خصائص کو بیان فرمایا اور ان امور کی ممانعت فرمائی جو نبی کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم کے لئے باعث ایذا اور موجب تکلیف ہوں۔ اس سے پہلے بھی ایذا نبوی کے انواع و اقسام اور ان کے احکام کا بیان ہوچکا تھا اس لئے اب آئندہ آیات میں ایک خفیف اور معمولی ایذا نبوی کا ذکر فرماتے ہیں کہ جو بعض لوگوں کی جانب سے بلا قصد اور بلا ارادہ ایسی چیز ظہور میں آئی کہ جو حضور پر نور ﷺ کی ایذاء کا سبب بنی۔ قصہ یہ پیش آیا کہ جب بحکم خداوندی حضرت زینب ؓ سے آنحضرت ﷺ کا نکاح ہوگیا تو آپ ﷺ نے اس کا ولیمہ کیا اور خاص اہتمام کیا اور گوشت روٹی پکوائی اور تقریبا تین سو آدمیوں کو مدعو کیا۔ اکثر لوگ تو کھانا کھا کر چلے گئے بعض لوگ کھانا کھانے کے بعد گھر میں بیٹھے باتیں کرتے رہے آنحضرت ﷺ پر ان کی یہ حرکت شاق اور گراں گزری مگر آپ ﷺ نے شرم کے مارے کچھ نہ کہا آپ ﷺ کئی بار اٹھے تاکہ لوگ بھی اتھ جائیں چناچہ بہت سے لوگ اٹھ گئے مگر تین آدمی پھر بھی باتوں میں مصروف رہے اور آپ کے اشارہ کو نہ سمجھے اور حضرت زینب ؓ اسی حجرہ میں پشت پھیرے دیوار کی طرف منہ کر کے ایک طرف بیٹھی رہیں بالآخر جب وہ تین آدمی چلے گئے تو آپ ﷺ حجرہ مبارکہ میں تشریف لے گئے اس وقت یہ آیتیں یعنی یایھا الذین امنوا لا تدخلوا بیوت النبی سے لے کر ان اللہ کان علی کل شیء شھیدا تک نازل ہوئیں۔ ان آیات کو آیات حجاب کہتے ہیں جن میں عورتوں پر پردہ فرض ہونے کا حکم نازل ہوا اور مسلمانوں کو آداب طعام اور حقوق معاشرۃ بتلائے گئے اور یہ حکم دیا گیا کہ کوئی کام ایسا نہ کریں کہ جو نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی تکلیف اور گرانی کا باعث ہو اور تمام مسلمانوں کو ہمیشہ کے لئے یہ حکم دے دیا گیا کہ کسی کے گھر میں بغیر اجازت کے داخل نہ ہوں اور اگر گھر والوں سے کوئی چیز مانگنا ہو تو باہر سے پس پردہ کھڑے ہو کر مانگ لیں اس حکم سے قلب کی صفائی اور ستھرائی کا پورا پورا انتظام ہوگیا اور فتنہ کا سد باب ہوگیا پھر ان سب باتوں کے بعد اسی مقام پر یہ حکم نازل ہوا کہ آپ ﷺ کی وفات کے بعد آپ ﷺ کی بیبیوں سے نکاح حرام ہے آپ ﷺ کی ازواج مطہرات امہات المومنین ہیں سب مسلمانوں کی مائیں ہیں اس لئے آپ ﷺ کی وفات کے بعد ان سے نکاح نہیں ہوسکتا جس کا سبب نزول یہ ہے کہ جب آیات بالا میں حجاب (پردہ) کا حکم نازل ہوا تو کسی کی زبان سے یہ لفظ نکلا کہ ہم سے ہماری چچا زاد بہنوں کو چھپایا جاتا ہے اگر آپ ﷺ کی وفات ہوجائے تو ہم آپ ﷺ کی بیبیوں سے نکاح کرلیں گے ان پر یہ حکم نازل ہوا۔ وما کان لکم ان تؤذوا رسول اللہ ولا ان تنکحوا ازواجہ من بعدہ ابدا ان ذلکم کان عند اللہ عظیما۔ خلاصہ کلام یہ کہ یہ آیتیں حضرت زینب ؓ کے ولیمہ میں نازل ہوئی جو احکام طعام اور آداب معاشرت اور اس بات پر بھی مشتمل ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو زندگی میں بھی ایذا دینا حرام ہے اور وفات کے بعد بھی آپ ﷺ کو ایذا دینا حرام ہے۔ ان آیات میں جن تعلیمات اور ہدایات کا ذکر ہے ان کا آغاز اہل ایمان کی نداء سے ہوا یعنی یایھا الذین امنوا سے ہوا جو خاص تلطف اور عنایت پر دلالت کرتا ہے اور یہ سورت از اول تا آخر خطابات سراپا عنایات سے بھری پڑی ہے چناچہ اس سورت کا آغاز نبی اکرم ﷺ کی نداء سے ہوا۔ یایھا النبی اتق اللہ فرمایا پھر یایھا الذین امنوا امنوا اذکروا نعمۃ اللہ علیکم سے اہل ایمان کو اس ندا خاص سے عزت بخشی پھر نبی کریم (علیہ السلام) کو یایھا النبی قل لا ازواجک ان کنتن تردن تردت الحیاۃ الدنیا سے خطاب فرمایا پھر دو مرتبہ ازواج مطہرات کو ینساء النبی سے خطاب فرمایا اور اس سلسلہ خطاب میں ان کی فضیلت اور کرامت کو بیان فرمایا پھر یایھا الذین امنوا اذکروا اللہ ذکرا کثیرا وسبحوہ بکرۃ واصیلا سے اہل ایمان کو خطاب فرمایا۔ اور ذکر کثیر اور تسبیح کا ان کو حکم دیا۔ پھر یایھا النبی انا ارسلنک شاھدا ومبشرا سے نبی کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم کے فضائل اور شمائل بیان کئے پھر الذین امنوا اذا انکحتم المومنات سے اہل ایمان کو نکاح اور طلاق کے احکام بتلائے پھر یایھا الذین امنوا لا تدخلوا بیوت النبی میں اہل ایمان کو مخاطب فرما کر مختلف احکام کی تعلیم دیتے ہیں جن میں سے بعض احکام ازواج اور عام مسلمان عورتوں سے متعلق ہیں اور بعض احکام خاص آنحضرت ﷺ کی ذات بابرکات سے متعلق ہیں اس کے بعد اخیر سورت تک چار خطاب اور آئیں گے جن میں سے ایک خطاب نبی کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم کو ہے اور باقی تین خطاب اہل ایمان کو ہیں چناچہ فرماتے ہیں اے ایمان والو نبی کے گھروں میں داخل نہ ہوؤ مگر اس وقت کہ تم کو کھانا کھانے کے لئے یا کسی اور ضرورت کے لئے بلایا جائے یعنی بغیر اجازت اور بغیر دعوت کے داخل نہ ہو ہوں اگر تم کو دعوت دی جائے تو اس کا ادب یہ ہے کہ ایسے حال میں جاؤ کہ کھانا پکنے کے انتظار کرنے والے نہ ہو و لیکن جب تم کو بلایا جائے تب داخل ہو۔ ابن عطیہ ؓ کہتے ہیں کہ اس زمانہ میں یہ دستور تھا کہ جب کوئی دعوت ولیمہ ہوتی تو سویرے سے آجاتے اور کھانا پکنے کا انتظار کرتے اور جب کھانے سے فارغ ہوجاتے تو بیٹھے باتیں کرتے اللہ تعالیٰ نے ان کو ادب سکھایا کہ ایسا نہ کیا کریں اول تو بغیر دعوت کے نہ جایا کریں اور اگر دعوت بھی ہو تو پہلے سے جا کر نہ بیٹھ جایا کریں ایک ادب تو یہ ہوا پھر دوسرا ادب یہ ہے کہ جب کھانا کھا چکو تو متفرق ہوجاؤ۔ اور وہاں سے اٹھ کر چلے جاؤ اور پھر کھانا پکنے سے پہلے آ کر بیٹھ جانا اور پھر کھانا سے فارغ ہو کر بیٹھے باتیں کرتے رہنا پیغمبر خدا کو تکلیف دیتا ہے پس وہ شرماتا ہے اور لحاظ اور شرم کی وجہ سے یہ نہیں کہتا کہ تم چلے جاؤ اور اللہ جو تمہارا رب ہے وہ حق کے بیان کرنے سے اور ادب کے سکھانے سے شرما نہیں تمہاری اصلاح اور تادیب کے لئے حق بات کو صاف صاف بتلا دیتا ہے اور اللہ تم کو ایک ادب یہ سکھاتا ہے کہ جب تم پیغمبر کی بیبیوں سے یا اور مسلمان عورتوں سے کام کی کوئی مانگنا چاہو تو پردہ کے پیچھے باہر سے کھڑے ہو کر ان سے مانگ لو اس مانگنے کے وقت تمہارے اور گھر والوں کے درمیان حجاب (پردہ) حاجب (حائل) ہونا چاہئے۔ رو در رو گھر والوں سے بات کرنا منع ہے ضرورت کی بنا پر پردہ کے پیچھے کھڑے ہو کر مانگنا بہت پاک رکھنے والا ہے تمہارے دلوں کو اور عورتوں کے دلوں کو یعنی یہ پردہ دلوں کو شیطانی اور نفسانی خیالات سے پاک رکھنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ یہ آیت صاف بتلا رہی ہے کہ پردہ متعارفہ جو قدیم اہل اسلام میں رائج ہے وہ غایت درجہ ضروری ہے اور نہایت قابل اہتمام ہے نفسانی وسوسوں اور خطروں سے حفاظت کا بہترین ذریعہ ہے اور یہ آیت بھی اگرچہ ازواج مطہرات کے حق میں ہے لیکن اس حکم کی جو علت بیان کی گئی ہے وہ عام ہے۔ ذلکم اطھر لقلوبکم وقلوبہن یعنی یہ حجاب طہارت قلوب کا بہترین ذریعہ ہے اور بلا شبہ حق اور درست ہے۔ اور یہ علت صراحۃ دلالت النص سے ثابت ہے جس میں شک اور شبہ کی گنجائش نہیں جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ بےحجابی اور بےپردگی قلب کی نجاست اور گندگی کا سبب ہے اور حجاب اور پردہ قلب کی طہارت اور پاکیزگی کا سبب ہے اور ازواج مطہرات تو بوجہ امہات المومنین ہونے کے ان کی عظمت اور حرمت دلوں میں ایسی راسخ ہے کہ جہاں فتنہ کا احتمال نہیں ہوتا لہٰذاجہاں فتنہ کا احتمال غالب بلکہ فتنہ یقینی ہو وہاں حجاب قطعی طور پر فرض اور لازم ہوگا۔ اور ازواج مطہرات سے بلا حجاب باتیں کرنا یہ تو ایذاء رسول کا بھی موجب ہے اور تمہارے لئے یہ بات کسی طرح جائز نہیں کہ تم کسی چیز میں اللہ کے رسول کو ایذا پہنچاؤ ہر طرح رسول کے ادب کا لحاظ رکھو ایسا نہ ہو کہ تم سے کوئی ایسا امر سر زد ہوجائے جو مزاج نبوی کو ناگوار گذرے اور نہ تمہارے لئے یہ جائز ہے کہ تم آپ ﷺ کی وفات کے بعد کبھی بھی آپ کی بیبیوں کو نکاح میں لاؤ۔ البتہ تمہارا یہ فعل یعنی اس طرح سے نبی کریم ﷺ کو ایذا دینا کہ ہم آپ ﷺ کی بیبیوں سے نکاح کرلیں گے اللہ تعالیٰ کے نزدیک گناہ عظیم ہے یعنی آپ ﷺ کی وفات کے بعد آپ کی بیبیوں سے نکاح اللہ کے نزدیک جرم عظیم ہے جس طرح آپ ﷺ کی حیات میں آپ کی تعظیم اور احترام فرض اور لازم ہے اسی طرح آپ ﷺ کی وفات کے بعد بھی فرض اور لازم ہے۔ بالجملہ نبی کریم ﷺ کو ظاہرا اور باطنا ایذا پہنچانا حرام ہے حتی کہ ایذا کا تصور اور خیال بھی حرام ہے۔ چناچہ فرماتے ہیں کہ اگر تم اس قسم کی کوئی چیز ظاہر کرو اور بعض ازواج نبی سے نکاح کرلینے کا لفظ زبان پر لاؤ یا اس بات کو دل میں چھپائے رکھو اور زبان پر نہ لاؤ تو بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز کو چھپی ہو یا کھلی خوب جانتا ہے اور تم کو اس پر سزا دے گا مطلب یہ ہے کہ ازواج مطہرات دنیا اور آخرت میں آپ ﷺ کی بیبیاں ہیں اور تمام مسلمانوں کی مائیں ہیں آپ ﷺ کی وفات کے بعد ان سے نکاح کا تصور اور خیال بھی گناہ عظیم ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی وفات کے بعد آپ کی بیویوں سے نکاح حرام قرار دیا جو حکمتوں اور مصلحتوں پر مشتمل ہے۔ اول : یہ کہ آنحضرت ﷺ کے شرف اور عظمت ظاہر کرنے کے لئے یہ حکم دیا گیا۔ ہر انسان پر طبعی طور پر یہ گراں ہوتا ہے کہ اس کی بیوی اس کے بعد دوسرے کے نکاح میں جائے اس لئے آنحضرت ﷺ کی فضیلت اور بزرگی ظاہر کرنے کے لئے یہ رعایت خاص، آنحضرت ﷺ کے ساتھ کی گئی کہ آپ ﷺ کے بعد آپ کی ازواج کا دوسروں سے نکاح کرنا حرام ہوا۔ دوم : یہ کہ تاکہ فتنہ کا انسداد ہوجائے کیونکہ بالفرض اگر آپ ﷺ کے بعد ازواج مطہرات سے نکاح کی اجازت ہوجاتی تو ہر شخص کو آپ ﷺ کی جانشینی کے دعوے کی گنجائش مل جاتی اور اندیشہ تھا کہ وہ شخص اس ذریعہ سے لوگوں کو اپنی خلافت کی طرف بلاتا۔ سوم : یہ کہ باہم تنانس اور تحاسد کا دروازہ کھل جاتا ہر شخص یہ چاہتا کہ میں زوجہ رسول ﷺ سے نکاح کروں تاکہ مجھے لوگوں میں خاص عزت اور امتیاز حاصل ہو اس امر کے انسداد کے لئے شریعت نے آپ ﷺ کے بعد آپ ﷺ کی ازواج سے نکاح کو قطعی حرام قرار دیا۔ چہارم : یہ کہ اگر ازواج مطہرات کے لئے شریعت میں آپ ﷺ کے بعد کسی سے نکاح جائز ہوتا تو ازواج مطہرات کا وہ عالی مرتبہ جو زوجیت رسول کی بنا پر حاصل تھا وہ ختم ہوجاتا اور آنحضرت ﷺ کے بعد کسی سے نکاح کرنا بلندی سے پستی میں جا گرنے کے مترادف ہے۔ پنجم : یہ کہ دوسروں کے نکاح میں جانے کے بعد ان کی روایات لوگوں کی نظر میں مشکوک ہوجائیں ممکن ہے کہ لوگ یہ خیال کرتے کہ یہ عورت اپنے جدید شوہر کے خیال سے ان امور کو آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب کر رہی ہے۔ اس صورت میں امت ان علوم سے محروم ہوجاتی جو ازواج مطہرات کے ذریعہ سے پہنچے ہیں۔ گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو اجنبی مردوں سے پردہ کا حکم دیا اب آئندہ آیات میں ان رشتہ داروں کا ذکر کرتے ہیں جن سے پردہ واجب نہیں اور وہ اس پردہ کے حکم سے مستثنیٰ ہیں جیسا کہ سورة نور کی اس آیت ولا یبدین زینہن الا لبعولتہن الخ میں تفصیل کے ساتھ گذرا۔ چناچہ فرماتے ہیں۔ ان عورتوں پر اپنے باپوں کے سامنے آنے میں کوئی گناہ نہیں اور نہ اپنے بیٹوں کے سامنے اور نہ اپنے بھائیوں کے سامنے اور نہ اپنے بھتیجوں کے سامنے اور نہ اپنے بھانجوں کے سامنے اور نہ اپنی مسلمان عورتوں کے سامنے اور نہ اپنے باندیوں اور لونڈیوں کے سامنے یعنی ان سب کے سامنے آنا جائز ہے۔ بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ ما ملکت ایمانہن کے لفظ سے لونڈی اور غلام دونوں مراد ہیں یہ لفظ عام ہے دونوں کو شامل ہے لیکن غلام قبل از بلوغ مراد ہے بعد از بلوغ مراد نہیں اور بعض کہتے ہیں کہ صرف کنیز مراد ہے۔ جیسا کہ سورة نور میں گذرا۔ : ولا نساء ہن سے مسلمان عورتیں مراد ہیں کیونکہ ازواج مطہرات کی ساتھ کی ساتھ والی عورتیں مسلمان عورتیں ہی ہوسکتی ہیں۔ اشارہ اس طرف ہے کہ کافر عورتوں سے پردہ چاہئے۔ اور اے عورتوں خدا سے ڈرتی رہو اور حیا کا پردہ سامنے سے نہ اٹھاؤ۔ بیشک اللہ ہر چیز پر حاضر وناظر ہے۔ جو چیز تمہارے خیال میں گذرتی ہے خدا اس سے بھی باخبر ہے۔ فائدہ جلیلہ ان آیات کو جن میں واذا سألتموہن متاعا فسئلوہن من ورواء حجاب بھی ہے ان آیات کو آیات حجاب کہتے ہیں اس آیت کا نزول وقرن فی بیوتکن کے نزول سے مقدم ہے کیونکہ اس آیت کا نزول حضرت زینب ؓ کے ولیمہ سے ہوا اور وقرن فی بیوتکن کا نزول آیت تخییر کے نزول کے وقت ہوا اور آیت تخییر کا نزول حضرت زینب ؓ کے نکاح کے بہت بعد ہوا اس لئے کہ مخیرات میں حضرت زینب ؓ بھی تھیں اور ظاہر ہے کہ نفقہ کا مطالبہ نکاح کے بعد ہی ہوتا ہے پس آیت حجاب کے نزول سے پردہ فرض ہوا اور بعد میں وقرن فی بیوتکن کے نزول سے اس کی تاکید ہوگئی (ماخوذ از بیان القرآن )
Top