Tafseer-e-Majidi - Al-Ahzaab : 53
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ اِلٰى طَعَامٍ غَیْرَ نٰظِرِیْنَ اِنٰىهُ١ۙ وَ لٰكِنْ اِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَ لَا مُسْتَاْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍ١ؕ اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ١٘ وَ اللّٰهُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّ١ؕ وَ اِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْئَلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ١ؕ ذٰلِكُمْ اَطْهَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَ قُلُوْبِهِنَّ١ؕ وَ مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰهِ وَ لَاۤ اَنْ تَنْكِحُوْۤا اَزْوَاجَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖۤ اَبَدًا١ؕ اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِیْمًا
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو لَا تَدْخُلُوْا : تم نہ داخل ہو بُيُوْتَ : گھر (جمع) النَّبِيِّ : نبی اِلَّآ : سوائے اَنْ : یہ کہ يُّؤْذَنَ : اجازت دی جائے لَكُمْ : تمہارے لیے اِلٰى : طرف (لیے) طَعَامٍ : کھانا غَيْرَ نٰظِرِيْنَ : نہ راہ تکو اِنٰىهُ ۙ : اس کا پکنا وَلٰكِنْ : اور لیکن اِذَا : جب دُعِيْتُمْ : تمہیں بلایا جائے فَادْخُلُوْا : تو تم داخل ہو فَاِذَا : پھر جب طَعِمْتُمْ : تم کھالو فَانْتَشِرُوْا : تو تم منتشر ہوجایا کرو وَلَا مُسْتَاْنِسِيْنَ : اور نہ جی لگا کر بیٹھے رہو لِحَدِيْثٍ ۭ : باتوں کے لیے اِنَّ : بیشک ذٰلِكُمْ : یہ تمہاری بات كَانَ يُؤْذِي : ایذا دیتی ہے النَّبِيَّ : نبی فَيَسْتَحْيٖ : پس وہ شرماتے ہیں مِنْكُمْ ۡ : تم سے وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يَسْتَحْيٖ : نہیں شرماتا مِنَ الْحَقِّ ۭ : حق (بات) سے وَاِذَا : اور جب سَاَلْتُمُوْهُنَّ : تم ان سے مانگو مَتَاعًا : کوئی شے فَسْئَلُوْهُنَّ : تو ان سے مانگو مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ ۭ : پردہ کے پیچھے سے ذٰلِكُمْ : تمہاری یہ بات اَطْهَرُ : زیادہ پاکیزگی لِقُلُوْبِكُمْ : تمہارے دلوں کے لیے وَقُلُوْبِهِنَّ ۭ : اور ان کے دل وَمَا كَانَ : اور (جائز) نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے اَنْ تُؤْذُوْا : کہ تم ایذا دو رَسُوْلَ اللّٰهِ : اللہ کا رسول وَلَآ : اور نہ اَنْ تَنْكِحُوْٓا : یہ کہ تم نکاح کرو اَزْوَاجَهٗ : اس کی بیبیاں مِنْۢ بَعْدِهٖٓ : ان کے بعد اَبَدًا ۭ : کبھی اِنَّ : بیشک ذٰلِكُمْ : تمہاری یہ بات كَانَ : ہے عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک عَظِيْمًا : بڑا
اے ایمان والو نبی کے گھروں میں مت جایا کرو بجز اس وقت کے جب تمہیں کھانے کے لئے (آنے کی) اجازت دی جائے (اور جب بھی) ایسے طور پر کہ اس کی تیاری کے منتظر نہ رہو، البتہ جب تم کو بلایا جائے تب جایا کرو،122۔ پھر جب کھانا کھاچکو تو اٹھ کر چلے جایا کرو، اور باتوں میں جی لگا کر مت بیٹھے رہا کرو، اس بات سے نبی کو ناگواری ہوتی ہے سو وہ تمہارا لحاظ کرتے ہیں،123۔ اور اللہ صاف بات کہنے سے (کسی کا) لحاظ نہیں کرتا،124۔ اور جب تم ان (رسول کی ازواج) سے کوئی چیز مانگو تو ان سے پردہ کے باہر سے مانگا کرو،125۔ یہ تمہارے اور ان کے دلوں کے پاس رہنے کا عمدہ ذریعہ ہے،126۔ اور تمہیں جائز نہیں کہ تم رسول اللہ کو (کسی طرح بھی) تکلیف پہنچاؤ،127۔ اور نہ یہ کہ آپ ﷺ کے بعد آپ کی بیویوں سے کبھی بھی نکاح کرو،128۔ بیشک یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی بات ہے،129۔
122۔ مطلب یہ ہے کہ اول تو بےدعوت جاؤ مت اور دعوت پر جاؤ جب بھی اتنا قبل سے مت پہنچ جاؤ، بعض لوگ خدمت رسول میں کھانا کھانے کے لیے جاتے اور بہت قبل سے جا کر بیٹھ جاتے اور کھانے کے انتظار میں بیٹھے رہتے۔ آپ ﷺ مروت کی بنا پر زبان سے تو کچھ نہ فرماتے۔ لیکن طبعا گرانی ضرور ہی محسوس فرماتے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی، تہذیب مجلسی وآئین منزلی شریعت اسلامی کے اہم مقاصد میں سے ہے، قرآن کو اس باب میں ہدایات دنیا ضرور تھا۔ فقہاء نے تصریح کردی ہے کہ گونزول آیت آداب نبوی میں سے ہے مگر حکم عام ہے۔ وھذا الحکم وان نزل خاصا فی النبی ﷺ وازواجہ فالمعنی عام فیہ وغیرہ (جصاص) ” یہ بتصریح علماء سرکار نبوی کے ساتھ خاص نہیں۔ یعنی اس قسم کی جو بات کسی کو گراں وناگوار ہو وہ ناجائز ہے “۔ (تھانوی (رح) (آیت) ” الا ان یؤذن لکم “۔ گھر میں کسی کے بھی بےاذن نہ جانا چاہیے۔ اور آستانہ نبوی ﷺ پر اذن کی اہمیت توبدرجہ اولی ہے۔ کسی کے کھانے میں نظر لگانا اور بےبلائے دعوت میں طفیلی بن کر جانا جائز نہیں، اسی طرح کسی کے گھر میں بےضرورت اور خلاف اذن دیر تک بیٹھے رہنا جائز نہیں۔ حقوق جس طرح مہمان کے ہیں۔ میزبان کے بھی ہیں۔ کسی مہمان کو یہ حق نہیں کہ اپنے کسی قول وفعل سے صاحب خانہ کو ایذاء پہنچائے۔ (آیت) ” بیوت النبی “۔ بیوت کی اضافت نبی کی جانب کی گئی ہے۔ حالانکہ چند ہی آیتیں قبل (آیت) ” واذکرن مایتلی فی بیوتکن “۔ میں بیوت کی اضافت ازواج نبی ﷺ کی جانب کی گئی تھی، دونوں اضافتیں اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں۔ وہ گھر رسول اللہ کے بھی تھے۔ اس معنی میں کہ آپ ہی ان گھروں کے مالک تھے۔ اور وہ گھر بیوی صاحبوں کے بھی تھے، اس معنی میں کہ مسکن انہیں کے تھے۔ اضافۃ البیوت الی النبی اضافۃ ملک واضافۃ البیوت الی الازواج اضافۃ محل (ابن العربی) بدلیل انہ جعل فیھا الاذن للنبی ﷺ والاذن انما یکون للمالک (قرطبی) اس سے قطع نظر ایک فرق کھلا ہوا ہے۔ وہاں مقصود تو ازواج کرام کو ان کے مسکنوں کے شرف واحترام کی یاددہانی تھی،۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ کے گھر کو ان بیویوں ہی کا گھر کہنا مناسب وموزوں تھا۔ اس کے برعکس یہاں لوگ جس گھر میں جمع ہورہے تھے وہ رسول ہی کے گھر کی حیثیت سے جمع ہورہے تھے اس لیے یہاں رسول ہی کا گھر کہنا مناسب تھا۔ (آیت) ’ ’ نظرین انہ “۔ انی۔ کے معنی وقت کے ہیں۔ اور ناظر وہ ہے جس کا دل کھانے کی طرف اٹکا رہے۔ معناہ غیر منتظرین وقتہ والناظر ھو المنتظر والانی ھوالوقت (ابن العربی) 123۔ (اس لیے صاف صاف نہیں کہتے) آیت سے رسول اللہ ﷺ کا کمال ذی مروت ہونا ظاہر ہے، امتی ظاہر ہے سب آپ ﷺ سے چھوٹے اور کتنا چھوٹے تھے۔ ان تک کا آپ ﷺ اتنا لحاظ فرماتے رہتے تھے۔ 124۔ (اس لئے تم سے صاف صاف کہا جارہا ہے) اس سے یہ شبہ نہ گزرے کہ رسول اللہ ﷺ کو کبھی اعلان حق سے مروت مانع ہوجاتی تھی۔” اصل یہ ہے کہ جس حق کا اظہار واجب ہے۔ وہ حق للہ ہے، اور جس سے آپ کا استحیاء واقع ہوا وہ حق للنفس تھا کہ اپنے اوپر کلفت اٹھائی، اس سے حکم شرعی کا اخفاء لازم نہیں آتا کہ منشاوسوسہ ہو۔ “ (تھانوی (رح ) 125۔ یعنی اتنا پردہ تو ضرورت کے وقت بھی رہنا چاہئے اور بلاضرورت تو اس کا اہتمام اور اشد ہے۔ المراۃ کلھا عورۃ بدنھا وصو تھا کما تقدم فلایجوز کشف ذلک الا لحاجۃ کا لشھادۃ علیھا او داء یکون ببدنھا اوسوالھا عما یعرض وتعین عندھا (قرطبی) یہ حکم بھی ازواج مطہرات کے ساتھ مخصوص نہیں۔ حجاب ہر نامحرم سے لازم ہے۔ ویدخل فی ذلک جمیع النساء بالمعنی (قرطبی) 126۔ (جیسا کہ اب تک بھی جانبین کے دل پاک رہے ہیں) لفظ اطھر سے یہ نکتہ بھی نکالا گیا ہے کہ نفس طہارت تو تقوی ہی سے پیدا ہوجاتی ہے لیکن طہارت مزید یعنی خطرات قلب بھی دور ہوجائیں اس کا زریعہ نامحرموں سے حجاب ہے۔ 127۔ کوئی مسلمان دانستہ وارادۃ تو ظاہر ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے قلب مبارک کو ایذاء پہنچانے کا خیال بھی نہیں لاسکتا۔ حکم سے مراد یہ ہے کہ اس کا اہتمام خاص رکھو، یہ نہ ہو کہ اپنی بےخیالی، بےتوجہی، کم غوری کی بناء پر اپنے کسی قول وفعل سے رسول اللہ ﷺ کے حق میں ناگواری وگرانی کے باعث بن جاؤ۔ 128۔ (کہ یہ بھی ایک فرد اسی نادانستہ ایذاء رسول کی ہے اور اس ممانعت میں رسول کے کمال شرف واحترام کا اظہار ہے) 129۔ (کہ تم اپنی ماؤں، امت کی ماؤں سے متعلق ایسا خیال بھی دل میں لاؤ)
Top