Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nahl : 24
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ مَّا ذَاۤ اَنْزَلَ رَبُّكُمْ١ۙ قَالُوْۤا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَۙ
وَاِذَا : اور جب قِيْلَ : کہا جائے لَهُمْ : ان سے مَّاذَآ : کیا اَنْزَلَ : نازل کیا رَبُّكُمْ : تمہارا رب قَالُوْٓا : وہ کہتے ہیں اَسَاطِيْرُ : کہانیاں الْاَوَّلِيْنَ : پہلے لوگ
اور جب ان (کافروں) سے کہا جاتا ہے کہ تمہارے پروردگار نے کیا اتارا ہے ؟ تو کہتے ہیں کہ (وہ تو) پہلے لوگوں کی حکایتیں ہیں۔
24۔ معتبر سند سے تفسیر ابن ابی حاتم میں قتادہ کے قول کے موافق جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ حج کے موسم میں دور دور کے لوگ مکہ میں آتے تھے جس سے قریش کو دکھ ہوا کہ باہر کے لوگ آنحضرت ﷺ کی باتیں اور قرآن شریف کی نصیحت کو سن کر بت پرستی چھوڑ دیں گے اس لئے قریش نے مکہ کے چاروں طرف لوگ بٹھلا دئیے تھے اور ان سے کہہ دیا تھا کہ جو کوئی قرآن شریف کا حال پوچھتے تو کہہ دینا کہ پہلے لوگوں کی ایک کہانی ہے 1 ؎۔ وہ یہی کہہ دیتے تھے اور جب وہ باہر کے لوگ مکہ کے اندر آتے تو جو لوگ مسلمان ہوگئے تھے وہ قرآن شریف کی بہت تعریف کرتے تھے اسی ذکر میں اللہ تعالیٰ نے آیت کا یہ ٹکڑا اور اگلا ٹکڑا نازل فرمایا جس میں قرآن شریف کی تعریف کرنے والوں کا ذکر ہے۔ اس آیت کے دوسرے ٹکڑے میں اللہ تعالیٰ نے یہ جو فرمایا ہے کہ جو لوگ اور دل کو بہکاتے ہیں ان پر قیامت میں دوگنا عذاب ہوگا ان کے گناہوں کا جدا ہوگا اور بہکانے کا جدا ہوگا اس کی صراحت اس حدیث میں بھی ہے جو حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے آگے آتی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جس شخص نے کوئی ہدایت کا کام لوگوں میں پھیلایا اس کو اس کی نیکی کا اجر بھی خدا دیوے گا اور اس کے ہدایت کے سبب سے جتنے لوگ نیک راہ لگیں گے اور اجر پاویں گے اسی قدر اجر اس کو بھی خدا اپنے پاس سے دیوے گا۔ نیک راہ پر آنے والوں کا ثواب کچھ نہیں گھٹنے کا یہی حال بدی کے پھیلانے والے شخص کی سزا کا ہے غرض اس حدیث میں صاحب وحی ﷺ نے جب آیت کے معنے کی صراحت فرما دی ہے تو اب یہ شبہ باقی نہ رہا کہ یہ آیت ولا تزر وازرۃ وزری اخری کے مطلب کے ساتھ کیوں کر موافق ہے کس لئے کہ بدی پھیلانے والے نے دو کام کئے تھے ایک خود بدی کی دوسرے اوروں کو بدی کی راہ سے لگایا اس لئے اس کو دونوں طرح کے عملوں کی سزا ملی کسی دوسرے کا بوجھ اس پر نہیں ڈالا گیا اس لئے یہ آیت سورت والنجم کی آیت لا تزر وازرۃ وزری اخری کے مخالف نہیں ہے کیوں کہ اوپر کی حدیث میں صاف یہ آچکا ہے کہ بہکنے والوں کے گناہ جوں کے توں رہویں گے۔ 1 ؎ تفسیر الدرالمنثور ص 116 ج 4۔
Top