Tadabbur-e-Quran - An-Nahl : 24
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ مَّا ذَاۤ اَنْزَلَ رَبُّكُمْ١ۙ قَالُوْۤا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَۙ
وَاِذَا : اور جب قِيْلَ : کہا جائے لَهُمْ : ان سے مَّاذَآ : کیا اَنْزَلَ : نازل کیا رَبُّكُمْ : تمہارا رب قَالُوْٓا : وہ کہتے ہیں اَسَاطِيْرُ : کہانیاں الْاَوَّلِيْنَ : پہلے لوگ
اور جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ تمہارے رب نے کیا چیز اتاری ہے تو کہتے ہیں اگلوں کے فسانے
آگے کا مضمون۔ آیات 24 تا 32:۔ آگے چند آیات میں پہلے انہی متکبرین کی، جن کا ذکر اوپر گزرا، ان سازشوں اور شرارتوں کا ذکر ہے جو وہ اپنے زیر اثر لوگوں کو قرآن کی دعوت سے روکنے کے لیے کر رہے تھے۔ ساتھ ہی ان کے اس انجام کا بھی ذکر ہے جو دنیا اور آخرت دونوں میں ان کی مفسدانہ کوششوں کے نتیجہ میں ان کے اور ان کی پیروی کرنے والوں کے سامنے آنے والا ہے۔ پھر ان کے مقابل میں ان متقیوں اور خدا ترسوں کا ذکر ہے جو قرآن کی دعوت کے علمبردار تھے اور دنیا و آخرت میں جو صلہ ان کی ان مساعی کا ملنے والا ہے اس کی طرف اشارہ ہے۔ وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ مَّاذَآ اَنْزَلَ رَبُّكُمْ ۙ قَالُوْٓا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ۔ اَسَاطِيْرُ ، اُسطُورۃ کی جمع ہے۔ اسطورۃ بےاصل اور بےحقیقت بات کو کہتے ہیں جس کی حیثیت محض افسانے کی ہو۔ قرآن کی دعوت کا رد عمل قریش کے لیڈروں پر : قرآن کی دعوت بالخصوص رسولوں اور ان کے جھٹلانے والوں کی تاریخ، جو اس نے نہایت ہی صحیح پہلو سے نہایت ہی موثر انداز میں پیش کی، ایسی چیز نہیں تھی جو بےاثر رہ جائے۔ اس نے مکہ کے عوام و خواص اور بالتدریج سارے عرب میں ایک ہلچل برپا کردی۔ عوام چونکہ سیادت و قیادت کے پندار سے پاک ہوتے ہیں اس وجہ سے صحیح چیز ان پر اثر انداز ہوتی ہے لیکن وہ اپنے لیڈروں کے تابع ہوتے ہیں اس وجہ سے خود کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے ان کی رائے معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کیا کہتے ہیں۔ یہی صورت حال قرآن کی دعوت کے باب میں عرب میں پیش آئی۔ قرآن کی دعوت اور اس کے انذار نے جب لوگوں کو بلا دیا تو عوام اپنے لیڈروں سے جا جا کر سوال کرنے لگے کہ یہ چیز، جو خدا کے نازل کردہ کلام کی حیثیت سے، آپ لوگوں کے سامنے پیش کی جا رہی ہے کیسی ہے، اس کے بارے میں آپ لوگوں کی کیا رائے ہے، اور اس میں اس کی تکذیب کا جو انجام بتایا گیا ہے اور جس کے حق میں تاریخ کے واقعات بھی پیش کیے گئے ہیں اس کی حقیقت آپ لوگوں کی نظر میں کیا ہے ؟ لیڈروں نے یہ محسوس کرکے کہ ان کے پیرو اس سے متاثر ہو رہے ہیں اور یہ چیز ان کی لیڈری کے لیے خطرے کا باعث ہوسکتی ہے، ان کو مطمئن کرنے کے لیے یہ جواب دینا شروع کیا کہ اس میں اگلوں کے فسانوں اور ماضی کے قصوں کے سوا ہے کیا۔ مطلب یہ کہ عاد وثمود اور ماضی قدیم کی قوموں کے بےاصل قصے اس میں اپنے رنگ میں دہرائے جارہے ہیں۔ ان قصوں سے ہراساں ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہماری روش بالکل ٹھیک ہے۔ ہم اپنے آباء و اجداد کے صحیح دین پر ہیں۔ ان بےحقیقت افسانوں سے مرعوب ہو کر کہیں تم لوگ اس شخص کے چکمے میں نہ آجانا جو انی من گھڑت باتیں خدا کے نام سے پیش کررہا ہے۔
Top