Ruh-ul-Quran - An-Nahl : 24
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ مَّا ذَاۤ اَنْزَلَ رَبُّكُمْ١ۙ قَالُوْۤا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَۙ
وَاِذَا : اور جب قِيْلَ : کہا جائے لَهُمْ : ان سے مَّاذَآ : کیا اَنْزَلَ : نازل کیا رَبُّكُمْ : تمہارا رب قَالُوْٓا : وہ کہتے ہیں اَسَاطِيْرُ : کہانیاں الْاَوَّلِيْنَ : پہلے لوگ
اور جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ تمہارے رب نے کیا چیز اتاری ہے تو کہتے ہیں کہ یہ تو پہلے لوگوں کے من گھڑت قصے ہیں۔
وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ مَّا ذَآ اَنْزَلَ رَبُّکُمْ لا قَالُوْ ٓا اَسَاطِیْرُالْاَوَّلِیْنَ ۔ لِیَحْمِلُوْ ٓا اَوْزَارَھُمْ کَامِلَۃً یَّوْمَ الْقِیٰمَۃِ لا وَمِنْ اَوْزَارِالَّذِیْنَ یُضِلُّوْنَھُمْ بِغَیْرِعِلْمٍ ط اَلاَسَآئَ مَا یَزِرُوْنَ ۔ ( سورة النحل : 24۔ 25) (اور جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ تمہارے رب نے کیا چیز اتاری ہے تو کہتے ہیں کہ یہ تو پہلے لوگوں کے من گھڑت قصے ہیں۔ تاکہ وہ قیامت کے دن اپنے بوجھ بھی پورے اٹھائیں اور ان لوگوں کے بوجھ میں سے بھی حصہ بٹائیں جن کو یہ بغیر کسی علم کے گمراہ کررہے ہیں۔ جان رکھو کہ نہایت ہی برا ہوگا وہ بوجھ جو یہ اٹھائیں گے۔ ) آیتِ کریمہ میں اَسَاطِیْرُ (Mythology) کا لفظ استعمال ہوا ہے جو اسطورہ کی جمع ہے۔ بےاصل اور بےحقیقت بات کو کہتے ہیں، جیسے ہم کسی ناقابلِ اعتبار بات کو افسانہ قرار دے دیتے ہیں۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس کی حقیقت میں کوئی حیثیت نہیں۔ قرآن کریم کے اثرات روکنے کے لیے قریش کی تدبیر اس آیت کریمہ کا پس منظر یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی دعوت نے جب مکہ سے باہر بھی اپنے اثرات پیدا کرنے شروع کیے اور خواص سے نکل کر عوام میں بھی اس کے چرچے ہونے لگے تو ایک نئی صورتحال یہ پیدا ہوئی کہ عوام نے خواص سے اس دعوت کی حقیقت کو جاننے کی کوشش شروع کردی۔ جب بھی انھیں موقع ملتا وہ کسی اپنے و ڈیرے یا کسی دولت مند سے پوچھتے کہ محمد ﷺ جس بات کی دعوت دیتے ہیں، آخر اس کی حقیقت کیا ہے۔ اسی طرح وہ امم ماضیہ میں سے جن امتوں پر عذاب آنے کا ذکر کرتے ہیں اور جن اسباب کی وجہ سے کرتے ہیں ان میں کہاں تک سچائی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم بھی اسی خطرناک انجام کی طرف بڑھ رہے ہوں۔ اسی طرح جب حج کے موقع پر باہر سے لوگ آتے تو وہ بھی لوگوں سے سنی سنائی باتوں کی تحقیق کرنے کی کوشش کرتے اور وہ بھی اسی طرح کے سوالات کرتے۔ اشرافِ قریش نے محسوس کیا کہ یہ تو ہمارے لیے ایک مشکل پیدا ہوگئی ہے۔ چناچہ انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ جب کبھی اس طرح کا کوئی سوال نبی اور اس کی دعوت کے بارے میں پوچھا جائے تو انھیں یقین دلانے کی کوشش کرو کہ اس دعوت کی کوئی حقیقت نہیں اور اس نبوت کا بھی کوئی اعتبار نہیں اور ماضی کے جن واقعات کو یہ پیغمبر بیان کرتا ہے ان کی کوئی حقیقت نہیں، وہ سینہ بہ سینہ پھیلنے والی ایسی کہانیاں ہیں جنھیں زیادہ سے زیادہ افسانہ کہا جاسکتا ہے۔ نہ ایسی کوئی قوم گزری اور نہ کسی پر عذاب آیا اور نہ اس نبوت اور نہ اس پر اترنے والی کتاب کی کوئی حقیقت ہے۔ اشرافِ قریش کی اس سازش اور کاوش کے جواب میں قرآن کریم انھیں ان کے انجام سے آگاہ کرتا ہے کہ انھیں شاید اس بات کا علم نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے دین کی دعوت کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلانا اور اس طرح لوگوں کو حقیقت سے گمراہ کرنا اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ایک جرم ہے۔ قیامت کے دن جب یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے روبرو پیش ہوں گے تو جہاں انھیں اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا اور اس کی سزا بھگتنا ہوگی وہیں وہ ان لوگوں کی پاداش میں بھی پکڑے جائیں گے جنھیں انھوں نے گمراہ کیا تھا۔ اپنے بےایمانی اور بدعملی کی سزا تو مکمل طور پر بھگتیں گے لیکن دوسروں کی بداعمالیوں کی سزا میں سے اتنا حصہ انھیں پہنچے گا جتنا ان کی گمراہی میں ان کی کوششیں شامل رہی ہوں گی کیونکہ اللہ تعالیٰ کا عدل کسی کے ساتھ بےانصافی نہیں کرتا۔ اپنے اعمال کا تو پوری طرح ہر فرد ذمہ دار ہے لیکن دوسرے کے اعمال کا وہ اتنا ہی ذمہ دار ہے جتنا اس کی گمراہی میں اس کا حصہ ہے اور رہا وہ شخص جو کسی کے کہنے پر گمراہ ہوا وہ اپنی ذمہ داری سے بچ نہیں سکے گا، گمراہ کرنے والے کو بھی سزا ملے گی لیکن گمراہ ہونے والا بھی اس لیے اپنی سزا میں پکڑا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے عقل دی، فیصلے کی آزادی بخشی اور پیغمبر نے براہ راست اسے دعوت دی۔ صحیح فیصلہ تک پہنچنے کے تمام امکانات اسے میسر تھے لیکن اس نے اپنی ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کی بجائے دوسروں کا سہارا لیا تو یہ بجائے خود جرم ہے۔ اس لیے یہ اپنی ذمہ داری میں پکڑا جائے گا اور گمراہ کرنے والے اپنے جرم میں پکڑے جائیں گے۔ آخر میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ کاش یہ لوگ اس وقت غور کریں کہ جب یہ لوگ اپنے اپنے جرم میں پکڑے جائیں گے اور ان پر ان کے جرائم اور ان کی سزائوں کا بوجھ لادا جائے گا تو کس قدر برا بوجھ ہوگا جسے آج یہ سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
Top