Maarif-ul-Quran - An-Nahl : 24
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ مَّا ذَاۤ اَنْزَلَ رَبُّكُمْ١ۙ قَالُوْۤا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَۙ
وَاِذَا : اور جب قِيْلَ : کہا جائے لَهُمْ : ان سے مَّاذَآ : کیا اَنْزَلَ : نازل کیا رَبُّكُمْ : تمہارا رب قَالُوْٓا : وہ کہتے ہیں اَسَاطِيْرُ : کہانیاں الْاَوَّلِيْنَ : پہلے لوگ
اور جب ان (کافروں) سے کہا جاتا ہے کہ تمہارے پروردگار نے کیا اتارا ہے ؟ تو کہتے ہیں کہ (وہ تو) پہلے لوگوں کی حکایتیں ہیں۔
منکرین نبوت کے معاندانہ سوالات اور ان کے جوابات (ربط) یہاں تک دلائل توحید کا ذکر فرمایا اب آگے مشرکین کے قبائح اور منکرین نبوت کے معاندانہ سوالات کا ذکر کرکے ان کا جواب دیتے ہیں اسی سلسلہ میں حق تعالیٰ نے مشرکین کے پانچ شبہ ذکر فرما کر ان کا جواب دیا اور یہ بھی بتلا دیا کہ یہ شبہ کوئی نئے سب ہے نہیں پہلی امتوں کے لوگ اسی قسم کے شبہ کرچکے ہیں اور ہلاک اور برباد ہوچکے ہیں ان کی ہلاکت اور بربادی خود ان کے شبہوں کا جواب تھی۔ پہلا شبہ قال اللہ تعالیٰ : واذا قیل لہم ماذا انزل ربکم .... الیٰ .... الا ساء ما یزرون۔ آنحضرت ﷺ نے جب اپنی نبوت و رسالت پر قرآن کریم سے استدلال کیا کہ یہ اللہ کا کلام ہے اور معجزہ ہے تو جواب میں یہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کا کلام نہیں بلکہ پچھلے لوگوں کے قصے ہیں اور کہانیاں ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور جب ان منکرین سے کہا جاتا ہے کہ تمہارے پروردگار نے کیا چیز نازل کی ہے۔ یعنی کوئی ناواقف شخص بغرض تحقیق ان سے یہ پوچھتا ہے کہ بتلاؤ تمہارے پروردگار نے کیا چیز اتاری ہے یا خود ہی آپس میں ازراہ تمسخر ایک دوسرے سے یہ سوال کرتے ہیں کہ بتلاؤ تمہارے پروردگار نے کیا چیز نازل کی ہے تو جواب میں یہ کہتے ہیں کہ کچھ نہیں۔ یہ اللہ کا اتارا ہوا کلام کہاں سے آیا یہ تو پہلے لوگوں کے افسانے اور ان کی کہانیاں ہیں۔ جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہے وقالوا اساطیر الاولین اکتتبھا فہی تملیٰ علیہ بکرۃ واصیلا۔ مطلب یہ ہے کہ یہ قرآن اللہ کا کلام نہیں۔ اور اس کی اتاری ہوئی کتاب نہیں پچھلے لوگوں کی بےسند باتیں ہیں۔ نبوت و رسالت اور قیامت اور جنت و جہنم کی باتیں اور پرانے افسانے اس میں نقل کر دئیے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ اس قسم کی باتوں سے لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ نتیجہ اس کا یہ ہوگا کہ قیامت کے دن یہ لوگ اپنے پورے گناہوں کا بوجھ تو اٹھائیں گیا اور کچھ بوجھ ان لوگوں کے گناہوں کے بھی اٹھائیں گے جن کو بےتحقیق یہ گمراہ کرتے ہیں۔ یعنی یہ متکبرین اور رؤساء کفر اپنے کفر اور شرک اور اپنے گناہوں کا تو پورا نوجھ اٹھائیں گے۔ اور اپنے بوجھ کے علاوہ اپنے پیرؤں کے گناہوں کا بوجھ بھی کچھ اٹھانا پڑے گا۔ پیرو بری نہ ہوں گے ان کو اپنے کفر اور شرک کا علیحدہ عذاب ہوگا اور ان گمراہ کرنے والوں کو گمراہی کا سبب بننے کی وجہ سے بمقدار حصہ سببیت گمراہوں کے عقوبت میں سے بھی کچھ حصہ ملے گا غرض یہ کہ ان ائمۃ الکفر کو اپنے کفر اور شرک کا پورا عذاب ملے گا اور جن کو انہوں نے گمراہ کیا ہے ان کے عذاب میں سے بھی ان کو کچھ حصہ ملے گا اس طرح ان کو دگنا عذاب بھگتنا پڑے گا۔ مگر گمراہوں کے عذاب میں کوئی کمی نہ ہوگی ان کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے انبیاء کرام (علیہ السلام) کی پیروی نہ کی۔ اور ان کی بات بےدلیل ہی مان لی۔ اور ان کی جہالت کا عذر قبول نہ ہوگا۔ آگاہ ہوجاؤ کہ بہت برا بوجھ ہے کہ جو قیامت کے دن اپنی پیٹھوں پر اٹھائیں گے گناہوں کے بوجھ سے بڑھ کر کوئی بوجھ نہیں۔ حدیث میں ہے کہ جس نے لوگوں کو ہدایت کی طرف بلایا اس کو ان سب لوگوں کے ثواب کے برابر ثواب ملے گا۔ جنہوں نے اس کا اتباع کیا اور ان لوگوں کے ثواب میں سے کچھ کم نہ کیا جائے گا۔ اور جس نے لوگوں کو گمراہی کی طرف بلایا اس کو ان سب لوگوں کے گناہ کے برابر گناہ ہوگا۔ جنہوں نے اس کی پیروی کی ان پیروؤں کے گناہ سے کچھ کم نہیں کیا جائے گا۔ (رواہ مسلم) فائدہ : اور آیت ولا تزر وازرۃ وزر اخری اس کے منافی نہیں اس لیے کہ میراد اس سے وہ وزر ہے کہ جن میں اس کا کچھ عمل دخل نہ ہوگا اور اس کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہ ہو اور جو شخص کسی برائی یا بھلائی کا سبب بنے گا بقدر سببیت اس کو ثواب و عتاب میں سے حصہ ملے گا۔ تہدید معاندین و وعید مستکبرین
Top